شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
سوچا نہیں اچھا بُرا
دیکھا سُنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے ہر وقت
تیرے سوا کچھ بھی نہیں

دیکھا تجھے چاہا تجھے
سوچا تجھے پوجا تجھے
میری وفا میری خطا
تیری خطا کچھ بھی نہیں

جس پر ہماری آنکھ نے
موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے
ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں

ایک شام کی دہلیز پر
بیھٹے رہے وہ دیر تک
آنکھوں سے کی باتیں بہت
منہ سے کہا کچھ بھی نہیں

دو چار دن کی بات ہے
دل خاک میں مل جائے گا
آگ پہ جب کاغذ رکھا
باقی بچا کچھ بھی نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
فقط ایک بِل ہی نہیں ڈاکٹر کا
دواؤں کی کچھ پرچیاں اور بھی ہیں

نہ اِترا اگر بچ گیا حادثے سے
سڑک پر ابھی لاریاں اور بھی ہیں

(سرفراز شاہد)
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
بوچھی نے کہا:
جناب ، کس کے خط کو کلیجے سے لگا رکھا ہے؟ :p خیر تو ہے نہ یہ صبخ صبح شاعری؟ وہ بھی غمگین ۔ :roll: :p

سب خیریت تو ہے نہ؟

یہ صبح ہے آپکی، ادھر شام کے ساڑھے چار بج چکے ہیں۔ اور آپ گئی نہیں ابھی تک؟



جا رہی ہوں جی۔ بس سارے کام ختم ، اب ہم نکل رہے ہیں۔
 

فریب

محفلین
بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ ائے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال احوال دوستاں بھی
خمار آغوش مہ وشاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے، جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
 
شمشاد نے کہا:
پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اُڑنے میں وقت تو لگتا ہے

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اُڑنے میں وقت تو لگتا ہے

جسم کی بات نہیں ان کی روح تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے

علاج زخم دل ہم نے ڈھونڈ لیا ہے لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

جگجیت کی یہ غزل ایک رات اتنی سنی تھی کہ یاد ہو گئی۔
 

ماوراء

محفلین
پیڑ لگاتا رہتا ہوں
پھر بھی دھوپ میں بیٹھا رہتا ہوں
دریاؤں سے ڈرتا ہوں
میں بھی کیسا پیاسا ہوں
خود کو سچا کہتا ہوں
میں بھی کتنا جھوٹا ہوں
تیری یاد میں ڈوب کے میں
اب خود کو خط لکھتا ہوں
تیرے وصل کے موسم کا
ایک اک لمحہ گنتا ہوں
اپنے دل کی بات کو اب
دیواروں سے کہتا ہوں
ساتھ رہا ہے تو لیکن
اکثر تنہا جاگا ہوں
اتنے صدمے سہہ کر بھی
جانے کیسے زندہ ہوں
اجلے اجلے شہروں میں
روشنیوں کو ترسا ہوں
نیندوں کی دہلیزوں سے
جھوٹے سپنے چنتا ہوں
خاموشی آزار نہ بن !
میں اب بولنے والا ہوں
چاہت کی بینائی سے
تیرا چہرہ پڑھتا ہوں
مجھ میں ڈوبنے والے،میں
دریا سے بھی گہرا ہوں !
خود کو پھول سا کہتا ہے
جیسے میں نابینا ہوں
شاخوں تک محدود نہیں
باتوں میں بھی مہکا ہوں
جس کا باسی کوئی نہیں
میں اس دیس کا نقشہ ہوں
میرا گھر کیا ٹوٹ گیا
ایک اک گھر کو تکتا ہوں​
 

شمشاد

لائبریرین
کہاں سے لا رہی ہو یہ شاعری، اگر ساتھ میں شاعر کا نام بھی لکھ دیا کرو تو کیا ہی بات ہے۔
 
اپنا پن بھی اس بیگانے پن میں ہے
پورا عالم ایک دیوانے پن میں ہے
یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ہوں
ساری بات اسی انجانے پن میں ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے عکس اس کا شعر میں ایسا اتارا تھا
سب نے میرے کلام کا صدقہ اتارا تھا

پھر اس کے بعد گِر گیا سونے کا بھاؤ بھی
اک شام اس نے کان سے بُندا اتارا تھا
(رتن دیپ)
 

فریب

محفلین
دربار وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرئے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوںسے نہ ٹالے جائیں گے
(فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
پریم کتھا کا انت نہ کوئی
کتنی بار اسے دہرائیں

پریت کی ریت انوکھی ساجن
کچھ نہیں مانگیں سب کچھ پائیں
 
آجکل استاد امام دین کو پڑھاجارہا ہے
اگر احباب دلچسپی رکھتے ہوں تو کچھ پیش کیا جائے
جاپان
تب تلک ہر گز کبھی نہ کودیں گے نہ اچھلیں گے ہم
جب تلک جاپان تیرے سر کو نہ کچلیں‌گے ہم
تم نے چمک دیکھی نہیں قینچی و ولائیتی استراء
جس سے تیری داہڑیاں مونچھیں سبھی مچھلیں گے ہم
 

فریب

محفلین
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو آدھورا چھوڑ دیا
 

ماوراء

محفلین
ہاتھ چُھوٹے بھی تو رشتے نہیں چُھوٹا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحےنہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والے کے لئے دل توڑا نہیں کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ موڑا نہیں کرتے​
 

شمشاد

لائبریرین
ماورا تمہاری درج کردہ شاعری کے پہلے دو اشعار اور آخری کے دو اشعار کے قافیے تنگ ہو گئے ہیں۔ کچھ گڑبڑ کر دی ہے تم نے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top