شاعرہ فہمیدہ ریاض سے ملاقات ( بشکریہ: بی بی سی اردو منظرنامہ)

نوید صادق

محفلین
سوال: ستاسی میں ایک تبدیلی آئی، سنسر شپ وغیرہ ختم ہوئی، اخباروں کے لیے ڈیکلیئریشن وغیرہ ملنے لگے۔ اس کے بعد اب یہ دور آیا ہے، کیا لگتا ہے، اس میں کچھ آزادی ہے یا یہ بھی لگتا ہے کہ یہ بھی صرف دیکھنے ہی ۔ ۔ ۔ ؟


ف ر: میرے خیال میں یہ بڑی ہی زیادتی ہوگی اگر ہم یہ کہیں کہ فریڈم نہیں ہے بالکل فریڈم ہے۔اب آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں مثلاً جنرل پرویز مشرف پر جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں اور جتنا ہمارا پریس ان کو برا بھلا کہتا ہے۔ کسی بھی اور شخصیت کو اتنا نشانہ نہیں بناتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔دیکھیے مجھے بھٹو صاحب کادور یاد آتا ہے۔ دیکھیے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے ایک جاگیرداری مائنڈ سیٹ اور شہری مڈل کلاس کا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ تم کسی کو بھی کچھ لکھ دو سوائے میرے۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ یہ ایک تھنکنگ تھی یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کسی دوسرے منسٹر، کسی دوسرے وزیر کسی کے لیے کچھ نہیں لکھا جاتا۔ سوائے پرویز مشرف کے یہ ہے فرق۔ ابھی چند روز قبل میں سکھر میں ہونے والی کاروکاری کی ایک کانفرنس میں گئی تھی ایک بڑا حال تھا جو عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں سے بھرا ہوا تھا، اس میں آئی جی پولیس بھی آئے تھے اور وہاں کے ناظم بھی آئے تھے۔ میں یہ دیکھ رہی کہ وہاں جو پیپرز پڑھے جا رہے تھے۔ تو اس میں لوگوں نے اٹھ کر کہا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہیں اس طرح کے قتل تو پولیس خود کراتی ہے۔ اس کے بعد پولیس والوں نے بھی اپنا دفاع کیا لیکن یہ بات پہلے کہاں تھی۔ ایوب خان کے مارشل میں ہم چھوٹے تھے لیکن ان کا مارشل لا شروع میں سخت تھا بعد میں بیسک ڈیموکریسی آگئی لیکن بھٹو صاحب کے دور میں ایک عام جلسے میں کھل کر اس طرح بات نہیں کہی جا سکتی تھی حالانکہ وہ ایک الیکٹڈ پرائم منسٹر تھے۔ شاید واحد ایسے انتخابات میں عوام کی حمایت کے ساتھ منتخب ہو کر آنے والے لیکن ان کے دور میں بھی یہ باتیں نہیں کہی جا سکتی تھیں۔ اس کے بعد ضیا الحق کے دورمیں تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا کہ کوئی بات کرسکے لوگ مزاحمت خفیہ طور پر ہی کرتے تھے۔ لیکن ان بہت سارے ٹیلی ویژن چینلوں سے شعور بہت بڑھا ہے پھر ان میں این جی اوز کا بھی بہت ہاتھ ہے حالانکہ یہ اس سلسلے میں بدنامِ زمانہ ادارے بن گئے ہیں کہ یہ تو بس پیسے کھانے کی چیز ہیں۔لیکن ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کی وجہ سے مزید شعور پیداہوا ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے لوگوں میں ہمت اور جرات آئی ہے بات کہنے کی لیکن جیسے وہاں بات کرنے والوں کو یہ یقین تھا کہ اس بات کی بنا پر انہیں گھر پہنچنے پر گرفتار نہیں کر لیا جائے گا لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ کرپشن ہے۔ کیاؤس ہے اور اس حد تک ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: ایک عرصے تک شاعری کے بعد آپ نثر کی طرف آئی ہیں اس کی کوئی خاص وجہ ہے، ایسی باتیں جو آپ کو لگا کہ شاعری میں نہیں آ سکتیں؟


ف ر: میں شروع سے بھی کہانیاں لکھتی رہی ہوں۔ ایک چوٹا سا مجموعہ چھپا ہے: ’خطِ مرموز‘ اس میں تو فنون میں شائع ہونے والی کالج کے زمانے کی شارٹ سٹوریز بھی ہیں۔ تو میں لکھتی تھی، ایرک فرام کی ایک کتاب تھی ’فئرآف فریڈم‘ جو فاشزم کی سماجی بنیادوں کے بارے میں ہے۔ تو اس کا میں نے ایک ایڈاپٹیشن کیا تھا یعنی اس کے اصولوں سے پاکستانی معاشرے کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ تو نثر میں لکھتی ہی رہی تھی لیکن اتنی جم کر نہیں لکھی تھی۔ پھر بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اتنی پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جن کے ساتھ ایک نظم میں شاید آپ انصاف نہ کر سکیں یا یہ ہے کہ وہ ایک نظم بن کر آپ تک نہیں پہنچتیں۔ تو پاکستان ٹوٹنے کے بعد میں جو لکھا تھا وہ تھا: ’زندہ بہار‘ جو بنگلہ دیش کے ان تجربات پر مشتمل تھے جو بہت متاثر کرنے والے تھے۔ جو نظم میں نہیں آ پا رہے تھے یا نظم بن کرآئے نہیں۔ پھر ’گوداوری‘ جو ہندوستان کے تجربات پر مشتمل تھی اور اس کے بعد پھر’ کراچی‘ کے حالات ہی ایسے تھے۔ تو یہ تین کہانیاں ہیں جو تین حصوں کے بارے میں ہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: آپ درمیان میں ہیں۔ ایک طرف آپ غزل کے حق میں نہیں ہیں دوسری طرف آپ نثری شاعری کے حق میں نہیں ہیں اس طرح سے۔ ۔ ۔


ف ر: نہیں نہیں یہ سچ نہیں ہے۔ میں تو نثری شاعری کو بہت پسند کرتی ہوں۔ میں ایک پوری کتاب تم دیکھو گے نثری نظم میں ہی لکھی ہے ’کیا تم پورا چاند نہیں دیکھو گے‘۔ اس کے سات چیپٹر ہیں۔ وہ نثری نطم میں ہی ہیں لیکن ہاں اس کے بعد نہیں لکھی۔ عادت کی بات ہے۔ ہماری نسل نے، ہم نے شروع ہی سے اس طرح سے لکھا۔ نثری نظم کو میں بہت پسند کرتی رہی ہوں اس کو ڈیفنڈ کرتی رہی ہوں۔ ہر وقت ہر جگہ۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: اتنا کچھ کرنے کے بعد اب فہمیدہ ریاض اپنے بارے میں کیا سوچتی ہے، کیا کرنے کی کوشش کی کتنا ہو پایا نہیں ہو پایا؟


ف ر: میرے خیال میں اچھا خاصا ہو گیا۔ اگر میں آج صبح نہ اٹھتی یا ’سخی حسن‘ (کراچی کا ایک قبرستان) کا رخ ہوتا تو کوئی افسوس نہیں تھا اس لحاظ سے۔ جو کرنا تھا بہت کچھ کر دیا۔ زمین آسمان ہلا دیے اپنے دور کے۔ اس لحاظ سے تو اطمینان ہے لیکن کیا کریں زندہ تو ہیں نا ابھی۔ اور زندگی ختم نہیں ہو رہی تو کچھ نہ کچھ اور کرنا ہے
 

نوید صادق

محفلین
سوال: یہ اردو میں ہی نہیں ہے دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ہے کہ گاڑی میں کچھ ڈبے خواتین کے لیے مخصوص کر دیے جاتے ہیں اور خواتین بھی اس پر اصرار کرتی ہیں یہ کہاں تک درست ہے اور کیوں ہے؟


ف ر: دیکھیں اس سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ تاریخی طور پر خواتین ایک ایسا طبقہ ہیں جس کو برابر کا تو نہیں سمجھا جاتا نا۔ اس کے ساتھ کافی نا انصافیاں ہوئی ہیں۔ اسی طرح جیسے بلیکس (کالوں) کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ مثلاً جیسے ہندوستان میں اچھوتوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ تو جب یہ طبقات جن کے ساتھ تاریخ میں انصاف نہیں ہوا ہے برابر آنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے لیے (یہ ڈبے) بنائے جاتے ہیں۔ لیکن کیا کالے انسان نہیں ہیں؟ امریکہ میں بلیکس کے حوالے سے ایک پوری موومنٹ بنی اور اسے اس حوالے سے شناخت کیا گیا کہ یہ بلیکس ہیں۔ دوسرے ان کی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے وہ خود کہہ رہے ہیں تو اسے دیکھا جائے۔ دلت ادب انڈیا میں ایسے ہی بنا ورنہ تو کیا دلت انسان نہیں ہیں۔ اس کا علیحدہ سے کوئی ڈبہ کیوں بنایا جائے لیکن تاریخ کے ایک موڑ پر اس کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اپنی آواز کو دوسری آوازوں سے الگ اور واضح کر کے سامنے لائیں تاکہ دوسرے دیکھ سکیں کے وہ بھی ویسے ہی انسان ہیں۔اسے علیحدہ بنانے کا آغاز بھی ویسٹ سے ہی ہوا۔ ورجینا وولف سے کہہ سکتے ہیں ادب میں کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ خواتین کی چیزوں کو نمبر ایک یا تو توجہ ہی نہیں دینی یا اس کا بالکل غلط مطلب نکال سکتے ہیں۔ مثلاً ’بدن دریدہ‘ کے چھپنے کے بعد خود میرے بارے میں جو باتیں کہی گئیں، انور! اگر میں مرد ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ بہت سی چیزیں جو مردوں کے قلم سے نکلیں وہ نہ نکلتیں، خود عذرا عباس ہی کو دیکھ لیں، اس پر جو اعتراضات کی بوجھاڑ ہوتی ہے یہی اگر کسی مرد نے لکھی ہوتیں تو ایسا نہ ہوتا۔ لیکن ہوتا کیا ہے ایک لائن پر ٹینک دوڑا دیے جاتے ہیں تو باقی سب کو نظرانداز کر دیا جائے اور توجہ ہی نہ کریں۔ کیونکہ عورتین ابھی تک اس چیز کا شکار ہیں اور ویسے ہر تحریک جب وہ کامیاب ہو جائے تو اس کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ ختم ہو جائے۔ تحریک کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ ختم ہو جائے۔ آج اگر عورتیں یہ کہتی ہیں کہ انہیں الگ سے دیکھا جائے تو اس کا مطب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ دن آجائے جب انہیں یہ نہ کہنا پڑے۔ اردو ادب کی تاریخ جو لوگ لکھتے ہیں اس میں عورتیں کہاں ہیں اور کیوں نہیں ہیں؟ جس دن خالدہ حسین کو اس کی صنف کو بھلا کر وہ مقام دیا جاسکےگا جس کی وہ مستحق ہیں۔ وہ اس کی پیش رو ہیں نیر مسعود جو آج لکھ رہے ہیں۔ شمش الرحمٰن نے ایک دو چیزیں جو آج لکھی، روحانی جہت سے وہ پہلے خالدہ نے لکھی تھیں۔ ان کا سکول آف تھاٹ یا مکتبۂ فکر آپ کو کہا نظر آ رہا ہے، اس کا ذکر کہاں ہو رہا ہے۔ اسی لیے ایک الگ ڈبہ بنایا جاتا ہے ورنہ تو رومی کے الفاظ میں ’یہ تو ان کے ظاہری لباس ہیں اندر سے تو ایک ہیں‘
 

نوید صادق

محفلین
سوال: بلیکس کی بات کی آپ نے ابھی یا دلتوں کی بات کی تو اس کااصرار یہ ہے کہ انہیں بلیکس کے طور پر یا دلت کے طور پر مت دیکھو۔ ہماری شاعری ہمارے ادب کو ایک الگ مہر لگا کر مت دیکھو، اس کا الگ سے ایک مقام مرتب کرنے کی کوشش مت کرو، برابر کے انسان کے طور پر دیکھو ۔ ۔ ۔


ف ر: نہیں کالوں کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ آپ ہماری چیز کو جب پرکھتے ہیں تو آپ ہمیشہ اسے کم تر درجے پر کیوں رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم بلیکس ہیں، ایسا نہ کیجیے۔ عورت کا بھی یہی اصرار ہے۔ اور بلیکس بطور بلیکس بھی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی شرمندگی کی بات کرتے ہیں اپنی زندگی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے دکھ یہ ہیں اور آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک پولیس والا گورے کو گرفتار کرے گا اس کا رویہ اور ہوجائے گا وہی ایک بلیک کو گرفتار کرے گا تو اس کا رویہ اور ہو جائے گا۔ دلتوں کا بھی یہی کہنا ہے: ہمارے ساتھ ہوا کیا ایک تو اس کو تسلیم کیجیے اور پھر اپنے اس احساسِ تفاخر کو الگ رکھ کر کہ آپ تو ہیں ہی اعلیٰ اسے ختم کیجیے۔ عورتوں کے بھی مطالبات اسی سے ملتے جلتے ہیں اور یہی ہیں بنیادی طور پر۔ عورتوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ عورتیں یہ محسوس کرتی ہیں لیکن عورت جب کہے وہ کیسا محسوس کرتی ہے تو آپ کو برا لگتا ہے۔ اب سیکسچوّیلٹی کو ہی لے لیجیے ایک مرد لکھتا رہے گا کہ عورت یوں ہے، عورت یوں ہے لیکن اگر کوئی عورت خود اپنی سیکسچوّیلٹی کا اظہار کرے تو قیامت آجاتی ہے، آپ دیکھیں تو صحیح۔ کیا زمین لرزنے لگتی ہے کیا آسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔ کیوں؟ یہ ایک طرح سے اس کی بنیادی انسانیت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ: ’تم ہماری جیسی انسان نہیں ہو کہ کسی موضوع پر کچھ بھی کہہ دو۔ تمہاری یہ حد ہے بس اس کے آگے نہیں جاؤ گی یہیں تک خود کو محدود رکھو۔ آپ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے؟ آپ بلیکس کو کہہ رہے کہ بس یہ مت لکھنا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: لیکن منٹو اور عصمت کو تو، دونوں کو اور منٹو کو تو شاید قدرے زیادہ فیس کرنا پڑا۔ تو کیا آپ کی بات کا اطلاق اس پر کیا جا سکتا ہے؟


ف ر: عصمت چغتائی کے زمانے کا پورا ماحول شاید ہم سے بہتر تھا، ایک پوری تحریک تھی بڑی طاقتور، عصمت کا ساتھ دینے والے زیادہ تھے۔ اور یہ درست ہے کے عصمت اور منٹو دونوں پر ہی مقدمے چلے۔ ایسا نہیں تھا کہ صرف عصمت پر چلے منٹو پر بھی چلے لیکن اس وقت کے تمام لکھنے والے ان کے ساتھ تھے بعد میں وہ ماحول بھی بدل گیا۔ لکھنے والی تنہاہوگئیں، بالکل تنہا ہوگئیں۔اچھا یہ جو آپ نے مثال دی، تو میں تو کہوں گی کہ قراۃ العین کو جو مقام دیا گیا، وہ بلاشبہ اس مقام کی حقدار تھیں۔ وہ ایک عظیم ناول نگار کے طور پر ابھریں۔ لیکن یہ ایک دو ایکسیپشنز (استثنا) ہیں جو اس عام صورتِ حال کو تبدیل نہیں کرتیں کہ باقی جو لکھنے والیاں ہیں انہیں کافی برا بھلا بھی کہا گیا یا نظر انداز کیا گیا دیکھیں نا میں نے آپ کو خالدہ حسین کی ایک مثال دی۔ مجھے ہی جو برا بھلا کہا گیا اس کا تو کسی کو حق نہیں پہنچتا تھا۔اس کا مطلب (ہمارے لکھے ہوئے کا) کچھ اور کیوں نکالا گیا اور بعض تو شعبے ایسے ہیں جن میں گھسنے کی اجازت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً فلسفہ ہے۔ آپ کچھ لکھیں تو کہا جائے گا: او ہو! یہ تو آپ کا شعبہ ہی نہیں ہے، یہ تو اس کے ساتھ آپ انصاف ہی نہیں کر رہی ہیں یا یہ کہ اس کا بالکل دوسرا مطلب نکال لیا جاتا ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: آپ نے ترقی پسند تحریک کی بات کی، کیا ادب کو نظریے کا پابند ہونا چاہیے؟


ف ر: یہ بات اکثر کی جاتی ہے پروگریسو ازم کے خلاف۔ اس میں بھی جانے کی ضرورت ہے۔ اب آپ دیکھیں، ٹالسٹائی، ان کا بھی ایک پورا نظریہ تھا کہ اس طرح عیسائیت کے اصولوں پر چلنے کے بعد ہم نجات حاصل کر سکیں گے، ٹھیک ہے نا، انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا کیوں نہیں کہتا؟ اب جو صدی ختم ہوئی ہے اس پر جو نظریہ چھایا رہا ہے اس نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں۔ اب کون کہہ سکتا ہے کہ فیض صاحب اچھے شاعر نہیں تھے۔ ان کے مقابلے کا شاعر ملنا مشکل ہے، اتنی تاثیر ان کے کلام میں تھی۔ یعنی دل پر اثر کرنے والی، اس طرح کیا ہم ناظم حکمت کو ہم کہیں گے کہ وہ اچھے شاعر نہیں تھے؟ پال نیزان کو کہیں گے، ژاں پال سارتر کو کہیں گے، وہ بے حد نظریاتی تھے اور ہمیشہ کمیونسٹ نظریے کے ارد گرد ہی گھومتے رہے۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: کمیونسٹ تو انہیں کیمونسٹ نہیں مانتے تھے اور وہ خود کو مارکسسٹ کہتے تھے؟


ف ر: ان کا کہنا ہے کہ مارکسسزم کے وسط میں ایک خلاء ہے جہاں فرد کو ہونا چاہیے تھا اور میں اس خلاء کو بھرنے کی کوشش کر رہا ہوں، وہ کتنے سیاست سے نتھی رہتے تھے۔ عالمی عدالتیں بنانے کے لیے وہ تیار، الجزائر کی تحریک میں وہ سرگرم رہے، سڑک پر جا کر رسالے تک بیچے۔ جو بھی توقع کی جا سکتی ہے جیسا حبیب جالب نے کیا ہو گا وہ انہوں نے بھی کیا۔ لیکن کسی بھی ادبی تحریک میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو بہت ہی سربرآوردہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بھی جو یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی نظریے کے تحت نہیں لکھتے وہ بھی کسی نہ کسی نظریے کے تحت ہی لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو پروگریسو رائٹر نہیں تھے وہ تو کچھ بھی نہیں دے سکے۔ چند ایک زبان کے تجربے انہوں نے کیے جو اچھے خاصے ناکام ہوئے اور کوئی بڑی چیز نہیں دی انہوں نے ادب کو۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: اب کیا ہے؟ ادب معکوس رخ پر جا رہا ہے یا کچھ امکانات نظر آتے ہیں؟


ف ر: دیکھیں، دنیا کے ادب میں، خاص طور پر تیسری دنیا سے بڑی بڑی اچھی چیزیں آ رہی ہیں۔ اردو میں دو کتابیں لکھی گئی۔ ایک تو شمس الرحمٰن کی ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘۔ اردو میں اس سے پہلے اس طرح کی کتاب موجود نہیں تھی۔ بہت ہی ماڈرن سینس ایبلیٹی کے ساتھ لکھی ہوئی ایک تاریخی کتاب، ناول، پھر نیر مسعود صاحب ایک اہم ادیب کے طور پر ابھرے ہیں۔ پاکستان میں کچھ لوگ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہاں عمومی طور پر تو معیار اتنا اچھا نہیں ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: یہ تو دونوں آپ سے بھی سینئر ہی ہیں؟ (سوال کے درمیان، ف ر: جی ہاں۔) میں میں آپ کے بعد آنے والوں کی بات کر رہا تھا؟


ف ر: یہ جو نئے لکھنے والے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں اردو کی جگہ ہندی کا سکرپٹ آ گیا اور یہ تھا کہ اب اردو کا کیا ہو گا سوائے فلموں کے؟ لیکن وہاں سے بعض اچھے لکھنے والے نکل رہے ہیں۔ بڑی اچھی چیزیں لکھی جا رہی ہیں: سلام بن رزاق، وہ اچھا لکھ رہے ہیں۔ ایک خالد کر کے نام ہے اب مجھے یاد نہیں آ رہا یہاں پاکستان میں بھی ان کی چیزیں شائع ہوئی ہیں اور یہاں پر بھی جو کوشش کر رہے ہیں اور اچھا خاصا لکھ بھی رہے ہیں جیسے کہ عاصم بٹ ہیں اسلام آباد میں رہتے ہیں اور بہت اچھا لکھنے والے ہیں۔ رفیق حیات ہیں یہاں کے وہ بھی اچھا خاصا لکھ رہے ہیں۔ آصف ، میں انہیں بھی اپنے بعد کی نسل سمجھتی ہوں وہ بھی اچھا لکھتے ہیں، عذرا عباس ہیں۔ فاطمہ حسن ہے۔ ان کی کہانیاں۔ ’کہانیاں گم ہو جاتی ہیں‘ کے نام سے۔ ہمارے پاس سب سے بڑا کال جو ہے وہ اچھے فورم کے نہ ہونے کا ہے جہاں چیزیں چھپیں۔
 

نوید صادق

محفلین
سوال: آپ کی اتنی کتابیں چھپی ہیں اور چھپتی رہتی ہیں پاکستان میں تو یہاں جو رائلٹی ملنے کی صورتِ حال ہے اس سے آپ کس حد تک مطمئن میں؟


ف ر: بالکل نہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مجھے تو آج تک ایک پیسہ بھی نہیں ملا ہے کبھی۔ ماسوا احمد فراز کے جو مقدمے کرنے کے لیے مشہور ہیں، کسی کو بھی ایک پیسہ نہیں ملتا۔ اگر ہندوستان میں جیسا کہ آثار لگ رہے، اگر کتابیں آنے جانے کا سلسلہ ہو جاتا ہے تو پاکستان کے اردو ادیبوں کا بھی بڑا فائدہ ہو سکتا ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم انڈیا سے سیکھ سکتے ہیں۔
 
Top