باباجی
محفلین
سوال: اہلِ کتاب کے راندہء درگاہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
جواب: جب تک ہم اپنے ذہنوں سے یہ بات نہیں نکالیں گے کہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کے پیروکار بھی اللہ کے بندے اور انسان ہیں تب تک ہم بھول بھلیوں میں گم رہیں گے۔ ہمارے ذہن میں یہ خیال بیٹھ گیا ہےکہ صرف ہم ہی اللہ کے بندے ہیں اور رب صرف ہمارا ہی ہے حالانکہ قرآن پاک میں واضح طور پر ذکر ہے کہ ہاں اہل کتاب میں سے کچھ لوگ صاحب علم ہوتے ہیں۔ دراصل ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم آپﷺ سے قبل آنے والے تمام انبیاء اور قرآن پاک سے قبل نازل ہونے والی تمام الہامی کتم پر ایمان لانے کا وعدہ کرچکےہیں ۔ فرق محض اتنا سا ہے کہ رب تعالیٰ کاپیغام ہمیشہ اُس دور کے لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق صحیفوں اور الہامی کتب کی صورت میں نازل ہوتا رہا اور مختلف پیغمبر اللہ کے اُس پیغام کو Remind کراتے چلے گئے۔حتیٰ کہ انسانی ذہنی ارتقا پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صورت اپنا پیغام مکمل کرکے Declare کردیا کہ آج میں نے تمہارے لیئے دین تمہارا دین مکمل کردیا ہے ۔ (سورہ المائدہ:3) لہٰذا اللہ کا پیغام جس دورکے لوگوں کے لئے تھا اُنہوں نے اگر اللہ کے Latest پیغام اور Latest پیغمبر کو Follow کیا تو اُن کو اتنا علم مل گیا جس سطح کا اُس دور کا پیغام تھا۔علم مسلمانوں کے پاس وہی ہے۔ یہود و نصاریٰ کےپاس بھی وہی ہے۔ لیکن علم کی سطح یا ڈگری کا فرق ہے۔ مسلمانوں کے پاس Greater degree علم ہے۔ اس کے مثال یہ کہ جیسے ایک کتاب کے 1920ء کے ایڈیشن میں وہ علم نہیں ہوگا جو اُسی کتاب کے 1980 ء کے ایڈیشن میں ہوگا۔ عقل مند انسان وہی ہے جو کتاب کے Latest ایڈیشن کو Follow کرے گا ۔
اہل کتاب کے راندہ درگاہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اللہ کے آخری پیغام اور آخری نبیﷺ کو تسلیم نہیں کیا۔
اقتباس از "فقیر رنگ" صفحہ 30،31
سید سرفراز شاہ صاحب
جواب: جب تک ہم اپنے ذہنوں سے یہ بات نہیں نکالیں گے کہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مذاہب کے پیروکار بھی اللہ کے بندے اور انسان ہیں تب تک ہم بھول بھلیوں میں گم رہیں گے۔ ہمارے ذہن میں یہ خیال بیٹھ گیا ہےکہ صرف ہم ہی اللہ کے بندے ہیں اور رب صرف ہمارا ہی ہے حالانکہ قرآن پاک میں واضح طور پر ذکر ہے کہ ہاں اہل کتاب میں سے کچھ لوگ صاحب علم ہوتے ہیں۔ دراصل ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم آپﷺ سے قبل آنے والے تمام انبیاء اور قرآن پاک سے قبل نازل ہونے والی تمام الہامی کتم پر ایمان لانے کا وعدہ کرچکےہیں ۔ فرق محض اتنا سا ہے کہ رب تعالیٰ کاپیغام ہمیشہ اُس دور کے لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق صحیفوں اور الہامی کتب کی صورت میں نازل ہوتا رہا اور مختلف پیغمبر اللہ کے اُس پیغام کو Remind کراتے چلے گئے۔حتیٰ کہ انسانی ذہنی ارتقا پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صورت اپنا پیغام مکمل کرکے Declare کردیا کہ آج میں نے تمہارے لیئے دین تمہارا دین مکمل کردیا ہے ۔ (سورہ المائدہ:3) لہٰذا اللہ کا پیغام جس دورکے لوگوں کے لئے تھا اُنہوں نے اگر اللہ کے Latest پیغام اور Latest پیغمبر کو Follow کیا تو اُن کو اتنا علم مل گیا جس سطح کا اُس دور کا پیغام تھا۔علم مسلمانوں کے پاس وہی ہے۔ یہود و نصاریٰ کےپاس بھی وہی ہے۔ لیکن علم کی سطح یا ڈگری کا فرق ہے۔ مسلمانوں کے پاس Greater degree علم ہے۔ اس کے مثال یہ کہ جیسے ایک کتاب کے 1920ء کے ایڈیشن میں وہ علم نہیں ہوگا جو اُسی کتاب کے 1980 ء کے ایڈیشن میں ہوگا۔ عقل مند انسان وہی ہے جو کتاب کے Latest ایڈیشن کو Follow کرے گا ۔
اہل کتاب کے راندہ درگاہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اللہ کے آخری پیغام اور آخری نبیﷺ کو تسلیم نہیں کیا۔
اقتباس از "فقیر رنگ" صفحہ 30،31
سید سرفراز شاہ صاحب