شاعری کیا ہے؟

ارے بھئی وہ اوزان میں نے یاد تھوڑا ہی کرلیے ہیں۔:)
یاد تو میں نے بھی نہیں کیے بھئی۔ بہر حال تقطیع اس طرح ہوگی :)

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
مفعولن فع فاعلن مفاعیلن فع
مفعول مفاعلن مفاعیل فعَل
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع
 
یاد تو میں نے بھی نہیں کیے بھئی۔ بہر حال تقطیع اس طرح ہوگی :)

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
مفعولن فع فاعلن مفاعیلن فع
مفعول مفاعلن مفاعیل فعَل
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع
جزاکم اللہ خیرا۔ میرے خیال میں ایک ”رک“ کا اضافہ خطائے کاتب ہے نہ کہ خطائے غالب۔ واللہ اعلم۔
 
آخری تدوین:
ایک اقتباس

شاعری نہ تو کلیتاً ’’آمد‘‘ ہوتی ہے اور نہ ’’آورد‘‘ بلکہ یہ ان دونوں کے بین بین کوئی عمل ہے جو شاعر کے تحت الشعور میں تکمیل پاتا ہے۔ بعض اوقات بنے بنائے مصرعے ذہن میں تشکیل پا جاتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کے بقول پوری کی پوری نظمیں یوں وارد ہوتی ہیں جیسے کوئی قوت املاء لکھا رہی ہو۔ ذاتی طور پر ہمیں کوئی ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک آدھ مصرع یا کبھی کبھار ایک دو شعر جیسے لاشعور سے ابھر کر شعور میں آ جاتے ہیں، باقی غزل البتہ بنانی پڑتی ہے۔ بسا اوقات خواہش کے باوجود کئی کئی ماہ تک ایک مصرع بھی موزوں نہیں ہوتا۔
شاعری یوں بھی کوئی مفرد شے نہیں جسے ایک دو جملوں میں بیان کر دیا جائے۔ صرف لفظوں کی ترتیب و تزئین، موسیقیت اور عروض کے التزام، تجربہ نظریہ اور تخیّل کی ترسیل وغیرہ شاعری کے پورے عمل کا احاطہ نہیں کرتے۔ شاعر کے ہاں بہت سارے عوامل بیک وقت یوں کار فرما ہوتے ہیں کہ انہیں الگ الگ دیکھنا محال ہے۔ اس کے اندر تخلیق کی ایک جنگ ہمہ وقت جاری رہتی ہے جس کا ادراک بسا اوقات اسے خود بھی نہیں ہوتا۔ چند ایسے عوامل اور محرکات درجِ ذیل ہیں:
T اظہارِ ذات کا جذبہ
T الہامی کیفیت اور تحریک
T معاشرتی نفسیات کا رچاؤ
T ثقافتی مظاہر اور اقدار
T مشاہدہ کی علامتی اور فکری سطح
T تخیل اور تجزیہ کی آنکھ مچولی
T شاعر کی استعداد اور معاشرے میں اس کا مقام
T طبعی رجحان اور شخصی نظریات
T زبان اور بیان کے تقاضے اور ادراک
T شعری وجدان اور خدا داد صلاحیت
علمِ عروض محض ایک حسابی علم سے بہت آگے، معاشرتی رویّوں سے منسلک ایک سہ رُخا علم ہے۔ تاہم معلوم عروضی رویے اور زیرِ بحث مواد کے ساتھ اس علم کا سلوک کسی نہ کسی سطح پر حسابی ضرور ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ عروض کا مقصد شاعر پر پابندیاں لگانا نہیں بلکہ اس کی صلاحیتوں کو اس حد تک بڑھانا ہے کہ اس کو مصرع ’’بنانا‘‘ نہ پڑے بلکہ عروضی ادراک بھی شاعر کے اندر ہونے والی مذکورہ بالا جنگ کا فریق بن جائے۔ یہ یقیناً شاعر کی حسِ لطیف کو جِلا بخشے گا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے شعر کہنے کی رفتار متأثر ہو مگر شعر کا معیار بہر حال بہتر ہو گا۔ اور یہی اس علم کا حاصل ہے۔
کسی بھی تہذیب کا اعلیٰ ترین مظہر زبان ہے اور شاعری زبان کی اعلیٰ قدر ہے۔علمِ عروض شاعری کو نکھارنے سنوارنے کا ضامن ہونے کی حیثیت سے اس اعلیٰ قدر کا ضامن ہے۔ اس میں بھی دیگر معاشرتی علوم کی طرح کوئی خالص حسابی فارمولا نہیں دیا جا سکتا، تاہم چند بنیادی سوال ایسے ضرور ہیں جن کا جواب دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ جوابات مزید بہت سے سوالوں کو جنم دیتے ہیں اور اس طرح تحقیق کی ابتدا ہوتی ہے۔


’’فاعلات‘‘ (انٹرنیٹ ایڈیشن) از محمد یعقوب آسی
اٹھارہواں باب : ’’عروضی نظریے کی تشکیل‘‘
 
آخری تدوین:
Top