سینئر صحافی حامد میر پر جیو نیوز کی جانب سے پابندی عائد

جاسم محمد

محفلین
حامد میر پر جیو نیوز کی جانب سے پابندی عائد
جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اینکرپرسن حامد میر غیر معینہ مدت تک جیو ٹی وی کے معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی نہیں کر پائیں گے۔
محمد ثاقب تنویر
سوموار 31 مئی 2021 13:30
sharethis.svg

149431-1650993867.jpg



حامد میر 2002 سے جیوز نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی کر رہے ہیں(فائل تصویر: اے ایف پی)

جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اینکرپرسن حامد میر جیو ٹی کے معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی آج نہیں کریں گے۔

جیو انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق حامد میر کو چند دنوں کی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔

حامد میر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو پروگرام آف ایئر کیے جانے تصدیق کی ہے۔

ذرائع کے مطابق حامد میر کو نوکری سے برخواست کرنے کے لیے جیو نیوز پر شدید دباؤ بھی ہے۔

وہ گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خبروں میں ہیں۔ گذشتہ جمعے کو اسلام آباد میں صحافی اسد علی طور پر حملے کے خلاف ہونے احتجاج میں حامد میر نے اپنے خطاب میں پاکستانی فوج کے افسران پر نام لیے بغیر شدید تنقید کی تھی۔

حامد میر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اگر صحافیوں کو گھر میں گھس کر مارا جائے گا تو صحافی گھر میں گھس کر تو نہیں مار سکتے مگر ہم آپ کے گھر کی خبریں سامنے لائیں گے اور آپ کے نقاب نوچیں گے۔‘

جیو ٹی وی پر حامد میر کا پروگرام پاکستان کے سرفہرست ٹاک شوز میں سے ایک ہے۔ کیپیٹل ٹاک کا آغاز 2002 میں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک پروگرام جاری ہے۔ 2018 میں ایک دفعہ حامد میر نے جیو کو چھوڑا تھا تو اس وقت بھی پروگرام دوسرے میزبان کے ساتھ جاری رہا اور جب انہوں نے چینل کو دوبارہ جوائن کیا تو دوبارہ اسی پروگرام کی میزبانی شروع کی۔

اپریل 2014 میں حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حامد میر اگر اردو محفل کے رکن ہوتے تو اتنا کشٹ اٹھانے کے بجائے صرف یہ شعر پڑھ کر بھی پورا قصہ بیان کر سکتے تھے
؎ مقام ’’فیضؔ‘‘ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
:)
نوٹ: کوئے یار اور دار کی جغرافیائی لوکیشن بوجھیں اور لیٹسٹ ماڈل کی ٹویوٹا ویگو کی سیر کا موقع حاصل کریں ۔۔۔ یہ پیشکش لامحدود مدت کے لیے ہے۔
 
برطانیہ میں میڈیا پر بے بنیاد الزامات بھی نہیں لگائے جاتے کہ اس سے ہتک عزت کی مد میں ہزاروں پاؤنڈ جرمانہ ہو جاتا ہے۔
English defamation law - Wikipedia
ڈیفیمیشن لاز پاکستان میں بھی موجود ہیں ۔۔۔ سو الزامات کے ’’بنیادی یا بے بنیادی‘‘ ہونے کا تعین لوگوں کی نوکریاں کھانے یا گھروں پر لڑکی کے بھائیوں کو بھیجنے کے بجائے عدالتوں میں بھی کروایا جا سکتا ہے ۔۔۔ اب عدالتی التوا کا دکھڑا رونے مت بیٹھ جائیے گا ۔۔۔ کیونکہ جب فیض جاری ہونا ہوتا ہے تو بشیر، ارشد ملک اور بابا ریمتے جیسے اسٹوجز کے ذریعے روزانہ سماعتیں بھی کروا لی جاتی ہیں!
 
حامد میر، اسد طور، عرفان صدیقی اور مطیع اللہ جان وغیرہ پر حملے کچھ اس انداز میں ایک جانب اشارہ کررہے تھے کہ شروع میں پولیس نے بھی ایف آئی آر نہیں کاٹی۔ ہاں اگر یہ ایجنسی ذمہ دار نہیں ہے تو شاید کوئی حکومتی ایجنسی ذمہ دار ہوگی؟ پولیس کو یقیناً اشارے ملے ہوں گے کہ آپ ہاتھ نہ ڈالیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حامد میر، اسد طور، عرفان صدیقی اور مطیع اللہ جان وغیرہ پر حملے کچھ اس انداز میں ایک جانب اشارہ کررہے تھے کہ شروع میں پولیس نے بھی ایف آئی آر نہیں کاٹی۔ ہاں اگر یہ ایجنسی ذمہ دار نہیں ہے تو شاید کوئی حکومتی ایجنسی ذمہ دار ہوگی؟ پولیس کو یقیناً اشارے ملے ہوں گے کہ آپ ہاتھ نہ ڈالیں۔
اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ دنیا کی لمبر ون ایجنسی صحافیوں کا اغوا اور ان پر تشدد کرنے والوں کو خود پکڑ کر قانون کے حوالہ کرے اگر واقعی اس کا تعلق ان واقعات سے نہیں ہے۔
اسد طور پر حملہ: آئی ایس آئی کا واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار
 
لاڈلے کا بھی سب کو پتہ ہے کہ کینہ پرور آدمی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ریویو پٹیشن کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اپنے بغض سے باز نہیں آ رہا ہے۔ صحافیوں کو بھی علم ہے کہ کس نے ان کی نوکریاں تیل کی ہیں۔

یعنی عین ممکن ہے کہ ان صحافیوں پر حملوں میں حکومتی ایجنسی شامل ہو۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
لاڈلے کا بھی سب کو پتہ ہے کہ کینہ پرور آدمی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ریویو پٹیشن کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اپنے بغض سے بعض نہیں آ رہا ہے۔
ستمبر ۲۰۲۳ میں جسٹس فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان بنیں گے۔ اگلا الیکشن اکتوبر ۲۰۲۳ میں ہوگا۔ ان کو ڈر ہے کہ وہ آتے ساتھ کہیں ایسے اقدامات نہ کر دیں جس سے مفرور و سزا یافتہ سیاسی مخالفین کیلئے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ اس لئے ان کو اس سے قبل ہی عہدہ سے ہٹانے پر کام ہو رہا ہے۔
 
ستمبر ۲۰۲۳ میں جسٹس فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان بنیں گے۔ اگلا الیکشن اکتوبر ۲۰۲۳ میں ہوگا۔ ان کو ڈر ہے کہ وہ آتے ساتھ کہیں ایسے اقدامات نہ کر دیں جس سے سیاسی مخالفین کیلئے الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے۔ اس لئے ان کو اس سے قبل ہی عہدہ سے ہٹانے پر کام ہو رہا ہے۔
اونٹ کے بغض کی مانند بغضِ عمران
 

جاسم محمد

محفلین
اونٹ کے بغض کی مانند بغضِ عمران
دراصل پاکستان کا کرپٹ نظام ایسا ہے کہ یہاں مزاحمت کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ جب تک عمران جرنیلوں کیخلاف مزاحمت کرتے رہے ان کو اقتدار کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ جرنیلوں سے صلح کے بعد حکومت مل گئی اور دوران اقتدار بھرپور حمایت بھی۔
جسٹس فائز عیسی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی، صحافی حامد میر، صحافی طلعت حسین اور جو کوئی بھی سیاست دان اس جرنیلی مافیا کو للکارنے کی جرات کریگا۔ اس کو نظام سے ہی باہر دھکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اس مسئلہ کا عملی حل آپ خود ہی تجویز کر لیں۔
 
دراصل پاکستان کا کرپٹ نظام ایسا ہے کہ یہاں مزاحمت کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ جب تک عمران جرنیلوں کیخلاف مزاحمت کرتے رہے ان کو اقتدار کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ جرنیلوں سے صلح کے بعد حکومت مل گئی اور دوران اقتدار بھرپور حمایت بھی۔
جسٹس فائز عیسی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی، صحافی حامد میر، صحافی طلعت حسین اور جو کوئی بھی سیاست دان اس جرنیلی مافیا کو للکارنے کی جرات کریگا۔ اس کو نظام سے ہی باہر دھکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اس مسئلہ کا عملی حل آپ خود ہی تجویز کر لیں۔
ہم تو ان کوششوں میں آپ کی میڈیا ٹیم کی بھرپور شرکت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

وفاداری بشرطِ استواری۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم تو ان کوششوں میں آپ کی میڈیا ٹیم کی بھرپور شرکت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وفاداری بشرطِ استواری۔۔۔۔۔
میرے تو خیال میں اگر جرنیلی مافیا کے خلاف مزاحمت ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے تو پھر شیخ مجیب الرحمان کی طرح کریں اور آخری حد (انقلاب و خانہ جنگی) تک اسے لے کر جائیں۔ درمیان میں اس مافیا کیساتھ کسی قسم کی مفاہمت نہ کریں۔ وگرنہ موجودہ طرز کی “پھوکی” مزاحمت کا پہلے کچھ عملی فائدہ ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ الٹا مزاحمت کرنے والے ایک ایک کر کے نظام سے باہر کئے جاتے رہیں گے۔
 

وسیم

محفلین
لاڈلے کا بھی سب کو پتہ ہے کہ کینہ پرور آدمی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ریویو پٹیشن کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اپنے بغض سے بعض نہیں آ رہا ہے۔ صحافیوں کو بھی علم ہے کہ کس نے ان کی نوکریاں تیل کی ہیں۔

یعنی عین ممکن ہے کہ ان صحافیوں پر حملوں میں حکومتی ایجنسی شامل ہو۔
بغض سے بعض کیا ہوتا ہے؟
اگلے دن تو املاء پہ بہت لیکچر دے رہے تھے۔

عین ممکن ہے کہ ان صحافیوں پہ حملوں میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی ملوث ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ستمبر ۲۰۲۳ میں جسٹس فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان بنیں گے۔ اگلا الیکشن اکتوبر ۲۰۲۳ میں ہوگا۔ ان کو ڈر ہے کہ وہ آتے ساتھ کہیں ایسے اقدامات نہ کر دیں جس سے مفرور و سزا یافتہ سیاسی مخالفین کیلئے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ اس لئے ان کو اس سے قبل ہی عہدہ سے ہٹانے پر کام ہو رہا ہے۔
یہ نہ تو کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی حل۔ مثال کے طور پر اگر وزیر اعظم اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مئی 2023ء میں اسمبلیاں توڑ دیتا ہے تو اگست 2023ء تک اگلے الیکشنز مکمل ہو کر نئی حکومت بن جائے گی۔ یعنی جسٹس موصوف کے تخت تک پہنچنے سے پہلے یہ مرحلہ مکمل ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جسٹس موصوف کی تیرہ مہینوں کی کرسی ہے جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے!
 

وسیم

محفلین
یہ نہ تو کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی حل۔ مثال کے طور پر اگر وزیر اعظم اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مئی 2023ء میں اسمبلیاں توڑ دیتا ہے تو اگست 2023ء تک اگلے الیکشنز مکمل ہو کر نئی حکومت بن جائے گی۔ یعنی جسٹس موصوف کے تخت تک پہنچنے سے پہلے یہ مرحلہ مکمل ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جسٹس موصوف کی تیرہ مہینوں کی کرسی ہے جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے!

یہ پہلے ہی اتنا ذلیل ہو چکا ہے کہ بیچارہ چیف جسٹس بنے گا تو اس کی عدالت پہ سو سو اعتراض ویسے ہی اٹھ جائیں گے۔
 
Top