سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائیں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک جمعرات 11 جولائ 2019
1739332-imrankhan-1562847226-841-640x480.jpg

وزیراعظم عمران خان سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ملاقات کی۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ہم سب مل کر ناکام بنائیں گے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ملاقات کی جس میں وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور قائد ایوان شبلی فراز بھی موجود تھے، اس موقع پر اعظم سواتی اور قائد ایوان شبلی فراز نے وزیر اعظم کو نمبر گیم سے متعلق بریفنگ دی جس پر وزیراعظم نے تحریک انصاف کے سینیٹرز کو مختلف جماعتوں سے رابطوں کی ہدایت کی۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں بھرپور حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ہم سب مل کر ناکام بنائیں گے۔

واضح رہے کہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف قرارداد جمع کرادی ہے اور نئے چیئرمین کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے میرحاصل بزنجو کو امیدوار نامزد کردیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انقلاب کا کیڑا
جاوید چوہدری جمعرات 11 جولائ 2019

یہ دس سال پرانی بات ہے‘ میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ بھی پاکستان کا مقدر بدلنے کے ماہر تھے‘ وہ بھی سمجھتے تھے پاکستان میں بے تحاشا پوٹینشل ہے اور ملک میں اگر ایک نیک نیت شخص آ جائے تو پاکستان پانچ سال میں یورپ کے برابر ہو جائے گا‘ میں نے ان سے عاجزی سے پوچھا ’’لیکن یہ ہوگا کیسے؟‘‘

ان کا فرمانا تھا’’ ملک پر چور مسلط ہیں‘ ہم نے جس دن کسی نیک نیت‘ صاف ستھرے اور ایماندار شخص کو عنان اقتدار دے دی یہ ملک راکٹ کی طرح ٹیک آف کر جائے گا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’مگر وہ ایمان دار شخص کرے گا کیا؟‘‘ وہ پورے یقین کے ساتھ بولے ’’ہم دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ خیرات دیتے ہیں لیکن ہم میں سے ٹیکس ایک فیصد بھی نہیں دیتے‘کیوں؟ کیوں کہ لوگوں کو قیادت پر اعتماد نہیں‘ ہمارے ملک میں جس دن کوئی مرد مومن آگیا لوگ ریاست کو کھل کر ٹیکس دیں گے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ دوسرا میں سمجھتا ہوں ملک کے صرف پانچ ہزار لوگوں کے دماغ میں خناس بھرا ہے‘یہ بے ایمان اور اینٹی پاکستان ہیں‘ ہم اگر یہ سر گردنوں سے اتار دیں تو یہ ملک چند دن میں ٹھیک ہو جائے گا‘‘

میں ڈر گیا اور میں نے ان سے عرض کیا ’’یہ پانچ ہزار لوگ کون ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے’’ یہ سیاستدان‘ سرمایہ کار‘ بیورو کریٹس‘ جج‘ جرنیل اور آپ جیسے صحافی ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’ہمیں امام خمینی جیسا کوئی انقلابی لیڈر چاہیے‘ وہ آئے اور سروں کی پکی فصلیں کاٹ دے اور آپ اس کے بعد تبدیلی دیکھیے گا‘‘ میں ڈر گیا اور بڑی دیر تک ان کی طرف دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا۔

میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے معافی بھی مانگنا چاہتا ہوں‘ میں بھی جنرل پرویز مشرف کی آمد تک ان جیسا ہی تھا‘ مجھے بھی سروں کی پکی فصلیں دکھائی دیتی تھیں‘ میں بھی انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کا داعی تھا اور میں بھی سمجھتا تھا ہمیں امام خمینی جیسا کوئی راہبر‘ کوئی لیڈر چاہیے‘ میں ایسا کیوں تھا؟ اس کی تین چار وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ میرا دیہاتی پس منظر تھا‘ ہم لوگ نسلوں سے آزاد کسان ہیں‘ ہم تاریخ میں کبھی شہر آئے تھے اور نہ ہم نے کوئی بزنس‘ کوئی نوکری کی تھی اور کسان خواہ پاکستانی ہوں ‘ امریکی ہوں یا پھر روسی یہ سرکاری ملازموں اور تاجروں کو استحصالی طبقہ سمجھتے ہیں چناں چہ میں بھی دیہاتی روایات کے مطابق تاجروں اور ملازموں کے خلاف تھا۔

دوسرا میری پرورش نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر ہوئی تھی‘ میں بچپن میں لکڑی کی تلوار اور بانس کی کمان لے کر اندلس اور فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے لالہ موسیٰ کی گلیوں میں پھرتا رہتا تھا‘ میں الیاس سیتا پوری کا فین بھی تھا اورمیں ان دونوں کی وجہ سے روز انقلاب کی کنڈی کھڑکاتا رہتا تھا‘ تیسرا میں کنویں کا مینڈک تھا‘ میں نے دنیا دیکھی تھی اور نہ جینوئن کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔

میرا سارا علم جذباتی اور غیر تحقیقی تاریخی ناولوں تک محدود تھا لہٰذا میں غیر حقیقی دنیا میں رہ رہا تھا اور چوتھا میں ایک ناتجربہ کار‘ کند ذہن اور احساس کمتری کا مارا ہوا نوجوان تھا اور یہ حقیقت ہے احساس کمتری کے شکار لوگوں کو ہمیشہ سروں کی فصلوں میں انقلاب دکھائی دیتا ہے‘ یہ سمجھتے ہیں قومیں ’’لٹکا دیں اور مار دیں‘‘ سے طلوع ہوتی ہیں چناں چہ میں بھی ہمیشہ ملک کی ترقی کو پانچ ہزار سروں کے ساتھ نتھی کر کے دیکھتا تھا لیکن پھر میں چھوٹے سے بڑے شہر میں آ گیا‘ میں نے قرآن مجید کی تفاسیر اور تاریخ کی ٹھوس کتابیں پڑھنا شروع کر دیں‘ میں سفر کرنے لگا‘ میں نے نان نفقہ چلانے کے لیے مختلف چھوٹے بڑے کاروبار بھی شروع کر دیے اور میرے حلقہ احباب میں بیورو کریٹس‘ فوجی اور تاجر بھی شامل ہو گئے۔

مجھے اس وقت پتا چلا ہم من حیث القوم شدید مغالطوں کا شکار ہیں‘ ہم حقیقت سے انتہائی دور ہیں ‘ ہم حقائق اور پرسپشن کے درمیان وسیع صحرا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں‘ مجھے یہ بھی پتا چلا انقلاب فرانس 1980 یا 1990ء میں نہیں آیا تھا‘ یہ 1789سے 1799 کے درمیان آیا تھا لیکن یہ انقلاب اتنا خوف ناک تھا کہ فرانس آج 220 سال بعد بھی اس کے جھٹکوں سے باہر نہیں آ سکا‘آپ کو فرنچ لوگوں کے چہروں پر آج بھی خوف ملے گا۔

یہ آج بھی بااعتماد نہیں ہیں‘یہ آج بھی دروازوں کو چھ چھ تالے لگا کر سوتے ہیں‘ مجھے یہ بھی پتا چلا ایران 1978 کے انقلاب سے پہلے دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل تھا‘ ہارورڈ یونیورسٹی نے امریکا سے باہر اپنا صرف ایک کیمپس بنایا تھا اور وہ ایران کے شہر قم میں تھا‘ 1978میں ایک امریکی ڈالر میں80ایرانی ریال آتے تھے لیکن پھر انقلاب آیا اور ایران آج 41سال بعد بھی انقلاب کے برے اثرات سے باہر نہیں آ سکا‘ آج 42 ہزار 106ایرانی ریال ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں‘ ایران آج بھی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ مغرب سے تعلقات استوار کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے‘ یہ ایرانی قوم کا صبر‘ یونٹی اور وسائل ہیں جن کے صدقے ایران41سال نکال گیا ورنہ خیال تھا یہ اکیسویں صدی میں داخل نہیں ہو سکے گا۔

مجھے یہ بھی پتا چلا سوویت یونین اور چین60 سال تک سرمایہ کاری کے خلاف ڈٹے رہے لیکن پھر کیا ہوا‘ 1991میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور روس اپنے دروازے سرمایہ کاری کے لیے کھولنے پر مجبور ہو گیاجب کہ چین پوری دنیا کے لیے سرمایہ کاری کی فیکٹری بن گیا‘ مجھے یہ بھی پتا چلا دنیا میں ’’اسلامی بھائی چارہ‘‘ نام کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا‘ دنیا غریب اور امیر دو حصوں میں تقسیم ہے‘ آپ اگر غریب ہیں تو سعودی عرب ہو یا پھر لیبیا یہ آپ کے لیے کاخ امراء کے درو دیوار بن جائیں گے‘ یہ آپ کو اپنی سرحد پر قدم نہیں رکھنے دیں گے اور آپ اگر امیر ہیں تو آپ خواہ ہندو ہوں‘ یہودی ہوں‘ عیسائی ہوں یا پھر آپ کافر ہوں دنیا ہار لے کر آپ کا استقبال کرے گی‘ مجھے یہ بھی پتا چلا محمد بن قاسم کو دنیا سے رخصت ہوئے1304 سال ہو چکے ہیں اور اس کے بعد کسی مسلمان خاتون کی آواز پر کوئی محمد بن قاسم ہندوستان نہیں آیا۔

یہ ادراک کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں نے جب کام کرنا شروع کیا تو ’’ہم بڑی ٹیلنٹڈ قوم ہیں‘‘ کی قلعی بھی کھل گئی‘ پتا چلا آپ سو لوگ رکھیں‘ ان میں سے صرف دو کام کریں گے باقی صرف تعداد ہے‘ یہ بھی پتا چلا پورا سسٹم‘ پورا معاشرہ کام کرنے والوں کے خلاف ہے‘ آپ کچھ نہ کریں آپ سے کوئی سوال نہیں ہو گا لیکن آپ نے اگر کام شروع کر دیا تو آپ اس معاشرے میں عبرت کی نشانی بن جائیں گے‘گھر سے لے کر ایوان صدر تک ہر شخص آپ کے سامنے کھڑا ہو جائے گا‘ یہ بھی پتا چلا آپ صحیح رہ کر اس معاشرے میں وضو بھی نہیں کر سکتے۔

ہمارے ملک میں مسجدیں (اکثر) تک قبضے کی زمینوں پر بنی ہیں اور ان پر کوئی نہ کوئی فرقہ قابض ہے‘یہ بھی پتا چلا ہمارے ملک میں لوگ قرآن مجید کی اشاعت اور مضاربہ کے نام پر بھی معصوم لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلالہ کے نام پر خاندانوں کے خاندان ذلیل ہو رہے ہیں اور ریاست میں یہ بدبودار سلسلہ روکنے کی بھی سکت نہیں ‘ یہ بھی پتا چلا ہم بڑی ٹیلنٹڈ قوم ہیں لیکن پورے ملک میں آپ کو اچھا پلمبر‘ اچھا الیکٹریشن‘ اچھا کک اور اچھا ڈرائیور نہیں ملتا‘ ججوں نے فیصلے‘ تھانیداروں نے ایف آئی آر اور پٹواریوں نے فرد لکھنے کے لیے منشی رکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی پتا چلا سرکار میں اہلیت کا اتنا فقدان ہے کہ حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد اچھے افسروں کو کانٹریکٹ پر ملازم رکھ لیتی ہے۔

یہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی لیتے ہیں اور ریگولر سرکاری ملازموں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ بھی چناں چہ میں اعتراف کرتا ہوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نسیم حجازی اور انقلابی سوچ پر شرمندہ بھی ہوتا چلا گیا اور یہ بھی مانتا چلا گیا ہم اگر ملک کو واقعی ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ملک وہاں سے شروع کرنا ہوگا جہاں پہنچ کر فرانس‘ ایران‘ روس اور چین نے بھی اپنی اصلاح کر لی تھی ‘ یہ بھی تھک کر انقلاب کی رضائی اتارنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں میں جب اس عمل سے گزر رہا تھا تو عمران خان آیت اللہ خمینی بن کر ابھر رہے تھے اور میں ان صحافیوں میں شامل تھا جنھوں نے اپنے تمام ناآسودہ خواب ان کے قدموں میں بچھا دیے تھے۔

میں ملک کا واحد صحافی ہوں جو عمران خان کو 1996سے جانتا ہے‘ میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی گیا تھا اور میں 2014کے دھرنوں تک ان کے ساتھ بھی رہا تھا‘ یہ مجھ سے اپنے انقلابی ورکروں کو لیکچر بھی دلاتے تھے اور یہ انھیں میرے کالم بھی پڑھنے کے لیے دیتے تھے اورمیں بھی انھیں قائداعظم ثانی سمجھتا تھا لیکن پھر 2011 آیا‘ عمران خان چھٹے گیئر میں آئے اور میں اور میرے جیسے تمام لوگوں کے خواب ٹوٹتے چلے گئے۔

میں ان کی تقریریں سنتا رہا’’ میں آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کروں گا‘ پاکستانی اربوں ڈالر اپنے ملک میں لائیں گے‘ ایماندار قیادت آئے گی اور پوری دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گی‘ ہم ڈالر نیچے اور روپیہ اوپر اٹھائیں گے‘ میں مر جاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا اور میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کر لوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ اور میں اپنا سر پیٹتا رہا‘ میں اس پوری تحریک کے پیچھے موجود مقاصد کو جانتا تھا چناں چہ میں خون کے آنسو روتا رہا مگر لوگ ان دعوؤں پر تالیاں بجاتے اور چھلانگیں لگاتے تھے ‘ مجھ جیسے لوگوں کو اس دور میں غدار بھی ڈکلیئر کیاگیا اور کرپٹ بھی لیکن پھر کیا ہوا۔

ایمان دار قیادت آئی اور ایمان دار قیادت نے دس ماہ میں ملک کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اسے نکالنے کے لیے اب دس سال چاہییں‘بس پانچ ہزار سر کاٹنے باقی ہیں‘ یہ بھی کٹ گئے تو قصہ پوری طرح پاک ہو جائے گا‘ انقلاب مکمل ہو جائے گا‘ ہمارا اور ملک کا کیا بنتا ہے میں نہیں جانتا تاہم میں اتنا جانتا ہوں عمران خان کی مہربانی سے کم از کم انقلاب کا کیڑا ختم ہو رہا ہے‘ ہم یہ جان رہے ہیں تبدیلی صرف اوپر سے نہیں آتی یہ نیچے اور درمیان سے بھی آنی چاہیے‘ہم یہ بھی جان گئے ہیں نعروں اور حقیقت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتا ہے تاہم میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں عمران خان ہم سب کے محسن ہیں‘ یہ آئے اور انھوں نے آ کر ہمارے اندر کا نسیم حجازی مار دیا‘ یہ ہمیں کم از کم یہ بتا گئے ایک آدمی ملک کو تباہ ضرور کر سکتا ہے لیکن یہ ملک کو ملک نہیں بنا سکتا۔
 

سید ذیشان

محفلین

وزیر خارجہ گیا بھی تو پریس کی آزادی پر خطاب کرنے۔ ہاہا۔ بغداد بوب کا کردار ادا کر رہا ہے شاہ محمود!

اس مراسلے کو اصولا تو سیاسی لطیفوں والی لڑی میں ہونا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مانیں یا نہ مانیں
12/07/2019 رؤف کلاسرا


سنتے تھے پاکستان اس وقت اہم دوراہے پر کھڑا ہے اور حالات بہت خراب ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اگر واقعی پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے تو وہ یہی وقت ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستانی سیاست ڈرامائی انداز میں بدل گئی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بیک وقت کئی کام ہو رہے تھے۔ ایک طرف زرداری اور نواز شریف پاکستانی لوگوں پر ایکسپوز ہو رہے تھے تو دوسری طرف عمران خان سیاست پر پوری قوت سے نمودار ہو رہے تھے۔ زرداری اور شریف بڑے خوش قسمت تھے جب ماضی میں ملک کو چلا رہے تھے تو وہ دور سوشل میڈیا کا نہیں تھا۔ پاکستان کی نئی اور نوجوان نسل کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے۔ خصوصاً پاکستان کی ایلیٹ کلاس بالکل سیاست سے دور تھی۔ وہ اپنی دنیا میں مگن تھی۔ خواتین ویسے ہی سیاست سے چڑتی تھیں۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرکے یا اقتدار سے باہر ہوتے یا پھر اقتدار کے اندر۔ کبھی ایک تو کبھی دوسرا۔ یوں ایک ایسا سیاسی کھیل کھیلا جا رہا تھا جس میں شریف اور زرداری خاندان کو فائدہ ہو رہا تھا اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی جا رہی تھیں۔ اگرچہ جنرل مشرف کے مارشل لاء کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں سے ان خاندانوں کی قابلیت اور اہلیت کچھ مدہم ہو گئی تھی اور بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ اب کی بار پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بہتر انداز میں حکومت کریں گی؛ تاہم دونوں نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں انیس سو ننانوے میں ختم ہوا تھا۔ لیکن اس دفعہ یہ سب ایکسپوز ہوئے ہیں اور بری طرح ہوئے ہیں کیونکہ نئی نسل سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔

دونوں خاندانوں کا خیال تھا کہ پرانی روٹین چلتی رہے گی۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے رہیں گے اور اندر کھاتے باری باری حکمرانی کرتے رہیں گے۔ زرداری گروپ اور شریف خاندان کے لیے ان کے پچھلے دس سال ہو سکتا ہے دولت کمانے کے لیے بڑے اچھے نکلے ہوں‘ لیکن ان کی سیاست کے لیے یہ بہت برے سال تھے۔ انہیں اس کا اندازہ اب ہو رہا ہوگا‘ جب دونوں جیل میں پڑے ہیں۔ دونوں کے پاس بہت وقت تھا کہ ماضی کو پیچھے دھکیل کر کام کرتے اور لوگوں میں اپنی عزت بناتے۔ اگر انہوں نے ڈلیور کیا ہوتا تو آج ان کے لیے لوگ کھڑے ہوتے جیسے ترکی کے طیب اردوان کے لیے لوگ باہر نکل آئے تھے۔ یہ کیسی حکمرانی تھی کہ آپ کے بچے ارب پتی بن گئے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا گیا۔ زرداری اور شریف خاندان کے کاروبار آسمان کو چھو رہے تھے جبکہ ملکی اکانومی کا بیڑا غرق ہوتا چلا گیا۔ کروڑوں اربوں روپوں کی ٹی ٹی بیرون ملک سے بچوں کے اکائونٹس میں آنا شروع ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کی اکانومی ڈوب رہی تھی تو یہاں کاروبار کرنے والے دو خاندانوں کی اکانومی کیسے اوپر جا رہی تھی؟ زرداری صاحب نے پانچ سال صدارت کرنے کے بعد سندھ پر فوکس کر لیا تاکہ خرچے اور کھابے چلتے رہیں۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر اربوں روپوں کے بجٹ کھا گئے کہ ایک دن سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ لاڑکانہ میں نوے ارب کھا گئے ہیں‘ ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ دیتی ہے۔

اب حالت یہ ہو چکی ہے پاکستان کے پاس اپنے قرضے واپس کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کیسے ملک کی اکانومی کا بیڑا غرق کیا گیا۔ اربوں روپوں کے بیرونی دورے اور نتیجہ صفر۔ اور تو اور ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی بیرونی دوروں پر ٹی اے ڈی اے کی مد میں کروڑوں روپے لے رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی، نواز شریف‘ زرداری سب نے بیرون ملک دوروں میں دس کروڑ کے لگ بھگ ٹی اے ڈی اے لیا۔ باقی شاہی اخراجات علیحدہ۔ یہ اس ملک کی اکانومی کو ٹیکا لگایا جارہا تھا جو چالیس ارب ڈالرز کی مقروض ہوچکی تھی‘ اور تیس ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا تھا۔

ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار جاری رہے گی لیکن سب کچھ الٹ ہوگیا ہے۔ اب مریم نواز اور بلاول دراصل وہ جائیداد بچانے نکلے ہیں جو ان کے بزرگوں نے انہیں کما کر دی ہے اور جس کا کوئی پتہ نہیں کہاں سے آئی تھی۔ اب بلاول اور مریم نواز کی جمہوریت سے محبت اچانک بڑھ گئی ہے کیونکہ دولت جاتے نظر آرہی ہے۔

عمران خان کے عروج نے یقینا معاشرے کے سب طبقات کو متاثر کیا ہے‘ خصوصاً نوجوان اور خواتین‘ دونوں باہر نکلے؛ تاہم عمران خان صاحب زرداری اور شریف خاندان کے زوال سے سبق سیکھتے نظر نہیں آتے۔ وہ بھی ان دونوں خاندانوں کی طرح یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کبھی اقتدار سے باہر نہیں ہوں گے۔ عمران خان صاحب نے جس طرح کرپٹ سیاستدانوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے تحفظ دیا‘ اس نے ان کے اپنے امیج کو بہت نقصان پہنچایا۔ اور اس بات کا سارا فائدہ مریم نواز اور بلاول اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وعدہ خلافی نہیں کریں گے لیکن اب تو لوگوں نے گنتی کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ وہ کتنی دفعہ اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکر چکے ہیں۔

دوسری طرف مریم نواز جج صاحب کے حوالے سے جو کچھ سامنے لائی ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ ماضی میں خود شریف خاندان یہ حربے اپنے مخالفین پر استعمال کرتا رہا ہے اور اب خود پھنس گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ پریشان کن یہ بات ہے پوری عدلیہ اس پر خاموش ہے۔ پہلے ہم نے دیکھا کہ چیئرمین نیب کے خلاف مواد آیا تو اسے بھی سب نے مل کر دبا دیا۔ اب اس جج کے خلاف بھی جو کچھ سامنے آیا ہے اس کو بھی دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ سب کچھ کیسے ہورہا تھا اور کیوں ہورہا تھا۔ انسان حیران ہوجاتا ہے۔

جس طرح ان ایشوز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے صرف اور صرف نواز شریف اور مریم نواز کو ہی فائدہ ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں پہلے ہی سیاستدانوں کے حوالے سے اچھے جذبات نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر اس طرح کے واقعات پوری کررہے ہیں۔ جتنا اس کو کور اپ کرنے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی شریف خاندان کا فائدہ ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ادارہ نہیں بچ گیا جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے اہم عہدے پر فائز ججوں کو کس طریقے سے لگایا جاتا ہے؟ کون ان لوگوں کی کلیئرنس دیتا ہے اور کیسے وہ اتنی اہم جگہوں پر لگائے جاتے ہیں اور ان کے سامنے ایسے بڑے بڑے مقدمے پیش ہوتے ہیں۔ اس سے گمان گزرتا ہے کہ پاکستان میں جج لگانے کا طریقہ کار ہی ایسا ہے۔ کسی بھی وکیل کو اٹھا کر جج لگا دیا جاتا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ بڑے بڑے وکیلوں کے چیمبرز سے جج لگتے ہیں۔ سیاستدان بھی اپنی مرضی کے جج لگواتے آئے ہیں۔ قابلیت اور ایمانداری کی بجائے ذاتی پسند ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طاقتور آدمی کا اپنا جج ہے۔ اگر پانامہ نہ آتا اور اس پر میڈیا کا اور عوامی دبائو نہ ہوتا تو کبھی شریف خاندان کا احتساب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اب جس طرح کی ویڈیو سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پانامہ پر جو دو تین سال محنت کی گئی تھی وہ ایک جج ارشد ملک صاحب کے دوست ناصر بٹ کی نذر ہو گئی ہے۔ کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ناصر بٹ جج صاحب کو بلیک میل کر رہے تھے جس طرح وہ ان سے تعاون کر رہے تھے یا پھر کچھ اور اداروں نے انہیں بلیک میل کرکے سزا دلوائی؟ موصوف نے ایک ججمنٹ میں شریف خاندان کو کلین چٹ تو دوسرے میں سزا سنائی لیکن ساتھ ہی اپنے دوست ناصر بٹ کو بھی ٹپس دیتے رہے کہ کیسے کیسے فلاں پوائنٹ کو اٹھا کر اپیل کرکے بری ہو جائیں۔ یہ ہو رہا ہے پاکستان میں اور اس کے انصاف کے اداروں میں۔

اس سارے کھیل میں اب تک فتح شریف خاندان کی ہوئی ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ انہوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پاکستان میں انصاف کا تماشہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف ثبوتوں کے انبار عدالتوں میں پیش کیے گئے اور وہ ان کا دفاع نہ کر سکے لیکن ایک ہی ویڈیو سے کلیئرنس مل گئی۔ اب سب چپ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جج صاحب کی ویڈیوز چل رہی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

ہر دفعہ پاکستانی قوم ہی دھوکا کھا جاتی ہے۔ ہم ہی گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔

ویسے اپنی دھرتی ماں کو کیسے برباد کرتے ہیں اگر دیکھنا ہو تو پاکستان کو دیکھ لیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
رد انقلاب کا اصلی تے وڈا کیڑ (۱) — جاوید چوہدری کو فرحان شبیر کا جواب
فرحان شبیر جولائی 12, 2019

ایسا نہیں ہے حضور ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں بدل رہا بس آپ اور کچھ اور احباب کو یہ “رد انقلاب” کا کیڑا کاٹ رہا ہو تو کیا کہیئے ورنہ تو جس عمران خان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے آپ اسے ملک کی تباہی کا ذمہ دار اور اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں اسی عمران خان کی حکومت کے آنے پر چین کے پاکستان میں سفیر نے مبارکبادی مضامین لکھے تھے۔ دنیا بھر کے سربراہان بشمول اکھڑ مزاج ڈونلڈ ٹرمپ کے عمران خان کو دورے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ چین نے اسی عمران خان کے دورے کے دوران ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور آسیان ممالک کے برابر کے ٹریڈ اسٹیٹس دیے تھے۔ اور روس کے صدر پوٹن کو تو عمران خان کے ساتھ ڈنر ٹیبل پر لگاتار محو گفتگو سب نے ہی دیکھا تھا۔

حکومت کے بنتے ہی ملائیشیا کے جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ مہاتیر محمد بھی اسی عمران خان کی بلائیں لے کر گئے تھے۔ اور ہاں سعودیہ کے ولی عہد شاہ سلمان کے الفاظ تو آپکو یاد ہی ہونگے کہ انہیں (محمد بن سلمان کو) سعودیہ میں پاکستان کا سفیر سمجھیں اور یہ ہم انتظار میں تھے کہ پاکستان میں آپکی (عمران خان) کی حکومت آئے۔ اب یا تو چین کے صدر شی چن پنگ بھی بے وقوف ہیں کہ اپنے سی پیک اور 62 ارب ڈالرز کے ڈوبنے کا بالکل بھی ڈر نہیں کیونکہ جاوید چوہدری کے فتوے کے مطابق تو تباہی کا دوسرا نام عمران خان ہے۔ روس کے صدر پوٹن، یو اے ای محمد بن ذید MBZ جنہیں محمد بن سلمان کا بھی مینٹور کہا جاتا اور خود MBS تک سب کے سب بے وقوف ہیں جو اپنے اپنے ملکوں کا اربوں روپیہ پاکستان میں لا رہے ہیں اور عقلمند صرف جاوہد چوہدری صاحب۔ کیا جاوید چوہدری صاحب بتانا پسند کرینگے کہ آخر کیوں انکے ممدوح میاں نواز شریف اور انکے بھائی جاوید چوہدری کے اصل دوست شہباز شریف دس سال سے پنجاب اور مرکز پر حکمرانی کرتے ہوئے بھی سعودیوں، قطریوں، ترکوں سے اتنے خاندانی تعلقات رکھنے کے باوجود اتنی انویسٹمنٹ کیوں نہ لا سکے۔ پھر آرمی، عدلیہ، نیب اور دوسرے ادارے عمران خان کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ چھوٹے شہر سے بڑے شہر آکر کاروبار کرنے والے جاوید چوہدری کو تو پتہ ہے کہ عمران خان بیڑہ غرق کردے گا لیکن اگر نہیں پتہ تو 62 ارب ڈالرز کی انویسٹمنٹ کرنے والے چین، 500 ارب ڈالرز کے انویسٹمنٹ فنڈ کو مینیج کرنے والے سعودی ولی عہد مُحَمَّد بن سلمان ، امریکہ کو ناکوں چنے چبوا کر روس کو دوبارہ سے زندہ کرنے والے پوٹن اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو نہیں پتہ۔

یہ تو سب ہی جانتے تھے کہ پاکستان کی معیشت آئی سی یو میں پڑی ہوئی تھی۔ سو ارب ڈالرز سے زائد قرضوں کا بوجھ ، انسٹھ ارب ڈالرز کی امپورٹس جبکہ تئیس چوبیس ارب ڈالرز پر اٹکی ہوئی امپورٹس ، ٹیکس کلیکشن ٹو جی ڈی پی ریشو پیتھیٹک ۔ ٹیکس مشینری ذنگ آلودہ مافیا زدہ اور کرپٹ، کوئی ایک ادارہ یا محمکہ ایسا نہیں جو کما کر دے رہا ہوں سب عوام کی کمائی پر بوجھ، سفید ہاتھی ۔ پھر ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئیے درکار ون ونڈو ٹائپ سسٹم کی عدم موجودگی۔ موبائل ایپس کے دور میں بھی ہر ادارہ کا اپنے پرائویٹ کاروباری حریفوں سے کمتر معیار۔ کسٹمر سیٹسفیکشن کا دور دور تک کوئی تصور نہیں۔ چھتیس چھتیس محمکوں کا ایکدوسرے کے ساتھ چھتیس کا آنکڑہ، زمین خریدنے والے دن سے لے کر فیکٹری بنانے کے لئیے قبضہ ملنے تک دو سو اسی دن تک لگ جاتے ہیں۔ کاروبار اور جائداد کی تقسیم کا چھوٹے سا چھوٹا کیس بھی چھ ماہ سے جلدی حل نہیں ہوتا۔

ایسے آئی سی یو میں پڑے مریض کو اگر کوئی ایک ہی سال میں 100 میٹر کا اسپرنٹر بنانا چاہتا ہے یا Five K میراتھون جتوانا چاہتا ہے تو اس کو یہی کہا جاسکتا یے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے ۔ آئیگا ، انشاللہ بہتر وقت بھی آئیگا اور آتا جاتا رہا ہے۔ مریض کو سرجری، دوا اور پرہیز کی سختیوں سے گزرنا ہی پڑیگا اور اہل خانہ کو کچھ نہ کچھ تو تکلیف اٹھانی پڑیگی لیکن یہ پیروں کا وہ درد ہوگا جو واک کے بعد ہوتا ہے اور آپ کے اپنے فائدے کے لئیے۔

ہماری معیشت کو درکار مسائل میں سے ایک ٹریڈ ڈیفیسٹ یا تجارتی خسارہ تھا ہم ہر ماہ صرف دو ارب ڈالرز کی چیزیں بیچ رہے تھے اور پانچ ارب ڈالرز کی امپورٹس کر رہے تھے ۔ امپورٹس پر روک لگانے سے پچھلے دس ماہ میں ٹریڈ ڈیفیسٹ میں 29% کی کمی آئی ہے ۔ ایکسپورٹ بھی پک پکڑینگی تو ڈیفیسٹ اور بڑے گا بھی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو بھی کم ہوگا۔ امپورٹس پر بریک لگے گا تو ڈالر کی ڈیمانڈ بھی گرے گی۔ “قرضے” اگر لئیے بھی گئے تو 9 ارب ڈالرز سود اور قسطوں کی مد میں واپس بھی کئیے گئے ہیں۔ PIA نے جان پکڑنا شروع کر دی ہے سی پیک میں شامل ریلوے آپ گریڈیشن کے 1۔8 ارب ڈالرز کے معاہدے کو بھی عمران خان کے دورہ چین میں GO ahead دیا جاچکا ہے ۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو دی جانے والی تفصیلات کے مطابق اس سال ریلویز کے ذریعے سفر کرنے والے لوگوں میں چوالیس لاکھ کا اضافہ ہوا اور کل چھ کروڑ لوگ سال بھر ریلوے کے مسافر رہے۔ پوسٹ آفس کا ادارہ اب موبائل ایپس پر آگیا ہے لوگ بھی خوشی خوشی پاکستان پوسٹ آفس کی سہولیات لے رہے ہیں۔

معیشت کو لاحق دوسری بڑی بیماری بڑی کرپشن منی لانڈرنگ، بے نامی اثاثے، جعلی بینک اکاونٹس ، Tax evasion ، بل کھاتے وغیرہ وغیرہ تھے۔ ان شارٹ کہیں کہیں تو ادارے ہی غائب تو کہیں قوانین۔ پچھلے ایک سال میں ہی کرپشن سے لیکر بے نامی اثاثوں کو منظر پر لانے میں بہت تیزی سے ہوتا ہوا کام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کا یہی عزم رہا ہے کسی کو پاکستان کا ایک پیسہ بھی ہڑپ کرنے نہیں دیا جائگا اور عدلیہ نیب ، ایف آئی اے ، کسٹمز بشمول عسکری ادارے اسی طرح اپنی تندہی سے لگے رہے تو اگلے پانچ سالوں میں ہی معیشت کے یہ سارے امراض ٹھیک ہوجائینگے۔ بڑے بڑے لوگ منی لانڈرنگ ، بے نامی جائیدادوں، کرپشن اور اسمگلنگ کے دھندوں میں جیل جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ پہلے تو جب کبھی ریاست نے یا پہلے کی کسی پارٹی یا جنرل نے احتساب کرنا چاہا تو غیر ممالک سے معلومات ہی نہیں آتی تھیں ۔ اب دبئی سے لیکر سوئٹزرلینڈ تک ڈیٹا ٹرانسفر ہورہا ہے ۔ خود FBR کی ویب سائٹ پر پچپن لاکھ لوگوں کا سارا DATA آن لائن کردینا ہی کچھ لوگوں کی نیند اڑا دینے کے لئیے کافی تھا مگر حکومت نے اس سے بھی بڑا قدم اٹھا لیا ۔ FBR کی تاریخ میں اتنے بڑے تبادلوں اور اکھاڑ پچھاڑ کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا جو اب ہو چکا ہے ۔ 2500 افسران و اہلکاروں کو ادھر ادھر کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب تک ان اداروں میں بنی ہوئی پوری پوری مافیاز کو نہیں بریک کیا جائگا تب تک حکومت اپنا کوئی ہدف نہیں پورا کر سکتی ۔ جس ایمنسٹی اسکیم پر اپوزیشن کا رونا چل رہا تھا اس نے تین مہینوں میں بینکوں کے پاس ڈپازٹس میں ایک ہزار ارب روپے کے ڈپازٹس کا اضافہ کردیا جو کہ پہلے کی کسی ایمنیسٹی اسکیم سے نہیں آیا کیونکہ اس دفعہ عمران خان کے بار بار قوم سے خطاب کرکے اثاثے ڈیکلئر کرنے کی اپیل کرنا بھی اسی بات کا اشارہ تھا کہ بعد میں پچھتانا مت۔ یہ ایک ہزار ارب روپیہ ، پرائس بانڈ اینکیچمنٹ، گولڈ اور زمین جیسے تین ہزار ارب کے اثاثوں کو ڈیکلیئر کرنے سے آیا ۔ یعنی یہ تین ہزار ارب روپے بھی معیشت میں داخل ہوگئے white ہوگئے ڈاکیومینٹیشن میں آگئے ۔

پھر اسی طرح فارن Ramittance میں پچھلے مالی سال 2017-18 کے مقابلے میں پورے 10 % کا اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت نے اس سال Ramittance کا ہدف 2۔21 ارب ڈالرز رکھا تھا جو نہ صرف یہ کہ پورا ہوا بلکہ اس میں 3% فیصد یا 640 ملین ڈالرز کا اضافہ ہو کر ہوکر 84۔21 ارب ڈالرز کے Ramittances آگئے ۔ اسکی ایک بڑی وجہ ہوالہ اور ہنڈی کے کاروبار پر کیا جانے والا کریک ڈاون ہے جو پہلی دفعہ ہوتا ہوا نظر بھی آرہا ہے ۔ سیاسی ہو کہ غیر سیاسی سب پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے ۔ حمزہ شہباز ہو شرجیل میمن ہو یا زلفی بخاری سب اپنی اپنی TTs کا حساب دیں ساتھ میں روپیہ ڈی ویلیو کرنے سے جہاں امپورٹس پر بریک لگا وہیں وہیں یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ریمٹینسز کے حصول میں بھی معاون ثابت ہوا اور ریمٹینسز ہدف سے زیادہ ہی ہوگئی۔

پھر معاشی ہی نہیں دفاعی اور گلوبل لیول پر بھی پاکستان کا کردار اہم ترین ہوتا جارہا ہے۔ ستائیس فروری کو بھارت کو طمانچہ مار کر پاکستان نے چین سے لیکر مڈل ایسٹ کے عرب ممالک تک اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ثابت کر دیا ہے خود عرب ممالک ایک دفعہ پھر پاکستان کی چھتری تلے جمع ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قطر، یو اے ای، اور سعودیہ عرب تو پندرہ پندرہ بیس بیس بلین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کرنے کے معاہدے کر رہے ہیں ۔ افغانستان کے طوطے میں امریکی جن کی جان خلاصی کے لئیے اب تو باقاعدہ منتیں ترلے کئے جارہے ہیں۔ جس عمران خان کو امریکی میڈیا نے الیکشن سے پہلے مذاق کا نشانہ بنایا اب اسی عمران خان کو جولائی کے اختتام میں امریکہ پہنچنے پر ڈونلڈ ٹرمپ خود ریسیو کرنے آئیگا ۔

درحقیقت پاکستان کا امریکی مدار سے نکلنا اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا فعال حصہ بنتے چلے آنا بہتر ثابت ہورہا ہے۔ جس میں پہلے سی پیک کی سکیورٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لیکر پاکستان کی فوج نے امریکہ کو ٹاٹا بائے بائے کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم دبا لی ایف سولہ کے پیسے کھا گیا اور جب پاکستان نے ماسکو کے دفاعی اور آرمی افسران کی ٹریننگ کا معاہدہ کیا تو امریکہ نے پاکستانی فوج کے افسران کی امریکی ملٹری وار کالجز میں ٹریننگ کا معاہدہ ختم کر دیا ۔ دو ہزار سولہ سے پاکستان فوج نے امریکہ سے کوئی اسلحہ نہیں خریدا ۔ جبکہ اس دوران چین سے جے ایف سیونٹین تھنڈر سے لیکر میزائل ٹیکنالوجی بھی شامل ہے اور 2015 کے اسٹریٹیجک معاہدے کے بعد پاکستان اور چین ایک دوسرے کے دفاع کے بھی معاہدے دار ہیں ۔ پاکستان اور چین کی کمیونیکیشن کی بریچیز کو روکنے کے لئیے پنڈی ٹو کاشغر آپٹیکل فائبر بھی پچھلے سال چالو کیا جاچکا ہے اور پاکستانی ملٹری اور ائیر فورس امریکی گلوبل پوزشننگ سسٹم GPS کے ساتھ ساتھ چائنا کے سیٹیلائٹ کمیونیکیشن اور پوزیشننگ سسٹم Baidu کو بھ استعمال کر رہے ہیں ۔ ہائی ویز تک پر انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بسز کی دنیا میں چین کی کمپنی Youtong کی گاڑیاں زیادہ نظر آرہی ہیں اور ڈائیوو کمپنی کی کم ۔ آنے والے وقتوں کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کراچی کی انجئنرنگ کی یونیورسٹی NED میں چائینیز لینگویج Compulsory سبجیکٹ کے طور پر ڈالی جاچکی ہے یعنی اسے چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ 25 ہزار سے زائد طالبعلم اس وقت چین میں اسکالر شپ پر زیر تعلیم ہیں اور Huwaei کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت ایک ہزار نوجوانوں کو اسکالر شپس کے ذریعے ایڈوانس آئی ٹی اور انٹرنیٹ آف تھنگ پڑھنے بھیجا جائے گا۔

پاکستان میں کرپشن مکاو مہم میں بھی چینی ایفیکٹ بڑا گہرا ہے۔ چین پاکستان میں اپنی باسٹھ ارب ڈالر کی انویسٹمینٹ کو کرپشن میں لٹنے نہیں دے سکتا۔ سی پیک کی ناکامی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشٹیو کی ناکامی ہے لہذا اس سال ہونے والے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سالانہ اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے SCO بلاک اور OBOR میں شامل ہونے والے ممالک کو کرپشن کا خاتمہ کرنے پر ذور دیا تھا اور خود چین بھی پچھلے پانچ سالوں میں کرپشن کے خاتمے کی تاریخ کی سب بڑی مہم چلا چکا ہے جس چینی صدر Xi Jinping نے کمیونسٹ پارٹی ہائیسٹ فورم “پولٹ بیورو” کے سات میں سے پانچ ارکان کو بھی کرپشن چارجز پر سزا سنانے سے گریز نہیں کیا ۔

پاکستان میں غربت کے خاتمے سے لیکر کرپشن مٹانے اور معیشت کی بہتری کے لئیے چینی تجربے سے استفادہ حاصل کرنے کے بیانات انہی کوششوں کا نمایاں اظہار ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر تنقید تو کی جارہی ہے لیکن سوچنے والی بات ہے چین کو کوئی تشویش کیوں نہیں ہے خود آئی ایم ایف کی جانب سے بار بار سی پیک کی تفصیلات مانگے جانے پر خود چین نے پاکستان کو کہا کہ اسے کوئی اعتراض نہیں، دے دی جائیں تفصیلات ۔

چین کا Soft power اس خطے سے آہستہ آہستہ امریکی ہیجیمونی کو کمزور کرتا چلا آرہا ہے ۔ جوکہ پاکستان جیسے ملک کے لئیے خوش آئند ہے کیونکہ امریکی اور ویسٹرن تہذیب کے برعکس چینی بہت قوم ہیں۔ خود چین جسطرح پچھلے چالیس سالوں اور بالخصوص پچھلے بیس سالوں سے ترقی کی چھلانگیں لگا رہا ہے وہ حیران کن ہے۔ چین بزنس بھی کر رہا ہے ، ملٹری بھی بنا رہا ہے ، ہائی ٹیک اور ایڈوانس ٹیکنالوجی میں چین کے پیٹینٹس اب یورپ کے مجموعی پیٹینٹس سے بھی زیادہ ہونے لگے ہیں ۔ سلیکان ویلی کے امریکی chip maker چین کی چپ میکنگ کی صلاحیتوں امریکی سلامتی کے خلاف قرار دے رہے ہیں ۔ امریکہ اور یورپی ممالک سے چینی کمپنیوں کو دیس نکالا دیا جانا اسی اکنامک ہیجیمونی کے خاتمے کا خوف ہے ۔ بھلے امریکہ اور چین کی فوجیں ایکدوسرے کے بالمقابل دو بدو نہیں لڑ رہیں لیکن تجارتی جنگوں سے لیکر پراکسیز کے ذریعے جنگوں کے کئی میدان شام سے لیکر سوڈان اور افغانستان سے لیکر پورے مڈل ایسٹ تک گرم ہیں ۔ پاکستان کو بھی ہندوستان کے ذریعے جنگ تک میں الجھانے کی پوری کوشش کی جاچکی ہے تاہم پاکستان نے نہ صرف اپنا سکہ جما دیا بلکہ کو طاقت کو رکھتے ہوئے امن کی بات کر کے بھارت کو سفارتی سطح پر بھی طمانچہ رسید کیا ہے ۔ امریکہ کے بعد عمران خان کا دورہ روس بھی بہتر نتائج کا حامل ہوگا ۔ اگلے چار پانچ سالوں میں اگر چین روس بلاک اپنے اپنے داخلی مسائل پر اسی طرح قابو پاکر امریکہ کو ٹف ٹائم دیتا رہا تو عین ممکن ہے 2050 تک چین اپنے پلان کے مطابق soul super power بن جائے اور پاکستان بھی چینی تجربے سے استفادہ کر کے اپنی انفرادیت کو مذید نکھار دیتا چلا جائے اور کیا پتہ کہ اس سے اگلی صدی پاکستان کی ہو ۔

جاوید چوہدری صاحب سے درخواست ہے جہاں آپ اور ہم جیسوں کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے آرمی چیف، نواز شریف، شی چن پنگ، عمران خان، محمد بن سلمان اور خود جاوید چوہدری کے باس سلطان لاکھانی کی سوچ شروع ہوتی ہوگی۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنے قلم کا وہی استعمال کریں جس سے خدا نے آپکو عزت دی اور ہم جیسے طالبعلموں نے بہت کچھ سیکھا لیکن اگر آپ مایوس ہوگئے ہیں یا آپکو بھی لبرلز کی دیکھا دیکھی نسیم حجازی کے ناولوں سے چڑ ہوگئی ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ قوم بھی مایوس ہوجائے اور ہم بھی چپ کر کے بیٹھ جائیں۔ آپ اور آپکے احباب کو اگر کچھ بھی اچھا ہوتا نظر نہیں آرہا تو برائے مہربانی اپنی آنکھوں پر بندھی بغض عمران کی پٹی اتار لیں تاکہ روشنی اور اندھیرے میں فرق پتہ چل سکے ۔
والسلام
فرحان شبیر
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر خارجہ گیا بھی تو پریس کی آزادی پر خطاب کرنے۔ ہاہا۔ بغداد بوب کا کردار ادا کر رہا ہے شاہ محمود!
نواز شریف نے اسی لئے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا تھا کہ اسی بہانے سارا سال سرکاری خرچہ پر سیر و تفریح کا سامان میسر رہے۔ ان کی غیرموجودگی میں حکومت کرنے کیلئے تو ویسے بھی سیاسی مافیاز بہت تھے :)
 

جاسم محمد

محفلین
ایف بی آر نے مریم نواز پر 12 لاکھ سے زائد کا ٹیکس عائد کردیا
ویب ڈیسک 42 منٹ پہلے
1744047-maryamnawaz-1563192812-977-640x480.jpg

ایف بی آر نے مریم نواز اور نصرت شہباز کو ٹیکس ادائیگی کے لئے 23 جولائی تک مہلت دی ہے ۔ فوٹو : فائل

لاہور: ایف بی آر نے مریم نواز ، نصرت شہباز پر ٹیکس عائد کرکے نوٹسز جاری کردیئے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق ایف بی آر نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور شہبازشریف کی اہلیہ نصرت شہباز پر ٹیکس عائد کرکے انہیں نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے مریم نواز پر مجموعی طور پر 12 لاکھ 57 ہزار روپے ٹیکس عائد کیا۔ مریم نواز پر 6 لاکھ 57 ہزارروپے انکم سپورٹ لیوی اور 6 لاکھ روپے ڈیفالٹ سرچارج عائد کیا۔ ایف بی آر نے نصرت شہباز پر ایک لاکھ 72 ہزار 659 روپے ٹیکس عائد کر دیا۔ انہیں 90 ہزار 210 روپے انکم سپورٹ لیوی جبکہ 82 ہزار 449 روپے ڈیفالٹ سرچارج عائد کیا گیا۔

ایف بی آر نے مریم نواز اور نصرت شہباز کو ٹیکس ادائیگی کے لئے 23 جولائی تک مہلت دی ہے اور مقررہ وقت پر ٹیکس ادا نہ کرنے پر ان کے اکاؤنٹس منجمد کر کے ریکوری کی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیب کا شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک | علی وقار15 جولائ 2019

قومی احتساب بیورو (نیب) نے مختلف ریفرنسز کا سامنا کرنے والے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ذرائع کے مطابق نیب حکام نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے لاہور میں 96 ایچ کے بعد 2 مزید پراپرٹیوں اور گاڑیوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ ملکہ کوہسار مری میں بھی شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی جائیدادوں کو بھی منجمد کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں بھی موجود ایک جائیداد کو منجمد کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جائیدادیں منجمد کرنے کے بعد ان کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائے گی۔

علاوہ ازیں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف زیر استعمال لگژری گاڑیوں کو بھی منجمد کرکے تحویل میں لینے کی درخواست عدالت سے کی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم عمران خان سے سابق کرکٹر شاہد آفریدی کی ملاقات
Jul 15, 2019 | 21:58

news-1563209888-3303.jpg

وزیراعظم عمران خان سے سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم شاہد آفریدی نے ملاقات کی۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے ملاقات کی جس میں غریب، محنت کش، مستحقین موضوع بحث رہے۔

وزیراعظم سے ملاقات میں شاہد آفریدی نے انسانیت کی خدمت کے عزم کا اظہار کیا۔

اس موقع پر شاہد خان آفریدی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا سمیت پورے پاکستان میں غریبوں کے لیے پناہ گاہیں بنانا میرا مشن ہے، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے شیلٹر ہومز بنانا چاہتا ہوں، پناہ گاہیں کاروباری افراد اور دوستوں کے ساتھ مل کر بناؤں گا۔

شاہد خان آفریدی نے وزیراعظم عمران خان سے فاٹا کے نوجوانوں کے لیے کرکٹ اکیڈمی بنانے کی بھی درخواست کی۔

وزیراعظم عمران خان نے شاہد آفریدی کی انسانیت کی خدمت کے جذبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جو بے سہارا، نادار لوگوں کی خدمت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں، شیلٹر ہوم کا دائرہ پورے ملک میں پھیلائیں گے۔

شاہد آفریدی کا آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ پر آئے نوجوانوں سے خطاب

شاہد آفریدی نے آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ پر آئے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مستقبل کے معماروں سے مل کر بہت خوش ہوں، مقاصد کے حصول کے لیے یہ اچھا پلیٹ فارم ہے۔

آفریدی نے کہا کہ صرف محنت سے ہی خوابوں کو حقیقت میں بدلا جاسکتا ہے، اپنے مستقبل کے اہداف کے لیے خواب دیکھنا اچھی بات ہے، نوجوانوں پاکستان کے مستقبل کی امید ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ماضی میں جیسے ملک چلایا جارہا تھا اب ویسے نہیں چل سکتا، وزیراعظم
ویب ڈیسک بدھ 17 جولائ 2019
1746962-imrankhan-1563367640-159-640x480.jpg

میری ملک سے باہر کوئی جائیداد اور کاروبار نہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے، وزیراعظم فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں جیسے ملک کو چلایا جارہا تھا اب ویسے نہیں چل سکتا۔

گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس کی اسلام آباد میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں بار بار مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں، مدینہ کی ریاست میں طاقتور اور کمزور کے لیے ایک ہی قانون ہوتا ہے، طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہوں تو ریاست تباہ ہوجاتی ہے جب کہ جن معاشروں نے ترقی کی وہاں سب کے لیے ایک ہی قانون ہے، عدل و انصاف ریاست مدینہ کے اصول تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے، میری ملک سے باہر کوئی جائیداد اور کاروبار نہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے جب کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے مفادات کچھ اور ہیں، جن پر کیسز ہیں ان سب کے رشتہ دار باہر بھاگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو چھوٹی چوری کرتا ہے سب کو پتا ہے اس کے ساتھ جیل میں کیا سلوک ہوتا ہے، پچھلے سال جتنا ٹیکس ادا کیا اس کا نصف قرضوں کی ادائیگیوں میں چلا گیا، ماضی میں جیسے پاکستان کو چلایا جارہا تھا اب پاکستان ویسے نہیں چل سکتا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لوگوں کو ایف بی آر پر اعتماد نہیں، ایف بی آر میں 700 ارب روپے کی چوری ہوتی تھی، ایف بی آر میں اصلاحات پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سب کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آنا ہے تاہم دباؤ ڈالنے والوں سے کہتا ہوں پیچھا ہٹا تو قوم سے غداری ہو گی، شناختی کارڈ کی شرط کی مخالفت وہ تاجر کر رہے ہیں جو اسمگلنگ کا سامان بیچتے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 22کروڑ افراد میں سے 15 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، شبر زیدی نے بتایا کہ پاکستان کا 70 فیصد ٹیکس 300 کمپنیاں دے رہی ہیں، اگلے سال کے لیے پوری قوت سے 5500 ارب ریونیو اکٹھا کریں گے، ٹیکس نظام درست ہو تو قرضے بھی اتریں گے اور ترقیاتی کام بھی ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شریفوں کی اب ضرورت نہیں رہی
17/07/2019 ایاز امیر

شریف کولھو میں جا چکے ہیں اوروہیں پھنسے ہیں۔ لاکھ ہاتھ پیر ماریں ‘ ویڈیو ز خریدیں اوردکھائیں لیکن جہاں پھنسے ہیں وہاں سے اُن کی جان چھوٹنی نہیں۔ کھاتے آج کے نہیں ہیں بہت پرانے ہیں۔ یہ قدرت کی گرفت ہی سمجھنی چاہیے کہ کھاتے اب کھل رہے ہیں اور شریفوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پریس کانفرنسیں چل جاتی تھیں ۔ ایک طرف شریف تھے اوردوسری طرف پیپلزپارٹی اورشریفوں کے ساتھ طاقتور حلقے کھڑے ہوتے کیونکہ طاقتور حلقوں کی بھی اُن وقتوں میں رقابت پیپلزپارٹی سے تھی۔ حساب چکانے کاعمل پیپلزپارٹی سے ہورہاتھا اورشریف طاقتور حلقوں کے آلہ کار تھے ۔ اُنہیں استعمال کیاجارہاتھا اوروہ بخوشی استعمال ہورہے تھے ۔ طاقتور حلقوں کے کام بھی آرہے تھے اوراپنی قسمت بھی سنوار رہے تھے ۔ فیکٹری پہ فیکٹری لگ رہی تھی اوراِدھر اُدھر سے پیسے آرہے تھے۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ پوچھتے تو طاقتور حلقے‘ لیکن وہ شریفوں کی پشت پہ کھڑے تھے۔ پانچوں گھی میں کیا‘ شریفوں کی دس کی دس گھی میں تھیں۔
آج صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ ایک شریف ہیں اورگو اِن کی تجوریاں اب بھی قائم ہیں اِن کی پشت پہ وہ نہیں کھڑے جو اُنہیں سہارے دیا کرتے تھے ۔ بلکہ سہارا دینے والوں کو اب وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اسی لیے شریفوں کی کچھ نہیں چل رہی ۔ ہر ترکیب بے سود اورہر حربہ ناکام ۔ وہ جوان کے معاون ہوتے تھے اوران کے لئے آسانیاں پیدا کرتے تھے اب ان کے خلاف فیصلے صادر کررہے ہیں۔ موسموں نے کیا بدلنا ہے ‘جب آسمان کی رنگت ہی بدل جائے تو انسانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتاہے ۔
جج ارشد ملک کے خلاف کیا کیا الزامات نہ دھر دئیے گئے‘ لیکن آخری نتیجے میں اس وار سے ہوا کیا ؟جج صاحب کے دامن پہ چھینٹیں پڑیں لیکن ان کا فیصلہ تو تبدیل نہ ہوا۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں میاں نوازشریف پابندِ سلاسل ہیںاوروہاں سے ان کی جان چھوٹ نہیں رہی ۔ لاہور پہ کتنے سال بلا شرکت ِغیرے بادشاہت کی اورآج اُسی لاہور کی جیل میں بند ہیںاور چھڑانے والا کوئی نہیں ۔
دورانِ اقتدار شریفوں نے لڑائیاں غلط لڑیں۔ اُن چھتوں میں ہاتھ ڈالے جہاں ڈالنا حماقت تھی ۔ وہ بھی بلاوجہ‘ بغیر سوچے سمجھے ۔ ان مشیران کے کہنے پہ جو آج کہیں نظر نہیں آتے ۔کہاں ہیں وہ میڈیاسیل والے ؟کہاں ہیں وہ ڈھنڈورچی جو ٹی وی کیمروں کے سامنے آتے اورہٹنے کانام نہ لیتے؟ وقت وہ بھی تھا جب عرب شہزادے کام آئے ۔ آج کیونکہ زمانہ بدل چکاہے اُن کی ترجیحات اورہیں ۔شریفوں کیلئے اب ان کے پاس ٹائم نہیں ۔
وہ دن گئے جب بیکار قسم کے تجزیے ہوتے تھے کہ طاقتور حلقوں کا نوازشریف سے اگر مسئلہ ہے تو شہبازشریف سے کچھ معاملہ ہو سکتاہے ۔ ایسے زیرک تجزیہ نگاروں سے کوئی پوچھے کہ معاملہ کرنے کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے ۔
شہباز شریف کے پاس ہے کیا کہ کوئی اُن سے سمجھوتہ کرتا اوران کیلئے آسانیاں پیدا ہوتیں؟کون ساکام طاقتور حلقوں کا رُکا ہواہے یانہیں چل رہا جسے شہبازشریف نے آکے چلاناہے؟اب جب شہباز شریف کے گرد شکنجے سخت کیے جارہے ہیں تو ایسے تمام فضول کے تجزیے دم توڑ چکے ہیں۔ شہبازشریف کوئی زیادہ سیانے بن رہے تھے کہ اُن سے کبھی کچھ پوچھا نہیں جائے گا۔ اب ان کے کھاتے کھولے جارہے ہیں اوران کا مزاج خراب ہورہاہے ۔ نیب حکام کے ساتھ دھمکیوں پہ اُتر آئے ہیں ‘لیکن اس کا فائدہ کیا؟کون ان سے مرعوب ہوگا۔
شریف بنیادی مسئلہ اب تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اُن کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ناگزیر ہے اُس کا کوئی متبادل پیدا نہیں ہوا۔پنجاب میں ایسی صورتحال نہیں ۔ پنجاب میں شریفوں کا حلقہ ٔاثر ہے لیکن ان کے بغیر بھی پنجاب چلتا رہے گا اورپی ٹی آئی نے بھی اپنا جو مقام بنایا ہے اس میں پنجاب کا بھی حصہ ہے ۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ طاقتور حلقوں کا حلقہ پنجاب ہی ہے ۔کل سیاسی اُفق پہ شریف چھائے ہوئے تھے۔
آج اُن کا سورج ڈھل چکاہے تو پنجاب میں کون سا صف ِ ماتم بچھ گیاہے ؟ذوالفقار علی بھٹو کو زُعم تھا کہ انہیں کچھ ہوا تو ملک میں زبردست قسم کا آئینی بحران آجائے گا۔ اس قسم کے اشارے اُنہوں نے اپنی سپریم کورٹ پیشی میں دئیے جب وہ چار روز اپنے دفاع میں بولتے رہے ۔
اگلے انہیں تختہ دار تک لے گئے اورکوئی آئینی بحران پیدا نہ ہوا۔ جنرل ضیا الحق کیلئے آئین بھی کیا معنی رکھتاتھا؟ان کا مشہور قول ہے کہ آئین چند صفحات کی دستاویز ہے اوروہ جب چاہیں اُسے پھاڑ سکتے ہیں ۔ بھٹو بہرحال بڑا لیڈرتھا ۔ اس کے مقابلے میں شریف زادے کیا ہیں ۔ بھٹو نے چلو کسی آئینی بحران کی بات توکی ۔ شریف زادے کیا کہہ سکتے ہیں ؟ وہ کس بحران کا ذکر کرسکتے ہیں؟مال وزر کے علاوہ ان کے پاس کیا ہے ؟
موجودہ حکمرانی کا بندوبست سب شریک کھاتوں کے فائدے میں ہے۔ دونوں اطراف یکسوئی پائی جاتی ہے ۔ طاقتور حلقے حکومت سے خوش ہیں اورعمران خان کیلئے بھی اس سے زیادہ بہتر بندوبست نہیں ہوسکتا۔ ایک دوسرے کیلئے معاون ثابت ہورہے ہیں روڑے نہیں اٹکا رہے ۔ طاقتور حلقے پانامہ پیپرز سکینڈل سے کہیں پہلے نون لیگیوں کو ذہنی طورپہ مستر د کرچکے تھے ۔ ان کی ماردھاڑ کی وجہ سے عسکری اداروں میں ان کے خلاف جذبات اُبھر چکے تھے ۔ ماردھاڑ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔یہی پاکستان کا مسئلہ ہے کہ ایسی کارروائیوں میں تمام حدیں پھلانگ دی گئیں۔
وہی پرانا سوال ہے کہ انسا ن کو کتنا پیسہ چاہیے۔ زرداری نے کم مال بنایا ؟لیکن حرص ہے کہ پوری نہیں ہوتی ۔ یہی حال شریفوں کا ہے ۔ کہیں تو بس کر جائیں لیکن نہیں ‘ ہاتھ پیر مارتے ہی رہنا ہے ۔ ایسی روش عقل کے زمرے میں نہیںآتی ۔یہ تو پاگل پن کی باتیں ہیں… بالکل ایسے ہی جیسا کہ فلپائن کی ایمیلڈامارکوس (Imelda Marcos)تھیں‘ جنہیں اچھے جوتوں کا شوق تھا اورپتا نہیں اُن کے پاس کتنے ہزار جوتے تھے ۔
ملائیشیاکے نجیب رزاق کی بیوی کو بھی لے لیجیے۔ قیمتی ہینڈ بیگ رکھنے کا شوق تھا تو سینکڑوں ہینڈ بیگ اُن کے وارڈروب میں تھے۔ نجیب رزاق نے انگلستان کے اعلیٰ کالجوں سے تعلیم حاصل کی۔ انگریزی خوبصورت بولتے تھے‘ لیکن بات جب ماردھاڑ پہ ختم ہو تو ایسی تعلیم اورایسی انگریزی کا فائدہ کیا ؟آج ذلیل وخوار ہیں ۔زرداری کی حالت یہ ہے کہ بغیر سہارے چل نہیں سکتے ۔ اوردولت کو چھوڑئیے ‘سندھ میں ان کی سترہ شوگرملیں ہیں۔ کیا یہ شوگرملیں ان کی ٹانگوں میں توانائی ڈال سکتی ہیں ؟
بات کلچر اورخمیر کی ہے ۔ہر انسان کی آرزو ہوتی ہے کہ ٹھاٹ باٹ سے رہے ‘اُس کے پاس دولت ہو ‘ شہرت ہو اورلوگ اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں ۔ یہ بنیادی انسانی خواہش ہے ۔ لیکن ٹھاٹ باٹ کا یہ مطلب تو نہیں ہو ناچاہیے کہ دن رات ایک ہی کام …پیسہ بنانے …میں لگے رہیں ۔ سرگنگا رام کی نشانیوں سے لاہور بھرا پڑا ہے ۔ مال پہ کتنی ہی عمارات ہیں جو اُنہوں نے بطور سرکاری انجینئر بنائیں ۔ زمانہ بدل جائے گا اُن کانام رہے گا۔
ان حکمرانوں نے لاہور پہ کتنے سال بادشاہت کی۔ ان کی ایک نشانی ہی کوئی بتا دے جسے دیکھ کے آئندہ نسلیں انہیں یاد کریں۔ میٹرو بس پہ ناز کرتے تھے‘ لیکن اُسے دیکھ کر آج وحشت ہوتی ہے ۔لاہور کے مسائل کیا ہیں اورانہوں نے پنجاب کی دولت کن چیزوں پہ برباد کی ۔ یہی کیفیت اورنج لائن ٹرین کو دیکھ کے ہوتی ہے ۔ سرے سے اس پراجیکٹ کی نہ تُک نہ ضرورت تھی ‘ لیکن پیسہ برباد ہونا تھا ہوگیا ۔
قدرت کی گرفت تو محاورہ ہے ۔ قدرت انسان کی بے وقوفیوں سے بے نیاز ہے۔ پھر بھی کسی چیز کی گرفت میں تو شریف آچکے ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا نہ ہوگا کہ اُن کے ساتھ ایسا ہوگا۔ جنرل مشرف نے انہیں اقتدار سے ہٹایا تو یہ جمہوریت کے چیمپیئن بن گئے ۔ اب تو کہانی مختلف ہے‘اب کس بلا کے چیمپیئن بنیں گے ؟ایسا قطعاََ نہیں کہ موجودہ حکمرانی مثالی ہے یا ہر مسئلے کا حل اس کے پاس ہے ۔لیکن یہ نہیں کہ وقت کی دھار پرانی مار دھاڑ کی طرف لوٹ سکتی ہے ۔ بدقسمت ہماراملک رہاہے ‘لیکن اتنا بدقسمت بھی نہیں ۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کے جمہوری امریکہ سمیت دنیا کے دیگر مماک میں گیگ آرڈر کے سخت قوانین موجود ہیں۔ جہاں ادارے ، عدالتیں و حکومتیں بعض معاملات میں قومی میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیتے ہیں۔ وہاں تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں۔
ہاں اگر پاکستان میں حکومتی جماعت کوئی پابندی لگائی بغیر صحافیوں کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا کہے تو بہت برا کام کیا۔ اس پر منفی ریٹنگ بنتی ہے۔
Gag order - Wikipedia
 

جاسم محمد

محفلین
لاہور پہ کتنے سال بلا شرکت ِغیرے بادشاہت کی اورآج اُسی لاہور کی جیل میں بند ہیںاور چھڑانے والا کوئی نہیں ۔
مکافات عمل ہے۔ جب مقتدر حلقوں نے 1990 میں بینظیر کی حکومت گرا کر اقتدار میں حصہ دار بنا ہی لیا تھا تو کرپشن ، قومی خزانے کی منظم لوٹ مار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے پیارے قصائی!
ارشاد بھٹی

صدر آصف زرداری نے 5سالوں میں 134غیر ملکی دورے کئے، دوروں کاخرچہ 1ارب 42کروڑ، 3227لوگوں کو سرکاری خرچ پر سیریں کرائیں، زرداری صاحب 51مرتبہ دبئی گئے، 51میں سے 48پھیرے ذاتی، بیرون ملک دوروں کا ہوٹل خرچہ 55کروڑ 89لاکھ، 4کروڑ کے کھانے، 4کروڑ 32لاکھ کے تحفے بانٹے، 2کروڑ 9لاکھ ٹپ دی، زرداری صاحب 5برسوں میں 257دن دوروں پر رہے، 6کروڑ ٹی اے ڈی اے بھی وصول کیا۔


وزیراعظم نواز شریف، 4سالوں میں 100دورے کھڑکائے، 2352لوگوں کو سرکاری خرچ پر سیر سپاٹے کرائے، 30سے زیادہ مرتبہ لندن گئے، لندن کے 20پھیرے ذاتی، میاں صاحب کے 100دوروں کا خرچہ 1ارب 84کروڑ، بیرون ملک ہوٹلوں کا خرچہ 48کروڑ 29لاکھ، 60ہزار، 5کروڑ 14لاکھ کے کھابے، 6کروڑ 12لاکھ، 40ہزار کے تحفے دیئے، 2کروڑ 78لاکھ، 40ہزار کی ٹپ دی، نواز شریف 262دن دوروں پر رہے، 4کروڑ 77لاکھ، 60ہزار کا ٹی اے ڈی اے وصول کیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک سال میں 19غیر ملکی دورے کیے، 50دن بیرون ملک رہے، 214لوگوں کو سیریں کرائیں، 25کروڑ 95لاکھ، 90ہزار خرچہ آیا، 7کروڑ 91لاکھ، 70ہزار ہوٹلنگ کا خرچہ، 89لاکھ 90ہزار کے کھانے، عباسی صاحب نے 78لاکھ 50ہزار کے تحفے دیئے، 50لاکھ 48ہزار کی ٹپ دی، بیرون ملک دورے، ائیرپورٹس گراؤنڈ ہنڈلنگ کے نام پر 4کروڑ 18لاکھ، 50ہزار لگے، وزیراعظم عباسی نے 19غیر ملکی دوروں کا 1کروڑ 22لاکھ ٹی اے ڈی اے بھی وصول کیا۔

بحیثیت وزیراعظم نواز شریف کے کیمپ آفسز پر 4ارب 31کروڑ، 83لاکھ، 92ہزار خرچہ آیا، صدر آصف زرداری نے اپنے کیمپ آفسز پر 3ارب 16کروڑ، 41لاکھ، 18ہزار خرچ کر ڈالے، یہ سنیے، شہبا زشریف کے کیمپ دفتروں کا خرچہ 8ارب 72کروڑ، 69لاکھ آیا، پیارے بچو، پتا چلا، خادمِ اعلیٰ کتنا خادمِ اعلیٰ ہوتا ہے، وزیراعظم عباسی کا کیمپ آفس 35کروڑ میں پڑا، خیر سے وزیراعظم گیلانی کے 5کیمپ آفس تھے، 3لاہور، 2ملتان میں، خرچہ 24کروڑ 50لاکھ، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے کیمپ آفسز پر 3کروڑ 22لاکھ، 21ہزار لگے، صدر ممنون حسین کے کیمپ آفس کا خرچہ آیا 30کروڑ 3لاکھ۔

صدر آصف زرداری کی سیکورٹی پر 1ارب 63کروڑ، 71لاکھ لگے، 2013میں صدر زرداری کی حفاظت کر رہے تھے 1722سیکورٹی اہلکار جبکہ گرفتاری سے پہلے تک زرداری صاحب کی سیکورٹی پر 790اہلکار مامور تھے، یہ بھی سن لیں، نواز شریف کے صرف جاتی امرا(رائیونڈ) کیمپ آفس کی سیکورٹی پر 1ارب 14کروڑ لگے، جاتی امرا کیلئے 5کروڑ 66لاکھ کے سی سی ٹی وی کیمروں، لائٹوں سے لیکر سیکورٹی کتوں تک سب سرکاری مال سے، وزیراعظم نواز شریف کے سرکاری جہاز پر شہباز شریف نے 556دورے کر ڈالے، 526 اندرون ملک جبکہ 30دورے بیرون ملک، خادمِ اعلیٰ نے وزیراعظم کا جہاز 527گھنٹے اڑایا، 41کروڑ 77لاکھ خرچہ آیا۔

یہ وہ اعداد و شمار جو کابینہ اجلاس میں پیش کئے گئے، یہ پوری دنیا کے مقروض پاکستان کے بادشاہوں کی بادشاہیاں، دکھ یہ، آصف زرداری نے 5برسوں میں 3227، نواز شریف نے 2352اور شاہد خاقان عباسی نے 214لوگوں کو سرکاری خرچ پر اپنے ساتھ سیر سپاٹے کروائے، رتی بھر خوفِ خدا ہوتا تو یہ تعداد آدھی سے بھی کم ہوتی، زرداری صاحب 51مرتبہ دبئی جبکہ نواز شریف 30مرتبہ لندن گئے، کیوں، کیونکہ زرداری صاحب کا محل، کاروبار، اسپتال، یار دوست دبئی میں جبکہ نواز شریف کی اولادیں، جائیدادیں لندن میں، مطلب زرداری، نواز شریف صاحب سرکار کے مال پر ہر دوسرے مہینے اپنے اصلی گھروں لندن، دبئی پہنچے ہوتے، کیسے بے رحم لوگ، غریبوں کا پیسہ اس بے دردی سے اڑایا، آصف زرداری، نواز شریف، عباسی صاحب اپنے رشتہ داروں، وزراء، پسندیدہ بیوروکریٹس، چہیتے صحافیوں، دوست یاروں، طبلچیوں، درباریوں کو موجیں بھی کرواتے رہے، اوپر سے نواز شریف، آصف زرداری جیسے کھرب پتیوں نے سرکاری خزانے سے 234غیر ملکی دوروں کا 10کروڑ 77لاکھ، 60ہزار ٹی اے ڈی اے لیکر جیب میں ڈال لیا، کوئی ان سے پوچھے یہی چھوڑ دیتے، جب آپکے جانور تک سرکاری خرچے پر پل رہے تھے، آپکی ہر شے سرکار کے ذمے تھی تب کم ازکم دوروں کا خرچہ ہی نہ لیتے۔

زرداری صاحب نے 134دورے کئے، نواز شریف نے 100، شاہد خاقان عباسی نے 19، ملک کو کیا حاصل وصول ہوا، کتنی تجارت بڑھی، کتنی سرمایہ کاری ہوئی، سب کا سب کچھ سب کے سامنے، پھر ذرا ان بھوکے ننگے ملک کے حکمرانوں کے شاہانہ مزاج ملاحظہ ہوں زرداری صاحب نے 2کروڑ 9لاکھ ٹپ دی، 4کروڑ 32لاکھ کے تحفے بانٹے، نواز شریف نے 6کروڑ 12لاکھ، 40ہزار کے تحفے بانٹ کر 2کروڑ 78لاکھ، 40ہزار کی ٹپ دیدی جبکہ وزیراعظم عباسی نے ساڑھے 78لاکھ کے تحائف دے کر 50لاکھ 48ہزار ٹپ دیدی، کیوں لگ نہیں رہا کہ یہ تو تیل، گیس، ہیرے، جواہرات اور سونے سے مالا مال اس ملک کے بادشاہ جہاں پیسے درختوں پر لگے ہوئے، سرکاری مال مطلب مالِ مفت، دلِ بے رحم، باقی چھوڑیں، ممنون حسین بیرون ملک دوروں پر 60لاکھ کی ٹپ دے گئے، ٹپ لینے والے بھی ممنون بھائی جان سے ٹپ لیتے ہوئے ہنستے ہوں گے، ممنون بھائی جان نے تو ایوان صدر کی تزئین وآرائش پر 1ارب 19کروڑ لگا دیئے مطلب ہم وہ بدنصیب جن کے ممنون حسین بھی مہنگے۔

جاتے جاتے عارف علوی صاحب کی بھی سن لیں، تبدیلی سرکار نے 28لاکھ کی بھینسیں بیچیں ،علوی صاحب نے 36لاکھ کا ایوانِ صدر میں مشاعرہ کروادیا، صد ر علوی نے گزرے 10مہینوں میں 27کروڑ اضافی خرچ ڈالے، ابھی کل ہی ایوانِ صدر میں طوطوں، چوہوں، تزئین و آرائش کیلئے 23ملین کا ٹینڈر بھی نظروں سے گزرا، آج ایک خبر نظر سے گزری، فرانس کے وزیر ماحولیات فرانسس دے روگے لگژری ڈنرا سکینڈل کے بعد مستعفی، جی ہاں لگژری ڈنر، دوستوں یاروں کو سرکاری پیسے سے چند ڈنر کرا دیئے، استعفیٰ دینا پڑا، یہاں دیکھ لیں، ہمارے پیارے قصائی نسلیں ذبح کر کے بھی یوں فخریہ پیشکش بنے پھر رہے کہ بندہ چکرا جائے، شرما جائے، سوچوں، ایسے ذی وقار، صاحبِ کردار اور کہاں، یہ نایاب نسل سفید گینڈے کی طرح ناپید ہو چکی۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اور زرداری اپنے 5 سالہ ادوار میں پاکستان سے باہر مقیم تارکین وطنوں کے درمیان ایک جلسہ منعقد نہیں کروا سکے تھے۔
چھپ چھپاتے آتے، مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرتے، قومی خزانے کو لوٹتے اور واپس چلے جاتے۔ لیکن یہ الیکٹڈ لوگ تھے۔
کل عمران خان پاکستان سے باہر تارکین وطنوں کا سب سے بڑا جلسہ کرنے جا رہا ہے۔ لیکن یہ سلیکٹڈ ہے۔
کھوتی لاجک
 
Top