شاعری کیا ہے؟

ہماری یہ بات چیت اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ہم نثر اور نظم کو دو الگ اصناف کے طور پر دیکھ سکیں اور ان کا باہمی موازنہ کر سکیں۔ لیکن اس سے پہلے اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ادب زبان ہی کا حصہ ہے اور زبان نام ہے لفظی اظہار کا۔ اظہار کے لئے موضوع کی کوئی قید نہیں ہو سکتی۔ بلکہ کوئی بھی شخص جو بات کرنے کا سلیقہ اور قرینہ رکھتا ہے، زندگی کے کسی بھی ایک یا زیادہ پہلوؤں پر بات کر سکتا ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ لفظوں میں اظہار کرتا ہے۔ شاعری (غزل، رباعی، قطعہ، نظم ۔ پابند، آزاد، معری - وغیرہ) ہو یا نثر (افسانہ، کہانی، مضمون، رپورتاژ، انشائیہ وغیرہ)، ان سب میں بنیادی مقاصد مشترک ہوتے ہیں۔ اور بہت سے ہوتے ہیں۔ چند ایک کی فہرست یہاں پیش کی جا رہی ہے:۔
۔1۔ اظہارِ ذات: معاملات اور مظاہر کے بارے میں لکھاری کے اپنے تصورات اور محسوسات کیا ہیں، وہ کیا چاہتا ہے، کس بات پر رنجیدہ ہے، کس پر مطمئن ہے، و علیٰ ھٰذا القیاس۔ ظاہر ہے لکھاری اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اپنے الفاظ کے پیچھے موجود ہوتا ہے۔
۔2۔ تعلقِ خاطر: کسی ہستی یا شخصیت کے حوالے سے اپنے محسوسات کا بیان، اپنی آرزوئیں، تمنائیں، محرومیاں، ہجر و وصال، کسک، چاشنی اور دیگر داخلی کیفیات کا جمالیاتی اظہار۔
۔3۔ حمد نعت منقبت: اللہ اور بندے کا تعلق، برگزیدہ بندوں کے ساتھ وابستگی، انسانیت پر اللہ والوں کے کردار و عمل کے اثرات، دعوات اور اس حوالے سے جتنے بھی موضوعات اور زاویے جو حیطہء اظہار میں آ سکیں۔
۔4۔ خارج اور حالاتِ حاضرہ: معاشرہ، معاشرتی تعامل و تفاعل، اقدار اور تعرضات، انسان پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل اور اس حوالے سے متداول افکار اور نظریات، لکھاری کا اپنا اندازِ فکر و نظر، وغیرہ۔
۔5۔ مقصدیت: قلم کار کا مطمعء نظر اور اس کی طرف راہنمائی، اور اس سے متعلق جملہ عناصر۔
۔6۔ اقدار اور روایات: معاشرتی، مذہبی، لسانی، تہذیبی، تمدنی، فکری، افسانوی اور دیگر روایات سے انضباط یا انحراف اور اس کے جملہ انداز۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تاخیر کے لئے معذرت خواہ ہوں، ایک تو بجلی کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور کچھ دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ایک آدھ دن میں حاضر ہوتا ہوں اور سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں، ان شاء اللہ!
 
محبوب الشعراء (کتاب العروض) سے انتخاب
مولوی سید نظیر حسن سخاؔ دہلوی نواب مرزا خان داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔
ان کی یہ تصنیف پہلی بار ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی، میرے پاس اس کے پانچویں ایڈیشن ۱۹۸۳ء کی عکسی نقل ہے۔
محمد یعقوب آسیؔ ، ٹیکسلا (پاکستان)
*******
شاعری
(محبوب الشعراء: صفحہ ۸ تا صفحہ ۱۳)
اس زمانہ میں کیا بلکہ ہر زمانہ میں عشق، حسن، شباب، پیری، ہوشیاری، دیوانگی، وصال، فراق، گلستان، بیابان، سفر، حضر، مصیبت، راحت، کامیابی، ناکامی، امید، یاس، اور انسانی جذبات اور دنیاوی حادثات ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ اس لئے شعر و شاعری بھی انہیں کے ساتھ رہی ہے، اور رہے گی۔ پہلے قواعد منضبط نہ تھے اور اب منضبط ہو گئے۔ مذاق بدل گیا۔ کچھ کچھ ترمیم و تنسیخ بھی ہوئی۔ غرض ہر طبقہ بیکار نہ بیٹھا۔ اِس کوٹھی کے دھان اُس کوٹھی میں کرتا ہی رہا۔ اور اس سلسلہ میں کچھ جدت بھی ہوتی رہی اور ترامیم میں تو نہ کسی کے ارادہ کو دخل ہے نہ مشورہ کی ضرورت۔ زمانہ کے خواص میں سے یہ بھی ایک خاصہ ہے جس کا جلوہ ہر چیرز میں زمانہ کا رنگ بدلنے کے پروہ میں حدوث کا ثبوت دے رہا ہے۔ اور بجز ڈاتِ باری کے کوئی شے بعینہٖ ایک حال پر قائم نظر نہیں آتی۔ بہت سی باتیں اگلوں نے اچھی سمجھیں اب ہمارے متروکات کی فہرست میں داخل ہیں۔ بہت سکے ہم رائے سمجھتے ہیں، آنے والی نسلیں ٹکسال باہر کر دیں گی۔ اچھا اور برا تو حقیقت میں خدا جانے کیا ہے۔ مگر مفروضات کا اس محکمہ پر زیادہ اثر اور دباؤ ہے۔ علم، ملک، زبان، حکومت، مذہب، ضرورتِ مناسبت وغیرہ وغیرہ کے لحاظ سے سوسائٹی جس کو پسند کرے وہ مقبول اور اس کے سوا سب مردود ہے۔
اقبال مند جو چاہیں سو کریں۔ نہ اُن تک دستِ ملامت دراز ہو سکتا ہے نہ زبانِ اعتراض کیونکہ نہ وہ کمال کے دعویدار نہ پیشہ کار۔ اُن کو شوق کے میدان میں قواعد کے گڑھے کرنے کیا ضرور ہیں کہ ہر وقت دیکھ کر چلنا پڑے۔ دوسرے یہ کہ جن مضامین کو ہم بڑی تلاش سے خیال میں لاتے ہیں بمراتب اس سے زیادہ ہر وقت ان کے پیش نظر رہتے ہیں اور اسی لئے عشرت کے مضامین شاہوں کا حصہ اور فقر و فاقہ کے مطالب غربا کا ترکہ اور ورثہ ہے۔ اور صرف غزل کہنے والوں کو یہی معمولی علمیت معمولی فن کی واقفیت کافی ہے۔ زیادہ جگر کاوی کی ضرورت نہیں۔ اگر زیادہ ہو تو بہتر ہے نہ ہو تو خیر مگر شاعری کے دریا کے غوطہ خورو ادرائے ہر قسم سخن کے طالبو، اگر ہر میدان میں حریف سے مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو اِس درجہ نرمی اور آسانی سے اس منزل کا طے ہونا ممکن نہیں ہے۔ بڑے آدمیوں کی برابری فضول ہے۔ ان کا ایک اقبال ہزار کمال کے برابر ہے۔ جس فن کو سیکھتے ہو اُس کے قواعد سیکھو۔ نا جاننے والا مشاق بھی اپنی سلیم طبیعت اور ذہانت کے ذریعہ سے تجربہ کار بڑھیا کی طرح علاج کر لیتا ہے۔ اور خاص امراض میں حکیموں سے بازی لے جاتا ہے مگر باقاعدہ حکیم کو نہیں پہنچتا۔ اگرچہ چند مریضوں کو شفا بھی ہو جائے تاہم کبھی دھوکہ بھی کھا جاتا ہے اور یہ نہ جاننا کیسی بے لطفی ہے کہ جو اچھا ہوا وہ کیوں اچھا ہوا؟ اور جو اچھا نہ ہوا وہ کیوں؟ ان امور کا نہ جاننا حکیم کے لئے کسی نقص اور تشویش کی بات ہے۔ یہ بیچارہ تو برابر دردِ سر میں صندل ہی بتاتا جاتا ہے، شفا ہو یا نہ ہو۔ اور جس دن روغن دارچینی کے عوض ہرے دھنیے کا عرق پیشانی پر لگا دیا اس جگہ موت کا قائم مقام ثابت ہوا۔ اسی طرح بلاغت سے ناواقف شاعروں کا حال ہے۔ آدھی رات کو آنکھ کھلی، پیلو گانے لگے۔ دوپہر کو سوتے اٹھے کالنگڑا اڑانے لگے۔ پانی چھما چھم پڑ رہا ہے، ہولی گا رہے ہیں۔ گرمی کا تڑاخا ہے ملہار گنگنا رہے ہیں۔ کہنے بیٹھے رباعی، وزن ہو گیا قطعہ کا۔ لکھا قصیدہ اور تشبیب میں اونچی چولی، نیچی کرتی، دھانی دوپٹہ سجا رہے ہیں۔ واہ معقول گھر کا مصالحہ دربار میں پیش ہوتا ہے۔ لکھیں گے نعت بن جائے گی حمد، لکھیں گے نعت ہو جائے گی ایک عامیانہ بات اور جو قصیدہ لکھا، سبحان اللہ کچھ معشوق کی تعریف کچھ حمد کچھ نعت کچھ گستاخیاں کچھ متفرق خرافات۔ غرض خرمنِ شاعری کا ’’ست نجا‘‘ لے کر ممدوح پر تصدق کرنے کو چلے۔ پھر اخبار میں بھی چھپتا ہے۔ سلامتی سے دیوالی کے حصہ کی طرح گھر گھر بھی بٹتا ہے۔ اللہ اللہ!
این چہ شوریست کہ در دورِ قمر می بینم
ناسخؔ مرحوم اور ذوقؔ مغفور نے جب کتب خانے کے کتب خانے چاٹ لئے تو دیوان لکھے۔ ہم فقط ان کے دیوان ہی کو دیکھ کر اُن کا جواب لکھنے کو تیرا ہیں۔ میرے استاد، میرے واجب التعظیم، میرے سلطان الشعراء بلبلِ ہندوستان نواب فصیح الملک بہادر حضرت داغؔ دہلوی مد ظلہ کے دیوان کا ایک جواب لکھا گیا۔ اس کا فیصلہ یہی کافی ہے کہ پبلک نے جواب سمجھا یا نہیں اس کی شعراء میں کتنی خواہش اور مانگ پیدا ہوئی اور کے بار چھپا۔ ان ان سوالوں کا جواب خود ہی معلوم ہو رہا ہے ۔ تماشہ یہ ہے کہ حریفوں سے جب کہا کہ پیر و مرشد آپ کا شعر از حد عمدہ ہے لیکن جس شعر کا یہ جواب ہے اس کا مطلب میں نہیں سمجھا آپ سمجھا دیجئے تو پورا لطف آئے۔ مگر بجز سکوت اور حیرت کے جواب نہ آیا۔ ... سچ ہے کہ ایک سے ایک زبردست ہے۔ یاروں نے خدا کے کلام کو بھی لاجواب نہ چھوڑا حضرت داغ تو پھر کس شمار میں رہے۔ اور معلوم ہوا کہ جواب نویسی قدیم رسم ہے۔
تمہیں نے داغ نرالے نہیں اٹھائے ستم
سلف سے یوں ہی مرے یار ہوتی آئی ہے
حضرت کیا آپ ہی سلطان الشعراء بن گئے یا خود ہی فصیح الملک نام رکھ لیا؟ قصائد میں خاقانیؔ انوریؔ کا رنگ کہاں سے آیا۔ آیات کا اقتباس کس نے سکھایا۔ واللہ بے علم تو کیا ذرا کم علم بھی ہوتے تو اُن کے فاضل شاگرد کبھی کے بیعت توڑ کر اپنی اپنی راہ لگے ہوتے۔ اور مجھ سے بھلے مانس کو تو سترہ اٹارہ برس تضیع اوقات کی خدا جانے کیا تلافی کرنی پڑتی معلوم نہیں کہ چپکے چہکے کیا راتب مقرر ہے۔ کہ آج شاگردوں کے رجسٹر میں صد ہا فارغ التحصیل مولویوں کا نام درج ہے، اور روز دس پندرہ ذی استعداد شاگرد غزل لے کر آتے ہیں اور خطوط تو صد ہا۔ قصائد پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن صنائع کا ایسا قادرانہ استعمال کون کر سکتا ہے۔ اور یہ بات تو جدی ہے کہ صاحبِ الہام ہونا آسان ہے اور با استعداد ماننا دشوار، تو برخوردار اَب صاحبِ الہام کی مخالفت میں ایمان نہ جاتا رہے۔ ذرا ہوشیار ہو کر لب ہلاؤ اور اس سے کس کو انکار ہے کہ فضّلنا بعضہم علیٰ بعض۔ لیکن تم کو کیا۔ یہ تووہی مثل ہوئی کہ بربر اور نازاں تم میں دم و درد ہو تو بولو۔
گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنۂ پاکاں برد
حسد چہ مے بری اے سست نظم پر حافظ
قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا داد است
اصل یہ ہے کہ معاملہ ادا بندی، روز مرہ کی سلاست، کلام کی صفائی، مطالب کی آسانی، مضامین کی شوخی غزل کی جان ہیں۔ لیکن اگر کمال سخن اور معراج شاعری بھی اسی کو سمجھے تو غلط ہے۔ اتنی ہی بات سے کلام سدرۃ المنتہا پر نہیں جا سکتا اور اگر اسی دھوکے میں ہو تو اَب صاف صاف سناتے ہیں اور آپ کے بھلے کو آپ کا دل جلاتے ہی۔ آپ نے اگر معاملہ اچھا باندھا تو کمال کیا کِیا، اے حضرت معاملہ تو ہر عیاش، پر خانگی باز اچھا باندھے گا۔ خلافِ شرع پر آپ زیادہ بے باک ہیں تو کیا ثواب کی بات ہے؟ جن سے سیکھے ہو وہ حضرات صوفیہ ہیں وہ جب حد شرع سے عروج کر جاتے ہیں اور شرع شریف جس شے کا جسم ہے اس پر دخل پاتے ہیں اس وقت شیخ وغیرہ کو برا اور علماء ظواہر پر آوازے کستے ہیں۔تم نے وہ درجہ تو حاصل نہ کیا اور شیخ و زاہد کو برا کہہ کر مفت اپنی عاقبت بگاڑی۔ اخلاق کی آبرو ریزی کی نہ خدا کا لحاظ نہ پیمبر کا پاس، مفت آیۃ واشعراء یتّبعم الغاوون کا مصداق بنے۔ آئندہ نسلوں کے لئے غلاظت کا انبار لگا چلے۔ رہا صرف روزمرہ تو وہ تو دلی، لکھنؤ کے مہتر کا بھی اچھا ہوتا ہے۔ کیا کمال کیا۔ کلام میں صرف صفائی ہے تو یہ بھی کیا کرامات ہے۔ جتنا علم کا مطلع صاف اتنا ہی غزل کا مطلع صاف۔ ہاں اگر فطرت نے خاص مادہ عطا فرمایا ہے تو تمام قیود سے آزادی ہے اور منکر سے سند مانگو کہ حسّان نے کس کالج میں پڑھا تھا اور سحبان کو کس یونیورسٹی سے ڈپلوما ملا تھا اور شاعری کو علم و فضل کے ساتھ لازم و ملزوم جانتا ہو تو سمجھو کہ یہ حاسد ہے۔ کبرت کلمۃٌ تخرج من افواہھم اِن یقولون الّا کذبا۔ البتہ عام شائقین کو قواعد کی از حد ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ فیضِ سخن کی وجہ سے ایک ان پڑھ کے منہ سے وہ کچھ نکلے کہ بڑے بڑے فاضل بھی نہ کہہ سکیں۔ لیکن یہ محال ہے کہ روح القدس کلام کی خوبیاں بھی سمجھا جائیں۔ یہ تو وہی سمجھے گا جو بلاغت جانتا ہو۔ دوسرے فیضان اپنے اختیاری نہیں آیا تو جواہر ورنہ پتھر۔ اور قواعد دان شاعر اپنے ارادے سے اپے اشعار میں خوبیاں پیدا کر سکتا ہے۔ کلام میں صفائی بھی ہو، شوخی بھی ہو، روزمرہ بھی اعلیٰ ہو، معاملہ بندی بھی ہو، نازک خیالی بھی ہو، پھر حسنِ بلاغت بھی ہو، عروجِ فصاحت بھی ہو۔ اگر ضرورت ہو تہ سوکتِ الفاظ بھی ہو، متانت، معنی بھی ہو، تشبیہ استعارہ کا رنگ بھی ہو، مجاز و کنایہ کا روغن بھی ہو، دقّت کی جگہ دقّت بھی ہو۔ نہ کہ قصیدہ بھی غزل کے چرخ پر چڑھایا جائے اور غزل میں جمعراتی مناجات یا معمے کا رنگ پایا جائے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ ایک ہی رنگ کے استاد ہیں اور بھی گوبری پستہ جب تمام لوازمات ہوں تو بے اعتدالیاں بھی معاف کر دی جاتی ہیں۔ اور اگر استادوں کی سند لاتے ہو تو یوں سنو۔ اول خوبیاں ویسی پیدا کرو۔ پھر اس بارہ میں بھی ان کی برابری کرنا ورنہ کہاں دریا میں پیشاب کا قطرہ کہاں ایک گلاس بھر پانی میں۔ ویسے ہو جاؤ تو سب معاف ہے۔ ورنہ بے سُروں سے تو جہان بھرا ہوا ہے۔ ایک حمام میں سب ننگے ہیں اور میں بھی انہیں میں ہوں۔ مگر کسی کو اپنی برہنگی نظر آتی ہے اور کسی کو نہیں۔ کوئی نادم ہے کوئی نازاں کوئی متردد ہے کوئی بے فکر۔
ببیں تفاوتِ رہ از کجا ست تا بہ کجا
شعر میں ہر خوبی، جوش، سوز، گداز، معاملہ، ادا، نازک خیالی، زبان، مضمون، رعایت، آمد، شستگی، صفائی، سلاست، اخلاق مناسب اور باموقع ہو۔ تہذیب کی حد متانت رعایت، الفاظ کی شوکت، معنی کی جدت، فکر کی بلندی، طرز کی تازگی، بیان کی شوخی کا خوبصورت اندازہ اور موازنہ رہے نہ کہ کھلم کھلا فحش، ظاہر ظہور بے دینی، بازاری محاورات، رکیک الفاظ، پامال مضمون، مبتذل تشبیہات، سست بندش، نادرست ترکیب، گٹھل کلمات، بھدا اور بھونڈا کلام، سست استعارے، لغات کی ردّی، متروکات کے انبار، غزل میں قصیدہ کا رنگ، قصیدہ میں غزل کی ترنگ، آدھا تیتر آدھا بٹیر، سلونا نہ میٹھا، حلوے اور حلیم کا مجموعہ، خاصے کتے کی قے، صاحبو! خدا را ذرا غور کرو نہ علم کم نہ اہل علم کم پھر مجبوری کیا ہے اور کون سا امر مانع ہے۔ کامل واقفیت تو ادنیٰ توجہ سے نہیں ہو سکتی۔ مگر ضروری واقفیت تو اس ادنیٰ رسالہ سے بھی ممکن ہے۔ میں نہایت آسان طریقہ سے عرض کرتا جاتا ہوں۔ اب بھی سماعت نہ فرمائیں تو میرا کیا قصور ہے۔
غزل کے مضامین
(محبوب الشعراء: صفحہ ۳۵ تا صفحہ ۴۱)
غزل میں بیشتر عشقیہ مضامین ہونے چاہئیں۔ کیونکہ عاشقانہ مضامین غزل کی جان اور روزمرہ اور محاورہ اس کا جسم ہے۔ اگر ان میں کمی ہوئی تو غزل کی غزلیت میں کمی آ گئی۔ عالی یا سنجیدہ مضامین کے لئے قصیدہ اور قطعہ کیا کم ہیں جو غزل کا خاکہ اڑایا جائے۔ اگرچہ اور مضامین بھی ممنوع نہیں لیکن کثرت سے عاشقانہ کی ضرورت ہے۔ جو شعراء اس راہ سے منحرف ہوئے ہیں ان کا کلام کم رائج ہے۔ اور قبولیت عامہ نے شوق کی نظر سے نہیں دیکھا۔ مناسب تو یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے مضامین کی بناء اصلیت پر رکھی جائے۔ تاکہ جو کچھ منہ سے نکلے دلوں میں سرایت کرے۔ اور شاعر اس مضمون کے لطیف اور باطنی پہلوؤں کو لکھ سکے اور کلام کو شاعر کی عمر مذہب صورت خدمت مزاج پیشہ رتبہ اور جمعی تعلقات سے مناسبت ہو ورنہ یہ دقتیں پیش آئیں گی۔
مثلاً اگر شاعر عاشق نہیں ہے تو صرف الفاظ ادا کرنا ایسا ہے جیسے بھانڈ قیس یا فرہاد کی نقل کرے اور اگر قائل کی حالت اس کے قول کی تکذیب بھی کر گئی تو نقل میں بھی نقص رہ گیا۔ مثلاً ایک جوگی تونبا اور مرگ شالا لے کر بادشاہوں کی صورت سے اپنے آپ کو مشابہ سمجھے تو ہنسی نہ آئے گی تو اور کیا ہو گا۔ اسی طرح ایک آراستہ پیراستہ خوش و خرم شخص مصیبت اور پریشانی کے مضمون کہے تو کیا اس جوگی سے مشابہ نہیں اور اس کی حالت اس کے قول کی تکذیب نہیں کر رہی۔ اسی طرح ایک راشی شراب خوار صبر و رضا اور ترک دنیا کے مضامین لکھنے والا اچھا خاصا بیوقوف بہروپیا ہے۔ ایک نوجوان مرد جس کو ابھی بالغ ہوئے ہفتہ بھر بھی مشکل سے ہوا ہو گا ڈاڑھی مونچھ سے معرا مردانہ درشتی سے مبرا پرانے گنہگاروں جیسی باتیں کرے جنہوں نے صد ہا معشوقوں کے ابھار سے ڈلاؤ تک کی سیر کی ہے تو بے تحاشہ ہنسی آئے گی اور یہ معلوم ہو گا کہ بندر آدمی کی سی حرکتیں کر رہا ہے۔یا ایک سو برس کی عمر کا بزرگوار ضعفِ پیری جس کے گلے کا ہار ہے الفت کے تمہیدی مضامین لکھے گا تو جائے گا نانا دانت تو ٹوٹ گئے یہ لوہے کے چنے تمہارے عوض کون چبائے گا۔ کہ ’’پیر خود نتواند ز گوشہ برخواست‘‘ یا ایک چغہ باز ریش دراز مصفیٰ دستار مسجع گفتار مولانا شراب کباب رندی اوباشی کے مضامین پڑھیں کے تو یہی شبہ ہو گا کہ یا لباس مانگے کا ہے یا غزل چوری کی۔ یا ایک قوی جوان جس کو سان گمان بھی نہیں ہے ضعفِ پیری کے مضامین لکھے تو سمجھا جائے گا کہ بھان متی نے بڑھیا کا روپ بھرا ہے اور وہ بھی ادھورا۔ یا کوئی بڈھا جوانی کی بانگ بے ہنگام لگائے تو سمجھا جائے گا ایک بوالہوس نے خضاب کیا ہے اور بھی بد رنگ۔ مگر افسوس یہ طریقہ اس ملک میں چل سکتا ہے جہاں سچ مچ شاعری مقصود ہو۔ ہمارے ملک میں تو شاعری سے یہ مقصد ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی کو اظہارِ لیاقت کسی کو اظہارِ مشق، کسی کو اظہارِ فن کسی کو تعمیل حکم، کسی کو شرکتِ جلسہ، کسی کو لطفِ صحبت، کسی کو اوقات گزاری، کسی کو شہرت، کسی کو کمائی، کسی کو رسائی کسی کو محض تضیع اوقات مقصود ہے تو میرے نزدیک ان ضرورتوں میں اصلیت پر مضامین نے بنا رکھنا گویا شاعری کے دروازہ پر تیغا لگانا ہے۔ ہاں، اپنے اور موقع کے مناسبات کا لحاظ رکھئے اور خیال رہے کہ اگر محض فرضی مضامین محض تقلیداً بھی لکھے جائیں تو طرز پر تاثیر پیرایہ نہایت ہی اصل سے مشابہ اسلوب علیٰحدہ ، طریقہ اچھوتا، زبان نہ ملایانہ نہ بازاری، روزمرہ درست محاورات بر محل، چست الفاظ، بے ساختہ شستہ جملے کہ نہ حرف دبے نہ زبان الجھے تاکہ سماعت پر بار اور سمجھنا دشوار نہ ہو۔ زہاد کی ظاہر داری اور بناوٹ کی ہجو ہو تا کہ معلوم ہو کہ پورا نیک نہ ہونے کی وجہ سے حملہ کیا گیا ہے لیکن ان کی ذات پر حملہ نہ کرے ورنہ کہا جائے گا کہ نیکوں پر اس لیے حملہ کیا گیا ہے کہ وہ پورے نیک کیوں ہیں اور یہی امر قانونِ دین و دنیا کے خلاف ہے۔ یہ صحیح نہیں کہ جو مضامین اگلوں نے لکھے ہوں بلا ترمیم بغیر لحاظ مناسبت ہم بھی لکھے جائیں اور معزز لقب خوش نویسی کے مستحق ہوں۔ کسی استاد نے بے وفائی کا مضمون لکھا ہو تو کیا فرض ہے کہ ہم تقلیداً اپنے وفادار معشوق کو بیوفا ہی بتائیں۔ کسی نے عالم افلاس میں اپنی حالت بے سامانی لکھی ہو تو ایک امیر بھی بجائے شکرِ نعمت کے بیٹھا پیت کو رویا کرے کیا فرض ہے کہ ایک فقیر نے امراء کو دنیا کا کتا بتایا ہو تو ایک امیر کا مصاحب بھی یہی مضمون باندھ کر ٹکٹکی سے باندھا جائے۔ ایک یورپ کے تعلیم یافتہ نے کہا ہو کہ بی بی کا ہاتھ پکڑ کر باغ کی سیر میں مزا آتا ہے تو ایک شریف آدمی شرع شریف کا پابند بھی جس کو اس مفروضہ تہذیب اور عیسویت کی ہوا تک نہ لگی ہو وہ بھی یہی کہے استغفراللہ! یہ مسخرہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔ ہر حال میں اپنی مناسبتوں کا لحاظ سب سے زیادہ مقدم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے منہ سے وہی صدا نکلے جو ہمارے دل سے اٹھی ہو نہ کہ ہم گنبد بن جائیں کہ جو کچھ کوئی اور کہے اس کے سوا کچھ نہ کہہ سکیں۔ بر تقدیر ہمارے دل سے اٹھی ہوئی صدا نہ ہوئی تو بھی ایسی کوشش تو ضرور کی جائے کہ دل سے اٹھی ہوئی صدا معلوم ہو۔
غزل میں بھی بے حد مضامین بندھ سکتے ہیں۔ مثلاً شوق، نامہ و پیام، ملاقات کی تمنا، ملاقات، اقرباء کا خوف، معشوق کے عزیزوں سے اخفا، ان کی رخنہ اندازی یا اس امر کا خوف، اغیار کا دھڑکا، محتسب کا کھٹکا، معشوق کا ملنا، موافقت، یک دلی، نبھاؤ یا بگاڑ، یک جائی، لطفِ وصال، باغوں کی سیر، شبِ ماہ کا لطف، ہم آغوشی، بے تکلفی، ہاتھا پائی، معشوق کی بے اعتنائی، استغناء، صاف جواب، نام بر پر خفگی، پارسائی، شرم، حجاب، بے توجہی منت، اس کی سخت جوابی، رنج نا امیدی، بے قراری، اضطراب، ریشہ دوانی، کامیابی یا ناکامی، دردِ فراق، شوقِ وصال، بد گمانی۔
شراب و کباب، جوانی کا جوش یاروں کی صحبتیں، جلسے، محفل آرائی، دیوانہ حرکت، مستی کے ولولے، راگ رنگ، دنیا و ما فیہا سے بے غمی، سامانِ عیش کی فراہمی، شحنہ سے بے خوفی، واعظ سے نفرت، شیخ کی عداوت و حوارت، بارش کا موسم، سبزہ زار، بلبلوں کا ہجوم، قمریوں کی کو کو، طوطیوں کی نغمہ سرائی، صبا کی روانی، حوض کی لبریزی، نہروں کی موج خیزی، فوارہ کی گوہر افشانی، پرندوں کا ہجوم، مرغانِ نوا سنج کا بولنا، نسیم کی مستانہ روش، سروکی قطار بندی، چنار کی بلندی، خوشبو کا انتشار، شاخوں کا لچکنا، سبزہ کی لہک، گل و سنبل کی مہک۔
خزاں، پتوں کی زردی، ہوا کی پریشاں رفتاری، بلبل کی خاموشی، گلوں کا پژمردہ ہونا، تنہائی، سناٹا، شاخوں کی برہنگی، سردی کا جوش، ژالہ باری، جوانی، رندانہ خیالات، ماضی و مستقبل کی فراموشی، سیر و شکار، قدرتی مناظر، فطری جذبات، حسن پر فوری میلان، ناز انداز، افلاس، علم کی بے قدری، زمانہ کی سفلہ پروری، اہلِ زمانہ کارشک، زمانہ کی عدم موافقت، منصوبوں کا بن بن کر بگڑنا، فراق، دردِ جدائی، دشت پیمائی، آوارگی، نالہ، آہ، فریاد، وحشت، تنہا پسندی، گوشہ نشینی، شکایاتِ اغیار، شکوۂ آسماں، تمنائے نامہ بر، مقدر کا گلہ، آرزوئے رازداں، منتِ پاسباں۔
عمر، جوانی کا جوش و خروش، حوصلہ مندی، خیالات کی بلندی، سب سے بے پرواہی، آئندہ ترقی کے ولولے، حسن و عشق کے کرشمے، پیری، ضعفِ قویٰ، دنیا کا تجربہ، عالم کی بے ثباتی، دولت کی بیوفائی، اہلِ زمانہ کا منافقانہ برتاؤ، دوست کی کمیابی، دوستی کے فوائد، عاقبت کا خیال، گذشتہ کا افسوس و ملال، آئندہ کا بند و بست، موت کا خیال، قبر کا جاں خراش تذکرہ، گور کی تنہائی، فرشتوں کے سوال و جواب، اعمال کی پرسش، ہمیشہ کا خوابِ راحت یا دائمی عذاب و زحمت۔ پیاری اولاد و اقربا کی جدائی، اسبابِ دنیا کا حالتِ بے اختیاری میں چھوڑ جانا، گناہوں پر نادم ہونا، معاصی پر خجالت سے رونا، توبہ پر آمادگی یا گناہوں پر اصرار، یادِ الٰہی کا ذوق، روزہ نماز کا شوق، بس اللہ اس کے علاوہ باقی ہوس، خوشی، غم، حسرت، ندامت، شکر، شکایت، سبب صبر و رضا، قناعت، توکل، رغبت، نفرت، رحم، انصاف، غصہ، تعجب، امید، یاس، شوق، انتظار، حب وطن، قومی ہمدردی، رجوع الی اللہ، حمایتِ دین و مذہب، دنیا کی بے ثباتی۔
اس کے علاوہ صد ہا جذبات اور کیفیات جو نفس پر واقع ہوتے اور گذرتے ہیں لکھے جا سکتے ہیں۔ صرف ذرا خیال میں وسعت اور مزاج میں بہت اور اندھی تقلید سے نفرت ہو۔ لیکن کچھ ہی کیوں نہ کہیے کلام غزل سرائی میں غزلیت سے باہر نہ ہونے پائے۔ بجائے اس کے اگر چند ہی مضامین میں غزلیت کو محدود کر دیا جائے تو جب ہر مضمون کے اسلوب تمام ہو جائیں گے تو بجائے تازگی کے اعادہ و تکرار شروع ہو جائے گی۔ اور صرف ردیف قافیہ اور وزن کا اختلاف زیادہ غرابت اور جدت نہیں پیدا کر سکتا۔ بہروپیا جب تک نئے روپ بھر بھر کر لاتا ہے بشاشت اور تعجب دونوں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر جب پلٹ پلٹ کر وہی روپ آنے شروع ہوتے ہیں تو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ صرف طرح کا اختلاف اسی قدر تفاوت پیدا کرتا ہے جیسے کھانڈ کے کھلونوں کا سانچہ کہ شکل جدا جدا مگر مادہ اور مزہ ایک۔ غزل میں صفائی کا از حد لحاظ رہے کیونکہ یہ گلدستہ ہے اس میں کانٹوں کی گنجائش نہیں۔ ہاں قصیدہ ایک گلزار ہے جس میں سبزہ زار بھی ہے اور سر بفلک کشیدہ اشجار بھی۔ کہیں گل ہیں اور گلوں میں خار کہیں نہریں اور نہروں میں آبشار۔ غزل کو خاص پسند بنانے کی بہ نسبت عام پسند بنانا بہتر ہے اور قصیدہ کو اس کے خلاف۔ اور اس کی یہ ترکیب ہے کہ عاشقانہ مضامین، عام دلوں میں آنے والے خیالات، مضمون جدید، ورنہ اسلوب عمدہ، الفاظ شوخ، جن خیالات کی طرف عام طبائع کا میلان ہو وہ معاملات لکھ کر عام دل چسپی حاصل کی جائے، تا کہ نہ سماعت پر بار ہو نہ یاد کر لینا دشوار۔ مضمون میں جہاں تک ہو تعمیم سے کام لیا جائے۔ مثلاً یہ مضمون کہ: جس انسان کو معشوقوں کی محبت نہ وہ پتھر ہے؛ یوں عام کر دیا جائے کہ جس کو محبت نہ ہو وہ پتھر ہے۔ پہلی صورت میں اس کا صرف عاشق و معشوق ہی تک تعلق تھا اور اب اس درجہ وسعت پیدا ہو گئی کہ آپ کا شعر ماں بیٹی باپ بیٹے میاں بی بی آقا و نوکر، شاگرد و استاد، پیر مرید، حتیٰ کہ بندہ اور خدا سب کی باہمی نسبت کا بیان ہو گیا اور صدہا موقعوں کی مناسبت پیدا ہو گئی۔
غیر مانوس الفاظ سے اس قدر بچنا چاہئے کہ عیب دار ہونے سے شعر کا نہ ہونا لاکھ درجے بہتر ہے۔ حب زر کے عقض حب ذہب، شیرِ خدایا اسداللہ کی جگہ ضیغمِ صمد کی ضرورت نہیں۔ ایسے امور میں استادوں کی سند کے بھروسہ بے فکر نہ ہو۔ وہ استاد تھے۔ ان کا نام بھی ادب سے لیا جاتا ہے مگر آپ سے کوئی در گذر نہ کرے گا۔ ہمیشہ خوبیوں میں اساتہ کی تقلید کیجئے اور ان کی ایسی مسامحتوں کو خدا کے حوالے کیجئے۔ اور جہاں اور کلام کے عیوب یادرکھے جاتے ہیں یہ بھی ایک عیب جان لیجئے کہ ھو کلام روزمرہ اور قاعدہ سے اتنا دور جا پڑے کہ سند کے سوا مقبول ہی نہ ہو سکے یہ بھی خود ایک نقص ہے۔ اور اس شعر کو اس آدمی کی مانند جانئے جع بدنام ہو مگر جرم ثابت نہ ہونے دے۔
فارسی تراکیب سے شوکتِ الفاظ پیدا کیجئے مگر نہ اس قدر کہ شعر اضافتوں کا بار بن جائے۔ ایک اضافت بہت خوبصورت، دو خوب صورت، تین متواتر بدنما، چار بدرجۂ لاچاری جائز اور اس سے زیادہ کلام کو فصاحت سے خارج کر دیتی ہیں۔ عربی لغات بہت مستعمل ہیں اور کلام کی متانت وزن دار ہونے میں ایک خاص اثر ہے مگر نہ اس قدر کہ کلام گٹھل ہو جائے اور حروف حلقی کا گلے میں پھندا پڑ جائے۔ تشبیہ سے عقلی چیزوں کو قریب الفہم اور مؤثر بنانا لازم ہے کہ جیسے علم کی تشبیہ شمع سے موت کی تشبیہ اذدہے سے حسی چیزوں کو عقلی چیزوں سے تشبیہ دے کر نادر و قابل قدر اور لائق عزت ثابت کرنا چاہئے جیسے قد کی تشبیہ قیامت سے ، عارض کی تشبیہ نورِ خدا سے۔ استعارات سے مناسبات پیدا ہوتے ہیں۔ محاورات اکثر اسی لباس میں پوشیدہ ہیں، کلام میں رونق اور وسعت بھی اسی سے آتی ہے۔ کنایہ سے کلام میں وسعت اور بلاغت پیدا ہوتی ہے اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ کنایہ صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ مجاز کے بھی اکثر فائدے وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے اور جو لوگ صراحت پر بے حد عاشق ہیں خود پوچ ہیں اور ایسوں ہی کے قول کی اہلِ علم میں وقعت نہیں۔
صنائع بدائع جو بے تکلف آن پڑیں سبحان اللہ!جو شعر کوشعریت سے کھو دیں ان پر لعنت اللہ۔ صنائع کے درپے ہونے سے اکثر معنی کا سلسلہ بے ربط ہو جاتا ہے۔ شعراء دو قسم کے ہیں ایک نہایت پر تکلف، ان کے اشعار واہ کے طالب ہیں اور ایک فرقہ نہایت بے تکلف ان کے اشعار آہ کے حقدار۔ اگر ذرا غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ واہ والے محض تماشہ ہیں اور آہ والے صاحبِ تاثیر۔ واہ والوں کا قبضہ صرف زبانوں پر ہے اور آہ والوں کا سکہ دلوں پر۔
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک

سرقہ
(محبوب الشعراء: صفحہ ۷۹ تا صفحہ ۸۶)
چوری کے چند اقسام ہیں۔ انتحال اور نسخ اسے کہتے ہیں کہ الفاظ اور معنی یعنی شعر بغیر کسی تغیر کے اپنے نام سے پڑھیں اگر فرق ہو تو صرف تخلص کا۔ تماشہ ہے کہ یہ شعر دو استادوں کے دیوان میں موجود ہے:
خدا کرے نہ تمہیں میرے حال سے واقف
نہ ہو مزاج مبارک ملال سے واقف
مندرجہ ذیل اشعار میرؔ صاحب کے ہیں مگر افسوس کہ منشی دیا شنکر نسیم کے کلام میں بھی موجود ہیں:
چمن میں گل نے جو کل دعوئ جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اُس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
بہارِ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمنِ قدم نے ترے نہال کیا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
یہ اشعار نسیم لکھنوی کے کلام میں دو چار الفاظ کے تفاوت سے موجود ہیں۔ ایک پوری غزل حافظؔ صاحب کے دیوان میں بھی اور مسلمان ساوجی کے دیوان میں بھی موجود ہے۔ مطلع یہ ہے:
زِ باغِ وصلِ تو یابدریاضِ رضواں آب
زِ تابِ ہجرِ تو دارد شرارِ دوزخ تاب
دونوں استاد، دونوں ہم عصر، اب کس کو کیا کہا جائے۔ مگر چند اشعار میں متواتر توارد ہونا بھی نہایت عجیب ہے اور سرقہ بھی کہنا دشوار ہے۔ اسی طرح بہت سے موقعے نظر میں ہیں مگر بخوفِ طوالت ترک کرتا ہوں۔
اِغارہ یا مسخ سرقہ کی دوسری قسم ہے۔ اس میں کسی قدر تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ کچھ الفاظ اپنی طرف سے ملا دیتے ہیں۔ جیسے:
اے بتو، اس قدر خفا ہم پر
عاقبت بندۂ خدا ہیں ہم
(میر)
ٹک تو رحمxکر اے بُتِ بے رحم
آخرش بندۂ خدا ہیں ہم
(جرأت)
x یہاں غالباً کتابت کی کوئی غلطی ہے، میں نے جیسا کتاب میں پڑھا نقل کر دیا۔ (آسیؔ )
چلی دشتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
(سراج)
نہ سوکھی شاخِ غم الحمد للہ
جسے کہتے ہیں شاخِ دل ہری ہے
(جرأت)
بوئے کبابِ سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر کو آتشِ غم نے جلا دیا
(میر)
خدا جانے کیا کیا حال دل کا آتشِ غم نے
کہ ہے بوئے کبابِ سوختہ ہر آہِ سوزاں میں
(ظفر)
کہیو قاصد وہ جو پوچھیں ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
(میر)
وہ جو پوچھیں ہمیں کیا کرتے ہیں
کہیو قاصد کہ دعا کرتے ہیں
(اسیر)
میری رائے تو یہ ہے کہ توارد اور سرقہ میں بجز کہنے والے کے علم و ایمان کے کوئی شہادت قطعی نہیں۔ میں نے جو مثالیں اوپر لکھیں، اس میں علاوہ اس بدگمانی کے بہت سے پہلو پاتا ہوں۔ اور خود اس تمام خرافات کا جواب دیتا ہوں مگر افسوس! مفروضہ عدل کرنے والے کیا سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ جس کی نظر حقیقی انصاف پر ہے اور شاعری کے نشیب و فراز جانتا ہے میری رائے کا موازنہ کرے گا۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ ایک سلسلہ کی چیزیں غیرمناسب بھی ہو ں تو بھی مشابہ اور یکساں ہوتی ہیں۔
*******
 
مجھے تو یہ شعر وزن سے خارج لگ رہا ہے۔

بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

بڑی مشکل (مفاعیلن) سے یہ جانا (مفاعیلن) کہ ہجرِ یا (مفاعیلن) ر میں رہنا (مفاعیلن)

بہت مشکل (مفاعیلن) ہے پر آخر (مفاعیلن) میں آسانی (مفاعیلن) بہت ہے (فعولن)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟

آپ کیا فرماتے ہیں؟


محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، الف عین صاحب۔

 
مجھے تو یہ شعر وزن سے خارج لگ رہا ہے۔

بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

بڑی مشکل (مفاعیلن) سے یہ جانا (مفاعیلن) کہ ہجرِ یا (مفاعیلن) ر میں رہنا (مفاعیلن)

بہت مشکل (مفاعیلن) ہے پر آخر (مفاعیلن) میں آسانی (مفاعیلن) بہت ہے (فعولن)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟

آپ کیا فرماتے ہیں؟


محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، الف عین صاحب۔

ناچیزکےنزدیک یہ شعر وزن سے خارج نہیں ہے۔ یہ منیر نیازی کا شعر ہے اور غزل میں ہر شعر کا مصرع ثانی ہزج محذوف اور پہلا مصرع ہزج سالم میں ہے۔ اسی طرح مطلع بھی مکمل ہزج محذوف میں ہے۔ اس لیے اسے شاعر کاتصرف کہا کائے گا۔ وزن سے خارج کہنا ناانصافی ہوگی۔
 
ناچیزکےنزدیک یہ شعر وزن سے خارج نہیں ہے۔ یہ منیر نیازی کا شعر ہے اور غزل میں ہر شعر کا مصرع ثانی ہزج محذوف اور پہلا مصرع ہزج سالم میں ہے۔ اسی طرح مطلع بھی مکمل ہزج محذوف میں ہے۔ اس لیے اسے شاعر کاتصرف کہا کائے گا۔ وزن سے خارج کہنا ناانصافی ہوگی۔

شکریہ جناب شیخ صاحب! صرف ایک وضاحت فرما دیجئے کہ منیر نیازی کو جو حقِ تصرف حاصل ہے، اس کی تعمیم کی کیا صورت ہو گی۔

جناب الف عین کی توجہ کا ہنوز منتظر ہوں۔
 
شکریہ جناب شیخ صاحب! صرف ایک وضاحت فرما دیجئے کہ منیر نیازی کو جو حقِ تصرف حاصل ہے، اس کی تعمیم کی کیا صورت ہو گی۔
جناب الف عین کی توجہ کا ہنوز منتظر ہوں۔

کم از کم منیر نیازی جتنا عروضی ہونا تو شرط ہے۔ یوں بھی میں تو عروض میں ایسے تصرفات کا کھلے دل سے قائل ہوں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ منیر نیازی کوئی بہت بڑے عروضی نہیں تھے۔ لیکن اگر کوئی شاعر موزوں کلام کہنے پر دسترس رکھتا ہے تو وہ ایسے تصرفات کا بلا تکلف اپنے کلام میں تجربہ کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس طرح کے تصرفات کوئی نئی چیز نہیں، ساحر لدھیانوی اور دوسرے شعرا نے اپنے متعدد منظومات میں، اور کچھ شعرا جس میں انشا اللہ خان انشا بھی شامل ہیں اپنی غزلوں میں بھی ایسی گنجائشیں نکال کر اشعار کہے ہیں۔
 
کم از کم منیر نیازی جتنا عروضی ہونا تو شرط ہے۔ یوں بھی میں تو عروض میں ایسے تصرفات کا کھلے دل سے قائل ہوں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ منیر نیازی کوئی بہت بڑے عروضی نہیں تھے۔ لیکن اگر کوئی شاعر موزوں کلام کہنے پر دسترس رکھتا ہے تو وہ ایسے تصرفات کا بلا تکلف اپنے کلام میں تجربہ کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس طرح کے تصرفات کوئی نئی چیز نہیں، ساحر لدھیانوی اور دوسرے شعرا نے اپنے متعدد منظومات میں، اور کچھ شعرا جس میں انشا اللہ خان انشا بھی شامل ہیں اپنی غزلوں میں بھی ایسی گنجائشیں نکال کر اشعار کہے ہیں۔

بجا ارشاد، تاہم ایک گزارش ضرور کروں گا کہ’’ گنجائش نکالنا‘‘ اور ’’تصرف سے کام لینا‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بات اپنے معیار سے ہٹی ہوئی ضرور ہے، چاہے تھوڑی سی ہٹی ہوئی ہے۔ تو پھر اس کو ’’خارج از وزن‘‘ قرار دینے میں صرف ایک چیز مانع لگتی ہے؛ شاعر کون ہے؟ اگر کوئی غیر معروف ہے تو ’’خارج از وزن‘‘ ہے ، اور کوئی معروف نام ہے تو اس کا دفاع یا خاموشی؟
آپ کو یاد ہو گا، ایک بار آپ نے مجھے بھی ٹوکا تھا کہ ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں، اور میں نے آپ کے اس ارشاد کو بے کم و کاست تسلیم کیا تھا، اب بھی کرتا ہوں۔ منیر نیازی، ساحر لدھیانوی، انشاء اللہ خان انشاء کو اگر یہ حق حاصل ہے تو مجھے اور آپ کو کیوں نہیں، اور اگر مجھے اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں تو ان بزرگوں کو کیوں حاصل ہے؛ یہ سوال بہر حال تشنہ ہے۔ اور اگر ان کی سند پر میں بھی تصرف کرتا ہوں، آپ بھی کرتے ہیں تو پھر وہ ضابطہ کیا ہوا کہ: ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں۔
آپ کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
 
آخری تدوین:
بجا ارشاد، تاہم ایک گزارش ضرور کروں گا کہ’’ گنجائش نکالنا‘‘ اور ’’تصرف سے کام لینا‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بات اپنے معیار سے ہٹی ہوئی ضرور ہے، چاہے تھوڑی سی ہٹی ہوئی ہے۔ تو پھر اس کو ’’خارج از وزن‘‘ قرار دینے میں صرف ایک چیز مانع لگتی ہے؛ شاعر کون ہے؟ اگر کوئی غیر معروف ہے تو ’’خارج از وزن‘‘ ہے ، اور کوئی معروف نام ہے تو اس کا دفاع یا خاموشی؟
آپ کو یاد ہو گا، ایک بار آپ نے مجھے بھی ٹوکا تھا کہ ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں، اور میں نے آپ کے اس ارشاد کو بے کم و کاست تسلیم کیا تھا، اب بھی کرتا ہوں۔ منیر نیازی، ساحر لدھیانوی، انشاء اللہ خان انشاء کو اگر یہ حق حاصل ہے تو مجھے اور آپ کو کیوں نہیں، اور اگر مجھے اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں تو ان بزرگوں کو کیوں حاصل ہے؛ یہ سوال بہر حال تشنہ ہے۔ اور اگر ان کی سند پر میں بھی تصرف کرتا ہوں، آپ بھی کرتے ہیں تو پھر وہ ضابطہ کیا ہوا کہ: ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں۔
آپ کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔

یہاں بات در اصل تھوڑی مختلف ہے۔ جہاں میں نے کہا کہ سالم اور محذوف کا ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں وہاں معاملہ عروض کا تھا۔ اگر بات آپ کے "کلام" کی ہوتی تو مجھے چنداں اعتراض نہیں تھا کیونکہ کلام میں ایسے تصرفات کو میں بھی جائز مانتا ہوں۔ البتہ وہاں معاملہ عروضی اسباق کا تھا جہاں آپ نے اسے جائز قرار دیا تھا۔ اس لیے مجھے وہاں پر اعتراض تھا جو کہ آپ کے سامنے رکھ دیا کہ عروض کے نئے طلباء پہلے سبق سے ہی اگر غلط سیکھیں گے تو آگے کیا ہوگا؟
 
آخری تدوین:
مزمل بھائی بات واضح نہیں ہوئی۔
مطلب تو یہی نکلا نا کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی قواعد کی رو سے غلط ہے۔

اصل بات ہے ہی یہی، علامہ صاحب! قاعدہ تو وہی مبتدی کے لئے ہے اور وہی منتہی کے لئے ہے۔
جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے، جو غلط ہے وہ غلط ہے؛ وہ محمد اسامہ سرسری ہو، محمد یعقوب آسی ہو، منیر نیازی ہو، انشاء اللہ خان انشاء ہو، غالب ہو، اقبال ہو، فیض ہو، کوئی بھی ہو!

شیخ صاحب بعض شخصیات کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کو تصرف کا حق دیتے ہیں تو یہ ان کی وسیع المشربی ہے۔ میں ان کے دوستانہ جذبات کی قدر کرتا ہوں۔
 
اصل بات ہے ہی یہی، علامہ صاحب! قاعدہ تو وہی مبتدی کے لئے ہے اور وہی منتہی کے لئے ہے۔
جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے، جو غلط ہے وہ غلط ہے؛ وہ محمد اسامہ سرسری ہو، محمد یعقوب آسی ہو، منیر نیازی ہو، انشاء اللہ خان انشاء ہو، غالب ہو، اقبال ہو، فیض ہو، کوئی بھی ہو!

شیخ صاحب بعض شخصیات کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کو تصرف کا حق دیتے ہیں تو یہ ان کی وسیع المشربی ہے۔ میں ان کے دوستانہ جذبات کی قدر کرتا ہوں۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مزمل بھائی دو الگ الگ چیزیں بتانا چاہ رہے ہیں ، مگر فرق کی وضاحت نہیں کرسکے، یا میں سمجھ نہیں سکا۔
ممکن ہے میرا اندازہ غلط ہو اور نرم گوشہ ہی کار فرما ہو۔
 
مزمل بھائی بات واضح نہیں ہوئی۔
مطلب تو یہی نکلا نا کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی قواعد کی رو سے غلط ہے۔

بالکل یہی بات درست ہے کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی طور پر غلط ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا خیال بھی ضروری ہے کہ شعر کہنے والا کون ہے۔۔۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قوانین کی پابندی مبتدی کے لیے ہے۔ منتہی کے لیے ان پابندیوں کا اختیار کرنا اور ان پابندیوں میں اپنی طرف سے گنجائش نکالنا اس بات کا بڑا حصہ کسی استاد، یا ماہر فن کی صوابدید پر بھی ہے۔
اب دیکھو اردو نحوی تراکیب میں اگر کوئی مبتدی سیکھنے والا سیکھنے آئے تو اسے اصول سکھائے جاتے ہیں یا فروعات؟ میرے خیال میں کسی بھی فن کے فروعات سکھائے نہیں جاتے بلکہ وقت کے ساتھ خود ہی ان پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔
ایک مثال لو :

1۔ میں لاہور جا رہا ہوں
2۔ میں جا رہا ہوں، لاہور۔
3۔ لاہور جا رہا ہوں۔

یہ ایک ہی جملہ ہے لیکن پہلا جملہ جس قدر درست ہے باقی اتنے درست نہیں ہیں۔ اور جس نے اردو گرائمر کو ابھی پڑھنا شروع ہی کیا ہو وہ دوسرے اور تیسرے جملے کی ترکیبی نوعیت کیا جانتا ہے؟ ہم خود ہی اردو میں کس قدر تصرفات سے کام لیتے ہیں۔ خصوصاً شاعری میں، وہاں گرائمر کہاں جاتی ہے؟ اگر تھوڑا غور سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ جب انسان کسی فن پر مکمل دسترس حاصل کرلے تو اسے قوانین کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر عروض تو ویسے بھی شاعری میں ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ تو اساتذہ پر اعتراض کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ اور وہ بھی اس وقت جب ایک شاعر نے اپنے لیے غزل میں بحر کے استعمال کا طریقہ متعین کرلیا ہو، وہ پہلے ہی بتا رہا ہو کہ میں سارے غیر مقفی مصرعے سالم میں اور مقفی محذوف میں رکھوں گا۔ یہاں تو لوگ نثر کو شاعر کہہ دیتے ہیں تو منیر نے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ :) یہ علٰیحدہ بات ہے کہ کوئی ایک مصرع سالم کی جگہ محذوف میں جا پڑتا، یا محذوف کی جگہ سالم میں جا پڑتا۔ یا آدھی غزل محذوف اور چند مصرعے سالم وغیرہ کے ہوتے تو یہ کہنا بنتا تھا کہ غلطی ہوئی ہے۔
ہاں آپ اگر غالب پر اعتراض کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں کہ انہوں نے اس رباعی میں وزن کی غلطی کی ہے اور رباعی کا دوسرا مصرع خارج از وزن ہے::

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

:) :) :)
 
بالکل یہی بات درست ہے کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی طور پر غلط ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا خیال بھی ضروری ہے کہ شعر کہنے والا کون ہے۔۔۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قوانین کی پابندی مبتدی کے لیے ہے۔ منتہی کے لیے ان پابندیوں کا اختیار کرنا اور ان پابندیوں میں اپنی طرف سے گنجائش نکالنا اس بات کا بڑا حصہ کسی استاد، یا ماہر فن کی صوابدید پر بھی ہے۔
اب دیکھو اردو نحوی تراکیب میں اگر کوئی مبتدی سیکھنے والا سیکھنے آئے تو اسے اصول سکھائے جاتے ہیں یا فروعات؟ میرے خیال میں کسی بھی فن کے فروعات سکھائے نہیں جاتے بلکہ وقت کے ساتھ خود ہی ان پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔
ایک مثال لو :

1۔ میں لاہور جا رہا ہوں
2۔ میں جا رہا ہوں، لاہور۔
3۔ لاہور جا رہا ہوں۔

یہ ایک ہی جملہ ہے لیکن پہلا جملہ جس قدر درست ہے باقی اتنے درست نہیں ہیں۔ اور جس نے اردو گرائمر کو ابھی پڑھنا شروع ہی کیا ہو وہ دوسرے اور تیسرے جملے کی ترکیبی نوعیت کیا جانتا ہے؟ ہم خود ہی اردو میں کس قدر تصرفات سے کام لیتے ہیں۔ خصوصاً شاعری میں، وہاں گرائمر کہاں جاتی ہے؟ اگر تھوڑا غور سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ جب انسان کسی فن پر مکمل دسترس حاصل کرلے تو اسے قوانین کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر عروض تو ویسے بھی شاعری میں ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ تو اساتذہ پر اعتراض کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ اور وہ بھی اس وقت جب ایک شاعر نے اپنے لیے غزل میں بحر کے استعمال کا طریقہ متعین کرلیا ہو، وہ پہلے ہی بتا رہا ہو کہ میں سارے غیر مقفی مصرعے سالم میں اور مقفی محذوف میں رکھوں گا۔ یہاں تو لوگ نثر کو شاعر کہہ دیتے ہیں تو منیر نے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ :) یہ علٰیحدہ بات ہے کہ کوئی ایک مصرع سالم کی جگہ محذوف میں جا پڑتا، یا محذوف کی جگہ سالم میں جا پڑتا۔ یا آدھی غزل محذوف اور چند مصرعے سالم وغیرہ کے ہوتے تو یہ کہنا بنتا تھا کہ غلطی ہوئی ہے۔
ہاں آپ اگر غالب پر اعتراض کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں کہ انہوں نے اس رباعی میں وزن کی غلطی کی ہے اور رباعی کا دوسرا مصرع خارج از وزن ہے::

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

:) :) :)
بہت خوب مزمل بھائی۔۔۔۔ کچھ کچھ سمجھ میں آیا ہے۔
 
Top