شام میں حضرت اویس قرنیؓ کے مزار اور مسجد کو دھماکے سے نقصان

آبی ٹوکول

محفلین
حضور آپ خلط مبحث فرمارہے ہیں آپ صحاح ستہ کا نام لیکر نام نہاد تاریخی روایات کو سند بخشنے کی کوشش کررہے ہیں ہماری صحاح ستہ تو درکنار چوتھے درجے کی کتب حدیث میں بھی ایسی کوئی روایت موجود نہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر کو جلایا گیا انھے ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ مارا پیٹا بھی گیا مگر شیر خدا مولائے کل کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں انکے لیے تلوار لیکر نکلنا تو درکنار مار پیٹ کرنا بھی ثابت نہ ہو بلکہ کوئی ہلکا سا زبانی کلامی احتجاج بھی انھوں نے نہ ریکارڈ کروایا ہو میرے نزدیک یہ تمام باتیں ایسی صورتحال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں قریبا محال ہیں آج کہ دور کا کوئی ادنٰی سے ادنٰی انسان بھی اپنی بیوی کی حفاظت میں اگر اور کچھ نہ کرسکے تو کم از کم وقت کہ جابروں کے سامنے واویلا تو کرتا ہی ہے احتجاج تو ریکارڈ کرواتا ہی ہے ۔۔۔ خیر کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں اس قسم کی خرافاتی روایات کہ جنکو عقل سلیم تو درکنار مجرد عقل بھی تسلیم نہ کرپاتی ہو، کی کوئی حیثیت نہیں باقی ٹھیک ہے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا کہ اہل تشیع بخاری کی اس مخصوص روایت کے پس منظر کو نہیں مانتے باقی والسلام من اتبع الھدٰی
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
حضور آپ خلط مبحث فرمارہے ہیں آپ صحاح ستہ کا نام لیکر نام نہاد تاریخی روایات کو سند بخشنے کی کوشش کررہے ہیں ہماری صحاح ستہ تو درکنار چوتھے درجے کی کتب حدیث میں بھی ایسی کوئی روایت موجود نہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر کو جلایا گیا انھے ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ مارا پیٹا بھی گیا مگر شیر خدا مولائے کل کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں انکے لیے تلوار لیکر نکلنا تو درکنار مار پیٹ کرنا بھی ثابت نہ ہو بلکہ کوئی ہلکا سا زبانی کلامی احتجاج بھی انھوں نے نہ ریکارڈ کروایا ہو میرے نزدیک یہ تمام باتیں ایسی صورتحال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں قریبا محال ہیں آج کہ دور کا کوئی ادنٰی سے ادنٰی انسان بھی اپنی بیوی کی حفاظت میں اگر اور کچھ نہ کرسکے تو کم از کم وقت کہ جابروں کے سامنے واویلا تو کرتا ہی ہے احتجاج تو ریکارڈ کرواتا ہی ہے ۔۔۔ خیر کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں اس قسم کی خرافاتی روایات کہ جنکو عقل سلیم تو درکنار مجرد عقل بھی تسلیم نہ کرپاتی ہو، کی کوئی حیثیت نہیں باقی ٹھیک ہے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا کہ اہل تشیع بخاری کی اس مخصوص روایت کے پس منظر کو نہیں مانتے باقی والسلام من اتبع الھدٰی
اگر حضور کہیں تو آپ ہی کی کتابوں سے اس واقعے پر دلیلیں پیش کر سکتا ہوں۔۔۔ جن میں آپ کی تاریخ کی معتبر کتب بھی ہیں۔
لیکن اتنا تو صحاح کی روایات سے ہی ثابت ہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام تا آخر حیات بعض لوگوں سے ناراض رہیں۔۔ اور ہرگز ان سے نہ بولیں۔
قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ
بخاری کے الفاظ ہیں۔ فاطمہ تا آخر عمر ابوبکر سے ناراض رہیں اور ان سے نہیں بولا یہاں تک کہ فاطمہ وفات پاگئیں۔ نبی کے بعد فاطمہ چھے ماہ زندہ رہیں اور جب فوت ہوئیں تو علی نے رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو جنازہ میں آنے کی اجازت نہ دی۔
پوری حدیث یہاں ملاحظہ کیجیے:
http://library.islamweb.net/newlibr...227&idfrom=3960&idto=4001&bookid=0&startno=39

صحیح بخاری کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو
3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ
پس فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان سے بولنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔

اور پھر ساتھ میں صحاح کی اس روایت کو ملائیں جس میں رسول اسلام نے فرمایا "فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا"
اب کسی شخصیت کو بچانےکے لیے تاویلات ہی کرنی ہیں تو اس کام سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔۔۔ لکم دینکم ولی دین۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
۔
اگر حضور کہیں تو آپ ہی کی کتابوں سے اس واقعے پر دلیلیں پیش کر سکتا ہوں۔۔۔ جن میں آپ کی تاریخ کی معتبر کتب بھی ہیں۔
لیکن اتنا تو صحاح کی روایات سے ہی ثابت ہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام تا آخر حیات بعض لوگوں سے ناراض رہیں۔۔ اور ہرگز ان سے نہ بولیں۔
قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى مَاتَتْ
بخاری کے الفاظ ہیں۔ فاطمہ تا آخر عمر ابوبکر سے ناراض رہیں اور ان سے نہیں بولا یہاں تک کہ فاطمہ وفات پاگئیں۔ نبی کے بعد فاطمہ چھے ماہ زندہ رہیں اور جب فوت ہوئیں تو علی نے رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو جنازہ میں آنے کی اجازت نہ دی۔
پوری حدیث یہاں ملاحظہ کیجیے:
http://library.islamweb.net/newlibr...227&idfrom=3960&idto=4001&bookid=0&startno=39

صحیح بخاری کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو
3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ
پس فاطمہ ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور ان سے بولنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔

اور پھر ساتھ میں صحاح کی اس روایت کو ملائیں جس میں رسول اسلام نے فرمایا "فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا"
اب کسی شخصیت کو بچانےکے لیے تاویلات ہی کرنی ہیں تو اس کام سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔۔۔ لکم دینکم ولی دین۔

اتنا تو تنزل تو حضور نے فرما لیا کہ تاریخ سے معتبر تاریخ اور پھر اب صحاح ستہ کی وہ بھی فقط ایک روایت کہ جس کے الفاظ بھی خود سیدہ کائنات کہ نہیں بلکہ زہری کا تفرد ہے ۔ اس صاحب ذی فہم و علم پر تعجب ہے کہ جو محض ظن و تخمین کی بنا پر ایسی ایسی بڑی ہستیوں پر ایسے ایسے حکم لگاتا ہے فیا للعجب ۔
خیر ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں اور آپ کے قریبا سبھی مراسلات کو فالو بھی کرتا ہوں کہ آپ یہاں مکتبہ اہل تشیع کے عقائد کا کھل کا اظہار و پرچارکرتے ہیں خیر حق بھی ہے آپ جناب کا ، جواب مگر میں نہیں دیتا کبھی بھی ، کیونکہ ایک تو بحث گوارا نہیں اور دوسرے یہ اوپن فورم ہے یہاں اول تو خلط مبحث بہت ہوتا ہے جبکہ ثانیا تمام تر قارئین کی ذہنی استعداد و رسائی ایک جیسی نہیں ہوتی لہذا یہ امر بھی مانع ہے بحث کو ۔۔۔
جہاں تک بات ہے تاریخ کی تو عرض ہے کہ تاریخ آپ کے ہاں عقائد کے باب میں کوئی بنیادی ماخذ اور اصول الاصول ہوگی ہمارے ہاں تو اسے حدیث کے مقابلے میں درخور اعتنا ہی نہیں جانا جاتا، رہ گئی تاویل کی بات تو تاویل کوئی شجر ممنوعہ تو نہیں حضرت؟؟؟؟ خاص کراس وقت کہ جب خود قرآن پاک نے بطور علم کہ پیغمبروں کے لیے اس کا اثبات فرمایا ہو اور میں تو کہتا ہوں کہ کیوں نہ تاویل کی جائے امت کو انتشار سے بچانے کے لیے ؟؟؟؟؟ ۔
ایک اچھا امر ہی تو ہے امت سے نفاق و کجی کی جڑ کاٹنے کے لیے کیا نہیں؟؟؟ کہ بعض روایات کے ظاہر الفاظ کے معنی میں امت کے طرفین کے بڑوں کے حق میں حسن ظن رکھتے ہوئے تاویل کی جائے تاکہ غلط فہمیاں کم ہوں اور قربتیں بڑیں اور اگر نیتیں خالص و خوب ہوں تو ایسی تاویلات بار ثمر آور بھی ہوسکتیں ہیں میرے بھائی پھر بھی اگر علم تاویل جان یار پر اس قدر گراں گزر رہا ہے تو انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کے ہاں تو تاویل سے بھی بہت بڑے درجے کا تکلف ب۔صورت " تقیہ " کے برتا جاتا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا ؟؟؟ کہ چلو جان ہی چھوٹی کسی لفظ کے ظاہری معنی میں تاویل جیسا جوکھم اٹھا کر اسکے حقیقی و مرادی معنی تلاش کرنے کے کشٹ سے ، سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ فلاں جگہ جو یہ یہ الفاظ آئے تھے وہ سراسر جھوٹ تھا کہ جسے اہل تشیع اصول میں تقیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اللہ اللہ تے خیر صلا ۔
عقائد آپ کہ بھی اگر آپ ہی کی معتبر اصول اربعہ سے یہاں اگر کھول دیئے گئے توعلم تاویل تو دور کی بات ہے کہ سوائے تقیہ کے اور کوئی جائے پناہ ہی نہیں ملنے والی میرے پیارے بھائی کو ۔ خیر کہنا یہ چاہتا تھا کہ یہاں بحث مقصود نہ تھی فقط ایک روایت کا پس منظر آپ کی کتب کہ حوالہ سے پوچھنا بطور جاننے کے مقصود تھا کہ جسکی بنا پر بنا سوچے سمجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کومطعون کیا جاتا ہے جبکہ سبب اس روایت کا ذات علی رضی اللہ عنہ ہیں اور رہ گئی بخاری کی روایت کی بات تو اس پراگر جذباتیت سے سوچوں تو مجھے سیدہ کائنات فقط محض زمین کے چند ٹکڑوں کی ملکیت کے لیے صدیق اکبر کا پاس استغاثہ کرتی ہوئی قطعی دکھائی نہیں دیتیں ہاں اگر بتقاضائے بشریت اور قانونی رو سے اگر دیکھوں، تو سیدہ کا جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اپنے محبوب والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن کر تاحیات صدیق اکبر سے ناراض رہنا قطعی سمجھ سے باہر ہے بلکہ عقل سلیم پر بھی بار گراں ہے جبکہ ایک عام مسلمان کا خاندان اہل بیت سے جو جذباتی و روحانی رشتہ ہے اس کے بھی منافی ہے یہ بات سراسر ۔ اور کیوں اور کس لیے سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوتیں ؟؟؟؟؟ کیا محض اس لیے کہ مال فئی کی تقسیم کا صدیق نے وہی دستور جاری کرنا چاہا جوکہ خود انکے محبوب بابا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھا یا پھر اپنے بابا اور ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے سہمت نہ تھیں سیدہ ؟؟؟ معاذاللہ ثم معاذاللہ۔۔۔۔۔۔
خیر کہنا ایک بار پھر یہی چاہتا ہوں کہ یہ ایسے معاملات ہیں کہ ان پر صدیوں سے طرفین نے لا تعداد دلائل رقم کیئے یہ فورم ان سب دلائل کا متحمل نہیں کیونکہ جانبین نے دفتر کے دفتر رقم کررکھے ہیں ان سب معاملات پر لیکن آج تک امت کی خلیج بجائے پاٹنے کہ اور بڑی ہے ان معاملات پر ۔ سوعرض فقط اتنی ہے کہ آپ داعی "مفادات مشترکہ" امت مسلمہ کہ ہیں سو خود بھی ایسے موضوعات کو برسر فورم زیر بحث نہ لایا کریں کہ جن سے آپ کے دعوٰی اتحاد امت یا مشترکہ عقائد کی بنا پر امت کے پنپنے کی قلعی بظاہر کھلتی ہوئی نظر آئے فقط والسلام
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
۔


اتنا تو تنزل تو حضور نے فرما لیا کہ تاریخ سے معتبر تاریخ اور پھر اب صحاح ستہ کی وہ بھی فقط ایک روایت کہ جس کے الفاظ بھی خود سیدہ کائنات کہ نہیں بلکہ زہری کا تفرد ہے ۔ اس صاحب ذی فہم و علم پر تعجب ہے کہ جو محض ظن و تخمین کی بنا پر ایسی ایسی بڑی ہستیوں پر ایسے ایسے حکم لگاتا ہے فیا للعجب ۔
خیر ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں اور آپ کے قریبا سبھی مراسلات کو فالو بھی کرتا ہوں کہ آپ یہاں مکتبہ اہل تشیع کے عقائد کا کھل کا اظہار و پرچارکرتے ہیں خیر حق بھی ہے آپ جناب کا ، جواب مگر میں نہیں دیتا کبھی بھی ، کیونکہ ایک تو بحث گوارا نہیں اور دوسرے یہ اوپن فورم ہے یہاں اول تو خلط مبحث بہت ہوتا ہے جبکہ ثانیا تمام تر قارئین کی ذہنی استعداد و رسائی ایک جیسی نہیں ہوتی لہذا یہ امر بھی مانع ہے بحث کو ۔۔۔
جہاں تک بات ہے تاریخ کی تو عرض ہے کہ تاریخ آپ کے ہاں عقائد کے باب میں کوئی بنیادی ماخذ اور اصول الاصول ہوگی ہمارے ہاں تو اسے حدیث کے مقابلے میں درخور اعتنا ہی نہیں جانا جاتا، رہ گئی تاویل کی بات تو تاویل کوئی شجر ممنوعہ تو نہیں حضرت؟؟؟؟ خاص کراس وقت کہ جب خود قرآن پاک نے بطور علم کہ پیغمبروں کے لیے اس کا اثبات فرمایا ہو اور میں تو کہتا ہوں کہ کیوں نہ تاویل کی جائے امت کو انتشار سے بچانے کے لیے ؟؟؟؟؟ ۔
ایک اچھا امر ہی تو ہے امت سے نفاق و کجی کی جڑ کاٹنے کے لیے کیا نہیں؟؟؟ کہ بعض روایات کے ظاہر الفاظ کے معنی میں امت کے طرفین کے بڑوں کے حق میں حسن ظن رکھتے ہوئے تاویل کی جائے تاکہ غلط فہمیاں کم ہوں اور قربتیں بڑیں اور اگر نیتیں خالص و خوب ہوں تو ایسی تاویلات بار ثمر آور بھی ہوسکتیں ہیں میرے بھائی پھر بھی اگر علم تاویل جان یار پر اس قدر گراں گزر رہا ہے تو انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کے ہاں تو تاویل سے بھی بہت بڑے درجے کا تکلف ب۔صورت " تقیہ " کے برتا جاتا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا ؟؟؟ کہ چلو جان ہی چھوٹی کسی لفظ کے ظاہری معنی میں تاویل جیسا جوکھم اٹھا کر اسکے حقیقی و مرادی معنی تلاش کرنے کے کشٹ سے ، سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ فلاں جگہ جو یہ یہ الفاظ آئے تھے وہ سراسر جھوٹ تھا کہ جسے اہل تشیع اصول میں تقیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اللہ اللہ تے خیر صلا ۔
عقائد آپ کہ بھی اگر آپ ہی کی معتبر اصول اربعہ سے یہاں اگر کھول دیئے گئے توعلم تاویل تو دور کی بات ہے کہ سوائے تقیہ کے اور کوئی جائے پناہ ہی نہیں ملنے والی میرے پیارے بھائی کو ۔ خیر کہنا یہ چاہتا تھا کہ یہاں بحث مقصود نہ تھی فقط ایک روایت کا پس منظر آپ کی کتب کہ حوالہ سے پوچھنا بطور جاننے کے مقصود تھا کہ جسکی بنا پر بنا سوچے سمجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کومطعون کیا جاتا ہے جبکہ سبب اس روایت کا ذات علی رضی اللہ عنہ ہیں اور رہ گئی بخاری کی روایت کی بات تو اس پراگر جذباتیت سے سوچوں تو مجھے سیدہ کائنات فقط محض زمین کے چند ٹکڑوں کی ملکیت کے لیے صدیق اکبر کا پاس استغاثہ کرتی ہوئی قطعی دکھائی نہیں دیتیں ہاں اگر بتقاضائے بشریت اور قانونی رو سے اگر دیکھوں، تو سیدہ کا جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اپنے محبوب والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن کر تاحیات صدیق اکبر سے ناراض رہنا قطعی سمجھ سے باہر ہے بلکہ عقل سلیم پر بھی بار گراں ہے جبکہ ایک عام مسلمان کا خاندان اہل بیت سے جو جذباتی و روحانی رشتہ ہے اس کے بھی منافی ہے یہ بات سراسر ۔ اور کیوں اور کس لیے سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوتیں ؟؟؟؟؟ کیا محض اس لیے کہ مال فئی کی تقسیم کا صدیق نے وہی دستور جاری کرنا چاہا جوکہ خود انکے محبوب بابا میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھا یا پھر اپنے بابا اور ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے سہمت نہ تھیں سیدہ ؟؟؟ معاذاللہ ثم معاذاللہ۔۔۔ ۔۔۔
خیر کہنا ایک بار پھر یہی چاہتا ہوں کہ یہ ایسے معاملات ہیں کہ ان پر صدیوں سے طرفین نے لا تعداد دلائل رقم کیئے یہ فورم ان سب دلائل کا متحمل نہیں کیونکہ جانبین نے دفتر کے دفتر رقم کررکھے ہیں ان سب معاملات پر لیکن آج تک امت کی خلیج بجائے پاٹنے کہ اور بڑی ہے ان معاملات پر ۔ سوعرض فقط اتنی ہے کہ آپ داعی "مفادات مشترکہ" امت مسلمہ کہ ہیں سو خود بھی ایسے موضوعات کو برسر فورم زیر بحث نہ لایا کریں کہ جن سے آپ کے دعوٰی اتحاد امت یا مشترکہ عقائد کی بنا پر امت کے پنپنے کی قلعی بظاہر کھلتی ہوئی نظر آئے فقط والسلام
السلام علیکم محترم!
یقینا آپ کی تحقیق کی داد دینی چاہیے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپکی تحقیق ناقص ہے۔
یہ حدیث ہرگز زہری کا تفرد نہیں۔۔ اور نہ ہی اک روایت ہے۔ بلکہ صرف صحیح بخاری ٰ میں کم از کم دس مرتبہ آیا ہے اور اس کے علاوہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں بھی ہے۔ جن میں سے فقط بعض میں زہری ہے جبکہ اکثر میں زہری نہیں۔ ضمنا اگر زہری کی وجہ سے ہی روایت ضعیف ہونی ہے تو صحاح کی کتنی روایات کو چھوڑنا پڑے گا؟؟
صحیح بخاری حدیث 6726، 6230، 6346، 3093، 3092، 2862، 2926، 4240، 4241، 3913 اور 3998 میں یہ روایت الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ آپ کو ملے گی۔
اس کے علاوہ صحیح مسلم کی حدیث 3304، 4679 کے علاوہ مختلف جگہوں پر اور دوسری آپکی معتبر حدیثی کتب میں آپ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
پھر اگر آپ ظن وتخمین کہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے۔۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد!

یقینا فورم پر کھل کر بحث نہیں کی جاسکتی۔۔ اور میں نے شروع میں آپ سے کہا تھا میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔۔ لیکن آپ کے سوالات یہاں تک لے ٰ آٰیا۔
شاہد مراسلہ نمبر 36 ملاحظہ ہو:
دیکھیے محترم یہ نہایت حساس موضوع ہے۔۔۔ اس حوالے سے کھل کر یہاں بات کرنا شاید مناسب نہ ہو۔
جی ہاں یہ روایت اہل سنت اور شیعہ معتبر مصادر میں الفاظ کی مختلف تبدیلی کے ساتھ بہت دفعہ تکرار ہوئی ہے۔
۔

ٰ یقینا تاویل کا باب کھلا ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ نص کے مقابلے میں تاویل نہیں ہوتی۔۔۔ صرف ظاہر کے مقابلے میں ہوتی ہے۔
اب تاویل کے ٖ ذریعے ہر کوئی اپنی مرضی کے معانی قرآن وحدیث سے نکالنا شروع کرے تو کوئی چیز مسلم نہیں رہے گی۔ تاویل کی اپنی شرط وشروط ہیں۔
یقینا تقیہ اسلام کا اک اہم رکن ہے۔۔۔ لیکن آپ لوگ آج تک "تقیہ" کا معنی سمجھے ہی نہیں۔۔ تقیہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔۔ ابھی میں آپ کو اتنا "خوفناک" نہیں سمجھتا کہ آپ سے اپنی جان کو خطرہ محسوس کروں اور تقیہ شروع کروں۔
بحرحال یہ الگ موضوع ہے اور قرآن وروایات سے اس پر مسلم ادلہ موجود ہیں۔

ہاں البتہ حدیث "ما ترکناہ صدقہ" حضرت ابوبکر کا تفرد ہے۔۔۔ جبکہ وہ خود منکر اور حضرت فاطمہ علیہا السلام مدعی ہیں تو ان کے قول کو اس بات میں کیسے قبول کیا جائے گا۔
یقینا حضرت زہرا رسول خدا کے قول کو دل سے قبول کرتیں۔۔ اگر وہ واقعا حدیث نبوی ہوتی۔۔ اور
یقینا آپ نے حضرت زہرا کا خطبہ فدکیہ نہیں پڑھا ہوگا۔۔جو کہ انہوں نے مسجد نبوی نے انصار ومہاجرین کے جمع میں دیا تھا۔۔ اور اس میں آپ کے اس سوال کا جواب بھی ہے۔
اگر وقت ملے تو اس خطبے کو اپنی کتابوں سے ضرور پڑھیے گا۔

بہرحال میں اس دھاگے کے عنوان کے طرف پلٹتا ہوں۔۔ اور میرا مدعا صرف یہ ہے کہ شام میں جب اصحاب رسول کی توہین ہورہی تھی۔۔ تو یہاں کے مسلمانوں اور خاص طور پر حب صحابہ کے دعوے داروں کو چپ نہیں رہنا چاہیے تھا۔۔۔ چونکہ زبانی کلامی دعوی تو کافی نہیں ہے۔ آپ نے خود ملاحظہ کیا ہوگا کہ ان واقعات کے بعد پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں کتنی آواز بلند ہوئی؟ کتنا مذمت لکھا گیا؟
یا حضرت اویس قرنی اور عمار یاسر اور حضرت زینب کبری آپ کے نزدیک صحابی نہیں ہیں؟
امید ہے میری باتوں کو آپ برا نہیں منائیں گے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم محترم!
یقینا آپ کی تحقیق کی داد دینی چاہیے۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپکی تحقیق ناقص ہے۔
یہ حدیث ہرگز زہری کا تفرد نہیں۔۔ اور نہ ہی اک روایت ہے۔ بلکہ صرف صحیح بخاری ٰ میں کم از کم دس مرتبہ آیا ہے اور اس کے علاوہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں بھی ہے۔ جن میں سے فقط بعض میں زہری ہے جبکہ اکثر میں زہری نہیں۔ ضمنا اگر زہری کی وجہ سے ہی روایت ضعیف ہونی ہے تو صحاح کی کتنی روایات کو چھوڑنا پڑے گا؟؟
صحیح بخاری حدیث 6726، 6230، 6346، 3093، 3092، 2862، 2926، 4240، 4241، 3913 اور 3998 میں یہ روایت الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ آپ کو ملے گی۔
اس کے علاوہ صحیح مسلم کی حدیث 3304، 4679 کے علاوہ مختلف جگہوں پر اور دوسری آپکی معتبر حدیثی کتب میں آپ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
پھر اگر آپ ظن وتخمین کہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے۔۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد!

یقینا فورم پر کھل کر بحث نہیں کی جاسکتی۔۔ اور میں نے شروع میں آپ سے کہا تھا میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔۔ لیکن آپ کے سوالات یہاں تک لے ٰ آٰیا۔
شاہد مراسلہ نمبر 36 ملاحظہ ہو:


ٰ یقینا تاویل کا باب کھلا ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ نص کے مقابلے میں تاویل نہیں ہوتی۔۔۔ صرف ظاہر کے مقابلے میں ہوتی ہے۔
اب تاویل کے ٖ ذریعے ہر کوئی اپنی مرضی کے معانی قرآن وحدیث سے نکالنا شروع کرے تو کوئی چیز مسلم نہیں رہے گی۔ تاویل کی اپنی شرط وشروط ہیں۔
یقینا تقیہ اسلام کا اک اہم رکن ہے۔۔۔ لیکن آپ لوگ آج تک "تقیہ" کا معنی سمجھے ہی نہیں۔۔ تقیہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔۔ ابھی میں آپ کو اتنا "خوفناک" نہیں سمجھتا کہ آپ سے اپنی جان کو خطرہ محسوس کروں اور تقیہ شروع کروں۔
بحرحال یہ الگ موضوع ہے اور قرآن وروایات سے اس پر مسلم ادلہ موجود ہیں۔

ہاں البتہ حدیث "ما ترکناہ صدقہ" حضرت ابوبکر کا تفرد ہے۔۔۔ جبکہ وہ خود منکر اور حضرت فاطمہ علیہا السلام مدعی ہیں تو ان کے قول کو اس بات میں کیسے قبول کیا جائے گا۔
یقینا حضرت زہرا رسول خدا کے قول کو دل سے قبول کرتیں۔۔ اگر وہ واقعا حدیث نبوی ہوتی۔۔ اور
یقینا آپ نے حضرت زہرا کا خطبہ فدکیہ نہیں پڑھا ہوگا۔۔جو کہ انہوں نے مسجد نبوی نے انصار ومہاجرین کے جمع میں دیا تھا۔۔ اور اس میں آپ کے اس سوال کا جواب بھی ہے۔
اگر وقت ملے تو اس خطبے کو اپنی کتابوں سے ضرور پڑھیے گا۔

بہرحال میں اس دھاگے کے عنوان کے طرف پلٹتا ہوں۔۔ اور میرا مدعا صرف یہ ہے کہ شام میں جب اصحاب رسول کی توہین ہورہی تھی۔۔ تو یہاں کے مسلمانوں اور خاص طور پر حب صحابہ کے دعوے داروں کو چپ نہیں رہنا چاہیے تھا۔۔۔ چونکہ زبانی کلامی دعوی تو کافی نہیں ہے۔ آپ نے خود ملاحظہ کیا ہوگا کہ ان واقعات کے بعد پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں کتنی آواز بلند ہوئی؟ کتنا مذمت لکھا گیا؟
یا حضرت اویس قرنی اور عمار یاسر اور حضرت زینب کبری آپ کے نزدیک صحابی نہیں ہیں؟
امید ہے میری باتوں کو آپ برا نہیں منائیں گے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے۔
حضور آپ نے میری تحقیق کو تو جھٹ سے ناقص کہہ دیا مگر میری سمجھی ہی نہیں میں نے زہری کے ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ بخاری کی روایت میں جن الفاظ سے سیدہ کائنات کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے وہ الفاظ زہری کا تفرد ہیں اب اس مسئلے کو بجائے اپنے الفاط میں لکھنے کہ اس سارے مسئلہ پر مبشر نذیر صاحب جو کہ انٹر نیٹ پر ایک مشھور اسلامی اسلامی ویب سائٹ چلارہے ہیں کہ ان کے قلم سے رقم کرکے اس بحث کو ختم کرتا ہوں اسکے بعد میری طرفسے معاملہ بالکل صاف ہے نو کمنٹس والسلام۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام روایتوں کی سند میں دیکھیے تو ان میں ابن شہاب الزہری (58-124/678-742) موجود ہیں۔ محدثین کے نزدیک زہری ایک جلیل القدر محدث اور قابل اعتماد راوی ہیں تاہم ان کے ساتھ کچھ مسائل موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ احادیث میں "ادراج " کیا کرتے تھے۔ ادراج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں اپنی جانب سے تشریحی جملے شامل کر دیے جائیں۔ اس پر زہری کو ان کے معاصر ربیعہ کہتے تھے کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ہے۔ اگر ایسا کرنا ضروری بھی ہو تو اسے الگ سے بیان کریں تاکہ ان کی رائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میں مل نہ جائے۔ [21] دوسرے یہ کہ وہ "تدلیس" کیا کرتے تھے یعنی حدیث کی سند میں اگر کوئی کمزوری ہو تو اسے چھپا لیتے تھے۔

باغ فدک سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں، ان سب کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراضی کا ذکر صرف انہی روایات میں ملتا ہے جن کی سند میں زہری موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناراضی والی بات زہری کا ادراج (اضافہ) ہے۔ چھ ماہ تک ناراض رہنے والی بات صرف زہری ہی نے بیان کی ہے جو کہ اس واقعہ کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ زہری اس واقعے کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بات کس سے سنی اور جس سے سنی، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا؟ ان کے علاوہ کسی اور نے تو یہ بات بیان نہیں کی ہے۔ مشہور محدثین جیسے بیہقی اور ابن حجر عسقلانی نے بھی زہری کی اس بات کو منقطع قرار دے کر اسے مسترد کیا ہے۔ [22]

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ناراضی والی بات درایت کے نقطہ نظر سے بالکل غلط معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے حصول کا خیال گزرا تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بات کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ، حضرت صدیق اکبر کو جائز حکمران تسلیم کرتی تھیں، تبھی ان کے پاس مقدمہ لے کر گئیں۔ حضرت ابوبکر نے وضاحت فرما دی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مال کو صدقہ قرار دیا تھا اور باغ فدک تو ایک سرکاری جائیداد تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت نہ تھی بلکہ حکومت کی ملکیت تھی۔ اس کی صرف آمدنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر بطور تنخواہ خرچ ہوتی تھی کیونکہ آپ بطور سربراہ حکومت فل ٹائم کام کرتے تھے اور آپ کی آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس کی آمدنی بدستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر خرچ ہو گی۔

حضرت ابوبکر نے دلیل سے بات کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بطور دلیل پیش کیا تھا۔ اگرسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی جوابی دلیل پیش کرتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ آپ کی بات کو سمجھ گئی تھیں۔ سیدہ کے زہد و تقوی ، اعلی کردار اور دنیا سے بے رغبتی کو مدنظر رکھا جائے تو آپ سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ آپ اس بات پر ناراض ہو جائیں گی کہ آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کیا جائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو زہری کی روایت میں کسی اور نے یہ ناراضی والا جملہ شامل کر دیا ہے یا پھر یہ جملہ خود انہوں نے کسی غلط فہمی کے سبب کہہ دیا ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ باغ فدک کے دعوے داروں میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی نظر آتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ یہ بات بالکل معروف اور متعین ہے کہ قرآن مجید کے قانون وراثت کی رو سے چچا کا میراث میں حصہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ان کا دعوی کرنا سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خاندان کے بزرگ کے طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چلے گئے تھے۔

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کو محروم نہ کیا تھا بلکہ ان دونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سیدہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو بھی اس وراثت سے محروم کیا تھا۔ عام طور پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات کو بہت اچھالا گیا ہے لیکن سیدہ عائشہ و حفصہ اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ وراثت میں بیوی کا حصہ بھی ہوتا ہے۔

پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہم کو اس کا ٹرسٹی مقرر کر دیا تھا۔ آپ اس کی بطور ٹرسٹ حیثیت کو مانتے تھے تبھی آپ نے اس کا ٹرسٹی بننا قبول کیا۔ اگر باغ فدک واقعی اہل بیت کی ملکیت ہوتا تو آپ کم از کم اپنے دور خلافت میں تو اسے ان کے حوالے کر سکتے تھے۔ ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے اہل بیت کی ملکیت نہ سمجھتے تھے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس باغ کو مروان بن حکم نے حکومت سے خرید لیا تھا، اس وجہ سے حضرت علی نے ایسا نہ کیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں، اگر یہ واقعتاً اہل بیت کا حق تھا تو حضرت علی کو چاہیے تھا کہ وہ اسے اس کے حق داروں تک پہنچاتے اور مروان کو ان کی رقم واپس کروا دیتے۔

چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ خود حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پڑپوتے، حضرت زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: "اگر میں ابوبکر کی جگہ ہوتا تو فدک کے بارے میں وہی فیصلہ کرتا جو انہوں نے کیا تھا۔ [23]

ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مرد مومن سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ محض ایک باغ کی وجہ سے آپ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہیں اور نماز پڑھنے کے لیے بھی مسجد میں تشریف نہ لائیں؟ آپ نے اسلام کے لیے بے شمار خدمات انجام دیں، کیا یہ ممکن تھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات جیسے نازک موقع پر پیچھے بیٹھ رہتے جب متعدد عرب قبائل نے بغاوت کا علم بلند کر دیا تھا۔ اگر آپ کو حضرت ابوبکر سے کوئی شکایت تھی تو براہ راست ان کے پاس جا سکتے تھے اور ان سے معاملات پر گفتگو کر سکتے تھے لیکن اس کی بجائے یہ کہنا کہ آپ اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر گھر بیٹھ رہے، یہ بات کسی طرح آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ جب سب کے سب صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت علی ایسا نہ کرتے اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ حضرت علی کی بیعت نہ کرنے والی روایات دراصل حضرت ابوبکر پر نہیں بلکہ حضرت علی پر بہتان ہیں اور آپ کی کردار کشی کی کوشش ہیں۔

آٹھواں مسئلہ یہ ہے کہ عہد رسالت میں مال غنیمت میں سے جو حصہ بنو ہاشم کے لیے مقرر تھا، اس کی تقسیم کی ذمہ داری حضرت علی ہی کے سپرد تھی۔ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم، برابر اس مال کو حضرت علی ہی کو دیتے رہے جو کہ ان پر اعتماد کی علامت ہے۔ اگر ان کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ہوتی تو پھر ایسا نہ ہوتا۔

حدثنا عباس بن عبد العظيم، ثنا يحيى بن أبي بُكير، ثنا أبو جعفر الرَّازي، عن مُطرِّف، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: سمعت عليّاً يقول:حضرت علی نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کے پانچویں حصے (کی تقسیم) کا ذمہ دار بنایا۔ میں نے اسے رسول اللہ کی حیات طیبہ میں اس کے مخصوص مقامات پر خرچ کیا۔ پھر ابو بکر اور عمر کی زندگی میں بھی اسی طرح ہوتا رہا۔ پھر کچھ مال آیا تو عمر نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’لے لیجیے۔‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لے لیجیے، آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (کہ پہلے ہی ہمارے پاس کافی مال ہے، کسی ضرورت مند کو دے دیجیے۔)‘‘ چنانچہ انہوں نے اسے بیت المال میں جمع کر دیا۔‘‘[24]

نواں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں متعدد ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن کے مطابق صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لیے تشریف لاتے رہے۔ جب سیدہ کا انتقال ہوا تو حضرت علی نے اصرار کر کے حضرت ابوبکر ہی کو نماز جنازہ پڑھانے کے لے کہا ۔ سیدہ فاطمہ کو غسل حضرت ابوبکر کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہم نے دیا۔ اب اگر روایات ہی کو ماننا ہے تو پھر ان روایات کو کیوں نہ مانا جائے جو اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کے کردار کے عین مطابق ہیں۔ روایات یہ ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ : مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَتَكِىُّ بِنَيْسَابُورَ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِى خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِىِّ:شعبی کہتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق ان کے پاس آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ علی نے کہا: "فاطمہ! یہ ابوبکر آئے ہیں اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں؟" انہوں نے کہا: "آپ کیا انہیں اجازت دینا چاہتے ہیں؟" فرمایا: "ہاں۔" انہوں نے اجازت دے دی تو ابوبکر اندر داخل ہوئے اور سیدہ کو راضی کرنے کی کوشش کی اور فرمایا: "واللہ! میں نے اپنا گھر، مال، اہل و عیال اور خاندان کو صرف اللہ اور اس کے رسول اور آپ اہل بیت کی رضا ہی کے لیے چھوڑا تھا۔ " پھر وہ انہیں راضی کرتے رہے یہاں تک کہ سیدہ ان سے راضی ہو گئیں۔ [25]

حافظ ابن کثیر (701-774/1301-1372) نے پہلی اور دوسری قسم کی روایات کو تطبیق (Reconcile) دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت شروع ہی میں کر لی تھی۔ باغ فدک کی وجہ سے سیدہ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں کچھ کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ کشیدگی کا پیدا ہو جانا ایک انسانی معاملہ ہے جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بلند رتبہ کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب بیمار پڑیں تو ان کی تیمار داری کے باعث حضرت علی زیادہ باہر نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ آپ قرآن مجید کو نزولی ترتیب سے جمع کرنا چاہتے تھے جو کہ ایک علمی نوعیت کی کاوش تھی۔ اس بات کی تائید بلاذری کی اس روایت سے ہوتی ہے:

حدثنا سلمة بن الصقر، وروح بن عبد المؤمن قالا: ثنا عبد الوهاب الثقفي، أنبأ أيوب، عن ابن سيرين قال: ابن سیرین کہتے ہیں کہ ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: "کیا آپ میرے امیر بننے کو ناپسند کرتے ہیں؟" انہوں نے کہا: "نہیں۔ اصل میں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک میں قرآن مجید کو نزولی ترتیب سے جمع نہ کر لوں، اس وقت تک باہر نہ آؤں گا۔ [26]

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باہر نہ نکلنے سے بعض لوگوں کو گمان گزرا کہ ان حضرات میں کچھ ناراضگی موجود ہے حالانکہ حضرت ابوبکر صدیق ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے گھر آ کر انہیں راضی کر چکے تھے۔ صدیق اکبر کا فیصلہ شریعت کے عین مطابق تھا تاہم انہوں نے پھر بھی سیدہ کی دلجوئی کی جس سے آپ کی اہل بیت کے لیے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کے نقطہ نظر کو قبول کیا اور ان سے راضی ہو گئیں۔ [27]آپ کے انتقال کے بعد حضرت علی نے اس وجہ سے علی الاعلان صدیق اکبر کی دوبارہ بیعت کی تاکہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہو جائے اور انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ اصحاب رسول میں کوئی ناراضی نہیں ہے اور وہ یکجان کئی قالب ہیں۔ اس ضمن میں بلاذری نے یہ روایت بیان کی ہے جس سے اس سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کردار واضح ہوتا ہے۔

المدائني، عن عبد الله بن جعفر، عن أبي عون: ابو عون کہتے ہیں کہ جب عربوں نے ارتداد اختیار کیا تو عثمان، علی کے پاس گئے اور علی کہنے لگے: "میرے چچا زاد بھائی! کوئی بھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔" عثمان نے کہا: "یہ دشمن (مرتدین) ہیں اور آپ نے بیعت نہیں کی۔" عثمان، علی کے پاس اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک کہ وہ ان کے ساتھ چل نہ پڑے اور ابوبکر کے پاس آ نہ گئے۔ ابوبکر انہیں دیکھ کر کھڑے ہوئے اور ان سے گلے ملے۔ اس کے بعد یہ دونوں حضرا ت روئے اور علی نے ابوبکر کی بیعت کر لی۔ لوگ اب جنگ کے لیے تیار ہو گئے اور لشکر روانہ کیے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
ربط
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
محترم آبی ٹوکول!
لگتا ہے آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔ صرٍف بخاری میں اس موضّوع پر دس سے زیادہ روایتیں ہیں جن کا نمبر میں نے اوپر پیش کیا تھا۔۔ بے شک چیک کرلیں۔۔۔۔ جن میں صرف دو یا تین میں زہری ہے۔ باقی دوسرے رواۃ سے نقل ہیں۔ پھر بھی زہری کا تفرد کہنا سمجھ نہیں آیا۔
البتہ حدیث کے علاوہ تاریخ کی طرف بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
معاملہ میری طرف سے بھی ختم ہے۔۔ چونکہ نص کے مقابل تاویل کا سلسلہ چلے تو کہیں کا نہیں رہے گا۔۔۔ اور بحث برائے بحث کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

لیکن بہرحال ُ آپ نے دھاگے کے عنوان کے حوالے سے اپنا تبصرہ نہیں فرمایا؟؟؟
 
Top