لاریب مرزا
محفلین
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنے محبوب وطن کے معماروں کی تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے خواب آنکھوں میں سجائے نئے نئے معلمہ کے عہدے پر فائز ہوئے تھے. امکان غالب ہے کہ ادارے کے سربراہان کو ہمارے نیک ارادوں کی بھنک پڑ گئی تھی یہی وجہ ہے کہ ہمارے پختہ ارادوں کو متزلزل کرنے کی خاطر ہمیں چہارم کے شاہینوں کی جماعت میں بھیج دیا گیا. ہمارے خواب تو پہلے دن ہی چکنا چور ہو گئے تھے کہ تعلیم و تربیت تو تب ممکن تھی جب شاہین بچے اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھنا سیکھے ہوتے. ٹارزن کے جانشین...... محمد علی (باکسر) کے شاگرد.... فوجیوں کے فین....... آفت کے پرکالے......... نچلا بیٹھنا تو انہوں نے سیکھا ہی نہ تھا. البتہ چند ایک سمجھدار بچے ہمیں سر پکڑے دیکھ کر ہماری دلجوئی کے لیے آن پہنچتے. جماعت میں داخل ہونے کے بعد پہلے ہی گھنٹے میں حلق کے بل بولنے کی بدولت ہماری آواز کی ہیت تبدیل ہو جاتی. لیکن نظم وضبط تو تبھی قائم ہوتا جب نقار خانے میں کوئی طوطی کی آواز سنتا!!!! ہم نے شاہینوں کی یہ کلاس چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اپنے بڑے بڑے خوابوں کی بابت یہ سوچ لیا کہ دلی دور است...
انہی دنوں ادارے کے سالانہ فنکشن کی تیاریاں ابتدائی مراحل میں داخل ہوئیں. دوسری جماعتوں کی دیکھا دیکھی ہمارے شاہین بچوں نے بھی فرمائش کی کہ ہماری صلاحیتوں کو بھی آزمایا جائے. ہم نے تو شاہین بچوں سے دو ٹوک کہہ دیا کہ یہ ناممکن ہے. اگر زیادہ ہی اصرار ہے تو ہم سب شاہین بچوں کو ٹارزن بنائے دیتے ہیں. اسٹیج پر بصد شوق اپنے شوق پورے کیجیے.. لیکن شاہین بچے بضد رہے اور ہم اس سوچ بچار میں ڈوبے رہے کہ جن شاہین بچوں میں قدرت نے اسپرنگ فٹ کر دیے ہیں ان سے کیا کروایا جا سکتا ہے؟؟
بہت سوچ بچار اور شاہین بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آرمی سے متعلق کوئی خاکہ تخلیق کرنے کی ٹھانی. شاہین بچے باغ باغ ہو گئے. لیکن ہم کوئی یونہی سا کام نہیں کرنا چاہتے تھے. ذہن کے گھوڑے دوڑائے کہ آرمی اور بچوں کے لیول کے مطابق کیا منتخب کیا جائے؟ پھر آخر کار ہم نے بچوں ہی کے ایک سبق "میجر عزیز بھٹی شہید" کی شخصیت کو موضوع بنانے کا ارادہ کیا.
اس کام کی خاطر ہم نے دن رات محنت کی. میجر عزیز بھٹی کی زندگی پہ بننے والا ڈرامہ (جو 6 ستمبر کو ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے) بار بار دیکھا. مکالموں پر مشتمل ایک پورا اسکرپٹ تیار کیا. بڑے بھائی کی مدد سے مخصوص میوزک اور گولیوں کے چلنے کی آوازیں ریکارڈ کروائیں. چھوٹے بھائی سے مارچ پاسٹ جیسے چلنے کا طریقہ سیکھا اور شاہین بچوں کو سکھایا. شاہین بچوں کے مکمل یونیفارم منتخب کیے. جنگ کا سا سماں باندھنے کے لیے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مورچے تخلیق کیے. شاہین بچوں کا سب سے محبوب مشغلہ بندوقوں کو ہاتھ میں لے کر گولیاں برسانے کی ایکٹنگ تھی. بندوق تھامتے ہی وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا فوجی تصور کرنے لگتے جس کے ذمے ایک اہم مشن لگا دیا گیا ہو.
خیر یہ خاکہ بھی ہمارے لیے ایک اہم مشن ہی ثابت ہوا. دوسری جماعتوں میں بھی کھدبد شروع ہو گئی کہ فوجیوں والا کوئی خاکہ ہونے جا رہا ہے. پنجم جماعت کے شاہین بچے ہم سے علیک سلیک رکھنے لگے کہ شاید ہمیں بھی خاکے میں تھوڑی جگہ مل جائے. معلمات میں سے کسی کے بھائی، کسی کے بھتیجے، کسی کے بھانجے اور کسی کے پڑوسی کی سفارشیں پہنچنے لگیں. وقت گزرتا گیا اور شاہین بچوں کو اپنے کرداروں سے محبت ہوتی گئی. وہ دل و جان سے فوجیوں کا کردار نبھانے کے لیے محنت کرنے لگے. ہمارے ہاتھ ان کی کمزوری آ گئی تھی. جماعت میں نظم و ضبط بگڑنے لگتا تو ہم قصور وار شاہین بچوں کو خاکے سے برطرف کر دیتے. فوراً سے پیشتر اس کردار کے لیے امیدواران کی لائن لگ جاتی. اور قصوروار شاہین بچے کی آنکھوں میں نظر آنے والے موٹے موٹے آنسوؤں کو ہم یکسر نظر انداز کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی غلطی سے تائب ہو کر بہتر شاہین بچہ بننے کا عہد کر لیتا. یہی کلیہ شاہین بچوں کی پڑھائی پر بھی لاگو ہونے لگا. ہم اپنی کلاس میں بہت لطف اندوز ہونے لگے تھے. آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی کہ شاہین بچوں کو کیسے قابو کرنا ہے. خاکے کے ڈائیلاگ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا. ہم اتنی بار مشق کروا چکے تھے کہ ہر کردار کے ڈائیلاگ ہر شاہین بچے کو ازبر تھے. اکثر شاہین بچے ہمیں ایک دوسرے کے ڈائیلاگ کی تصحیح کرتے نظر آتے. شاہین بچوں کا پسندیدہ ترین وقت ان کی مشق کا وقت ہونے لگا. وہ اپنی بریک قربان کرنے پر بھی ہنسی خوشی تیار ہو جاتے. شاہین بچوں کے والدین نے بھی ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا.
وقت پر لگا کر اڑ گیا اور وہ دن آن پہنچا جس دن شاہین بچوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر اسٹیج پر دکھانے تھے. پورا ادارہ فوجیوں والے اس خاکے کو دیکھنے کے لیے مشتاق تھا. ہم نے پس پردہ رہ کر مطلوبہ وقت پر مطلوبہ میوزک چلانا تھا. شاہین بچوں نے اس دن حقیقتاً کمال کر دکھایا. ڈائیلاگ اور تاثرات اتنے خوب تھے کہ کمزور دل ناظرین کو بآواز بلند آنسو بہاتے دیکھا گیا. شاہین بچوں اور خصوصاً میجر عزیز بھٹی کا کردار ادا کرنے والے شاہین بچے نے اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ ناظرین standing ovation دینے پر مجبور ہو گئے. خاکے کے اختتام پہ قومی ترانہ خاکے کا حصہ نہ تھا لیکن قومی ترانہ پڑھا گیا. سربراہان کی جانب سے اسے ادارے کی تاریخ کا بہترین شاہکار قرار دیا گیا. شاہین بچوں کی بہت ستائش ہوئی.
ادارے کے سربراہان تو خیر پہلے دن سے ہی ہمارے مضبوط ارادوں کی راہ میں بہت سے روڑے اٹکانے کے لیے پُرعزم تھے لیکن ہم نے بھی ثابت کر دیا کہ
ارادے جن کے پُختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے!!
سال کے اختتام پر ہم سمجھے تھے کہ شاہین بچوں سے چھٹکارا پانے پر ہم خوشی سے باغ باغ ہو جائیں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا. ہم حیران تھے کہ جن شاہین بچوں نے ناک میں دم کر رکھا تھا ان کو چھوڑنے پر افسردگی کیونکر ہے؟؟
جی، تو یہ پوری کہانی ایک بہت خوبصورت لمحے کی یادگار کا اشتراک کرنے کے لیے سنائی گئی ہے. ہم نے کیمپس بدل لیا اور شاہین بچے میٹرک تک آرمی کے ایک دستے کی طرح متحد (ایک ہی جماعت میں) رہے. اور چھ سال بعد ایک دن میجر عزیز بھٹی کا کردار ادا کرنے والے شاہین بچے (حسن بن شاہد) کی جانب سے ایک پیغام اور کچھ تصاویر موصول ہوئیں.
Ma'am!! Proudly sending you the pictures of a visit to Major Aziz Bhatti's grave. We did not forget our characters. Thank you so much for everything you did for us.
یہ ہمارے لیے ایک بہت خوشگوار سرپرائز تھا. شاہین بچوں نے مل کر میجر عزیز بھٹی شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کا پلان بنایا اور اس لمحے ہمیں بھی یاد رکھا. لیکن پھر ہم نے بھی اپنے شاہین بچوں کو اس سے بھی بڑا ایک سرپرائز دیا. اس سرپرائز کا حال پھر کبھی سہی..........
انہی دنوں ادارے کے سالانہ فنکشن کی تیاریاں ابتدائی مراحل میں داخل ہوئیں. دوسری جماعتوں کی دیکھا دیکھی ہمارے شاہین بچوں نے بھی فرمائش کی کہ ہماری صلاحیتوں کو بھی آزمایا جائے. ہم نے تو شاہین بچوں سے دو ٹوک کہہ دیا کہ یہ ناممکن ہے. اگر زیادہ ہی اصرار ہے تو ہم سب شاہین بچوں کو ٹارزن بنائے دیتے ہیں. اسٹیج پر بصد شوق اپنے شوق پورے کیجیے.. لیکن شاہین بچے بضد رہے اور ہم اس سوچ بچار میں ڈوبے رہے کہ جن شاہین بچوں میں قدرت نے اسپرنگ فٹ کر دیے ہیں ان سے کیا کروایا جا سکتا ہے؟؟
بہت سوچ بچار اور شاہین بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آرمی سے متعلق کوئی خاکہ تخلیق کرنے کی ٹھانی. شاہین بچے باغ باغ ہو گئے. لیکن ہم کوئی یونہی سا کام نہیں کرنا چاہتے تھے. ذہن کے گھوڑے دوڑائے کہ آرمی اور بچوں کے لیول کے مطابق کیا منتخب کیا جائے؟ پھر آخر کار ہم نے بچوں ہی کے ایک سبق "میجر عزیز بھٹی شہید" کی شخصیت کو موضوع بنانے کا ارادہ کیا.
اس کام کی خاطر ہم نے دن رات محنت کی. میجر عزیز بھٹی کی زندگی پہ بننے والا ڈرامہ (جو 6 ستمبر کو ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے) بار بار دیکھا. مکالموں پر مشتمل ایک پورا اسکرپٹ تیار کیا. بڑے بھائی کی مدد سے مخصوص میوزک اور گولیوں کے چلنے کی آوازیں ریکارڈ کروائیں. چھوٹے بھائی سے مارچ پاسٹ جیسے چلنے کا طریقہ سیکھا اور شاہین بچوں کو سکھایا. شاہین بچوں کے مکمل یونیفارم منتخب کیے. جنگ کا سا سماں باندھنے کے لیے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مورچے تخلیق کیے. شاہین بچوں کا سب سے محبوب مشغلہ بندوقوں کو ہاتھ میں لے کر گولیاں برسانے کی ایکٹنگ تھی. بندوق تھامتے ہی وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا فوجی تصور کرنے لگتے جس کے ذمے ایک اہم مشن لگا دیا گیا ہو.
خیر یہ خاکہ بھی ہمارے لیے ایک اہم مشن ہی ثابت ہوا. دوسری جماعتوں میں بھی کھدبد شروع ہو گئی کہ فوجیوں والا کوئی خاکہ ہونے جا رہا ہے. پنجم جماعت کے شاہین بچے ہم سے علیک سلیک رکھنے لگے کہ شاید ہمیں بھی خاکے میں تھوڑی جگہ مل جائے. معلمات میں سے کسی کے بھائی، کسی کے بھتیجے، کسی کے بھانجے اور کسی کے پڑوسی کی سفارشیں پہنچنے لگیں. وقت گزرتا گیا اور شاہین بچوں کو اپنے کرداروں سے محبت ہوتی گئی. وہ دل و جان سے فوجیوں کا کردار نبھانے کے لیے محنت کرنے لگے. ہمارے ہاتھ ان کی کمزوری آ گئی تھی. جماعت میں نظم و ضبط بگڑنے لگتا تو ہم قصور وار شاہین بچوں کو خاکے سے برطرف کر دیتے. فوراً سے پیشتر اس کردار کے لیے امیدواران کی لائن لگ جاتی. اور قصوروار شاہین بچے کی آنکھوں میں نظر آنے والے موٹے موٹے آنسوؤں کو ہم یکسر نظر انداز کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی غلطی سے تائب ہو کر بہتر شاہین بچہ بننے کا عہد کر لیتا. یہی کلیہ شاہین بچوں کی پڑھائی پر بھی لاگو ہونے لگا. ہم اپنی کلاس میں بہت لطف اندوز ہونے لگے تھے. آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی کہ شاہین بچوں کو کیسے قابو کرنا ہے. خاکے کے ڈائیلاگ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا. ہم اتنی بار مشق کروا چکے تھے کہ ہر کردار کے ڈائیلاگ ہر شاہین بچے کو ازبر تھے. اکثر شاہین بچے ہمیں ایک دوسرے کے ڈائیلاگ کی تصحیح کرتے نظر آتے. شاہین بچوں کا پسندیدہ ترین وقت ان کی مشق کا وقت ہونے لگا. وہ اپنی بریک قربان کرنے پر بھی ہنسی خوشی تیار ہو جاتے. شاہین بچوں کے والدین نے بھی ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا.
وقت پر لگا کر اڑ گیا اور وہ دن آن پہنچا جس دن شاہین بچوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر اسٹیج پر دکھانے تھے. پورا ادارہ فوجیوں والے اس خاکے کو دیکھنے کے لیے مشتاق تھا. ہم نے پس پردہ رہ کر مطلوبہ وقت پر مطلوبہ میوزک چلانا تھا. شاہین بچوں نے اس دن حقیقتاً کمال کر دکھایا. ڈائیلاگ اور تاثرات اتنے خوب تھے کہ کمزور دل ناظرین کو بآواز بلند آنسو بہاتے دیکھا گیا. شاہین بچوں اور خصوصاً میجر عزیز بھٹی کا کردار ادا کرنے والے شاہین بچے نے اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ ناظرین standing ovation دینے پر مجبور ہو گئے. خاکے کے اختتام پہ قومی ترانہ خاکے کا حصہ نہ تھا لیکن قومی ترانہ پڑھا گیا. سربراہان کی جانب سے اسے ادارے کی تاریخ کا بہترین شاہکار قرار دیا گیا. شاہین بچوں کی بہت ستائش ہوئی.
ادارے کے سربراہان تو خیر پہلے دن سے ہی ہمارے مضبوط ارادوں کی راہ میں بہت سے روڑے اٹکانے کے لیے پُرعزم تھے لیکن ہم نے بھی ثابت کر دیا کہ
ارادے جن کے پُختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے!!
سال کے اختتام پر ہم سمجھے تھے کہ شاہین بچوں سے چھٹکارا پانے پر ہم خوشی سے باغ باغ ہو جائیں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا. ہم حیران تھے کہ جن شاہین بچوں نے ناک میں دم کر رکھا تھا ان کو چھوڑنے پر افسردگی کیونکر ہے؟؟
جی، تو یہ پوری کہانی ایک بہت خوبصورت لمحے کی یادگار کا اشتراک کرنے کے لیے سنائی گئی ہے. ہم نے کیمپس بدل لیا اور شاہین بچے میٹرک تک آرمی کے ایک دستے کی طرح متحد (ایک ہی جماعت میں) رہے. اور چھ سال بعد ایک دن میجر عزیز بھٹی کا کردار ادا کرنے والے شاہین بچے (حسن بن شاہد) کی جانب سے ایک پیغام اور کچھ تصاویر موصول ہوئیں.
Ma'am!! Proudly sending you the pictures of a visit to Major Aziz Bhatti's grave. We did not forget our characters. Thank you so much for everything you did for us.
یہ ہمارے لیے ایک بہت خوشگوار سرپرائز تھا. شاہین بچوں نے مل کر میجر عزیز بھٹی شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کا پلان بنایا اور اس لمحے ہمیں بھی یاد رکھا. لیکن پھر ہم نے بھی اپنے شاہین بچوں کو اس سے بھی بڑا ایک سرپرائز دیا. اس سرپرائز کا حال پھر کبھی سہی..........
آخری تدوین: