ایک واقعہ:
میرے گھر کے قریبی سٹاپ سے میری یونیورسٹی کے قریبی سٹاپ تک ایک ہی کوسٹر چلتی تھی۔ صبح صبح سٹاپ پر جا کر گھنٹوں انتظار کے بعد کوسٹر آتی، تو پائیدان تک بھری ہوتی۔ عموماً دروازے سے منسلک لوہے کے راڈ سے لٹک کر آدھا راستہ طے کرنا پڑتا ، پھر کہیں کوسٹر میں داخلہ نصیب ہوتا تھا۔ یہ معمول کوئی دو سمسٹر چلا اور عادت بھی بن گئی تھی۔ پھر ایک دن ابو نے اچانک کھانے کی میز پر پوچھ لیا کہ موٹر سائیکل کتنے کا مل جائے گا؟
پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کس لیے پوچھ رہے ہیں، جب پوچھا تو کہنے لگے کہ کب تک اس طرح لٹک کر یونیورسٹی جاتے رہو گے۔ میں نے اس وقت تک بہت دوستوں کی کوشش کے باوجود بائیک چلانا بھی نہیں سیکھی تھی، ابو کے سامنے بھی یہی بات رکھی۔ انہوں نے کہا چلاؤ گے تو آ جائے گی، تم قیمت پتہ کرو۔
خیر کچھ دوست احباب سے سیکنڈ ہینڈ ہونڈا 70 اور چائنہ مارکہ دیگر بائیکس کی قیمتیں معلوم کی، تو 25 سے 30 ہزار تک تھی۔ ابو کو بتائی تو کہنے لگے کہ سیکنڈ ہینڈ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکہ دے جائے اور چائنہ بائیک کا تو سوچو بھی مت۔ نئی ہونڈا کی قیمت پتہ کرو۔ معلوم کیا تو 53 ہزار تھی۔ اگلے ہفتے ابو نے 60 ہزار پکڑا دیے کہ رجسٹریشن، ہیلمٹ اور گارڈ وغیرہ پر بھی خرچہ آئے گا۔
----
ایک اور واقعہ:
وقت گزرتا گیا، آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اچھی جاب کی فکروں نے بھی دل و دماغ میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مل کر اپنا کام کرنے کا منصوبہ بنا لیا، کہ جاب پتہ نہیں ملے یا نہ ملے، ایک دوسرا ذریعہ موجود ہونا چاہیے۔
دفتری ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ بجٹ بنا کر تقسیم کیا، اور کمپیوٹر کے حوالے سے طے کیا کہ اپنا اپنا لایا جائے۔گھر میں کمپیوٹر موجود تو تھا، مگر دفتر لے جاتا تو گھر میں بھی ضرورت تھی۔
لہٰذا ابو سے مدعا بیان کیا، انہوں نے قیمت معلوم کرنے کا کہا۔ اور دو دن بعد نیا لیپ ٹاپ میرے ہاتھ میں تھا۔
-----

بظاہر یہ روزمرہ زندگی کے دو واقعات ہیں جو کم و بیش تمام متوسط گھرانوں میں کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہتے ہیں۔
جس وقت یہ پیش آئے تو نیا بائک ملنے کی خوشی یا نیا لیپ ٹاپ ملنے کی خوشی تو اپنی جگہ تھی، مگر بہرحال ایک معمول کا واقعہ تھا کہ ایک ضرورت تھی اور ابو نے پوری کر دی۔

اور آج - - -

جبکہ الحمدللہ اللہ تعالٰی نے رزقِ حلال کا معقول انتظام کیا ہوا ہے۔ اگر کسی حوالے سے خرچہ کرنا پڑے تو سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس خرچے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اور کیا اس خرچے کے بغیر کام چلایا جا سکتا ہے۔

جب جب معاشی الجھنیں سہنا پڑتی ہیں، تب تب یہ واقعات اور اس طرح کے کئی واقعات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ اور اس وقت درپیش معاشی مسائل بھی یاد آنے لگتے ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے بھی ابو نے ہمارے آرام و آسائش میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ ہمیں کبھی نہیں کہا کہ بیٹا ابھی رہنے دو، یا کچھ عرصہ بعد ہو جائے گا۔

مجھے نہیں معلوم کہ والد کی ہستی کو کس چیز سے تشبیہ دوں۔ شجرِ سایہ دار لکھ تو دیا، مگر شجر تو اپنی حدود تک ہی سایہ دیتا ہے۔ باپ کا سایہ تو ہمہ وقت ساتھ رہتا ہے۔ جب کوئی پریشانی آئی، ان سے رہنمائی لینے پہنچ گئے۔ جب کسی معاملے میں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آئی، تو ابو سے رائے لے لی۔

پچھلے دنوں کچھ معاشی پریشانی کے سبب بیٹی کے میڈیکل وزٹ کو مؤخر کیا۔ ابو کو پتہ چلا تو شدید برہمی کا اظہار کیا اور پیسے نکال کر ہاتھ میں تھما دیے۔

مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ورنہ جو کچھ لکھا یہ تو محض معاشی پہلو ہے۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں سیکھنے کے عمل میں ان کی رہنمائی ہی سب سے بنیادی ذریعہ رہی۔

اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
 
ایک واقعہ:
میرے گھر کے قریبی سٹاپ سے میری یونیورسٹی کے قریبی سٹاپ تک ایک ہی کوسٹر چلتی تھی۔ صبح صبح سٹاپ پر جا کر گھنٹوں انتظار کے بعد کوسٹر آتی، تو پائیدان تک بھری ہوتی۔ عموماً دروازے سے منسلک لوہے کے راڈ سے لٹک کر آدھا راستہ طے کرنا پڑتا ، پھر کہیں کوسٹر میں داخلہ نصیب ہوتا تھا۔ یہ معمول کوئی دو سمسٹر چلا اور عادت بھی بن گئی تھی۔ پھر ایک دن ابو نے اچانک کھانے کی میز پر پوچھ لیا کہ موٹر سائیکل کتنے کا مل جائے گا؟
پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کس لیے پوچھ رہے ہیں، جب پوچھا تو کہنے لگے کہ کب تک اس طرح لٹک کر یونیورسٹی جاتے رہو گے۔ میں نے اس وقت تک بہت دوستوں کی کوشش کے باوجود بائیک چلانا بھی نہیں سیکھی تھی، ابو کے سامنے بھی یہی بات رکھی۔ انہوں نے کہا چلاؤ گے تو آ جائے گی، تم قیمت پتہ کرو۔
خیر کچھ دوست احباب سے سیکنڈ ہینڈ ہونڈا 70 اور چائنہ مارکہ دیگر بائیکس کی قیمتیں معلوم کی، تو 25 سے 30 ہزار تک تھی۔ ابو کو بتائی تو کہنے لگے کہ سیکنڈ ہینڈ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکہ دے جائے اور چائنہ بائیک کا تو سوچو بھی مت۔ نئی ہونڈا کی قیمت پتہ کرو۔ معلوم کیا تو 53 ہزار تھی۔ اگلے ہفتے ابو نے 60 ہزار پکڑا دیے کہ رجسٹریشن، ہیلمٹ اور گارڈ وغیرہ پر بھی خرچہ آئے گا۔
----
ایک اور واقعہ:
وقت گزرتا گیا، آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اچھی جاب کی فکروں نے بھی دل و دماغ میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مل کر اپنا کام کرنے کا منصوبہ بنا لیا، کہ جاب پتہ نہیں ملے یا نہ ملے، ایک دوسرا ذریعہ موجود ہونا چاہیے۔
دفتری ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ بجٹ بنا کر تقسیم کیا، اور کمپیوٹر کے حوالے سے طے کیا کہ اپنا اپنا لایا جائے۔گھر میں کمپیوٹر موجود تو تھا، مگر دفتر لے جاتا تو گھر میں بھی ضرورت تھی۔
لہٰذا ابو سے مدعا بیان کیا، انہوں نے قیمت معلوم کرنے کا کہا۔ اور دو دن بعد نیا لیپ ٹاپ میرے ہاتھ میں تھا۔
-----

بظاہر یہ روزمرہ زندگی کے دو واقعات ہیں جو کم و بیش تمام متوسط گھرانوں میں کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہتے ہیں۔
جس وقت یہ پیش آئے تو نیا بائک ملنے کی خوشی یا نیا لیپ ٹاپ ملنے کی خوشی تو اپنی جگہ تھی، مگر بہرحال ایک معمول کا واقعہ تھا کہ ایک ضرورت تھی اور ابو نے پوری کر دی۔

اور آج - - -

جبکہ الحمدللہ اللہ تعالٰی نے رزقِ حلال کا معقول انتظام کیا ہوا ہے۔ اگر کسی حوالے سے خرچہ کرنا پڑے تو سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس خرچے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اور کیا اس خرچے کے بغیر کام چلایا جا سکتا ہے۔

جب جب معاشی الجھنیں سہنا پڑتی ہیں، تب تب یہ واقعات اور اس طرح کے کئی واقعات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ اور اس وقت درپیش معاشی مسائل بھی یاد آنے لگتے ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے بھی ابو نے ہمارے آرام و آسائش میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ ہمیں کبھی نہیں کہا کہ بیٹا ابھی رہنے دو، یا کچھ عرصہ بعد ہو جائے گا۔

مجھے نہیں معلوم کہ والد کی ہستی کو کس چیز سے تشبیہ دوں۔ شجرِ سایہ دار لکھ تو دیا، مگر شجر تو اپنی حدود تک ہی سایہ دیتا ہے۔ باپ کا سایہ تو ہمہ وقت ساتھ رہتا ہے۔ جب کوئی پریشانی آئی، ان سے رہنمائی لینے پہنچ گئے۔ جب کسی معاملے میں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آئی، تو ابو سے رائے لے لی۔

پچھلے دنوں کچھ معاشی پریشانی کے سبب بیٹی کے میڈیکل وزٹ کو مؤخر کیا۔ ابو کو پتہ چلا تو شدید برہمی کا اظہار کیا اور پیسے نکال کر ہاتھ میں تھما دیے۔

مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ورنہ جو کچھ لکھا یہ تو محض معاشی پہلو ہے۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں سیکھنے کے عمل میں ان کی رہنمائی ہی سب سے بنیادی ذریعہ رہی۔

اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا


بہت خوب، اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی زندگی میں ان کی عزت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں نے اس حوالے سے ایک نثم لکھی تھی۔

جب جب میں کہتا تھا
مجھے کوئی فکر نہیں
میرے بابا کو
میری فکر ہوتی تھی
اور اب فکریں ہیں تو
بابا ساتھ نہیں ہیں!
 
بہت خوب، اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی زندگی میں ان کی عزت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں نے اس حوالے سے ایک نثم لکھی تھی۔

جب جب میں کہتا تھا
مجھے کوئی فکر نہیں
میرے بابا کو
میری فکر ہوتی تھی
اور اب فکریں ہیں تو
بابا ساتھ نہیں ہیں!
آمین۔ جزاک اللہ۔
اچھی نثری نظم ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ہر گھر کی کہانی۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ اللہ کریم جن کے والدین سلامت ہیں انہیں ان کی قدر کرنے کی توفیق دے اور جن کے جا چکے ان کہ لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

محمد وارث

لائبریرین
میں نہ تو اخبار وغیرہ پڑھتا ہوں اور نہ ہی ٹی وی دیکھتا ہوں، نہ کسی سے ملتا جلتا ہوں، اس لیے اکثر خبریں میری بیوی مجھے بتاتی ہے۔ کئی بار اس نے مجھے اموات کی خبریں سنائیں، رشتے داروں کی، محلے والوں کی، معروف اور مشہور لوگوں کی۔ ہر بار میرا چہرہ تاثرات سے خالی ہوتا ہے۔ ایک بار اُس نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ تمھیں کسی کے بھی مرنے کا افسوس نہیں ہوتا۔اُس دن میں نے اُسے بتایا کہ جنوری 2000ء میں جب میری عمر 27 سال تھی میں نے اپنے والد صاحب کو اپنے سامنے وفات پاتے دیکھا تھا، وہ ایسا سانحہ تھا ایسا دکھ تھا ایسا کرب تھا کہ آج بھی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد مجھے دنیا کے سارے سانحے، ساری اموات اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو عمرِ خضر عطا فرمائیں، اور ان کا سایہ تا دیر تک سر پر سلامت رکھیں۔ اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں، آمین۔

ماں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے، لیکن میرا اپنے والد صاحب کے ساتھ کچھ اور ہی تعلق تھا۔ میں ان کی پہلی اولاد تھا اور ہمارا تعلق محب اور محبوب والا تھا، کبھی میرے بچپن میں مجھے ڈانٹ دیتے تھے تو پھر خود کئی دن افسردہ رہتے تھے۔

جیسا صدیقی صاحب نے لکھا ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا۔ ہمارے پاس ایک موٹر سائیکل تھا جسے والد صاحب خود اور ہم بھائی استعمال کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ بی ایس سی کر لو گے تو تمھیں ایک علیحدہ موٹر سائیکل لے دونگا۔ وقت آیا تو میرا دل کمپویٹر پر آ گیا اور انہوں نے میرے لیے دونوں چیزیں مہیا کر دیں۔ کس کس چیز کا اظہار کیا جائے، افسوس تو یہ ہے کہ میں ہر بار ہی ان کی توقعات پر پورا نہ اترا، انکی کوئی خدمت بھی نہ کر سکا،لیکن وہ ہمیشہ ہی مجھے نا جانے کیا سمجھتے رہے، ۔۔۔۔بقولِ اقبال

اگر سیاہ دلم داغِ لالہ زارِ تو ام
وگر کشادہ جبینم گُلِ بہارِ تو ام
اگر میں سیاہ دل والا ہوں تو تیرے ہی لالہ زار کا داغ ہوں، اور اگر میں کشادہ جبیں والا ہوں تو تیری ہی بہار کا پھول ہوں۔

اللہ اللہ۔۔۔۔۔۔​
 
ہر گھر کی کہانی۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ اللہ کریم جن کے والدین سلامت ہیں انہیں ان کی قدر کرنے کی توفیق دے اور جن کے جا چکے ان کہ لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین
آمین۔ جزاک اللہ ابنِ رضا بھائی
 
میں نہ تو اخبار وغیرہ پڑھتا ہوں اور نہ ہی ٹی وی دیکھتا ہوں، نہ کسی سے ملتا جلتا ہوں، اس لیے اکثر خبریں میری بیوی مجھے بتاتی ہے۔ کئی بار اس نے مجھے اموات کی خبریں سنائیں، رشتے داروں کی، محلے والوں کی، معروف اور مشہور لوگوں کی۔ ہر بار میرا چہرہ تاثرات سے خالی ہوتا ہے۔ ایک بار اُس نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ تمھیں کسی کے بھی مرنے کا افسوس نہیں ہوتا۔اُس دن میں نے اُسے بتایا کہ جنوری 2000ء میں جب میری عمر 27 سال تھی میں نے اپنے والد صاحب کو اپنے سامنے وفات پاتے دیکھا تھا، وہ ایسا سانحہ تھا ایسا دکھ تھا ایسا کرب تھا کہ آج بھی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد مجھے دنیا کے سارے سانحے، ساری اموات اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو عمرِ خضر عطا فرمائیں، اور ان کا سایہ تا دیر تک سر پر سلامت رکھیں۔ اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں، آمین۔

ماں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے، لیکن میرا اپنے والد صاحب کے ساتھ کچھ اور ہی تعلق تھا۔ میں ان کی پہلی اولاد تھا اور ہمارا تعلق محب اور محبوب والا تھا، کبھی میرے بچپن میں مجھے ڈانٹ دیتے تھے تو پھر خود کئی دن افسردہ رہتے تھے۔

جیسا صدیقی صاحب نے لکھا ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا۔ ہمارے پاس ایک موٹر سائیکل تھا جسے والد صاحب خود اور ہم بھائی استعمال کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ بی ایس سی کر لو گے تو تمھیں ایک علیحدہ موٹر سائیکل لے دونگا۔ وقت آیا تو میرا دل کمپویٹر پر آ گیا اور انہوں نے میرے لیے دونوں چیزیں مہیا کر دیں۔ کس کس چیز کا اظہار کیا جائے، افسوس تو یہ ہے کہ میں ہر بار ہی ان کی توقعات پر پورا نہ اترا، انکی کوئی خدمت بھی نہ کر سکا،لیکن وہ ہمیشہ ہی مجھے نا جانے کیا سمجھتے رہے، ۔۔۔۔بقولِ اقبال

اگر سیاہ دلم داغِ لالہ زارِ تو ام
وگر کشادہ جبینم گُلِ بہارِ تو ام
اگر میں سیاہ دل والا ہوں تو تیرے ہی لالہ زار کا داغ ہوں، اور اگر میں کشادہ جبیں والا ہوں تو تیری ہی بہار کا پھول ہوں۔

اللہ اللہ۔۔۔۔۔۔​
اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ لغزشوں سے درگزر فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے۔ آمین۔
میں نے شروع میں تعلیمی حوالے سے ان کو کافی تنگ کیا، بہرحال، ٹھوکریں کھا کر سیدھا ہو گیا۔ اور جب آخری سمسٹر کے دوران ہی مستقل جاب ملی، تو جاب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ آج ابو مجھ سے خوش ہیں۔
 
بلاشبہ یہ تعلق ہی ایسا ہے کہ ذکر آتے ہی جذبات سے دل بھر جاتا ہے۔
بے شک۔
یہ تحریر بہت عرصہ سے تقریباً لکھ کر رکھی ہوئی تھی۔ لیکن پھر یہی سوچ کر چھوڑ دیتا تھا کہ یہ تحریر کبھی حق نہیں ادا کر سکتی۔ پھر سوچا کہ شاید کچھ ایسے افراد بھی پڑھ لیں جن کو ابھی یہ ادراک حاصل نہیں ہوا۔
 

یاز

محفلین
میں نہ تو اخبار وغیرہ پڑھتا ہوں اور نہ ہی ٹی وی دیکھتا ہوں، نہ کسی سے ملتا جلتا ہوں، اس لیے اکثر خبریں میری بیوی مجھے بتاتی ہے۔ کئی بار اس نے مجھے اموات کی خبریں سنائیں، رشتے داروں کی، محلے والوں کی، معروف اور مشہور لوگوں کی۔ ہر بار میرا چہرہ تاثرات سے خالی ہوتا ہے۔ ایک بار اُس نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ تمھیں کسی کے بھی مرنے کا افسوس نہیں ہوتا۔اُس دن میں نے اُسے بتایا کہ جنوری 2000ء میں جب میری عمر 27 سال تھی میں نے اپنے والد صاحب کو اپنے سامنے وفات پاتے دیکھا تھا، وہ ایسا سانحہ تھا ایسا دکھ تھا ایسا کرب تھا کہ آج بھی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد مجھے دنیا کے سارے سانحے، ساری اموات اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کے والدین کو عمرِ خضر عطا فرمائیں، اور ان کا سایہ تا دیر تک سر پر سلامت رکھیں۔ اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ہیں انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں، آمین۔

ماں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے، لیکن میرا اپنے والد صاحب کے ساتھ کچھ اور ہی تعلق تھا۔ میں ان کی پہلی اولاد تھا اور ہمارا تعلق محب اور محبوب والا تھا، کبھی میرے بچپن میں مجھے ڈانٹ دیتے تھے تو پھر خود کئی دن افسردہ رہتے تھے۔

جیسا صدیقی صاحب نے لکھا ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا۔ ہمارے پاس ایک موٹر سائیکل تھا جسے والد صاحب خود اور ہم بھائی استعمال کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ بی ایس سی کر لو گے تو تمھیں ایک علیحدہ موٹر سائیکل لے دونگا۔ وقت آیا تو میرا دل کمپویٹر پر آ گیا اور انہوں نے میرے لیے دونوں چیزیں مہیا کر دیں۔ کس کس چیز کا اظہار کیا جائے، افسوس تو یہ ہے کہ میں ہر بار ہی ان کی توقعات پر پورا نہ اترا، انکی کوئی خدمت بھی نہ کر سکا،لیکن وہ ہمیشہ ہی مجھے نا جانے کیا سمجھتے رہے، ۔۔۔۔بقولِ اقبال

اگر سیاہ دلم داغِ لالہ زارِ تو ام
وگر کشادہ جبینم گُلِ بہارِ تو ام
اگر میں سیاہ دل والا ہوں تو تیرے ہی لالہ زار کا داغ ہوں، اور اگر میں کشادہ جبیں والا ہوں تو تیری ہی بہار کا پھول ہوں۔

اللہ اللہ۔۔۔۔۔۔​
اللہ تعالیٰ آپ کے والد صاحب کو جنت میں جگہ دے۔ آمین
اس فورم کی وساطت سے جس حد تک آپ کی ذات سے شناسائی ہوئی ہے، میں بجا طور پہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اپنے مرحوم والد صاحب کے لئے یقیناََ فخروانبساط کا باعث ہوں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ تعالیٰ آپ کے والد صاحب کو جنت میں جگہ دے۔ آمین
اس فورم کی وساطت سے جس حد تک آپ کی ذات سے شناسائی ہوئی ہے، میں بجا طور پہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اپنے مرحوم والد صاحب کے لئے یقیناََ فخروانبساط کا باعث ہوں گے۔
میں لوگوں کی نظروں میں ایک انتہائی غیر جذباتی آدمی ہوں شاید پتھر کی طرح لیکن یہ بات میری بیوی بھی نہیں جانتی کہ بس دفعہ تنہائی میں میں دھاڑیں مار کر بھی رو دیتا ہوں۔
صدیقی صاحب نے آج موضوع ہی کچھ ایسا چھیڑ دیا ہے کہ باہر برسات ہے اور میں دفتر کے اندر ایک اور برسات کو روکے ہوا ہوں۔ اللہ اللہ
 

سید عمران

محفلین
میں لوگوں کی نظروں میں ایک انتہائی غیر جذباتی آدمی ہوں شاید پتھر کی طرح لیکن یہ بات میری بیوی بھی نہیں جانتی کہ بس دفعہ تنہائی میں میں دھاڑیں مار کر بھی رو دیتا ہوں۔
صدیقی صاحب نے آج موضوع ہی کچھ ایسا چھیڑ دیا ہے کہ باہر برسات ہے اور میں دفتر کے اندر ایک اور برسات کو روکے ہوا ہوں۔ اللہ اللہ
سُنا ہے سنگ دل کی آنکھ سے آنسو نہیں بہتے
اگر یہ سچ ہے تو پتھر سے کیوں چشمے اُبلتے ہیں

جو لوگ باہر سے سخت ہوتے ہیں وہ اندر سے نہایت نرم ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ باہر سے بہت میٹھے ہوتے ہیں وہ اندر سے میٹھی چھری ثابت ہوتے ہیں۔
یہ میرا بارہا کا آزمایا ہوا تجربہ ہے۔
 

باباجی

محفلین
زبردست تحریر تابش بھائی
2005 میں جب ابو کی وفات ہوئی تو میں 23 سال کا تھا ۔۔ اور یک دم ذمہ داری آن پڑی تو بوکھلا گیا
کہ یار ابو یہ سب کیسے Manage کرتے تھے ۔ اور آج گیارہواں سال ہے میں Manage کرنے میں کامیاب نا ہوسکا
ہاں یہ ہوا کہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ گھر والوں کو کوئی ضرورت پیش آگئی تو میں اسے بخوبی پورا کرسکوں
لیکن پھر بھی ابو کی طرح خیال نہیں رکھ پاتا ۔
اور میں بھی بہت سخت دل ہوگیا ہوں ابو کی وفات کے بعد وارث بھائی تو پھر بھی تنہائی میں رولیتے ہیں مجھ سے تو وہ بھی نہیں ہوتا
میں اپنے کزنز کو یا دوستوں کو جن کے والد حیات ہیں اکثر کہتا ہوں کہ بھائی آج اپنا باپ تمہیں ظالم یا بیوقوف لگتا ہے نا
بعد میں انہی کو یاد کرکے آنسو بہایا کرو گے جب سر پے پڑے گی
 

ہادیہ

محفلین
بلاشبہ ہم سب کی زندگیاں ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔بہت جگہوں،تحریروں،اور شاعری میں صرف "ماں" کے بارے میں لوگ لکھتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے جتنی ماں اہم ہے باپ کی بھی وہی اہمیت ہے۔فرق صرف اتنا ہے ماں اپنے جذبات،محبت کا اولاد کے ساتھ برملا اظہار کرتی ہے ہر ہر موقع پر وہ اولاد کو ہمت دیتی ہے دعائیں کرتی ہے۔مگر باپ کی شخصیت ظاہری اظہار سے مبرا ہوتی ہے۔وہ بھی اپنی اولاد کے لیے ویسے ہی پریشان ہوتے ہیں،دعائیں کرتے ہیں جیسے ماں کرتی ہے مگر وہ اظہار کم کرتے ہیں۔ ماں باپ انمول رشتے ہیں ان دونوں کے بغیر دنیا کی ہر خوشی بے معنی ہے۔ہر رنگ بے رنگ ہوتا ہے۔ خیر یہ بہت جذباتی ٹاپک ہے اور اس پر بات کرنے کے لیے الفاظ بھی کم پڑجاتے ہیں۔جس قدر ہوسکے ان عظیم ہستیوں کے دعا کیا کریں کیونکہ ہم لوگ ان کی محبت کا حق تو ادا کرنہیں سکتے مگر دعا تو کر سکتے ہیں۔اللہ پاک ہمارے ماں باپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔آمین ثم آمین۔
زبردست اشتراک کیا سر آپ نے۔شکریہ:)
 
Top