یونس
محفلین
آغا گُل کے افسانے ’’شوُدر‘‘ سے اقتباس :
۔۔۔ مندر کے سامنے میدان میں درختوں کا جھنڈ تھا۔گھنے سائے میں درخت کے نیچے آلتی پالتی مارے ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیے مادھو بیٹھا تھا۔ اس کا رخ مندر کے کھلے دروازے کی جانب تھا۔ جہں سے کرشن بھگوان کی مورتی دکھائی دے رہی تھی۔ بانسری بجانے والا مکٹ سجائے محبتیں بانٹنے والا‘ جس نے ساڑھے تین ہزار برس قبل وحدت الوجود کا فلسفہ دیا تھا۔
مادھو کے چہرے پہ سکون تھا۔ عبادت کرتے ہوئے اس کے چہرے پہ ایک حسن اتر آیاتھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں‘ پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ اس کے آنسو دہکتی ہواؤں نے کسی مہربان ماں کی طرح خشک کر دیے تھے۔ صرف نشان سے رہ گئے تھے۔ جیسے بلوچستان کے خشک دریاجن میں سب کچھ ہوتا ہے ، پانی نہیں ہوتا۔ تپتے پتھروں کی سفیدگزر گاہیں پڑی ہوتی ہیں۔
میں نے قریب جا کر شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ ’’مادھو مادھو!‘‘ اس کامراقبہ ٹوٹ گیا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں جن میں خوشیاں تیر رہی تھیں، آنسوؤں میں ڈوبی ڈوبی۔
’’مادھو! تم اندر کیوں نہیں چلے جاتے۔ کرشن بھگوان کے قدموں میں؟ جاؤ اندر چلے جاؤ۔ اتنی دور سے عبادت کر رہے ہو؟ شکنتلا کے پاس تو جانا چاہتے ہو اور بھگوان سے دور رہتے ہو جو دلوں میں محبتیں ڈالتا ہے۔جو مکمل محبت ہے۔‘‘
’’شاب جی! مجھے لگتا ہے محبت کرنے والے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ میں شودر ہوں میں مندرکے اندر نہیں جا سکتا۔ بھگوان کو دور ہی سے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
مجھے تاسف ہوا ’’بیچارہ! کاش یہ مسلمان ہوتا، دھڑسے مسجد میں چلا جاتا۔ ہندو مت کیا ہے کہ پوجا کرنے والوں پہ بھی پابندی لگاتا ہے۔‘‘
میں نے اسکا احساس کمتری مٹانے کے لیے موضوع بدل دیا۔
’’شکنتلا کہاں ہے؟‘‘
’’اسکے بھائی کا فون تھا وہ خود مجھے لینے کے لیے آرہا ہے۔صبح تک پہنچ جائے گا۔‘‘
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم شکنتلا کو لے کر میرے پاس آ جاؤ۔‘‘ میں متوقع تنہائی سے خائف تھا۔مادھو ٹال سا گیا۔
باتیں کرتے ہوئے ہم ساتھ ساتھ چلتے ہندو محلہ سے باہر نکل آئے۔ سورج کی تمازت دم توڑ چکی تھی۔ مسجدوں میں اذانیں بلند ہو رہی تھیں۔ ہم امام بارگاہ کے قریب سے گزرے۔ اگلی مسجد اہلحدیث کی تھی، اس کے بعد اہلسنت کی مسجد تھی، لشکرطیبہ والوں کی مسجد تھی، پھر سپاہ محمد کی مسجداور تھوڑی دور جماعت المسلمین کی مسجد بھی تھی۔ ہر مسجد سے اذانیں بلند ہو رہی تھیں۔ فضامیں تقدیس تھی۔ اذان تو ایک ہی تھی جو ہر مسجد کے مینار سے بلند ہو رہی تھی ، مگر مسجدیں الگ الگ تھیں ، جدا جدا تھیں ، بے شمارتھیں۔ آگے پیچھے دائیں بائیں مساجد تھیں۔ میرے فقہ کی مسجد دور تھی۔ اس لیے میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ مادھو ایک ایک مسجد کو عقیدت سے دیکھتا پھر مجھے غور سے دیکھتا، مگر میں بڑھے ہی چلا جا رہا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔
’’شاب جی! اتنی مسجدیں گزریں۔ آپ ایک مسجد میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ شاب جی! آپ بھی شودر ہیں کیا مسلمانوں کے؟‘‘
(ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ‘ نومبر 2013 )
۔۔۔ مندر کے سامنے میدان میں درختوں کا جھنڈ تھا۔گھنے سائے میں درخت کے نیچے آلتی پالتی مارے ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیے مادھو بیٹھا تھا۔ اس کا رخ مندر کے کھلے دروازے کی جانب تھا۔ جہں سے کرشن بھگوان کی مورتی دکھائی دے رہی تھی۔ بانسری بجانے والا مکٹ سجائے محبتیں بانٹنے والا‘ جس نے ساڑھے تین ہزار برس قبل وحدت الوجود کا فلسفہ دیا تھا۔
مادھو کے چہرے پہ سکون تھا۔ عبادت کرتے ہوئے اس کے چہرے پہ ایک حسن اتر آیاتھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں‘ پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ اس کے آنسو دہکتی ہواؤں نے کسی مہربان ماں کی طرح خشک کر دیے تھے۔ صرف نشان سے رہ گئے تھے۔ جیسے بلوچستان کے خشک دریاجن میں سب کچھ ہوتا ہے ، پانی نہیں ہوتا۔ تپتے پتھروں کی سفیدگزر گاہیں پڑی ہوتی ہیں۔
میں نے قریب جا کر شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ ’’مادھو مادھو!‘‘ اس کامراقبہ ٹوٹ گیا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں جن میں خوشیاں تیر رہی تھیں، آنسوؤں میں ڈوبی ڈوبی۔
’’مادھو! تم اندر کیوں نہیں چلے جاتے۔ کرشن بھگوان کے قدموں میں؟ جاؤ اندر چلے جاؤ۔ اتنی دور سے عبادت کر رہے ہو؟ شکنتلا کے پاس تو جانا چاہتے ہو اور بھگوان سے دور رہتے ہو جو دلوں میں محبتیں ڈالتا ہے۔جو مکمل محبت ہے۔‘‘
’’شاب جی! مجھے لگتا ہے محبت کرنے والے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ میں شودر ہوں میں مندرکے اندر نہیں جا سکتا۔ بھگوان کو دور ہی سے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
مجھے تاسف ہوا ’’بیچارہ! کاش یہ مسلمان ہوتا، دھڑسے مسجد میں چلا جاتا۔ ہندو مت کیا ہے کہ پوجا کرنے والوں پہ بھی پابندی لگاتا ہے۔‘‘
میں نے اسکا احساس کمتری مٹانے کے لیے موضوع بدل دیا۔
’’شکنتلا کہاں ہے؟‘‘
’’اسکے بھائی کا فون تھا وہ خود مجھے لینے کے لیے آرہا ہے۔صبح تک پہنچ جائے گا۔‘‘
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم شکنتلا کو لے کر میرے پاس آ جاؤ۔‘‘ میں متوقع تنہائی سے خائف تھا۔مادھو ٹال سا گیا۔
باتیں کرتے ہوئے ہم ساتھ ساتھ چلتے ہندو محلہ سے باہر نکل آئے۔ سورج کی تمازت دم توڑ چکی تھی۔ مسجدوں میں اذانیں بلند ہو رہی تھیں۔ ہم امام بارگاہ کے قریب سے گزرے۔ اگلی مسجد اہلحدیث کی تھی، اس کے بعد اہلسنت کی مسجد تھی، لشکرطیبہ والوں کی مسجد تھی، پھر سپاہ محمد کی مسجداور تھوڑی دور جماعت المسلمین کی مسجد بھی تھی۔ ہر مسجد سے اذانیں بلند ہو رہی تھیں۔ فضامیں تقدیس تھی۔ اذان تو ایک ہی تھی جو ہر مسجد کے مینار سے بلند ہو رہی تھی ، مگر مسجدیں الگ الگ تھیں ، جدا جدا تھیں ، بے شمارتھیں۔ آگے پیچھے دائیں بائیں مساجد تھیں۔ میرے فقہ کی مسجد دور تھی۔ اس لیے میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ مادھو ایک ایک مسجد کو عقیدت سے دیکھتا پھر مجھے غور سے دیکھتا، مگر میں بڑھے ہی چلا جا رہا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔
’’شاب جی! اتنی مسجدیں گزریں۔ آپ ایک مسجد میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ شاب جی! آپ بھی شودر ہیں کیا مسلمانوں کے؟‘‘
(ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ‘ نومبر 2013 )