محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ حروف سے مل کر لفظ بنتا ہے اور لفظوں سے مل کر جملہ اور جملوں سے مل کر مضمون یا کہانی وغیرہ بنتا ہے۔
بالکل اسی طرح نظم بنتی ہے شعروں سے مل کر اور شعر بنتا ہے مصرعوں اور قافیے سے مل کر اور مصرع بنتا ہے ارکان سے مل کر اور قافیہ بنتا ہے دماغ سے۔
معلوم ہوا کہ اگر آپ کوقافیہ اور ارکان بنانا آگیا تو مصرع اور شعر بنانا بھی آجائے گا اور جب شعر بنانا آجائے گا تو کچھ اشعار بناکر آپ ایک نظم بھی بنالیں گے، پھر آپ کی نظم پڑھ کر لوگ آپ کو ڈھیر ساری داد دیں گے تو آپ کو کتنی خوشی ہوگی۔
ہے نا خوشی کی بات!
تو آئیے، اب ہم شعر مصرع، ارکان اور قافیہ بنانا سیکھتے ہیں…
سب سے پہلے ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ فائدے کی باتیں بتاتے ہیں:
شعر کے آخر میں جو باوزن الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں، جیسے:
ان دونوں لفظوں میں غور کریں، دونوں کے آخر میں ’’م‘‘ ہے، اس کو ’’حرفِ روی‘‘ کہتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہورہا ہوگا کہ ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیہ ہیں تو ان دونوں کے بعد ’’کہ ہے عید کا یہ دن‘‘ بھی تو آرہا ہے، یہ کیا ہے؟ تو یہ بھی جان لیجیے کہ ایسے الفاظ جو نظم میں قافیے کے بعد بار بار آرہے ہوں، انھیں ’’ردیف‘‘ کہا جاتا ہے۔
ماشاءاللہ اب تک آپ نے تین چیزیں سمجھ لی ہیں:
1۔قافیہ
2۔حرفِ روی
3۔ردیف
اب انھی تین چیزوں کو ایک اور مثال سے سمجھ لیتے ہیں:
ان دونوں لفظوں میں ’’گ‘‘ حرفِ روی ہے۔
’’تو میرا ہے کیا قصور‘‘ ردیف ہے۔
کام:
کسی بھی نظم میں غور کیجیے اور اس کے تمام قافیے، ان قافیوں میں آنے والا حرفِ روی اور ردیف لکھیے۔
یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ شعر کے آخر میں جو ہم آواز الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اب اسے مثالوں سے سمجھیں:
مثال نمبر۱: کامل، عامل، شامل، عادل، ساحل، باطل، قاتل، جاہل، کاہل، حاصل، قابل، نازل۔
مثال نمبر۲: رحمان،ارمان، مہمان، نعمان، احسان، انسان، سنسان،گھمسان، سلطان، شیطان۔
مثال نمبر۳: آم، بام، تام، جام، خام، دام، شام، عام، کام، گام، لام، نام۔
مثال نمبر۴: اور، بور، چور، ، زور، شور، ، مور۔
مثال نمبر۵: اٹک، بھٹک، پھٹک، چٹک، کھٹک، لٹک، کسک، چسک، سسک، بلک، پلک، جھلک، چھلک، ڈھلک، فلک، چمک، دھمک، نمک، کمک۔
اب ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ اہم باتیں بتاتے ہیں:
٭قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی عربی جمع ’’قوافی‘‘ اور اردو جمع ’’قافیوں‘‘ اور ’’قافیے‘‘ ہے۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف کا بالکل ایک جیسا ہونا ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ آرہا ہے۔اسی طرح مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘۔ مثال نمبر ۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘۔ مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ اور مثال نمبر۵ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ک‘‘ آرہا ہے، اسی کو حرفِ روی کہتے ہیں۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف اگر ساکن ہو تو اس سے پہلے والے حرف کی حرکت کا ایک ہونا بھی ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے۔
٭اگر پہلے قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ ہو اور ساکن ہو تو ہر قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے اس ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھیے مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘ ہے اور ’’ن‘‘ سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘ اور اس سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ سے پہلے ’’و‘‘ ہے۔
٭قافیوں کے آخر میں کم از کم ایک حرف کا بار بار آنا تو ضروری ہے، مگر ایک سے زیادہ جتنے حروف بار بار آئیں گے تو قافیوں میں اتنا ہی حسن پیدا ہوگا، دیکھیے مثال نمبر۱ میں عامل اور کامل، ان دونوں میں آخر میں ’’ل‘‘ ہے اور دونوں میں ’’ل‘‘ سے پہلے ’’ام‘‘ بھی ہے۔ اسی طرح مثال نمبر۲ میں رحمان، ارمان، مہمان، نعمان۔ ان چاروں کے آخر میں ’’م‘‘، ’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ تینوں آرہے ہیں۔
کام:
’’اطاعت‘‘، ’’کریم‘‘، ’’عابد‘‘، ’’ولی‘‘ ، ’’انوار‘‘ ، ’’معصوم‘‘ ، ’’اقوال‘‘ ، ’’آباد‘‘ ان میں سے ہر ایک کے وزن پر کم از کم دس دس الفاظ لکھیے۔
ایک اور مثال ملاحظہ کریں: ’’بتانا‘‘ اس لفظ کے بھی ہم چار طرح کے قافیے بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے: سہارا، تماشا، تقاضا، گوارا، نکھارا، نکالا، جھماکا، پکایا۔
2۔اچھے قافیے: بہانہ ، زمانہ ، سہانا ، خزانہ ، فسانہ
3۔بہتر قافیے: جتانا، ستانا۔
4بہترین قافیہ: بتانا(امرِ تاکیدی) اور بِتانا (گزارنا)
کام:
لفظِ ’’بہانہ‘‘ سے پہلی قسم(درست قافیے) کی آٹھ مثالیں، دوسری قسم(اچھے قافیے) کی پانچ مثالیں، تیسری قسم(بہتر قافیے) کی تین مثالیں اور چوتھی قسم(بہترین قافیے) کی ایک مثال لکھیے۔
(واضح رہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ا‘‘ ایک ہی حرفِ روی شمار ہوتے ہیں۔)
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
”شاعری سیکھیں“ سلسلے کی ابتدائی تین قسطیں
پہلی قسط
محترم قارئین!آج ہم آپ کو ایک خوشی کی بات بتاتے ہیں، مگر پہلے یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی کوئی شعر یا نظم بنائی ہے؟ اگر نہیں تو ہم آپ کو سکھاتے ہیں۔پہلی قسط
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ حروف سے مل کر لفظ بنتا ہے اور لفظوں سے مل کر جملہ اور جملوں سے مل کر مضمون یا کہانی وغیرہ بنتا ہے۔
بالکل اسی طرح نظم بنتی ہے شعروں سے مل کر اور شعر بنتا ہے مصرعوں اور قافیے سے مل کر اور مصرع بنتا ہے ارکان سے مل کر اور قافیہ بنتا ہے دماغ سے۔
معلوم ہوا کہ اگر آپ کوقافیہ اور ارکان بنانا آگیا تو مصرع اور شعر بنانا بھی آجائے گا اور جب شعر بنانا آجائے گا تو کچھ اشعار بناکر آپ ایک نظم بھی بنالیں گے، پھر آپ کی نظم پڑھ کر لوگ آپ کو ڈھیر ساری داد دیں گے تو آپ کو کتنی خوشی ہوگی۔
ہے نا خوشی کی بات!
تو آئیے، اب ہم شعر مصرع، ارکان اور قافیہ بنانا سیکھتے ہیں…
سب سے پہلے ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ فائدے کی باتیں بتاتے ہیں:
شعر کے آخر میں جو باوزن الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں، جیسے:
خوشیوں کو کرلیں عام کہ ہے عید کا یہ دن!
سب کو کریں سلام کہ ہے عید کا یہ دن!
اس شعر میں ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیے ہیں۔سب کو کریں سلام کہ ہے عید کا یہ دن!
ان دونوں لفظوں میں غور کریں، دونوں کے آخر میں ’’م‘‘ ہے، اس کو ’’حرفِ روی‘‘ کہتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہورہا ہوگا کہ ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیہ ہیں تو ان دونوں کے بعد ’’کہ ہے عید کا یہ دن‘‘ بھی تو آرہا ہے، یہ کیا ہے؟ تو یہ بھی جان لیجیے کہ ایسے الفاظ جو نظم میں قافیے کے بعد بار بار آرہے ہوں، انھیں ’’ردیف‘‘ کہا جاتا ہے۔
ماشاءاللہ اب تک آپ نے تین چیزیں سمجھ لی ہیں:
1۔قافیہ
2۔حرفِ روی
3۔ردیف
اب انھی تین چیزوں کو ایک اور مثال سے سمجھ لیتے ہیں:
ہر اک ہے مجھ سے تنگ تو میرا ہے کیا قصور!
مجھ کو نہیں ہے ڈھنگ تو میرا ہے کیا قصور!
اس شعر میں ’’تنگ‘‘ اور ’’ڈھنگ‘‘ قافیہ ہیں۔مجھ کو نہیں ہے ڈھنگ تو میرا ہے کیا قصور!
ان دونوں لفظوں میں ’’گ‘‘ حرفِ روی ہے۔
’’تو میرا ہے کیا قصور‘‘ ردیف ہے۔
کام:
کسی بھی نظم میں غور کیجیے اور اس کے تمام قافیے، ان قافیوں میں آنے والا حرفِ روی اور ردیف لکھیے۔
دوسری قسط
پچھلی قسط میں ہم نے قافیہ، ردیف اور حرفِ روی کو مثالوں سے سمجھا تھا، اس دفعہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم قافیہ خود بنانا سیکھیں گے۔یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ شعر کے آخر میں جو ہم آواز الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اب اسے مثالوں سے سمجھیں:
مثال نمبر۱: کامل، عامل، شامل، عادل، ساحل، باطل، قاتل، جاہل، کاہل، حاصل، قابل، نازل۔
مثال نمبر۲: رحمان،ارمان، مہمان، نعمان، احسان، انسان، سنسان،گھمسان، سلطان، شیطان۔
مثال نمبر۳: آم، بام، تام، جام، خام، دام، شام، عام، کام، گام، لام، نام۔
مثال نمبر۴: اور، بور، چور، ، زور، شور، ، مور۔
مثال نمبر۵: اٹک، بھٹک، پھٹک، چٹک، کھٹک، لٹک، کسک، چسک، سسک، بلک، پلک، جھلک، چھلک، ڈھلک، فلک، چمک، دھمک، نمک، کمک۔
اب ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ اہم باتیں بتاتے ہیں:
٭قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی عربی جمع ’’قوافی‘‘ اور اردو جمع ’’قافیوں‘‘ اور ’’قافیے‘‘ ہے۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف کا بالکل ایک جیسا ہونا ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ آرہا ہے۔اسی طرح مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘۔ مثال نمبر ۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘۔ مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ اور مثال نمبر۵ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ک‘‘ آرہا ہے، اسی کو حرفِ روی کہتے ہیں۔
٭قافیوں میں آخری اصلی حرف اگر ساکن ہو تو اس سے پہلے والے حرف کی حرکت کا ایک ہونا بھی ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے۔
٭اگر پہلے قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ ہو اور ساکن ہو تو ہر قافیے میں آخری اصلی ساکن حرف سے پہلے اس ’و‘، ’ی‘ یا ’ا‘ کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھیے مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘ ہے اور ’’ن‘‘ سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘ اور اس سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ سے پہلے ’’و‘‘ ہے۔
٭قافیوں کے آخر میں کم از کم ایک حرف کا بار بار آنا تو ضروری ہے، مگر ایک سے زیادہ جتنے حروف بار بار آئیں گے تو قافیوں میں اتنا ہی حسن پیدا ہوگا، دیکھیے مثال نمبر۱ میں عامل اور کامل، ان دونوں میں آخر میں ’’ل‘‘ ہے اور دونوں میں ’’ل‘‘ سے پہلے ’’ام‘‘ بھی ہے۔ اسی طرح مثال نمبر۲ میں رحمان، ارمان، مہمان، نعمان۔ ان چاروں کے آخر میں ’’م‘‘، ’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ تینوں آرہے ہیں۔
کام:
’’اطاعت‘‘، ’’کریم‘‘، ’’عابد‘‘، ’’ولی‘‘ ، ’’انوار‘‘ ، ’’معصوم‘‘ ، ’’اقوال‘‘ ، ’’آباد‘‘ ان میں سے ہر ایک کے وزن پر کم از کم دس دس الفاظ لکھیے۔
تیسری قسط
محترم قارئین! سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا پچھلی دونوں قسطوں میں دیا گیا کام آپ نے کرلیا ہے یا نہیں؟ اگر کرلیا ہے تو ’’اَلْحَمْدُ ِﷲ!‘‘ کہیں۔
اور اگر آپ نے پچھلا کام نہیں کیا تو پہلے پچھلا کام کریں، پھر یہ قسط حل کریں۔
پچھلی قسط میں ہم نے ’’قافیہ‘‘ خود بنانا سیکھا۔ قافیے سے متعلق بہت سی اہم اہم باتیں بھی سامنے آئیں، اب ہم ان شاء اللہ قافیے سے متعلق مزید دل چسپ باتیں سیکھیں گے۔
قافیوں کے آخر میں جتنے حروف ایک جیسے ہوں گے، قوافی اتنے ہی عمدہ ہوں گے، اس لحاظ سے قوافی کے ہم عقلی طور پر چار درجات بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے 2۔اچھے قافیے 3۔بہتر قافیے 4۔بہترین قافیے۔
1۔درست قافیے: وہ قافیے جن میں صرف آخری حروف ایک جیسے ہوں، باقی سب الگ الگ ہوں، جیسے: جمالی اور گاڑی۔ یہ دونوں لفظ باوزن تو ہیں، مگر ان میں عمدگی نہیں ہے۔
2۔اچھے قافیے: وہ قافیے جن کے آخر میں ایک سے زیادہ حروف ایک جیسے ہوں، جیسے: جمالی اور چنبیلی، ان دونوں کے آخر میں ’’ی‘‘ بھی ہے اور ’’ل‘‘ بھی، لہٰذا یہ قافیے پہلی قسم کی نسبت اچھے ہیں۔
3۔بہتر قافیے: وہ قافیے جن میں زیادہ تر حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی اور کمالی، ان دونوں میں صرف ’’ج‘‘ اور ’’ک‘‘ کا فرق ہے۔ دونوں میں ’’مالی‘‘ آرہا ہے، لہٰذا یہ قافیے دوسری قسم سے بھی زیادہ اچھے اور بہتر ہیں۔
4۔بہترین قافیے: وہ قافیے جن میں سارے حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی(جمال سے) اور جما لی(جمانا سے)، ان دونوں میں سارے حروف ایک جیسے ہیں ، مگر لفظ دونوں الگ الگ ہیں ، لہٰذا یہ سب سے اچھے اور عمدہ قافیے ہیں۔
اور اگر آپ نے پچھلا کام نہیں کیا تو پہلے پچھلا کام کریں، پھر یہ قسط حل کریں۔
پچھلی قسط میں ہم نے ’’قافیہ‘‘ خود بنانا سیکھا۔ قافیے سے متعلق بہت سی اہم اہم باتیں بھی سامنے آئیں، اب ہم ان شاء اللہ قافیے سے متعلق مزید دل چسپ باتیں سیکھیں گے۔
قافیوں کے آخر میں جتنے حروف ایک جیسے ہوں گے، قوافی اتنے ہی عمدہ ہوں گے، اس لحاظ سے قوافی کے ہم عقلی طور پر چار درجات بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے 2۔اچھے قافیے 3۔بہتر قافیے 4۔بہترین قافیے۔
1۔درست قافیے: وہ قافیے جن میں صرف آخری حروف ایک جیسے ہوں، باقی سب الگ الگ ہوں، جیسے: جمالی اور گاڑی۔ یہ دونوں لفظ باوزن تو ہیں، مگر ان میں عمدگی نہیں ہے۔
2۔اچھے قافیے: وہ قافیے جن کے آخر میں ایک سے زیادہ حروف ایک جیسے ہوں، جیسے: جمالی اور چنبیلی، ان دونوں کے آخر میں ’’ی‘‘ بھی ہے اور ’’ل‘‘ بھی، لہٰذا یہ قافیے پہلی قسم کی نسبت اچھے ہیں۔
3۔بہتر قافیے: وہ قافیے جن میں زیادہ تر حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی اور کمالی، ان دونوں میں صرف ’’ج‘‘ اور ’’ک‘‘ کا فرق ہے۔ دونوں میں ’’مالی‘‘ آرہا ہے، لہٰذا یہ قافیے دوسری قسم سے بھی زیادہ اچھے اور بہتر ہیں۔
4۔بہترین قافیے: وہ قافیے جن میں سارے حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی(جمال سے) اور جما لی(جمانا سے)، ان دونوں میں سارے حروف ایک جیسے ہیں ، مگر لفظ دونوں الگ الگ ہیں ، لہٰذا یہ سب سے اچھے اور عمدہ قافیے ہیں۔
بالآخر ہم نے بھی محفل جمالی ہے
یہ محفل کتنی پیاری اور جمالی ہے
یہ محفل کتنی پیاری اور جمالی ہے
ایک اور مثال ملاحظہ کریں: ’’بتانا‘‘ اس لفظ کے بھی ہم چار طرح کے قافیے بناسکتے ہیں:
1۔درست قافیے: سہارا، تماشا، تقاضا، گوارا، نکھارا، نکالا، جھماکا، پکایا۔
2۔اچھے قافیے: بہانہ ، زمانہ ، سہانا ، خزانہ ، فسانہ
3۔بہتر قافیے: جتانا، ستانا۔
4بہترین قافیہ: بتانا(امرِ تاکیدی) اور بِتانا (گزارنا)
کام:
لفظِ ’’بہانہ‘‘ سے پہلی قسم(درست قافیے) کی آٹھ مثالیں، دوسری قسم(اچھے قافیے) کی پانچ مثالیں، تیسری قسم(بہتر قافیے) کی تین مثالیں اور چوتھی قسم(بہترین قافیے) کی ایک مثال لکھیے۔
(واضح رہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ا‘‘ ایک ہی حرفِ روی شمار ہوتے ہیں۔)
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
مدیر کی آخری تدوین: