اچھے اور عمدہ قوافی چنے ہیں۔جلوہ،حلوہ،بلوہ،انبوہ،بٹوہ،شکوہ،لقوہ،قہوہ،علاوہ،یاوہ
سلسلے پر خوش آمدید۔۔۔۔!بھئی یہ اتنا زبردست سلسلہ ہماری نظروں سے کیسے اوجھل رہا؟ خیر شکر ہے دیر آئے درست آئے۔
لیجیے بہ غور مطالعہ کے بعد پہلی قسط پیشِ خدمت ہے۔
جواب درست ہے۔چمن میں نغمہ سرائی کے بعد یاد آئے
قفس کے دوست رہائی کے بعد یاد آئے
وہ جن کو ہم تری قربت میں بھول بیٹھے تھے
وہ لوگ تیری جدائی کے بعد یاد آئے
وہ شعر یوسفِ کنعاں تھے جن کو بیچ دیا
ہمیں قلم کی کمائی کے بعد یاد آئے
حریمِ ناز کے خیرات بانٹنے والے
ہر ایک در کی گدائی کے بعد یاد آئے
ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں تھے جانِ فراز
کہ تجھ کو ساری خدائی کے بعد یاد آئے
قافیہ: رہائی، جدائی، کمائی، گدائی، خدائی
حرفِ روی: ی
ردیف: کے بعد یاد آئے۔
جی ضرور!جناب عبد الرحمن صاحب! اب آپ دوسرا سبق حل کریں۔
جب آپ مناسب سمجھیں سمجھا دے گا، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔جواب درست ہے۔
فی الحال آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حرف روی آخری اصلی حرف کو کہتے ہیں اور وہ ”رہائی ، جدائی ، کمائی ، گدائی ، خدائی“ میں الف ہے ، پھر الف کے بعد جو ”ئی“ ہے وہ ردیف کا حصہ ہے۔
جزاکم اللہ خیرا!ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔ ۔۔
سب درست ہے۔
اب تیسرے سبق کی مشق کریں۔
ارے بھئی جب سہولت ہو تب یہ کام کیا کریں۔بے حد معذرت، بہت تاخیر سے پہنچا ہوں۔
تلافی کے طور پر رات ڈیڑھ بجے مشق حل کرکے ارسال کر رہا ہوں۔
درست قافیے: پرایا، سکھایا، دکھایا، کھلایا، اٹھایا، بٹھایا، گھمایا، ہٹایا
اچھے قافیے: ترانہ، فسانہ، زمانہ، کرانا، دیوانہ (کرانا چل سکتا ہے؟)
بہتر قافیے: بنانا، سمانا، اٹھانا
بہترین قافیے: بہانا
ماشاء اللہ بہت مفید معلومات ہے۔ مگر زبردست کی ریٹنگ کی مستحق ہے۔ارے بھئی جب سہولت ہو تب یہ کام کیا کریں۔
کوئی جلدی نہیں ہے۔
”کرانا“ تیسری قسم کی مثال بنے گی۔
قافیے کے بارے میں چند باتیں دھیان میں رکھیے گا:
1۔ یہ چار قسمیں میری خود ساختہ ہیں، اصل قواعد کی کتب میں صرف دو ہی قسمیں ملتی ہیں: ایک درست قافیہ اور دوسری غلط قافیہ۔
2۔ قافیے کی مباحث کافی پیچیدہ ہیں ، فی الحال انھیں سمجھنے کے بجائے وزن کی ابتدائی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے جو کہ اگلے اسباق میں ہیں۔
3۔ حرف روی کا متحد ہونا ضروری ہے اور حرف روی لفظ کے آخری حرف کو نہیں بلکہ آخری اصلی حرف کو کہتے ہیں جیسے لفظ ”بہانا“ کا آخری حرف ”الف ثانی“ ہے اور آخری اصلی حرف ”الف اول“ ہے، اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس کے بعد سارے حروف گرادینے کے باوجود لفظ کا اصل معنی برقرار رہتا ہے، ”بنانا، سمانا ، اٹھانا“ ان سب کا آخری حرف ”الف ثانی“ ہے اور آخری اصلی حرف ”الف اول“ ہے، لیکن اگر فی الحال یہ بات سمجھ میں نہ بھی آرہی ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ اس کے سمجھنے کے تعلق الفاظ اور مفردات کی اصل اور ان کے مشتقات سمجھنے پر موقوف ہے ، جو کہ آہستہ آہستہ ہی سمجھ میں آتے جائیں گے۔
مزمل شیخ بسمل بھائی! اگر ان میں سے کوئی بات غلط ہو تو اصلاح ضرور فرمائیے گا۔
مزمل شیخ بسمل صاحب نے یہاں بہت اچھے انداز میں تخیل کو سمجھایا ہے۔ماشاء اللہ بہت مفید معلومات ہے۔ مگر زبردست کی ریٹنگ کی مستحق ہے۔
آپ نے کام میں سہولت دی۔ اس کے لیے جزاکم اللہ خیرا!
اچھا آپ سے "تخیل" کے بارے میں بھی سوال کرنا تھا۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ اس کو کیسے حاصل کیا جائے؟ جہاں تک میری معلومات ہے، تخیل کے بغیر شاعری سیکھنا اور اچھے شعر کہنا نا ممکن ہے۔ آپ سے رہ نمائی کی درخواست ہے۔
دیوانہ کیسے ہو گا قافیہبے حد معذرت، بہت تاخیر سے پہنچا ہوں۔
تلافی کے طور پر رات ڈیڑھ بجے مشق حل کرکے ارسال کر رہا ہوں۔
درست قافیے: پرایا، سکھایا، دکھایا، کھلایا، اٹھایا، بٹھایا، گھمایا، ہٹایا
اچھے قافیے: ترانہ، فسانہ، زمانہ، کرانا، دیوانہ (کرانا چل سکتا ہے؟)
بہتر قافیے: بنانا، سمانا، اٹھانا
بہترین قافیے: بہانا