نوید صادق
محفلین
سوال: ستاسی میں ایک تبدیلی آئی، سنسر شپ وغیرہ ختم ہوئی، اخباروں کے لیے ڈیکلیئریشن وغیرہ ملنے لگے۔ اس کے بعد اب یہ دور آیا ہے، کیا لگتا ہے، اس میں کچھ آزادی ہے یا یہ بھی لگتا ہے کہ یہ بھی صرف دیکھنے ہی ۔ ۔ ۔ ؟
ف ر: میرے خیال میں یہ بڑی ہی زیادتی ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ فریڈم نہیں ہے بالکل فریڈم ہے۔اب آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مثلاً جنرل پرویز مشرف پر جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں اور جتنا ہمارا پریس ان کو برا بھلا کہتا ہے۔ کسی بھی اور شخصیت کو اتنا نشانہ نہیں بناتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔دیکھیے مجھے بھٹو صاحب کادور یاد آتا ہے۔ دیکھیے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے ایک جاگیرداری مائنڈ سیٹ اور شہری مڈل کلاس کا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ تم کسی کو بھی کچھ لکھ دو سوائے میرے۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ یہ ایک تھنکنگ تھی یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کسی دوسرے منسٹر، کسی دوسرے وزیر کسی کے لیے کچھ نہیں لکھا جاتا۔ سوائے پرویز مشرف کے یہ ہے فرق۔ ابھی چند روز قبل میں سکھر میں ہونے والی کاروکاری کی ایک کانفرنس میں گئی تھی ایک بڑا حال تھا جو عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں سے بھرا ہوا تھا، اس میں آئی جی پولیس بھی آئے تھے اور وہاں کے ناظم بھی آئے تھے۔ میں یہ دیکھ رہی کہ وہاں جو پیپرز پڑھے جا رہے تھے۔ تو اس میں لوگوں نے اٹھ کر کہا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں اس طرح کے قتل تو پولیس خود کراتی ہے۔ اس کے بعد پولیس والوں نے بھی اپنا دفاع کیا لیکن یہ بات پہلے کہاں تھی۔ ایوب خان کے مارشل میں ہم چھوٹے تھے لیکن ان کا مارشل لا شروع میں سخت تھا بعد میں بیسک ڈیموکریسی آگئی لیکن بھٹو صاحب کے دور میں ایک عام جلسے میں کھل کر اس طرح بات نہیں کہی جا سکتی تھی حالانکہ وہ ایک الیکٹڈ پرائم منسٹر تھے۔ شاید واحد ایسے انتخابات میں عوام کی حمایت کے ساتھ منتخب ہو کر آنے والے لیکن ان کے دور میں بھی یہ باتیں نہیں کہی جا سکتی تھیں۔ اس کے بعد ضیا الحق کے دورمیں تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا کہ کوئی بات کرسکے لوگ مزاحمت خفیہ طور پر ہی کرتے تھے۔ لیکن ان بہت سارے ٹیلی ویژن چینلوں سے شعور بہت بڑھا ہے پھر ان میں این جی اوز کا بھی بہت ہاتھ ہے حالانکہ یہ اس سلسلے میں بدنامِ زمانہ ادارے بن گئے ہیں کہ یہ تو بس پیسے کھانے کی چیز ہیں۔لیکن ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کی وجہ سے مزید شعور پیداہوا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے لوگوں میں ہمت اور جرات آئی ہے بات کہنے کی لیکن جیسے وہاں بات کرنے والوں کو یہ یقین تھا کہ اس بات کی بنا پر انہیں گھر پہنچنے پر گرفتار نہیں کر لیا جائے گا لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ کرپشن ہے۔ کیاؤس ہے اور اس حد تک ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
ف ر: میرے خیال میں یہ بڑی ہی زیادتی ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ فریڈم نہیں ہے بالکل فریڈم ہے۔اب آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مثلاً جنرل پرویز مشرف پر جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں اور جتنا ہمارا پریس ان کو برا بھلا کہتا ہے۔ کسی بھی اور شخصیت کو اتنا نشانہ نہیں بناتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔دیکھیے مجھے بھٹو صاحب کادور یاد آتا ہے۔ دیکھیے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے ایک جاگیرداری مائنڈ سیٹ اور شہری مڈل کلاس کا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ تم کسی کو بھی کچھ لکھ دو سوائے میرے۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ یہ ایک تھنکنگ تھی یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کسی دوسرے منسٹر، کسی دوسرے وزیر کسی کے لیے کچھ نہیں لکھا جاتا۔ سوائے پرویز مشرف کے یہ ہے فرق۔ ابھی چند روز قبل میں سکھر میں ہونے والی کاروکاری کی ایک کانفرنس میں گئی تھی ایک بڑا حال تھا جو عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں سے بھرا ہوا تھا، اس میں آئی جی پولیس بھی آئے تھے اور وہاں کے ناظم بھی آئے تھے۔ میں یہ دیکھ رہی کہ وہاں جو پیپرز پڑھے جا رہے تھے۔ تو اس میں لوگوں نے اٹھ کر کہا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں اس طرح کے قتل تو پولیس خود کراتی ہے۔ اس کے بعد پولیس والوں نے بھی اپنا دفاع کیا لیکن یہ بات پہلے کہاں تھی۔ ایوب خان کے مارشل میں ہم چھوٹے تھے لیکن ان کا مارشل لا شروع میں سخت تھا بعد میں بیسک ڈیموکریسی آگئی لیکن بھٹو صاحب کے دور میں ایک عام جلسے میں کھل کر اس طرح بات نہیں کہی جا سکتی تھی حالانکہ وہ ایک الیکٹڈ پرائم منسٹر تھے۔ شاید واحد ایسے انتخابات میں عوام کی حمایت کے ساتھ منتخب ہو کر آنے والے لیکن ان کے دور میں بھی یہ باتیں نہیں کہی جا سکتی تھیں۔ اس کے بعد ضیا الحق کے دورمیں تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا کہ کوئی بات کرسکے لوگ مزاحمت خفیہ طور پر ہی کرتے تھے۔ لیکن ان بہت سارے ٹیلی ویژن چینلوں سے شعور بہت بڑھا ہے پھر ان میں این جی اوز کا بھی بہت ہاتھ ہے حالانکہ یہ اس سلسلے میں بدنامِ زمانہ ادارے بن گئے ہیں کہ یہ تو بس پیسے کھانے کی چیز ہیں۔لیکن ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کی وجہ سے مزید شعور پیداہوا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے لوگوں میں ہمت اور جرات آئی ہے بات کہنے کی لیکن جیسے وہاں بات کرنے والوں کو یہ یقین تھا کہ اس بات کی بنا پر انہیں گھر پہنچنے پر گرفتار نہیں کر لیا جائے گا لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ کرپشن ہے۔ کیاؤس ہے اور اس حد تک ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔