صابرہ امین
لائبریرین
اتنا ہنسانے کا بہت شکریہ ۔ مضمون کے علاوہ آپ کے جوابات بھی بے انتہا مزہ دے گئے۔
یوسفی کی جگہ بہرحال خالی ہے۔ کیا خیال ہے ظہیراحمدظہیر بھائی؟؟
یوسفی کی جگہ بہرحال خالی ہے۔ کیا خیال ہے ظہیراحمدظہیر بھائی؟؟
دو آتشہ کا تحمل کر سکیں تو۔ کنفرم جنتی۔ بھی سرچ کر لیجیے گا۔ویسے مجھے بھی کل ہی علم ہوا آپ حضرات کے مراسلوں کے بعد، لیکن سننے کی سعادت ابھی تک نصیب نہیں ہوئی، دیکھتے ہیں کسی روز۔
کیا خاک بزنس چل پڑا ۔ آپ جیسے دو تین اور گاہک آگئے تو ہمارا کام تو ٹھپ ہی سمجھیے۔ اللّٰہ ہی جانے کب کمیٹیاں نکلیں گی اور کب اُگاہی ہوگی۔ تب تک توتمام اسٹاف شعرا غزلوں کے بجائے مرثیے اور شہر آشوب لکھنے لگیں گے ۔ہاہاہا۔ ۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کا بزنس چل پڑا ہے ۔ اب ہم ایک صغیم دیوان چھپوائیں یا درجن بھر کتا بچے!
ویسے پیڑ گننے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
ارررے۔ معاف کردیجیے ۔ غلطی ہوگئی۔ دیوان بھجواتے ہیں آپ کو۔ چپل ہاتھ سے رکھ دیجیے ۔اگر دیوان جلد از جلد نہ بھیجا تو امی والی ڈانٹ بھی آتی ہے ہمیں ۔ جی ی ی ی ی !!
ہنسنے کا شکریہ! جیسے سوال تھے ویسے ہی جواب ۔ دونوں ہی پرلطف رہے۔اتنا ہنسانے کا بہت شکریہ ۔ مضمون کے علاوہ آپ کے جوابات بھی بے انتہا مزہ دے گئے۔
یوسفی کی جگہ بہرحال خالی ہے۔ کیا خیال ہے ظہیراحمدظہیر بھائی؟؟
ظہیر بھائی، کیا آپ نے اردو مزاح نگاروں کو پڑھا؟ اگر ہاں تو، نام تو بتلائیے۔ہنسنے کا شکریہ! جیسے سوال تھے ویسے ہی جواب ۔ دونوں ہی پرلطف رہے۔
حسنِ ظن کا بہت شکریہ ۔ میں کیا ،میری بساط کیا! اللّٰہ آپ کو اجرِ خیر عطا فرمائے ۔ یوسفی کی جگہ ہمیشہ خالی رہے گی۔ یہ جگہ پُر ہونے کے لیے خالی نہیں ہوئی ۔ یوسفی جیسے قلمکار ایک دو ہی پیدا ہوتے ہیں ۔
میں کس کھیت کی گاجر ہوں ۔ مجھے تو ہما شما میں شمار کیجیے۔ یوسفی صاحب کے خوشہ چینوں میں تو بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شعر ہو یا نثر ، ہر نیا لکھنے والا پرانے لکھاریوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر آتا ہے۔ اور پہلے سے موجود بنیادوں پر اپنی عمارت کھڑی کرتا ہے ۔ یوسفی صاحب مینارۂ نور ہیں اور طنز و مزاح کا ہر سفینہ اس کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کرتا ہے ۔
علی بھائی، اگر سوال یوں پوچھا جائے کہ صف اول کے کس مزاح نگار کو نہیں پڑھا تو جواب دیناآسان ہوگا۔ویسے ستر اسی کی دہائی تک شائع شدہ تقریبا ہر قابل ذکر مصنف کو پڑھا ۔ بعد میں صرف چنیدہ لوگوں کو۔ جب ڈاکٹر یونس بٹ جیسے "مزاح نگار" پیدا ہونے لگے تو خوش قسمتی سے کتابیں پڑھنے کی فرصت بھی کم ہوگئی ۔ سو بچت ہوگئی۔ظہیر بھائی، کیا آپ نے اردو مزاح نگاروں کو پڑھا؟ اگر ہاں تو، نام تو بتلائیے۔
دیوانِ ٹریفک کی اشاعت کے بعد سے یہ کاروبار تو بند ہوگیا ۔ظہیر بھائی، کیا ٹرکوں، بسوں اور کوسٹروں والی شاعری مل سکتی ہے۔ اگر مل سکتی ہے تو براہِ کرم ان کے نرخ بھی اپنی دکان پر آویزاں کریں۔
یہ تو شاید بند ہو گئیکئی سال پہلے شکاگو کے کتاب گھر میں ( ادبی کتب کی مشہور دکان جسے حیدرآباد دکن کے ایک شاعر و ادیب چلاتے ہیں ) کھڑے کھڑے اس کتاب کی ورق گردانی کرنےکا اتفاق ہوا ۔
عین ممکن ہے ایسا ہوگیا ہو۔ کئی سال ہوگئے اس دکان پر گئے مجھے۔یہ تو شاید بند ہو گئی
تھینکس گیونگ پر شکاگو گئے تو ڈیون ایوینیو پر بھی جانا ہوا تھا۔ خیال تو یہی ہے کہ دکان بڑھا گئے لیکن پکا نہیں کہہ سکتاعین ممکن ہے ایسا ہوگیا ہو۔ کئی سال ہوگئے اس دکان پر گئے مجھے۔
ڈیون ایونیو المعروف بہ دیوان!تھینکس گیونگ پر شکاگو گئے تو ڈیون ایوینیو پر بھی جانا ہوا تھا۔ خیال تو یہی ہے کہ دکان بڑھا گئے لیکن پکا نہیں کہہ سکتا
اب اشتباہ ہورہا ہے کہ کتاب کا نام دیوان ٹریفک نہیں بلکہ دیوان ٹرانسپورٹ تھا شاید۔ اگر کہیں سے مل جائے تو بہت دیر تک اچھی تفریح کا سامان مہیا کرسکتا ہے۔دیوانِ ٹریفک کی اشاعت کے بعد سے یہ کاروبار تو بند ہوگیا ۔
یہاں امریکا میں ایک صاحب ہیں انہوں نے غالباً آٹھ دس سال پہلے "دیوانِ ٹریفک" کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کے لیے وہ باقاعدہ پاکستان گئے اور بسوں ، رکشوں اور ٹرکوں کا تعاقب کرکے کئی سو اشعار اس کتاب کے لیےجمع کیے ۔ کئی سال پہلے شکاگو کے کتاب گھر میں ( ادبی کتب کی مشہور دکان جسے حیدرآباد دکن کے ایک شاعر و ادیب چلاتے ہیں ) کھڑے کھڑے اس کتاب کی ورق گردانی کرنےکا اتفاق ہوا ۔ ایک قطعہ کچھ اس طرح کا تھا جو ذہن میں رہ گیا۔
پھٹے جو دودھ تو کھیر ہوجائے
لگے جو تکا تو تیر ہوجائے
برامت کہو کسی موالی کو
نہ جانے کب وزیر ہوجائے
اشعار میں وزن نہیں ہے لیکن بات بہت وزنی ہے۔ اتفاق کرنا پڑے گا۔
بعضے آثار یہاں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔اب اشتباہ ہورہا ہے کہ کتاب کا نام دیوان ٹریفک نہیں بلکہ دیوان ٹرانسپورٹ تھا شاید۔ اگر کہیں سے مل جائے تو بہت دیر تک اچھی تفریح کا سامان مہیا کرسکتا ہے۔
نذیر انبالوی کی تالیف کردہ "مزاحیہ شاعری کا انسائیکلو پیڈیا" میں بھی ایک سیکشن "چلتا پھرتا ادب" کے عنوان سے ہے۔دیوانِ ٹریفک کی اشاعت کے بعد سے یہ کاروبار تو بند ہوگیا ۔
یہاں امریکا میں ایک صاحب ہیں انہوں نے غالباً آٹھ دس سال پہلے "دیوانِ ٹریفک" کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کے لیے وہ باقاعدہ پاکستان گئے اور بسوں ، رکشوں اور ٹرکوں کا تعاقب کرکے کئی سو اشعار اس کتاب کے لیےجمع کیے ۔ کئی سال پہلے شکاگو کے کتاب گھر میں ( ادبی کتب کی مشہور دکان جسے حیدرآباد دکن کے ایک شاعر و ادیب چلاتے ہیں ) کھڑے کھڑے اس کتاب کی ورق گردانی کرنےکا اتفاق ہوا ۔ ایک قطعہ کچھ اس طرح کا تھا جو ذہن میں رہ گیا۔
پھٹے جو دودھ تو کھیر ہوجائے
لگے جو تکا تو تیر ہوجائے
برامت کہو کسی موالی کو
نہ جانے کب وزیر ہوجائے
اشعار میں وزن نہیں ہے لیکن بات بہت وزنی ہے۔ اتفاق کرنا پڑے گا۔
اردو محفل میں اس کتاب کا تذکرہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔
بہت شکریہ ، علی! جلد ہی دیکھتا ہوں ان روابط کو ۔ بہت شکریہ!
خواہر محترم ۔ بیشک آپ زندہ دل ، صاف دل، خوش دل ، سادہ دل ، وغیرہ وغیرہ دل کی مالک ہیں ۔ اللّٰہ کریم ہمیشہ زندہ رکھے! بہت دعائیں
اگرچہ آپ نے یہ بات مذاق میں ہے مگر نہ جانے کیوں پرانے زمانے کی امیاں یاد آ گئیں۔ وہ ایک آدھ لگا بھی لیتی تھیں اور خاصی ڈانٹ ڈپٹ تو معمولی بات تھی مگر بچے بھول بھال جاتے تھے ۔ارررے۔ معاف کردیجیے ۔ غلطی ہوگئی۔ دیوان بھجواتے ہیں آپ کو۔ چپل ہاتھ سے رکھ دیجیے ۔