سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمداحمد

لائبریرین
قانون ساز ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے، لیکن قانون ساز ادارے کو بھی ایک "آئینی" حد کے اندر رہتے ہوئے ہی قانون سازی کی اجازت ہے یعنی ان کو مادر پدر آزادی نہیں ہے کہ جو چاہے قانون بنائیں اور جو چاہے ترمیم کریں۔ اگر وہ ان حدود سے تجاوز کریں گے تو پھر تشریح کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ تشریح کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی قانون یا ترمیم غیر قانونی یا غیر آئینی ہے۔

اچھا!

اس میں تو کافی گرے ایریاز ہوں گے اور فیصلہ دشوار ہو جاتا ہوگا۔ حرفِ آخر عدالت کا ہی ہوتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
مگر اس کے لئے بھی کوئی نہ کوئی قانونی بنیاد ضروری ہوتی ہے،
ویسے عملی طور پر چلتی اسی کی ہے جس کے ساتھ وقار ہو اور فی الحال وقار عظمی کے ساتھ ہے۔
ایک ماضی کی مثال جسٹس سجاد کی شاہ کا خط آرمی چیف کے نام جو اس نے حکومت کو بھجوا دیا تھا یعنی اس نے حکومت کا ساتھ دیا اور اب جو ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔

عظمیٰ تو عدالتِ عظمیٰ ہو گئی۔ وقار سے کیا مراد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ؟

اور کیسے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مگر اس کے لئے بھی کوئی نہ کوئی قانونی بنیاد ضروری ہوتی ہے،
ویسے عملی طور پر چلتی اسی کی ہے جس کے ساتھ وقار ہو اور فی الحال وقار عظمی کے ساتھ ہے۔
ایک ماضی کی مثال جسٹس سجاد کی شاہ کا خط آرمی چیف کے نام جو اس نے حکومت کو بھجوا دیا تھا یعنی اس نے حکومت کا ساتھ دیا اور اب جو ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔
جی قانونی بنیاد تو ہوتی ہے لیکن یہ مثال بہت پرانی نہیں ہے، دو سال ہی ہوئے ہیں، انڈین سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم ختم کی ہے جو کہ صدر بھی منظور کر چکا تھا اور ترمیم لاگو ہو چکی تھی، چار و ناچار بھارتی سیاستدانوں کو ماننا پڑا۔
 
آخری تدوین:
قانون ساز ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے، لیکن قانون ساز ادارے کو بھی ایک "آئینی" حد کے اندر رہتے ہوئے ہی قانون سازی کی اجازت ہے یعنی ان کو مادر پدر آزادی نہیں ہے
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ قانون سازی کے لئے پارلیمان کو کتنی آزادی ہے؟ قانون تو کسی آئینی شق سے متصادم ہونے کی صورت میں منسوخ ہو سکتا ہے مگر آئینی ترمیم کو کس بنیاد پر معطل یا منسوخ کیا جائے گا؟ اور آئینی ترمیم کے لئے پارلیمان کے اختیارات کی کیا حدود ہیں؟ کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے؟ اگر ہے تو اسے کہاں ڈیفائن کیا گیا ہے؟
 
لاہور: سپریم کورٹ رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت

لاہور: وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش

لاہور: خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لیکر آئیں. چیف جسٹس

لاہور: یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا. سعد رفیق

لاہور: ہم ابھی آپکی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی. چیف جسٹس

لاہور: بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے. چیف جسٹس

لاہور: چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا. سعد رفیق

لاہور: ہم نے یاد نہیں کیا تھا، سمن کیا تھا. چیف جسٹس

لاہور. وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا،چیف جسٹس

لاہور:مجھے بولنے کی اجازت دیدی جائے. سعد رفیق کی استدعا

لاہور: عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں. چیف جسٹس پاکستان

لاہور:جارحانہ انداز نہیں اپنا رہا اپنا موقف دینے کی کوشش کررہا ہوں. سعد رفیق

لاہور:آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں. سعد رفیق

لاہور:جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے. چیف جسٹس

لاہور:کیا پھر میں بیٹھ جاؤں. سعد رفیق

لاہور: نہیں،جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے. چیف جسٹس پاکستان

لاہور: اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں. سعد رفیق

لاہور:آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کرینگے. چیف جسٹس پاکستان

لاہور: آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا!

اس میں تو کافی گرے ایریاز ہوں گے اور فیصلہ دشوار ہو جاتا ہوگا۔ حرفِ آخر عدالت کا ہی ہوتا ہے؟
جی ہیں، لیکن آئین کی تشریح کا حرفِ آخر سپریم کورٹ کے پاس ہی ہے۔

انڈین سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی کئی ایسے فیصلے دے چکی ہے کہ آئین میں کونسی ترمیم ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں۔ مثال کے طور پر اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے گئے تھے اور تصدیق پارلیمنٹ نے کی تھی، انڈین سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ تصدیق آئین کی روح کے منافی ہے۔

ججوں کی تعیانی والا کیس جس کی مثال اوپر دی، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کہ ایک آئینی ترمیم کو جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان منظور کریں، صدر دستخط کرے، قانون ملک میں نافذ ہو جائے اور کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ کہہ دے کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، سب کچھ ختم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ قانون سازی کے لئے پارلیمان کو کتنی آزادی ہے؟ قانون تو کسی آئینی شق سے متصادم ہونے کی صورت میں منسوخ ہو سکتا ہے مگر آئینی ترمیم کو کس بنیاد پر معطل یا منسوخ کیا جائے گا؟ اور آئینی ترمیم کے لئے پارلیمان کے اختیارات کی کیا حدود ہیں؟ کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے؟ اگر ہے تو اسے کہاں ڈیفائن کیا گیا ہے؟
پارلیمان کی آزادی مشروط ہے، اور آئین کے اندر ہی اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انڈین آئین کے اندر تحریر ہے کہ اس آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کو بنیاد پر انکی سپریم کورٹ فیصلے دیتی رہی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی ہیں، لیکن آئین کی تشریح کا حرفِ آخر سپریم کورٹ کے پاس ہی ہے۔

انڈین سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی کئی ایسے فیصلے دے چکی ہے کہ آئین میں کونسی ترمیم ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں۔ مثال کے طور پر اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے گئے تھے اور تصدیق پارلیمنٹ نے کی تھی، انڈین سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ تصدیق آئین کی روح کے منافی ہے۔

ججوں کی تعیانی والا کیس جس کی مثال اوپر دی، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کہ ایک آئینی ترمیم کو جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان منظور کریں، صدر دستخط کرے، قانون ملک میں نافذ ہو جائے اور کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ کہہ دے کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، سب کچھ ختم۔

درست!

جزاک اللہ۔
 
پارلیمان کی آزادی مشروط ہے، اور آئین کے اندر ہی اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انڈین آئین کے اندر تحریر ہے کہ اس آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کو بنیاد پر انکی سپریم کورٹ فیصلے دیتی رہی ہے۔
پاکستان میں بنیادی آئینی ڈھانچے کو کہیں ڈیفائین نہیں کیا گیا، اور آج تک سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ پاکستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی عملی صورتحال میں بہت فرق ہے، پاکستانی سپریم کورٹ نے فوج کوآئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا تھا جو کہ سراسر غیر آئینی بات ہے ۔ پاکستان کے آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے اور اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان میں بنیادی آئینی ڈھانچے کو کہیں ڈیفائین نہیں کیا گیا، اور آج تک سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ پاکستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی عملی صورتحال میں بہت فرق ہے، پاکستانی سپریم کورٹ نے فوج کوآئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا تھا جو کہ سراسر غیر آئینی بات ہے ۔ پاکستان کے آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے اور اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔

آئین کا ہونا ہی ان سب باتوں کا جواب ہے۔
 
لاہور: سپریم کورٹ رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت

لاہور: وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش

لاہور: خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لیکر آئیں. چیف جسٹس

لاہور: یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا. سعد رفیق

لاہور: ہم ابھی آپکی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی. چیف جسٹس

لاہور: بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے. چیف جسٹس

لاہور: چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا. سعد رفیق

لاہور: ہم نے یاد نہیں کیا تھا، سمن کیا تھا. چیف جسٹس

لاہور. وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا،چیف جسٹس

لاہور:مجھے بولنے کی اجازت دیدی جائے. سعد رفیق کی استدعا

لاہور: عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں. چیف جسٹس پاکستان

لاہور:جارحانہ انداز نہیں اپنا رہا اپنا موقف دینے کی کوشش کررہا ہوں. سعد رفیق

لاہور:آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں. سعد رفیق

لاہور:جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے. چیف جسٹس

لاہور:کیا پھر میں بیٹھ جاؤں. سعد رفیق

لاہور: نہیں،جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے. چیف جسٹس پاکستان

لاہور: اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں. سعد رفیق

لاہور:آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کرینگے. چیف جسٹس پاکستان

لاہور: آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری
ہالوئے۔۔۔ یہ چیف جسٹس ہے یا طارق ٹیڈی ؟
 

فرقان احمد

محفلین
قانون کی تشریح کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ اس آڑ میں بہت کچھ ممکن ہے۔ اسی لیے عدلیہ کی غیر معمولی فعالیت کو بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کو بھی اپنے مسائل لے کر عدلیہ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ یہی غلطی نواز شریف صاحب نے کی تھی جو کہ اب ان کے گلے پڑی ہے۔ یہی سب کچھ عمران خان صاحب کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مجرموں کو سزا ملنی چاہیے تاہم سیدھے سبھاؤ سپریم کورٹ پہنچ جانا بھی مناسب نہیں۔ اسی طرح عدلیہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملکی سیاسی معاملات میں زیادہ چھیڑ چھاڑ سے گریز کرے تاکہ عدلیہ کا وقار بحال رہے۔
 

یاز

محفلین
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ قانون سازی کے لئے پارلیمان کو کتنی آزادی ہے؟ قانون تو کسی آئینی شق سے متصادم ہونے کی صورت میں منسوخ ہو سکتا ہے مگر آئینی ترمیم کو کس بنیاد پر معطل یا منسوخ کیا جائے گا؟ اور آئینی ترمیم کے لئے پارلیمان کے اختیارات کی کیا حدود ہیں؟ کیا آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے؟ اگر ہے تو اسے کہاں ڈیفائن کیا گیا ہے؟

جی ہیں، لیکن آئین کی تشریح کا حرفِ آخر سپریم کورٹ کے پاس ہی ہے۔

انڈین سپریم کورٹ اس سے پہلے بھی کئی ایسے فیصلے دے چکی ہے کہ آئین میں کونسی ترمیم ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں۔ مثال کے طور پر اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے گئے تھے اور تصدیق پارلیمنٹ نے کی تھی، انڈین سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ تصدیق آئین کی روح کے منافی ہے۔

ججوں کی تعیانی والا کیس جس کی مثال اوپر دی، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کہ ایک آئینی ترمیم کو جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان منظور کریں، صدر دستخط کرے، قانون ملک میں نافذ ہو جائے اور کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ کہہ دے کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، سب کچھ ختم۔
ساری گیم اس چیز پہ منحصر ہو سکتی ہے کہ آئینی ترمیم کے خدوخال کیا ہوں۔ جیسے اگر آئینی ترمیم یہ کر دی جائے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 کی بجائے 60 یا 62 سال ہو گی تو زیادہ تر موجودہ جج فارغ ہو جائیں گے۔ اور اصولاً یہ آئین کے دائرہ کار کے اندر بھی ہو گی کہ سب سرکاری ملازمین کی عمر کی حد یہی ہے۔ نیز یہ کہ جونہی ترمیم پاس ہو گئی تو اس کے خلاف سماعت کون کرے گا، نیا جج یا پرانا جج؟ پرانا جج تو اصولاً فوری ریٹائر ہو چکا ہو گا، اور نیا کیوں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینا چاہے گا۔
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top