عبد الرحمٰن
محفلین
تصویر نمبر 80
اک عجب چیز ہے شرافت بھی
تصویر نمبر 71
حملہ آور کوئی عقب سے ہے
تصویر نمبر72
سجاد باقر رضوی
تصویر نمبر 73
سراج الدین ظفر
تصویر نمبر 74
سردار انجم
تصویر نمبر 75
لاجواب لیکن یہ شعر احمد فراز کا نہیں ہے آخری غزل ؟؟سردار انجم
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلےبھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
رہنمائی درکار ہےغم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلےبھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
نہیں ہم نے ریختہ میں سردار انجم کا ہی پڑھا ہے ویسے کبھی ہمیں بھی یہ شعر احمد فراز کا ہی لگتا تھالاجواب لیکن یہ شعر احمد فراز کا نہیں ہے آخری غزل ؟؟
چلیں میں نے کچھ ممبران کو ٹیگ کیا ہے ان کے کومنٹ بھی دیکھ لیتے ہیں کیا کہتے ہیںنہیں ہم نے ریختہ میں سردار انجم کا ہی پڑھا ہے ویسے کبھی ہمیں بھی یہ شعر احمد فراز کا ہی لگتا تھا
یہ اصل میں سردار انجم کی ہی غزل ہے لیکن اکثر احمد فراز کے نام سے منسوب کی جاتی ہے احمد فراز کے کلام میں یہ غزل موجود نہیںسردار انجم
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلےبھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
ہر قدم آگہی کی سمت گیا
تصویر نمبر 80
اگر گوگل انکل پر سرچ کریں آخری کلام احمد فراز تو یہی کلام سامنے آئے گا حالانکہ احمد فراز کا آخری کلام سرگودھا یونیورسٹی میں پڑھا ہوا ہے کلام یاد نہیںیہ اصل میں سردار انجم کی ہی غزل ہے لیکن اکثر احمد فراز کے نام سے منسوب کی جاتی ہے احمد فراز کے کلام میں یہ غزل موجود نہیں
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے سے
کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی
کہیں پلٹ کے نہ آ جائے سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
سردار انجم
جی بلکل لیکن احمد فراز کی کسی کتاب میں موجود نہیںاگر گوگل انکل پر سرچ کریں آخری کلام احمد فراز تو یہی کلام سامنے آئے گا حالانکہ احمد فراز کا آخری کلام سرگودھا یونیورسٹی میں پڑھا ہوا ہے کلام یاد نہیں
بے کیف جوانی ہے بے درد زمانہ ہے
تصویر نمبر 77
میں نے تو کبھی نہیں پڑھی تھی یہ غزل لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ فراز کے معیار سے بہت کمتر غزل ہے۔یہ اصل میں سردار انجم کی ہی غزل ہے لیکن اکثر احمد فراز کے نام سے منسوب کی جاتی ہے احمد فراز کے کلام میں یہ غزل موجود نہیں
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے سے
کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی
کہیں پلٹ کے نہ آ جائے سانس نبضوں میں
حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
سردار انجم