چند روز قبل روز وائٹ ہاؤس میں ظل الٰہی ٹرمپ نے مختلف ممالک کے مظلوم اور دکھی لوگوں کو جمع کیا اور ان کی فریاد سنی۔ دنیا بھر سے ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو چنا گیا جو مختلف ممالک میں مذہبی خاص طور پر "اسلامی "دہشتگردی کا شکار ہیں۔ اکثر مسلم ممالک کے لوگ تھے جو اپنے اوپر ہونے والے '' مظالم "کی روداد سنا کر بادشاہِ وقت کے سامنے فریادی بنے ہوئے تھے۔ پاکستان سے فرار ہونے والا شکور قادیانی، سلمان تاثیر کا بیٹا شان تاثیر، کردوں کی نمائندہ نادیہ مراد سمیت کئی مسلمان ممالک کے "مظلوم مسلمانوں" نے اپنی اپنی دکھ بھری داستان ظل الہی جناب ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کی۔
مذہب کے نام پر دوہرے معیار
24/07/2019 طاہرہ مسعود
اس سے قبل کہ اصل معاملے کا ذکر ہو قارئین سے ایک سوال ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے ٹی وی کے اینکرز ہمارے کالم نگار ہمارے سیاستدان دن رات قوم کی کمزوریاں اور برائیاں اچھالتے اور قوم کو بدنام کرتے رہتے ہیں؟
یہ تو ایک قومی فریضہ اور شعار بن چکا ہے۔ بلکہ لوگوں کی روٹی روزی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
کیا ایک بڑے نامور عالمِ دین ٹی وہی پر بیٹھ کر دنیا کو خود نہیں بتاتے کہ ا سوقت ہمارا عالمی تشخص یہ ہے کہ دنیا کی ائیرپورٹس پر ہرے پاسپورٹ والوں کی لائن الگ کروا دی جاتی ہے کہ یہ مشکوک لوگ ہیں لہذا ان کی چھان بین اور بھی سخت ہو گی۔
اب اصل مدعا کی طرف۔ یہ اپنی طرز کی ایک ایسی مجلس تھی کہ جو اس سے ایک سال قبل پہلی بار منعقد ہوئی تھی۔ ا ور امسال یہ دوسری بار تھی۔ اس میں دنیا بھر سے مذہبی اور لسانی تعصب اور بربریت کا شکار لوگ مدعو تھے۔ وہاں چین، کوریا، عراق، ایران، ایریٹیریا، نائیجیریا، روہنگیا، اور بے شمار ممالک کی نمائندگی تھی۔ لوگوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفاصیل سن کر مانو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ کوئی موت کے منہ سے بچا تھا اور کسی کا پیارا ابھی بھی موت کے چنگل میں تھا۔
حضرتِ انسان کے ستائے ہوئے انسان اپنی روحوں پر زخم لیے اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے نکلے تھے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ان کی فریاد سننے والا اور کوئی نہیں بلکہ وہی تھا جوزیادہ تردنیا بھر میں اس طرح کی صورتِ حال کا کئی پہلوؤں سے ذمہ داربھی تھا۔ لیکن اس فرمانروا کا عہدہ اور رتبہ اتنا بڑا تھا کہ اگر وہ چاہتا تو خواہ دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی مگر وہ ان کی کسی حد تک داد رسی کر بھی سکتا تھا۔ آخر اس کو بھی تو دنیا میں ا پنی گرتی ہوئی ساکھ سنبھالنے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ۔ آہ۔ عجب دنیا ہے۔
ہاں تو وہاں ہر کوئی اپنی دل خراش آپ بیتی سنا رہا تھا۔ سب سے افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں وطنِ عزیزمیں مذہبی انتہا پسندی کے ہاتھوں ستائی ہوئی اقلیتیں بھی درد بھری حقیقتوں کے ساتھ موجود تھیں۔ ہر محبِ وطن انسان کو افسوس تو ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن کا نام اس میں آ یا۔ لیکن کیوں آیا، کیا یہ نہیں دیکھنا چاہیے؟ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ رُخ بھی دیکھا جائے۔
وہاں مسیحی بھائیوں نے بھی اپنی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی تعصبانہ کارروائیوں کا ذکر کیا اور ان سے مدد مانگی۔ لیکن پاپڑ والا تو پاکستان میں ایک ہی مظلوم طبقہ ہے جس کو وطن کے علماء انسان بھی نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی دوسرا بھی ان کو انسان نہ سمجھے۔ احمدی فرقے کے ایک بزرگ نے جب خود بیتی کہی تو اس کو خوب اچھالا جا رہا ہے۔ غلط کہا جا رہا ہے۔ جبکہ کوئی مظلوم جس کو اپنے انصاف نہ دیں خواہ وہ مختار مائی ہو یا ملالہ، معتوب ہو جاتے ہیں۔
مسلمان کیوں ہجرتِ حبشہ کو بھول جاتے ہیں؟ جب ایک عیسائی فرمانروا سے اسی طرح صحابہ ء کرام نے اپنے وطن میں اپنوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کے خلاف مدد چاہی تھی۔ کیا آپ اپنی تاریخ نہیں جانتے؟ لیکن ظلم اور نا انصافی جب عادت بن جائے تو پتہ نہیں چلتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ان بزگوارکو معتوب کرنا بھی اسی زیادتی کی ایک کڑی ہے۔ ارو پھر یہ تووہی بات ہو گئی کہ جس کی گردن دباؤوہی آنکھیں نکالتا ہے۔
جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے اور جو ہماری عوام کی ذہن سازی ہو چکی ہے ان کی دردناک روداد سن کر بھی کسی کا دل نہیں پسیجا بلکہ نہایت بے رحمی سے ان پرالزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ہے۔ یہ بات اٹل ہے کہ جو رحم نہیں کرتا ا س پر رحم نہیں کیا جائے گا۔
کتنی زیادتی ہے کہ ایک خاص مسلک کے ایک ہی شخص کے بیان پر فوکس کر لیا گیا ہے۔ کوئی اس کو سوچی سمجھی سازش کہہ رہا ہے۔ کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے صرف یہی ایک شخص وہاں موجود تھا۔ اورا سی کی ملاقات اس صدر سے کروائی گئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سے قبل وہاں بیسیوں لوگوں نے اپنا موقف اور تجربہ بیان کیا۔ ان کا نمبر تو آخری تین چار افراد میں سے تھا۔ ان معصوم بزرگوار کو تو انگریزی بھی نہیں آ تی تھی۔ انہوں نے تو اپنا ما فی الضمیربھی ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بیان کیا۔ کیونکہ ان کا مزاج انسانوں کے سامنے اپنے دکھ بیان کرنے کا نہیں تھا۔ ایسا انہوں نے پہلی بار کیا تھا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور آگہی لانا بعض اوقات فرض ہو جاتاہے۔
وطنں عزیز میں یہ ایک اسّی سالہ بزرگ ابھی تک اپنا رزق خود کما رہے تھے کیونکہ ہماری حکومتیں بزرگوں کے طرف اپنے فرائض ادا نہیں کرتیں اور کوئی اولڈ ایج بینیفٹ ان کو نہیں ملتا۔ حکومت نے بڑھاپے میں ان سے یہ تعاون کیا کہ ان کا اپنے ہی لوگوں کے اپنے ہی علاقے میں اپنے عقائد کی کتب بیچنا جرم بنا دیا گیا۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے؟
اس سے قبل یہ محترم بزرگ کسی اور شہر میں رہتے تھے۔ لیکن ان کو جینے نہیں دیا گیا۔ ان کے عقیدے کی بنا پر ان کا گھراور کاروبارجلا کر راکھ کر دیا گیا۔ وہ شکوہ زبان پر لائے بغیر ایسے علاقے میں منتقل ہو گئے جو ان کے خیال میں نسبتاً محفوظ تھا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ یہاں ا س نمازی پرہیز گار تہجد گزار بزرگ کو ہتھکڑیاں لگا کرجیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ ان کے پیچھے ان کی ضعیف بیوی تنہا کیسے گزارہ کرے گی۔
ان کے بچے باہر کے ممالک میں پہلے ہی پناہ گزین تھے۔ کیونکہ وطن کی مٹی اور فضا ان کے لیے مسموم کردی گئی تھی۔ ان بوڑھی خاتون نے کیسے دن رات سسک سک کراکیلے گھر میں تین سال گزارے، ا س کا حساب وہ کس سے لے؟ گھر ہی ان کے لیے جیل اور قیدِ تنہائی بن گئی۔ اور وہ بزرگ بنا کسی جرم کے جیل کی کوٹھڑی میں بے آرامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے۔ ایک دو دن نہیں مسلسل تین سال۔ اور لاکھوں روپیہ جرمانہ الگ ان کو کیا گیا۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
کہتے ہیں ایک اچھا انسان دوسرے کی غلطی معاف کرسکتا ہے مگر اپنی نہیں۔ کیا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھ لینا چاہیے؟ تاکہ معلوم ہو
الزام ہم ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
جب ہر محبِّ وطن مسلمان پاکستانی کو علی الاعلان یہ حق حاصل ہے کہ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر قومی غلطیاں ساری دنیا کو بتا سکے۔ اور اس کے خلاف قوم کا وقار مجروح کرنے کا الزام بھی نہیں لگتا تو ایک ایسا گروہ جس کو کسی شمار میں بھی نہیں لایا جاتا اس کی حقیقت بیانی جرم کیسے بن سکتی ہے؟ کیا پاکستان کا وقاربلند کرنا صرف احمدیوں کی ذمہ داری ہے؟
اگر کسی اکثریت کے علاقے میں اقلیت کا اپنے عقائد کی ترویج کرنا جرم ہے تو پھرعام مسلمان یہ حق دنیا کے ہر ملک سے کیوں مانگتے ہیں؟ اور یہی بنیادی انسانی حقوق خود اپنے ممالک میں خود کسی کو دوسرے کو کیوں نہیں دیتے؟ افسوس یہ دوہرے معیار۔ افسوس کہ یہ اس دین کے نام پر ہو رہا ہے جو مذہبی رواداری کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔