شب برات اور ہمارا معافی نامہ

شب برات قریب ہے ،
آج کل شوشل میڈیا ( جس میں واٹس ایپ ،فیس بک سرفہرست ہیں ) پر معافی نامہ کی پوسٹ اور میسج زیر گردش ہے ۔
جس میں کوتائیوں ،حق تلفیوں اور اپنی دیگر بدمعاشیوں کے حوالے سے معاف طلب کی جارہی ہے ،
آیا کہ یہ طریقہ درست ہے ؟
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی پارسائی سے بہتر ہے کہ بندہ ڈھیٹ بنا رہے تو بہتر ہے ،
آخر ماہ شعبان کی 14 تاریخ سے پہلے ہی کیوں ہمارا جذبہ ایمانی حرکت میں آتا ہے ،بقایا 11 ماہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کی جی حضوری میں پیش پیش رہتے ہیں،
جھوٹ منافقت اور حس و کینہ انسان کی زندگی کے معاملات میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ آج کے دور میں انسان کی خصلت خلوص ایمان داری اور سچ و حق گوئی سے یکسر محروم ہوتی جارہی ہے ۔
آج کے دور میں مصلحت کے پیش نظر مکر فریب ، دغا اور بے ایمانی عام سے بات ہے ۔والدین کی عزت و توقیر ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور دوسرے رشتوں کی اہمیت ہماری نظر میں ایک ٹشو پیر جیسی ہے ۔
اگر ہم 11 ماہ انسانیت اور دین اسلام کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے زندگی بسر کریں تو شاید ہمیں اپنے کسی عزیزکو ماہ شعبان میں معافی نامہ کا پیغام بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آسکے ۔
ہاں ،،،!!!
اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی خطاؤں اور کوتائیوں کا معافی نامہ اللہ کریم کے حضور پانچ وقت پابندی سے اور گریہ و زاری کے ساتھ پیش کرتے رہے تو شاید بات بن جائے اور ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عزیز و اقارب اور ہمسائے محلے دار سکون سے زندگی بسر کر سکیں ۔
ہماری خاک انگارے ہونے سے بچے اور ہم تہ خاک آسودہ زندگی کے مزے سے دوبالا ہوسکیں ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
درست فرمایا آپ نے۔
روزمرہ کی بنیاد پر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا محاسبہ ہمیں مزید غلطیاں کرنے سے کافی حد تک روک سکتا ہے۔
اس طرح کے وٹسایپ میسجز سے ایسا احساس دل میں جاگتا ہے کہ جیسے کوئی زخموں پہ نمک چھڑک رہا ہے کیونکہ یقینی طور پر ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے یں جو ہمیں تکلیف دینے کا باعث بنے ہوتے ہیں۔ اور کاپی پیسٹ کے ان معافی نامہ جیسے پیغامات ارسال کر کے سمجھتے ہیں کہ شاید انھوں نے اپنے پورے سال کی دی ہوئی تکالیف کا ازالہ کر دیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں وہ ہمیں دئیے گئے زخموں پہ کچوکے لگا رہے ہوتے ہیں۔
 
درست فرمایا آپ نے۔
روزمرہ کی بنیاد پر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا محاسبہ ہمیں مزید غلطیاں کرنے سے کافی حد تک روک سکتا ہے۔
اس طرح کے وٹسایپ میسجز سے ایسا احساس دل میں جاگتا ہے کہ جیسے کوئی زخموں پہ نمک چھڑک رہا ہے کیونکہ یقینی طور پر ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے یں جو ہمیں تکلیف دینے کا باعث بنے ہوتے ہیں۔ اور کاپی پیسٹ کے ان معافی نامہ جیسے پیغامات ارسال کر کے سمجھتے ہیں کہ شاید انھوں نے اپنے پورے سال کی دی ہوئی تکالیف کا ازالہ کر دیا ہے۔ جبکہ حقیقت میں وہ ہمیں دئیے گئے زخموں پہ کچوکے لگا رہے ہوتے ہیں۔
بہنا یہاں میں آپ کی بات سے متفق ہوتے اس میں تھوڑی توسیع کرتا چلو کہ آج کے جواں سالہ نونہال وطن اقربا اس میسج کو موقع محل کی مناسب سے فیشن سمجھ کر آگے بھیجتے ہیں یا واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگاتے تاکہ ان کا دوسروں پر ان کی فہم و فراست کا رعب پڑ سکے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہنا یہاں میں آپ کی بات سے متفق ہوتے اس میں تھوڑی توسیع کرتا چلو کہ آج کے جواں سالہ نونہال وطن اقربا اس میسج کو موقع محل کی مناسب سے فیشن سمجھ کر آگے بھیجتے ہیں یا واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگاتے تاکہ ان کا دوسروں پر ان کی فہم و فراست کا رعب پڑ سکے ۔
بہت شکر گزار ہیں بھائی جی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ میسجز ایسے بھی آئے دن شئیر ہوتے رہتے ہیں کہ اس میسج کو آگے دس بندوں تک پہنچایا جائے ورنہ یہ ہو گا یا وہ ہو گا۔ اور اگر کانٹیکٹ لسٹ میں 100 لوگ ہیں تو کم سے کم پچاس میسج تو ایک جیسے آ ہی جاتے ہیں۔ آخر انھوں نے بھی اپنی گنتی پوری کرنی ہوتی ہے۔
یوں تو ہماری مقدور بھر کوشش ہے کہ اردو ہی لکھیں لیکن دیارِ غیر میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے روانی نہیں ہے۔ نہیں جانتے کہ اس فورم میں اگر ایک آدھ لفظ غیر ارادی طور پر کسی دوسری زبان کا شامل کر دیں تو قابلِ اعتراض بات تو نہ ہو گی؟
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری خاک انگارے ہونے سے بچے اور ہم تہ خاک آسودہ زندگی کے مزے سے دوبالا ہوسکیں ۔
آمین الہی آمین بھیا سچ کہا ورنہ ہم دن رات انگاروں کا سامان ہی اپنے لئے اکٹھا کرتے ہیں اور دوسروں کی زندگیاں تو مشکل بناتے ہیں اپنے لئیئے دنیا اور آخرت خراب کرتے ہیں !!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
بہنا یہاں میں آپ کی بات سے متفق ہوتے اس میں تھوڑی توسیع کرتا چلو کہ آج کے جواں سالہ نونہال وطن اقربا اس میسج کو موقع محل کی مناسب سے فیشن سمجھ کر آگے بھیجتے ہیں یا واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگاتے تاکہ ان کا دوسروں پر ان کی فہم و فراست کا رعب پڑ سکے ۔
کھکھ نہیں بھیا فہم و فراست دو لفظ بولتے ہیں ہیں تو کھُل کر سامنے آجاتی ہے ۔۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ویسے تعریف اور مذمت میں کوئی خاص فرق تو نہیں ہے ہماری نظر میں۔ اگر مذمت کو مثبت لے لیا جائے تو وہ بھی تعریف ہی معلوم ہوتی ہے
 
Top