محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
شب برات قریب ہے ،
آج کل شوشل میڈیا ( جس میں واٹس ایپ ،فیس بک سرفہرست ہیں ) پر معافی نامہ کی پوسٹ اور میسج زیر گردش ہے ۔
جس میں کوتائیوں ،حق تلفیوں اور اپنی دیگر بدمعاشیوں کے حوالے سے معاف طلب کی جارہی ہے ،
آیا کہ یہ طریقہ درست ہے ؟
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی پارسائی سے بہتر ہے کہ بندہ ڈھیٹ بنا رہے تو بہتر ہے ،
آخر ماہ شعبان کی 14 تاریخ سے پہلے ہی کیوں ہمارا جذبہ ایمانی حرکت میں آتا ہے ،بقایا 11 ماہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کی جی حضوری میں پیش پیش رہتے ہیں،
جھوٹ منافقت اور حس و کینہ انسان کی زندگی کے معاملات میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ آج کے دور میں انسان کی خصلت خلوص ایمان داری اور سچ و حق گوئی سے یکسر محروم ہوتی جارہی ہے ۔
آج کے دور میں مصلحت کے پیش نظر مکر فریب ، دغا اور بے ایمانی عام سے بات ہے ۔والدین کی عزت و توقیر ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور دوسرے رشتوں کی اہمیت ہماری نظر میں ایک ٹشو پیر جیسی ہے ۔
اگر ہم 11 ماہ انسانیت اور دین اسلام کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے زندگی بسر کریں تو شاید ہمیں اپنے کسی عزیزکو ماہ شعبان میں معافی نامہ کا پیغام بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آسکے ۔
ہاں ،،،!!!
اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی خطاؤں اور کوتائیوں کا معافی نامہ اللہ کریم کے حضور پانچ وقت پابندی سے اور گریہ و زاری کے ساتھ پیش کرتے رہے تو شاید بات بن جائے اور ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عزیز و اقارب اور ہمسائے محلے دار سکون سے زندگی بسر کر سکیں ۔
ہماری خاک انگارے ہونے سے بچے اور ہم تہ خاک آسودہ زندگی کے مزے سے دوبالا ہوسکیں ۔
آج کل شوشل میڈیا ( جس میں واٹس ایپ ،فیس بک سرفہرست ہیں ) پر معافی نامہ کی پوسٹ اور میسج زیر گردش ہے ۔
جس میں کوتائیوں ،حق تلفیوں اور اپنی دیگر بدمعاشیوں کے حوالے سے معاف طلب کی جارہی ہے ،
آیا کہ یہ طریقہ درست ہے ؟
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی پارسائی سے بہتر ہے کہ بندہ ڈھیٹ بنا رہے تو بہتر ہے ،
آخر ماہ شعبان کی 14 تاریخ سے پہلے ہی کیوں ہمارا جذبہ ایمانی حرکت میں آتا ہے ،بقایا 11 ماہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کی جی حضوری میں پیش پیش رہتے ہیں،
جھوٹ منافقت اور حس و کینہ انسان کی زندگی کے معاملات میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ آج کے دور میں انسان کی خصلت خلوص ایمان داری اور سچ و حق گوئی سے یکسر محروم ہوتی جارہی ہے ۔
آج کے دور میں مصلحت کے پیش نظر مکر فریب ، دغا اور بے ایمانی عام سے بات ہے ۔والدین کی عزت و توقیر ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور دوسرے رشتوں کی اہمیت ہماری نظر میں ایک ٹشو پیر جیسی ہے ۔
اگر ہم 11 ماہ انسانیت اور دین اسلام کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے زندگی بسر کریں تو شاید ہمیں اپنے کسی عزیزکو ماہ شعبان میں معافی نامہ کا پیغام بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آسکے ۔
ہاں ،،،!!!
اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی خطاؤں اور کوتائیوں کا معافی نامہ اللہ کریم کے حضور پانچ وقت پابندی سے اور گریہ و زاری کے ساتھ پیش کرتے رہے تو شاید بات بن جائے اور ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عزیز و اقارب اور ہمسائے محلے دار سکون سے زندگی بسر کر سکیں ۔
ہماری خاک انگارے ہونے سے بچے اور ہم تہ خاک آسودہ زندگی کے مزے سے دوبالا ہوسکیں ۔