محمد یعقوب آسی
محفلین
درستی فرما لیجئے:
ادب اور ادبی زبان کا عام زبان سے امتیازی خط تو نہیں کھینچا جا سکتا، تاہم ۔۔۔
ادب اور ادبی زبان کا عام زبان سے امتیازی خط تو نہیں کھینچا جا سکتا، تاہم ۔۔۔
مجھے تو یہ شعر وزن سے خارج لگ رہا ہے۔
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
بڑی مشکل (مفاعیلن) سے یہ جانا (مفاعیلن) کہ ہجرِ یا (مفاعیلن) ر میں رہنا (مفاعیلن)
بہت مشکل (مفاعیلن) ہے پر آخر (مفاعیلن) میں آسانی (مفاعیلن) بہت ہے (فعولن)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟
آپ کیا فرماتے ہیں؟
محمد وارث صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب، الف عین صاحب۔
ناچیزکےنزدیک یہ شعر وزن سے خارج نہیں ہے۔ یہ منیر نیازی کا شعر ہے اور غزل میں ہر شعر کا مصرع ثانی ہزج محذوف اور پہلا مصرع ہزج سالم میں ہے۔ اسی طرح مطلع بھی مکمل ہزج محذوف میں ہے۔ اس لیے اسے شاعر کاتصرف کہا کائے گا۔ وزن سے خارج کہنا ناانصافی ہوگی۔
شکریہ جناب شیخ صاحب! صرف ایک وضاحت فرما دیجئے کہ منیر نیازی کو جو حقِ تصرف حاصل ہے، اس کی تعمیم کی کیا صورت ہو گی۔
جناب الف عین کی توجہ کا ہنوز منتظر ہوں۔
کم از کم منیر نیازی جتنا عروضی ہونا تو شرط ہے۔ یوں بھی میں تو عروض میں ایسے تصرفات کا کھلے دل سے قائل ہوں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ منیر نیازی کوئی بہت بڑے عروضی نہیں تھے۔ لیکن اگر کوئی شاعر موزوں کلام کہنے پر دسترس رکھتا ہے تو وہ ایسے تصرفات کا بلا تکلف اپنے کلام میں تجربہ کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس طرح کے تصرفات کوئی نئی چیز نہیں، ساحر لدھیانوی اور دوسرے شعرا نے اپنے متعدد منظومات میں، اور کچھ شعرا جس میں انشا اللہ خان انشا بھی شامل ہیں اپنی غزلوں میں بھی ایسی گنجائشیں نکال کر اشعار کہے ہیں۔
بجا ارشاد، تاہم ایک گزارش ضرور کروں گا کہ’’ گنجائش نکالنا‘‘ اور ’’تصرف سے کام لینا‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بات اپنے معیار سے ہٹی ہوئی ضرور ہے، چاہے تھوڑی سی ہٹی ہوئی ہے۔ تو پھر اس کو ’’خارج از وزن‘‘ قرار دینے میں صرف ایک چیز مانع لگتی ہے؛ شاعر کون ہے؟ اگر کوئی غیر معروف ہے تو ’’خارج از وزن‘‘ ہے ، اور کوئی معروف نام ہے تو اس کا دفاع یا خاموشی؟
آپ کو یاد ہو گا، ایک بار آپ نے مجھے بھی ٹوکا تھا کہ ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں، اور میں نے آپ کے اس ارشاد کو بے کم و کاست تسلیم کیا تھا، اب بھی کرتا ہوں۔ منیر نیازی، ساحر لدھیانوی، انشاء اللہ خان انشاء کو اگر یہ حق حاصل ہے تو مجھے اور آپ کو کیوں نہیں، اور اگر مجھے اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں تو ان بزرگوں کو کیوں حاصل ہے؛ یہ سوال بہر حال تشنہ ہے۔ اور اگر ان کی سند پر میں بھی تصرف کرتا ہوں، آپ بھی کرتے ہیں تو پھر وہ ضابطہ کیا ہوا کہ: ’’سالم‘‘ اور ’’محذوف‘‘ کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست نہیں۔
آپ کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
مزمل بھائی بات واضح نہیں ہوئی۔
مطلب تو یہی نکلا نا کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی قواعد کی رو سے غلط ہے۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مزمل بھائی دو الگ الگ چیزیں بتانا چاہ رہے ہیں ، مگر فرق کی وضاحت نہیں کرسکے، یا میں سمجھ نہیں سکا۔اصل بات ہے ہی یہی، علامہ صاحب! قاعدہ تو وہی مبتدی کے لئے ہے اور وہی منتہی کے لئے ہے۔
جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے، جو غلط ہے وہ غلط ہے؛ وہ محمد اسامہ سرسری ہو، محمد یعقوب آسی ہو، منیر نیازی ہو، انشاء اللہ خان انشاء ہو، غالب ہو، اقبال ہو، فیض ہو، کوئی بھی ہو!
شیخ صاحب بعض شخصیات کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کو تصرف کا حق دیتے ہیں تو یہ ان کی وسیع المشربی ہے۔ میں ان کے دوستانہ جذبات کی قدر کرتا ہوں۔
مزمل بھائی بات واضح نہیں ہوئی۔
مطلب تو یہی نکلا نا کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی قواعد کی رو سے غلط ہے۔
بہت خوب مزمل بھائی۔۔۔۔ کچھ کچھ سمجھ میں آیا ہے۔بالکل یہی بات درست ہے کہ سالم اور محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا عروضی طور پر غلط ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا خیال بھی ضروری ہے کہ شعر کہنے والا کون ہے۔۔۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قوانین کی پابندی مبتدی کے لیے ہے۔ منتہی کے لیے ان پابندیوں کا اختیار کرنا اور ان پابندیوں میں اپنی طرف سے گنجائش نکالنا اس بات کا بڑا حصہ کسی استاد، یا ماہر فن کی صوابدید پر بھی ہے۔
اب دیکھو اردو نحوی تراکیب میں اگر کوئی مبتدی سیکھنے والا سیکھنے آئے تو اسے اصول سکھائے جاتے ہیں یا فروعات؟ میرے خیال میں کسی بھی فن کے فروعات سکھائے نہیں جاتے بلکہ وقت کے ساتھ خود ہی ان پر دسترس حاصل ہوجاتی ہے۔
ایک مثال لو :
1۔ میں لاہور جا رہا ہوں
2۔ میں جا رہا ہوں، لاہور۔
3۔ لاہور جا رہا ہوں۔
یہ ایک ہی جملہ ہے لیکن پہلا جملہ جس قدر درست ہے باقی اتنے درست نہیں ہیں۔ اور جس نے اردو گرائمر کو ابھی پڑھنا شروع ہی کیا ہو وہ دوسرے اور تیسرے جملے کی ترکیبی نوعیت کیا جانتا ہے؟ ہم خود ہی اردو میں کس قدر تصرفات سے کام لیتے ہیں۔ خصوصاً شاعری میں، وہاں گرائمر کہاں جاتی ہے؟ اگر تھوڑا غور سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ جب انسان کسی فن پر مکمل دسترس حاصل کرلے تو اسے قوانین کی ضرورت نہیں رہتی۔ پھر عروض تو ویسے بھی شاعری میں ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ تو اساتذہ پر اعتراض کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ اور وہ بھی اس وقت جب ایک شاعر نے اپنے لیے غزل میں بحر کے استعمال کا طریقہ متعین کرلیا ہو، وہ پہلے ہی بتا رہا ہو کہ میں سارے غیر مقفی مصرعے سالم میں اور مقفی محذوف میں رکھوں گا۔ یہاں تو لوگ نثر کو شاعر کہہ دیتے ہیں تو منیر نے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ یہ علٰیحدہ بات ہے کہ کوئی ایک مصرع سالم کی جگہ محذوف میں جا پڑتا، یا محذوف کی جگہ سالم میں جا پڑتا۔ یا آدھی غزل محذوف اور چند مصرعے سالم وغیرہ کے ہوتے تو یہ کہنا بنتا تھا کہ غلطی ہوئی ہے۔
ہاں آپ اگر غالب پر اعتراض کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں کہ انہوں نے اس رباعی میں وزن کی غلطی کی ہے اور رباعی کا دوسرا مصرع خارج از وزن ہے::
دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب