سلامتی ہو آپ پر ۔۔۔!
بُہت خوبصورت طریقے سے بات کی آپ نے ۔۔۔جس کے لیئے مین تہہ دل سے آپ کی مشکور ہوں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف رکھے ۔۔۔۔ میںچونکہ اُن خاتون کو نہیں جانتی ۔۔۔۔جن کا آپ ذکر کر رہے ہیں ۔۔ سو میں اُن کے بارے میںکچھ نہیں کہوں گی ۔۔۔۔۔نہ مُجھے کوئی حق ہے ۔۔۔۔مگر وہی بات کہ ۔۔۔شاگرد چونکہ اپنا بھی دماغ رکھتے ہیں، وہ اپنے اُستاد کی تعلیم کو کس رنگ سے لیتے ہیں۔۔۔یہ اُن کا اپنا کردار اور عمل ہے ۔۔۔۔میری آپ سے یہی ایک درخواست تھی بھائی کہ ،،،ادارہ تعلیم دیتا ہے مگر کوئی بھی سٹوڈنٹ اُس کو کیسے لیتا ہے ، یہ اُس کا اپنا ذہن ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر رکھے آمین۔۔اور اقوال کا نہیں کردار کا مسلم بنائے ۔۔آمین ثُم آمین۔۔۔میری کسی بات سے اگر آپ دل برداشتہ ہوئے ہوں تو معذرت خواہ ہوں ۔۔مگر جن صاحبہ نے یہ ادرارہ بنایا ہے ۔۔برائے مہربانی ایک بار اُن کو با لکل نیوٹرل ہو کے سُنیں ۔۔۔انشاء اللہ ۔ آپ اپنی جاننے والی خاتون کے حق میںبہتری کی دعا کریں گے ۔۔کہ وہ اپنی اُستاد کی سکھائی ہوئی راہ سے الگ ہو رہی ہیں۔۔۔بہرحال ۔۔بُہت شکریہ ۔۔۔اور میری درخواست پر برائے مہربانی غور کیجیئے گا۔۔میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو کبھی دستانے پہنے نہیں دیکھا، میں نے بارہا اُن کے لیکچرز کلچرل سینٹر ابو ظہبی میں جا کر سُنے ہیں۔۔اللہ تعالٰی ڈاکٹر صاحبہ کو نیکی کا پورا پورا اجر دے آمین۔۔۔۔ آپ کو کل میںنے ایک لنک دیا تھا اس http://en.wikipedia.org/wiki/Farhat_Hashmi لنک پر آپ دیکھ سکتے ہیں یہ ٹی وی کے ایک پروگرام کی تصویر ہے صاحبہ نے کوئی دستانے نہیں پہنے ۔۔۔۔۔دین میںکوئی سختی نہیں۔۔۔۔تبلیغ۔۔۔عورت کا کام ہے یا نہیںیہ مجھے نہیں معلوم مگر ۔۔۔تعلیم القرآن و حدیث ۔۔ جو اس ادارے میں دی جاتی ہے ۔۔۔وہ۔عورت ہی عورت کو صحیح فراہم کر سکتی ہے ۔۔۔یہی اس ادارے میں سکھایا جاتا ہے ۔۔احترامَ انسانیت ۔۔۔اور معاشرے میں بہتری لانے کی کوشش ہے ۔۔اللہ ہمیںسب کو اچھائی کو توفیق دے آمین۔۔۔۔خوش رہیئے ۔۔۔۔جزاک اللہ خیر۔۔۔!
ہُما بہنا اللہ آپ کو ڈھیروں خوشیاں عطا فرمائے اور آپ کی طلبِ علم کی پیاس کو بکمالِ رحم وکرم پورا فرمائے ۔ آمین۔
صرف ایک بات بتانی تھی کہ جن خاتون کا میں نے ذکر کیا وہ طالبہ نہیں معلمہ ہیں اور معلمہ بھی ڈاکٹر صاحبات کی جانشین معلمات میں سے۔ اس لئے یہ باتیںعرض کر دیں۔ اچھی بات کہنا اور سکھانا تو ایک مسلمان کا فرض ہے اور اس میں مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ البتہ بہت ضروری ہے کہ تعلیم دینے والے کے اپنے عمل کو اسی کی تعلیم کی کسوٹی سے پرکھ لیا جائے کیونکہ اثر الفاظ میں نہیں کہنے والے کی زبان میں ہوتا ہے۔ سچے آدمی کی زبان سے نکلی ہوئی بات آپ کو اللہ کے قریب لے کر جائے گی جبکہ جھوٹا اگرچہ وہی بات کہے گا پھر بھی وہ بات آپ کو اللہ سے دور لے کر جائے گی۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانی یہی تو دیکھ رہے ہیں۔ قرآن وہی ہے، حدیث وہی ہے اور پھر بھی کتنی مارا ماری ہے۔ ایسے فرقے آ گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ نہ تو لوگ مسلمان ہیں اور نہ مملکت لہٰذا ان کے ساتھ جو مرضی کرو۔ مسلمان کو مسلمانوں کو قتل کرنے کے فتاوا دئیے جا رہے ہیں اور مسلمان ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور سب دین کے نام پر۔ اسی لئے یہ عرض کرتا ہوں کہ آج کے دور میں یہ امر اور بھی ضروری ہے کہ دین کے متعلق کسی کی بات ماننے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ اس فرد کا اپنا عمل سُنت نبوی صلعم سے کتنا مماثل ہے اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم سے اس فرد کو کتنا قلبی لگاؤ ہے۔ جس کے پاس یہ نسبت نہیں وہ بات تو دین کی کرے گا مگر لے کر تباہی اور بربادی کے راستہ پر جائے گا۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
الھُدٰی کی بات اس لئے بیچ میں آگئی کہ ہماری ایک عزیزہ ہیں جو الھُدٰی کی ایک سرکردہ شخصیت ہیں اور ان کا اپنے ماموؤںسے بھی پردہ ہے۔