سید عمران
محفلین
آہ ہ ہ ہ !!!ہمیں تو آپ اپنی برات کے چکر میں نظر آ رہے ہیں۔
آہ ہ ہ ہ !!!ہمیں تو آپ اپنی برات کے چکر میں نظر آ رہے ہیں۔
جانی پہچانی؟یہ ساری تحریر از حد مانوس کیوں معلوم ہورہی ہے؟؟؟
جانی پہچانی سی!!!
آپ کے زیر تربیت رہا ہے تحریر نگار ،یہ ساری تحریر از حد مانوس کیوں معلوم ہورہی ہے؟؟؟
جانی پہچانی سی!!!
جی آ، جی آ۔۔۔جانی پہچانی؟
کیا معلوم کس جنم کا رشتہ ہو اپنا۔۔۔۔۔ ذاتی نہ سہی مگر الفاظ کا تو ممکن ہے نا
دوبارہ پڑھیں عینک لگا کے کہ ہم نے کس کوکہا ہے!!!آپ کے زیر تربیت رہا ہے تحریر نگار ،
جب ہی آپ کو تحریر میں اپنائیت محسوس ہو رہی ہے۔
وہی تو۔۔۔ بول کر آپ نے ہماری بات کو قبولیت کا درجہ بخشا نا؟؟؟جی آ، جی آ۔۔۔
وہی تو!!!
اپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہین مفتی جی ۔دوبارہ پڑھیں عینک لگا کے کہ ہم نے کس کوکہا ہے!!!
یعنی ہم نے پلی پلائی والی بات صحیح کہی تھی نا!!!اپ بھی بڑے بھولے بادشاہ ہین مفتی جی ۔
مطلب کہ آپ بھی سید عمران کی بات سے متفق ہیں؟آپ کے زیر تربیت رہا ہے تحریر نگار ،
جب ہی آپ کو تحریر میں اپنائیت محسوس ہو رہی ہے۔
پتہ نہیں شمشاد بھیا اتنے دن سے کہاں مصروف ہیں۔۔۔۔وہاں لڑکیوں کا کال پڑا ہے۔۔۔
اک ہو کا عالم ہے، اور سناٹا طاری ہے!!!
شب برات قریب ہے ،
آج کل شوشل میڈیا ( جس میں واٹس ایپ ،فیس بک سرفہرست ہیں ) پر معافی نامہ کی پوسٹ اور میسج زیر گردش ہے ۔
جس میں کوتائیوں ،حق تلفیوں اور اپنی دیگر بدمعاشیوں کے حوالے سے معاف طلب کی جارہی ہے ،
آیا کہ یہ طریقہ درست ہے ؟
جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی پارسائی سے بہتر ہے کہ بندہ ڈھیٹ بنا رہے تو بہتر ہے ،
آخر ماہ شعبان کی 14 تاریخ سے پہلے ہی کیوں ہمارا جذبہ ایمانی حرکت میں آتا ہے ،بقایا 11 ماہ ہم اپنی نفسانی خواہشات کی جی حضوری میں پیش پیش رہتے ہیں،
جھوٹ منافقت اور حس و کینہ انسان کی زندگی کے معاملات میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ آج کے دور میں انسان کی خصلت خلوص ایمان داری اور سچ و حق گوئی سے یکسر محروم ہوتی جارہی ہے ۔
آج کے دور میں مصلحت کے پیش نظر مکر فریب ، دغا اور بے ایمانی عام سے بات ہے ۔والدین کی عزت و توقیر ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور دوسرے رشتوں کی اہمیت ہماری نظر میں ایک ٹشو پیر جیسی ہے ۔
اگر ہم 11 ماہ انسانیت اور دین اسلام کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے زندگی بسر کریں تو شاید ہمیں اپنے کسی عزیزکو ماہ شعبان میں معافی نامہ کا پیغام بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آسکے ۔
ہاں ،،،!!!
اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی خطاؤں اور کوتائیوں کا معافی نامہ اللہ کریم کے حضور پانچ وقت پابندی سے اور گریہ و زاری کے ساتھ پیش کرتے رہے تو شاید بات بن جائے اور ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عزیز و اقارب اور ہمسائے محلے دار سکون سے زندگی بسر کر سکیں ۔
ہماری خاک انگارے ہونے سے بچے اور ہم تہ خاک آسودہ زندگی کے مزے سے دوبالا ہوسکیں ۔
وہ بھی کیا خوب دن تھے جب شب برأت پر پٹاخوں، پھلجڑیوں اور مزے کے کھانوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ اب ہر تہوار سے خوشی سلب کر لی گئی ہےشب برات قریب ہے ،
آج کل شوشل میڈیا ( جس میں واٹس ایپ ،فیس بک سرفہرست ہیں ) پر معافی نامہ کی پوسٹ اور میسج زیر گردش ہے ۔
جس میں کوتائیوں ،حق تلفیوں اور اپنی دیگر بدمعاشیوں کے حوالے سے معاف طلب کی جارہی ہے ،
درست صرف تہوار کا نام رہ گیا!!!!!اب ہر تہوار سے خوشی سلب کر لی گئی ہے
کب ہوگی؟ہمارے یہاں تو نیاز ہوگی۔۔۔۔گڑ اور سوجی کا حلوہ ۔۔۔پوریاں ۔۔۔۔ اور چنے کا سالن پکے گا۔۔۔پھر رشتہ داروں اور محلے والوں میں بھجیں گے۔۔۔اور غریبوں میں تقسیم ہوگا۔۔۔
کب ہوگی؟
اچھاشب برات پر