جب عدلیہ میں معمول کی غیر فعالیت چل رہی تھی تب یہ تشکیل نو کی باتیں کرنے والے شاید بھنگ پی کر سوئے ہوئے تھے۔عدلیہ کی غیر معمولی فعالیت
جب عدلیہ میں معمول کی غیر فعالیت چل رہی تھی تب یہ تشکیل نو کی باتیں کرنے والے شاید بھنگ پی کر سوئے ہوئے تھے۔عدلیہ کی غیر معمولی فعالیت
متفق البتہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جمہوری ممالک میں اسکی اقسام مختلف ہیں۔ بعض میں پارلیمان سپریم ہے یعنی آئینی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ دیگر میں عظمی کو تشریح کا حق حاصل ہے۔ ترکی میں مثال کے طور پر ۱۹۶۱ سے پہلے تک آئینی ترامیم کو چیلنج کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ پھر اس مقصد کیلئے خاص سپریم کورٹ سے منفرد ایک ادارہ بنایا گیا۔ چونکہ یہ ادارہ سویلین بالا دستی پر چیک اینڈ بیلنس کیلئے ہے تو بھاری اکثریت لیکر آنے والی حکومتیں اس سے ٹکراتی رہتی ہیں۔قانون ساز ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے، لیکن قانون ساز ادارے کو بھی ایک "آئینی" حد کے اندر رہتے ہوئے ہی قانون سازی کی اجازت ہے یعنی ان کو مادر پدر آزادی نہیں ہے کہ جو چاہے قانون بنائیں اور جو چاہے ترمیم کریں۔ اگر وہ ان حدود سے تجاوز کریں گے تو پھر تشریح کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ تشریح کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی قانون یا ترمیم غیر قانونی یا غیر آئینی ہے۔
انکی بے بسی ہے۔ بیچارے عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہونے کا الزام بھی نہیں لگا سکتے۔ یہود و ہنود کی سازش کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے۔چار و ناچار بھارتی سیاستدانوں کو ماننا پڑا۔
اور تو اور "وقار" کو بھی درمیان میں نہیں لا سکتے، اُن کے لیے تو اکیلی "عُظمیٰ" ہی کافی ہے!انکی بے بسی ہے۔ بیچارے عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہونے کا الزام بھی نہیں لگا سکتے۔ یہود و ہنود کی سازش کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے۔
لاہور: سپریم کورٹ رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت
لاہور: وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش
لاہور: خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لیکر آئیں. چیف جسٹس
لاہور: یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا. سعد رفیق
لاہور: ہم ابھی آپکی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی. چیف جسٹس
لاہور: بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے. چیف جسٹس
لاہور: چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا. سعد رفیق
لاہور: ہم نے یاد نہیں کیا تھا، سمن کیا تھا. چیف جسٹس
لاہور. وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا،چیف جسٹس
لاہور:مجھے بولنے کی اجازت دیدی جائے. سعد رفیق کی استدعا
لاہور: عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور:جارحانہ انداز نہیں اپنا رہا اپنا موقف دینے کی کوشش کررہا ہوں. سعد رفیق
لاہور:آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں. سعد رفیق
لاہور:جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے. چیف جسٹس
لاہور:کیا پھر میں بیٹھ جاؤں. سعد رفیق
لاہور: نہیں،جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں. سعد رفیق
لاہور:آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کرینگے. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری
اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ بھارت میں آئین کی نہیں سپریم کورٹ کی حکمرانی ہے۔ یہ بھارتی جمہوریہ کیلئے بہت تشویش کی بات ہے۔ مجھے معلوم نہیں وہ اس معاملہ کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ یہ تو چلیں ایک کیس تھا البتہ اگر معمول بن گیا تو آگے چل کر آئینی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ججوں کی تعیانی والا کیس جس کی مثال اوپر دی، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی کہ ایک آئینی ترمیم کو جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوان منظور کریں، صدر دستخط کرے، قانون ملک میں نافذ ہو جائے اور کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ کہہ دے کہ یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، سب کچھ ختم۔
سعد رفیق کی جگہ راؤ انوار ہوتے تو ۔۔۔۔۔۔۔ ؟لاہور: سپریم کورٹ رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت
لاہور: وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش
لاہور: خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لیکر آئیں. چیف جسٹس
لاہور: یہ بیان آپ کے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا. سعد رفیق
لاہور: ہم ابھی آپکی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی. چیف جسٹس
لاہور: بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے. چیف جسٹس
لاہور: چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا. سعد رفیق
لاہور: ہم نے یاد نہیں کیا تھا، سمن کیا تھا. چیف جسٹس
لاہور. وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا،چیف جسٹس
لاہور:مجھے بولنے کی اجازت دیدی جائے. سعد رفیق کی استدعا
لاہور: عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور:جارحانہ انداز نہیں اپنا رہا اپنا موقف دینے کی کوشش کررہا ہوں. سعد رفیق
لاہور:آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں. سعد رفیق
لاہور:جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے. چیف جسٹس
لاہور:کیا پھر میں بیٹھ جاؤں. سعد رفیق
لاہور: نہیں،جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں. سعد رفیق
لاہور:آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کرینگے. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں. چیف جسٹس پاکستان
لاہور: از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری
پہلے شک تھا اب یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان کیساتھ ساتھ عظمی بھی کسی پیرنی کے شیڈول پر عمل پیرا ہے
میرے خیال میں یہ مقصد نہیں تھا اور نہ یہ پیغام تھا۔ انڈیا میں جمہوریت اتنی کمزور نہیں ہے۔ جس ترمیم کو سپریم کورٹ نے منسوخ کیا تھا اس ترمیم میں آئین کی کوئی تعریف درج کی گئی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کیا تھا۔ فیصلے کا مدار اس چیز پر تھا کہ یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتی ہے۔اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ بھارت میں آئین کی نہیں سپریم کورٹ کی حکمرانی ہے۔ یہ بھارتی جمہوریہ کیلئے بہت تشویش کی بات ہے۔ مجھے معلوم نہیں وہ اس معاملہ کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ یہ تو چلیں ایک کیس تھا البتہ اگر معمول بن گیا تو آگے چل کر آئینی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
متفق۔ سیاست دانوں کو اپنے اور قوم کے مسائل حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے۔ مگر افسوس وہاں حاضری کی شرح اسکول کی اسمبلی سے بھی کم ہے۔سیاست دانوں کو بھی اپنے مسائل لے کر عدلیہ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ یہی غلطی نواز شریف صاحب نے کی تھی جو کہ اب ان کے گلے پڑی ہے۔
کیا مثال دی ہے آپ نے واہ!مگر افسوس وہاں حاضری کی شرح اسکول کی اسمبلی سے بھی کم ہے۔
یہ درست نہیں ہے۔ عین الیکشن سے پہلے مرنے کے نتیجے میں کئی مردے الیکشن لڑ چکے اور خوب ووٹ بھی حاصل کئے بلکہ چند تو جیت بھی گئے۔کیونکہ آرٹیکل 62 اور 63 الیکشن لڑنے کے لئے اہلیت و نااہلیت کے بارے میں ہے۔ اور تاریخ سے ثابت ہے کہ بعد از وفات کسی شخصیت نے الیکشن نہیں لڑا۔
عمران خان صاحب اور شیخ رشید صاحب کی تحریک میں دَم ہوتا تو نواز شریف صاحب 2014ء میں ہی رخصت ہو جاتے۔متفق۔ سیاست دانوں کو اپنے اور قوم کے مسائل حل کرنے کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے۔ مگر افسوس وہاں حاضری کی شرح اسکول کی اسمبلی سے بھی کم ہے۔
نواز شریف کے پاس پاناما لیکس کے بعد دو آپشن تھے۔ اپنی صفائی پیش کرتے یا مستعفی ہو جاتے۔ صفائی پر اپوزیشن اور قوم نے کان نہیں دھرے۔ مجبوراً تنازع کے حل کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ وگرنہ عمران خان اور شیخ رشید تو سڑکوں پر دما دم مست قلندر کرنے کیلئے تیار بیٹھے تھے
یہ پیشی ریلوے کے معاملات پر تھی، یا عدلیہ پر ریمارکس کے بارے میں؟یہ جو عدلیہ گردی ہے، اسکے پیچھے وردی ہے
پیشی تو ریلوے کے خسارے پر تھی البتہ عدلیہ نے اپنا بھانڈ بھی تل دیا ساتھ میںیہ پیشی ریلوے کے معاملات پر تھی، یا عدلیہ پر ریمارکس کے بارے میں؟
لچ وغیرہ کے تلنے کے تذکرے تو پڑهنے کو ملتے رہے ہیں, یہ بهانڈ کیا ہے ؟پیشی تو ریلوے کے خسارے پر تھی البتہ عدلیہ نے اپنا بھانڈ بھی تل دیا ساتھ میں