شاہ است حسین

محمد وارث

لائبریرین
رباعیات - جوش ملیح آبادی

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین



اوہام کو ہر اک قدم پہ ٹھکراتے ہیں
ادیان سے ہر گام پہ ٹکراتے ہیں
لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے حسین
ہم اہلِ خرابات بھی جھک جاتے ہیں



سینے پہ مرے نقشِ قدم کس کا ہے
رندی میں یہ اجلال و حشم کس کا ہے
زاہد، مرے اس ہات کے ساغر کو نہ دیکھ
یہ دیکھ کہ اس سر پر علم کس کا ہے
 

الف عین

لائبریرین
شبِ درمیان​

عرفان صدیقی

یہ عجب مسافتیں ہیں
یہ عجب مصافِ جاں ہے
کہ میں سینکڑوں برس سے
اسی دشتِ ماریہ میں
سرِ نہرِ شب کھڑا ہوں
وہی اک چراغِ خیمہ
وہی اک نشانِ صحرا
وہی ایک نخلِ تنہا
نہ فرشتگاں کے لشکر
نہ بشارتوں کے طائر
وہی اگلے دن کی آہٹ
یہ ستارہ ہے کہ نیزہ
یہ دعا ہے یا دھواں ہے
مگر اک صدا مسلسل
یہ کہاں سے آ رہی ہے
ابھی رات درمیاں ہے
ابھی رات درمیاں ہے
***
(دشتِ ماریہ سے)
 

الف عین

لائبریرین
عرفان صدیقی​

رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آب ہے پہرا لگا ہوا کیسا
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار
افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذصان ہے کہ عَلم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشتٕ جفا میں کسے پکارتے ہیں
یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئےخشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہوگا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں کو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئینہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لئے
اجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج ابھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا
تجھے بھی یاد ہے اے آسمان کہ پچھلے برس
مری زمین پہ گزرا ہے حادثہ کیسا

***
 

الف عین

لائبریرین
عرفان صدیقی

خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا
کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہپوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا درِ شبّیر پپسر پانی کا
تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا

***
 

الف عین

لائبریرین
عرفان صدیقی

سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون
بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون
سوادِ شام یہ شہزادگانِ صبح کہاں
ویاہ شب میں یہ سورج اگانے والا کون
یہ ریگزار میں کس حرفِ لا وال کی چھاؤں
شجر یہ دشتِ زیاں میں لگانے والا کون
یہ کون راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا ابھی
اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے والا کون
یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
بدن کے نقرئی ٹکڑے، لہو کی اشرفیاں
ادھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون
یہ کس کے نام پہ تیغِ جفا نکلتی ہوئی
یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون
ابھرت ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں
کلامِ حق سرِ نیزہ سنانے والا کون
ملی ہے جان تو اس پر نثار کیوں نہ کروں
توٗ اے بدن، مرے رستے میں آنے والا کون

***
 

الف عین

لائبریرین
عرفان صدیقی

سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں
اب تک خیام دشت میں برپا ہمارے ہیں
وابستگانِ لشکرِ صبر و رجا ہیں ہم
جنگل میں یہ نشان و مصلّیٰ ہمارے ہیں
نوکِ سناں پہ مصحفِ ناطق ہے سر بلند
اونچے عَلَم تو سب سے زیادہ ہمارے ہیں
یہ تجھ کو جن زمین کے ٹکڑوں پہ ہے غرور
پھینکے ہوئے یہ اے سگِ دنیا! ہمارے ہیں
سر کر چکے ہیں معرکۂ جوئے خوں سو آج
روئے زمیں پہ جتنے ہیں دریا، ہمارے ہیں*

*۔ آخری شعر کا مصرع ثانی میر مونسؔ کا ہے

****
 

الف نظامی

لائبریرین
لباس ہے پھٹا ہوا ،غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے ، کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اٹھی صدائے الاماں زبان شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کانورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی ، فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محو کارزار ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جسکے دبدے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے
حبیبِ مصطفی ہے مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو ایک سے ہزارہا کا حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

اُدھر سیاہ شام ہے ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں ادھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے

از حفیظ جالندھری
 

محمد وارث

لائبریرین
(وحید الحسن ھاشمی)

دونوں جہاں میں کون بشر ہے حُسین سا
آئے نظر کہیں تو، اگر ہے حُسین سا

جس کو رسولِ پاک نے اپنا پسر کہا
کس کا جہاں میں لختِ جگر ہے حُسین سا

جس نے اجل کے سامنے ہنس ہنس کے بات کی
سینے میں کس کے آج جگر ہے حُسین سا

بچے کو لے کے آ گئے فوجوں کے سامنے
ڈر کی فضا میں کون نڈر ہے حُسین سا

جس نے سلف کے سارے عمل جگمگا دیے
بتلاؤ کون نورِ نظر ہے حُسین سا

ملتی ہے جس کے نور سے خورشید کو حیات
بولو وہ کون رشکِ قمر ہے حُسین سا

بڑھتے قدم نہ راہِ وفا میں کہیں رُکے
کس کے جگر میں عزمِ سفر ہے حُسین سا

بے چین ایک سر کے لیے کیوں ہوا یزید
وہ جانتا تھا حاملِ سر ہے حُسین سا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
(عباس حیدر زیدی)

آئینہ رکھ کے برسرِ صحرا حسین نے
بے چہرگی کو دے دیا چہرہ حسین نے

پڑھ کر نمازِ عشقِ فرادا حسین نے
توحید کو بچا لیا تنہا حسین نے

پھر دوسرے قدم کی ضرورت نہیں رہی
پہلا قدم ہی ایسا اٹھایا حسین نے

نوحے، قصیدے، منقبتیں، مرثیے، سلام
بخشا ہے یہ ادب کو قبیلہ حسین نے

یہ مجلسِ حسین ہے، آئے گا یاں وہی
رکّھا ہے جس کا خلد میں حصہ حسین نے

"جن صورتوں پہ زخم تھے، جن سیرتوں پہ داغ"
کھل کر کیا انہی پہ تبرّا حسین نے

تاریخِ بندگی میں جو حرفِ اخیر ہے
ایسا کیا ہے آخری سجدہ حسین نے

ہے کربلا گواہ کہ دینِ مبین کو
سمجھا تھا جو علی نے، وہ سمجھا حسین نے

اب تک یزید دیدۂ عبرت نگاہ ہے
مارا ہے ایسا منہ پہ طمانچہ حسین نے
 

محمد وارث

لائبریرین
کربلا - انور شعور

مدینے کے مسافر جان دینے کربلا آئے
تمام آسائشیں تج کر بہ تسلیم و رضا آئے

نہیں ہوتا کوئی آسان راہِ عشق طے کرنا
سفر میں ہر قدم پر مرحلے صبر آزما آئے

بھلا ہر کس و ناکس کو بھی یہ توفیق ہوتی ہے؟
فدا ہونے کی خاطر آئے تو اہلِ وفا آئے

سما سکتی نہیں الفاظ میں مظلومیت ان کی
شہیدوں پر غم و رنج و الم بے انتہا آئے

ہمیں بھی کاش آ جائے یہ جینا اور یہ مرنا
تمنا اے شعور اس کے سوا ہونٹوں پہ کیا آئے

خدائی آج بھی ہے منتظر مشکل کشائی کی
کوئی مردِ خدا اس دور میں بھی اے خدا آئے

یزیدِ وقت نے دنیا جہنم میں بدل دی ہے
ضرورت ہے کہ پھر کوئی زعیمِ کربلا آئے
 

محمد وارث

لائبریرین
مدحِ شبّیر - تابش دہلوی

تشنہ کاموں کے لیے تو ہمہ دم کُھلتا ہے
اک سمندر کی طرح دیدۂ نم کُھلتا ہے

حق نمائی کے لیے حق کے طلب گاروں پر
آج بھی سبطِ پیمبر کا علم کُھلتا ہے

حق پناہی سے یہ شبّیر کی معلوم ہوا
کربلا میں بھی کوئی بابِ حرم کُھلتا ہے

روشن الفاظ اترتے ہیں صحیفوں کی طرح
مدحِ شبّیر میں جب زورِ قلم کُھلتا ہے

خطبۂ شام میں اک لہجۂ حیدر ہی نہیں
عصمتِ حرف کا جوہر بھی بہم کُھلتا ہے

کربلا ہوتی ہے اربابِ یقیں کی منزل
راہِ تسلیم میں جس وقت قدم کُھلتا ہے

اُسوۂ دشتِ بلا ہوتا ہے تسکیں کا سبب
اہلِ حق پر کہیں جب بابِ ستم کُھلتا ہے

خیر ہی خیر حسین ابنِ علی ہیں تابش
اس لیے کھل کے سدا دستِ کرم کُھلتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
(سراج الدین سراج)

کچھ فائدہ نہ سبطِ نبی سے اٹھا سکے
دنیا پرست، سنگِ ملامت ہی پا سکے

دھویا بہت حسین کا خوں اہلِ جبر نے
احساس پر پڑے ہوئے دھبے نہ جا سکے

انسانیت کے رخ پہ، ابھرنے تھے کچھ نشاں
بچی کو ورنہ شمر طمانچے لگا سکے؟

فتحِ مبیں کو ایسے مجاہد کی تھی تلاش
جو اپنی پیاس تیرِ ستم سے بجھا سکے

تھی اس کے انتظار میں مدت سے کربلا
پیغامِ زندگی کی جو فصلیں اگا سکے

بس ایک ہی تو غم ہے جہاں میں، غمِ حسین
انسان جس کو اپنے دلوں سے لگا سکے

حُر کو نصیب ہو گئی، وہ چشمِ معتبر
اک سنگِ راہ کو جو ستارہ بنا سکے

ممکن کہاں خزانۂ جنت کے باوجود
رضواں اک اشکِ غم کی بھی قیمت چکا سکے
 

محمد وارث

لائبریرین
(فہیم ردولوی)

کہاں وہ ذات، شکارِ ممات ہوتی ہے
نگاہ جس کی نویدِ حیات ہوتی ہے

دکھائی دیتے ہیں شہ، سدرہِ تصوّر پر
جہاں بھی عظمتِ انساں کی بات ہوتی ہے

بجھے چراغ تو چہروں سے روشنی پھوٹے
جہانِ شوق میں ایسی بھی رات ہوتی ہے

علاجِ زخمِ مصیبت ہے، خاکِ کرب و بلا
رفو یہیں پہ قبائے حیات ہوتی ہے

ملا تلاوتِ قرآں کا یہ شَرَف کس کو
سناں کی نوک پہ تسبیحِ ذات ہوتی ہے

یہ کہہ کے ہو گیا رخصت تبسّمِ اصغر
ہوائے گل سے بھی صرصر کو مات ہوتی ہے

جب آ گیا کبھی سوکھے ہوئے لبوں کا خیال
چھلک کے چشمِ تصور، فرات ہوتی ہے

عزائے شاہ میں تنہا نہیں ہیں بنتِ نبی
فہیم، نوحہ بہ لب، کائنات ہوتی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا - ظفر اکبر آبادی


ایماں تمھارے خوں سے فقط، سرخ رو ہے آج
اسلام کی رگوں میں تمھارا لہو ہے آج
ملت تمھارے عزم سے با آبرو ہے آج
وجہہِ صد احترام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا

رخ زندگی کا موڑنے والے تمھی تو ہو
باطل کا سحر توڑنے والے تمھی تو ہو
رشتہ خدا سے جوڑنے والے تمھی تو ہو
تم حق کا ہو پیام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا

ہمت کو تم پہ فخر، شجاعت کو ناز ہے
اوج و عروج و رفعت و عظمت کو ناز ہے
تم وہ شہید ہو کہ شہادت کو ناز ہے
زندہ تمھارا نام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا

رکھی ہے تم نے دینِ خدا و نبی کی لاج
دنیا کو بے پناہ عقیدت ہے تم سے آج
کرتا ہے پیش عالمِ انسانیت خراج
تم مرجعٔ عوام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا

پھیلا ہے تم سے دہر میں توحید کا پیام
چمکا ہے کائنات میں تم سے وفا کا نام
دنیا میں ہو سکا نہ کسی اور سے جو کام
تم نے کیا وہ کام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا

بخشا ہے تم نے سوز دلِ کائنات کو
سمجھا ہے تم نے مقصدِ عزم و ثبات کو
سر کر لیا ہے منزلِ موت و حیات کو
تم پا گئے دوام، شہیدانِ کربلا
تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا
 

الف نظامی

لائبریرین
حق پناہی سے یہ شبّیر کی معلوم ہوا
کربلا میں بھی کوئی بابِ حرم کُھلتا ہے

جو جھکائے سر وہ زاہد ، جو کٹائے سر وہ عاشق
یہ مقامِ بندگی ہے وہ مقامِ عاشقی ہے

سجدہ میں سر کٹا کے امامِ عالی مقام کو مقامِ بندگی اور مقامِ عاشقی اور سب سے بڑھ کر مقامِ تسلیم و رضا عطا کیا گیا۔

کیا بات تیرے فرقِ شفق رنگ کی مولا
کیا کہنا ہے تیرے لبِ قرآن سرا کا
 
Top