سوال: اللہ کی نعمتوں کا شکر کس انداز میں کیا جا سکتا ہے ؟
جواب: کچھ لوگ اُٹھتے بیٹھتے با آواز بلند کہتے ہیں "شُکر الحمدللہ"۔۔۔ لیکن میرے نزدیک اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بہتر طریقہ یہ کہ ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو خود بھی Enjoy کریں اور دوسروں میں بھی تقسیم کریں بالخصوص اپنے مخالفین کو ان نعمتوں میں حصہ دار بنالیں۔ اس سے ہمارا سرکش نفس بھی کنٹرول میں رہتا ہے اور ہماری Training بھی ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ہر لمحہ خود کو سمجھاتے رہیں گے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے یہ میرا نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی عطا ہے اور جب میرا کچھ ہے ہی نہیں تو میں اس سے دوسروں کو کیسے محروم کرسکتا ہوں۔لہٰذا جتنا اس پر میرا حق ہے اتنا ہی میرے دشمنوں کا حق بھی ہے۔ ہمارے اس رویے سے نفس کی سرکشی بہت حد تک ختم ہوجائے گی۔ جب ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو کھلے ہاتھوں تقسیم کریں گے تو نعمتیں بڑھادی جائیں گی۔ اللہ کو بندے کا یہ عمل بہت پسند ہے کہ اُس کی نعمتیں اُن بندوں تک پہنچادی جائیں جو ان نعمتوں کے حوالے سے زیادہ خوش قسمت نہیں ہیں۔
سید سرفراز شاہ صاحب
کتاب "فقیر نگری" صفحہ40
جناب عالی کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے اس مقصد کے لیئے ٹیم ورک کی ضرورت ہے ہمارے معاشرے میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہیئے جو کہ اس قسم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو ۔۔۔باتیں کرنے سے کیا ہوتا ہے مجھے سرفراز شاہ صاحب سے زیادہ باتیں آتی ہیں۔بہرحال بندہ جو نیچے تحریر کررہا ہے وہ آپ کے دل کی آواز بھی ہے اور ساری بات کھول کر بھی بیان کررہاہوں یار مجھے مت چھیڑا کرو آپ کی مہربانی ہوگی مجھے کچھ خاص علمیت جھاڑنے کا شوق نہیں ہے۔
صوفیاءکرام کی روحانی تبلیغ کا مقصد تھا لوگوں کو صاحبِ رسیدُ یافت بنانا اور مکمل نفسِ مطمنہ حاصل کرنا یہ غالباً صلحِ کل کے بغیر دشوار و ناممکن ہے سب سے بڑا سکھ اور راحت اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب تعصب اور حسد سے پاک دل مل جائے بغض و کینہ نام کو نہ رہے سب کو ایک نظر سے دیکھے چھوٹی چھوٹی باتوں سے کافر اور ملحد کے القابات سے ایک دوسرے کو نہ نوازے
(ایک زمانے میں سرسید احمد خان کو اس بات و نظریہ پر بڑی گالیاں پڑیں)
حافظا ! گر وصل خواہی صلح کل بہ خاص و عام
بہ مسلماں اللّٰہ اللّٰہ ، بہ برہمن رام رام (حافظ شیرازی)
اور یہ خصوصیات ایک صوفی کمال مشقتوں کے بعد اور صحبت کی تاثیر سے طالب میں پید کرسکتا ہے اگر ہم علمی نقطہِ نظر سے دیکھیں توطبیعت کا گداز یا دل کا رقت زدہ ہونا انسانی نفس کی ایک خاص امنگ یا ہیجان ہے یہ ایک خاص حالت ہے جسے حال کہا جاتا ہے یہ قال نہیں ہے
قال رابہ گزار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملِ پامال شو(روم)
یہ امنگ یا ھیجان یا دوسرے لفظوں میں حال، کسی مرشدِ روحانی کے زیرِ سایہ رہنے سے یا خود جب اپنی ہستی پر غورو فکر کرتا ہے تو ایک خاص نتیجے پر پہنچتا ہے جو ایک خاص ہیجان پیدا کرتا ہے جسے حال کہا جا تا ہے یا نسبت کے ناموں سے تعبیر کیا جا تا ہے اس امنگ یا ھیجان یا حال کا باعث القا ،الہام اور کشف ہوتے ہیں جو اس امنگ یا ھیجان کو وجد و جذب اور قرب کی کیفیات میں ڈھال کر ایک نسبتِ ربطِ قربِ الہٰی پیدا کردیتے ہیں اورریہ نسبت یا تو عشق و قرب و محبت کا جذبہ بیدار کرتی ہے یا پھر جذب و مستی، وحدت الوجود یا وجد و سکینہ یا یاداشت کی حالت کو نفس میں پیوست کردیتی ہے اس نسبت اور کیفیت خاص کی وجہ سے نفس میں چھپی ہوئی قوتیں فعال و بیدار ہوکر اس سالک یا صوفی کے کاموں میں اور اس اسکے پاس آنے والوں کے کاموں میں معاون اور مددگار ہوتی ہیں اور اس سالکِ راہِ مستقیم کی فلاح و بہبود میں کوشاں ہوجاتی ہیں اور انسان اسی مادی دنیا میں بہشت اور اطمینانِ کامل سے لذت یاب ہوکر برد لاعیش فی الدنیا والآخرکا مزہ چکھ لیتا ہے حقانیت کا مشاہدہ تصوف ہی کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کے احساس وادراک کو” حقیقت“ کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس مشاہدہ کی لذت فردوس کی ہر بڑی سے بڑی لذت سے بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔
غور و غوص یا صحبتِ مرشد سے امنگ یا ہیجان پیدا ہوتا ہے نفس کی امنگ کی ہر حالت کو جسکو انگریزی میں Attitudeکہتے ہیں اسکے کم وبیش ۳ پہلو ہوتے چونکہ تصوف کا تعلق نفس سے ہے اس لیئے یہاں کسی قدر وضاحت کی ضرورت ہے کہ نفس کس کو کہتے ہیں انسان جسکو ” میں“ کہتا ہے اور جسکو ” تُو “ اور ” وہ“ ہے الگ سمجھتا ہے اسکو اصطلاحاً ” ایغو“ کہتے ہیں جسکو ہر شخص عام زبان میں میرا نفس ، میرا دل کہتا ہے ۔
۱۔ کسی چیز کو اپنے لیئے حاصل کرنے کی کوشش مثلاً کو ئی غذا اپنے لیئے کسی نہ کسی ترکیب سے پیدا کرنے کی سعی میرے ایغو کا خاصہ ہے جسکو اصطلاحاً ” ھیجہ“ کہتے ہیں
۲۔ کیا چیز مجھے کیسے مل سکتی ہے اس کا جاننا اور پہچاننا مثلاً سیب کیا ہے اور کیوں مل سکتاہے اس کا علم میرے ایغو کا لوازمہ ہے جسکو اصطلاحاً ” وجدہ“ کہتے ہیں ۔
۳۔ کسی چیز کے احساس سے میرے جسم کے اندرونی حالات میں تبدیلی واقع ہونا مثلاً خوش نما سیب کو دیکھ کر منہ میں پانی بھر آنا جو ایک قسم کا جذبہ ہے وہ میرے ایغو کی قوت ہے جسکو اصطلاحاً ”جذبہ“ کہتے ہیں ۔
پس ۳ چیزیں سعی ، علم، جذبہ یا اصطلاحاً ھیجہ، وجدہ، جذبہ ایغو کے ۳ پہلو ہیں جو میری خواہش یا شغف میں جمع رہتے ہیں۔
وجد۔ جذبہ ،ھیجہ یہ تینوں کیفیات مختلف انسانوں پر مختلف اوقات میں طاری رہتی ہیں چونکہ طبائع انسانی مختلف ہیں ہر ایک کی طبیعت کے مطابق اسکی ایک روحانی مسرت اور اورا منگ ہوگی کسی کی طبیعت میں جذبہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ وجدہ و ھیجہ کو دبا رکھتا ہے اور کسی کے نفس میں ھیجہ ”ہیجان“ اس قدر شدت سے ہوتا ہے کہ اسکے مقابل نسبتاً وجدہ و جذبہ قلیل ہوتا ہے۔
صوفیاءکے وجد اور جذب کے احوال و نسبتوں سے قطع نظر سالکین کے ہیجانِ نفس کو پیشِ نظر رکھیں گے غرض تصوف نفسِ انسان کی ایک امنگ اور تہیج (ابھرنا،مشتعل،برانگیختہ) کی حالت کا نام ہے جو تصوف کا نتیجہ یا ما حاصل ہے اور تصوف یہی ہے کہ کوئی شخص Individualجو اپنے آپ کو لفظ ” میں “ سے منسوب کرلیتا ہے ۔
ا۔ میں کیا اور کون ہوں ؟چہ؟
ب۔ میں کیوں یہاں آیا ہوں؟ چوں؟
ج۔ میں کس لیئے یہاں ہوں ؟ چرا؟
اگر ان تینوں سوالوں کے جوابات اسکی تسلی و تشفی کے مطابق اسکو مل جائیں اور اسکو اس پر یقین آجائے تو وہ صوفی ہو جاتا ہے اس وقت اسکے نفس میں جو خاص ہیجان یا تہیج پیدا ہوتا ہے وہی اسکے غور کا نتیجہ یا ماحاصل ہوتا ہے جسے تصوف یا روحانیت کہتے ہیں اس تصوف کا اثر جو اسکے اطوار و اقوال و افعال پر پڑے گا وہی اسکا سلوک ہوگا اگرچہ ہر شخص کا تصوف ایک ہی وضع کا ہوتا ہے لیکن کہا نہیں جاسکتا ہے کہ اس تصوف کا لازمی نتیجہ ایک ہی ہوگا کیونکہ ہر ایک سبب کے نتائج متعدد و مختلف ہوتے ہیں۔
جیسے سورج کی گرمی سے موم پگھلتا ہے
کیچڑ سخت ہوجاتا ہے
پانی بخار بن کر اڑ جاتا ہے
اسی طرح ہر شخص کی طبیعت یا خصلت یا مزاج جدا گانہ ہونے سے ہر آدمی کا تصوف ، نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے جداگانہ ہوتا ہے۔
جس علم سے عمل ظہور میں آئے جس تصوف کا اثر جو سلوک (Behavior)ہے وہی اسکی نیکی یا بدی کا پیمانہ (Standard)ہے کسی صوفی کا سلوک غیظ و غضب (Emotional)پیدا کرنے والا جلالی ہوتا ہے اور کسی کا امن و امان پیدا کرنے والا جمالی ہوتا ہے لیکن علیٰ العموم صوفیاءاپنے مریدوں میں ایسا تصوف اور ایسا سلوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے یہی عالم جس کو ہم دنیا کہتے ہیں مرید کے حق میں بہشت ہوجاتا ہے اور وہ مرید اپنے ماحول کو فردوس(Haven) بنانے کی کوششِ بلیغ کرتا ہے۔
تصوف کی حالت اگر بار بار کسی نفس پر طاری ہوتی ہے تو اس کے جذبہ میں کچھ ایسی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ اسی میں رہنے کے واسطے بلاتامل اپنا تن من دھن وقف کردیتا ہے۔وہ اپنے نفس مطمنہ ہی کو اپنے واسطے ہزار بہشت کی ایک بہشت سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہر شئے و ہر شخص میں دیکھتا ہے(یعنی لذتِ سریان) گویا وہ شخص خود اپنے آپ ہے یا وہ شئے یا اس شئے کی صفت خود آپ میں ہے اسکے نزدیک کوئی غیریت نہ ہوگی ہر ” میں “ کہنے والے کو وہ خود آپ ہی سمجھے گا ہر چیز کے حسن و قبیح میں اپنے آپ کو پائے گا دوسروں کے اغراض کواپنے اغراض تصور کرے گا۔
جب کسی فرقہ یا گروہ کے افراد میں سے اسطرح غیریت اٹھ جائے اور ہر ایک اپنے اغراض کو دوسروں کے اغراض کے مخالف تو کیا یکساں بلکہ ایک ہونا خیا ل کرے گا تو اس گروہ میں صلح و امن کی ایسی لہر پیدا ہوجائے گی جس کے دیکھنے والے یہی کہیں گے
اگر فردس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
یہاں جس فردوس و بہشت کا ذکر ہے وہ محض نفس کا ایک وجدان ہے جو صوفیوں کے مدِ نظر رہا کرتا ہے
ساتھ ہی اسکے، صوفیوں کو اس کا علم و احساس بھی رہتا ہے کہ اپنے م¶جودہ زمانے میں وجدان کا کامل وجود، امکان سے باہر ہے
مگر ان کا خاصہ یہ ہے کہ ان کے مقاصد کے حصول کے لیئے جس قدر زیادہ کوشش کی جاتی رہے اس کوشش میں جس قدر کامیابی جس حد تک حاصل ہوتی رہے اسی قدر زیادہ خوشی انفراداً زیادہ، بہبودی اجما عاً ہوتی ہے اس مقصد کے لیئے ہم اپنے ذرائع کو استعمال کرسکتے ہیں۔
کیا موجودہ پیران حضرات اور علمائے اس پر عمل کرتے ہیں پیران کرام کو اپنے چوموانے اور علماء کو اپنی علمیت جھاڑنے اور تعریف سننے سے ہی فرصت نہیں ہے۔
میرے خیال سے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا خوش رہو فراز عرف بابا جی