محمد تابش صدیقی
منتظم
ایک واقعہ:
میرے گھر کے قریبی سٹاپ سے میری یونیورسٹی کے قریبی سٹاپ تک ایک ہی کوسٹر چلتی تھی۔ صبح صبح سٹاپ پر جا کر گھنٹوں انتظار کے بعد کوسٹر آتی، تو پائیدان تک بھری ہوتی۔ عموماً دروازے سے منسلک لوہے کے راڈ سے لٹک کر آدھا راستہ طے کرنا پڑتا ، پھر کہیں کوسٹر میں داخلہ نصیب ہوتا تھا۔ یہ معمول کوئی دو سمسٹر چلا اور عادت بھی بن گئی تھی۔ پھر ایک دن ابو نے اچانک کھانے کی میز پر پوچھ لیا کہ موٹر سائیکل کتنے کا مل جائے گا؟
پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کس لیے پوچھ رہے ہیں، جب پوچھا تو کہنے لگے کہ کب تک اس طرح لٹک کر یونیورسٹی جاتے رہو گے۔ میں نے اس وقت تک بہت دوستوں کی کوشش کے باوجود بائیک چلانا بھی نہیں سیکھی تھی، ابو کے سامنے بھی یہی بات رکھی۔ انہوں نے کہا چلاؤ گے تو آ جائے گی، تم قیمت پتہ کرو۔
خیر کچھ دوست احباب سے سیکنڈ ہینڈ ہونڈا 70 اور چائنہ مارکہ دیگر بائیکس کی قیمتیں معلوم کی، تو 25 سے 30 ہزار تک تھی۔ ابو کو بتائی تو کہنے لگے کہ سیکنڈ ہینڈ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکہ دے جائے اور چائنہ بائیک کا تو سوچو بھی مت۔ نئی ہونڈا کی قیمت پتہ کرو۔ معلوم کیا تو 53 ہزار تھی۔ اگلے ہفتے ابو نے 60 ہزار پکڑا دیے کہ رجسٹریشن، ہیلمٹ اور گارڈ وغیرہ پر بھی خرچہ آئے گا۔
----
ایک اور واقعہ:
وقت گزرتا گیا، آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اچھی جاب کی فکروں نے بھی دل و دماغ میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مل کر اپنا کام کرنے کا منصوبہ بنا لیا، کہ جاب پتہ نہیں ملے یا نہ ملے، ایک دوسرا ذریعہ موجود ہونا چاہیے۔
دفتری ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ بجٹ بنا کر تقسیم کیا، اور کمپیوٹر کے حوالے سے طے کیا کہ اپنا اپنا لایا جائے۔گھر میں کمپیوٹر موجود تو تھا، مگر دفتر لے جاتا تو گھر میں بھی ضرورت تھی۔
لہٰذا ابو سے مدعا بیان کیا، انہوں نے قیمت معلوم کرنے کا کہا۔ اور دو دن بعد نیا لیپ ٹاپ میرے ہاتھ میں تھا۔
-----
بظاہر یہ روزمرہ زندگی کے دو واقعات ہیں جو کم و بیش تمام متوسط گھرانوں میں کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہتے ہیں۔
جس وقت یہ پیش آئے تو نیا بائک ملنے کی خوشی یا نیا لیپ ٹاپ ملنے کی خوشی تو اپنی جگہ تھی، مگر بہرحال ایک معمول کا واقعہ تھا کہ ایک ضرورت تھی اور ابو نے پوری کر دی۔
اور آج - - -
جبکہ الحمدللہ اللہ تعالٰی نے رزقِ حلال کا معقول انتظام کیا ہوا ہے۔ اگر کسی حوالے سے خرچہ کرنا پڑے تو سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس خرچے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اور کیا اس خرچے کے بغیر کام چلایا جا سکتا ہے۔
جب جب معاشی الجھنیں سہنا پڑتی ہیں، تب تب یہ واقعات اور اس طرح کے کئی واقعات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ اور اس وقت درپیش معاشی مسائل بھی یاد آنے لگتے ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے بھی ابو نے ہمارے آرام و آسائش میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ ہمیں کبھی نہیں کہا کہ بیٹا ابھی رہنے دو، یا کچھ عرصہ بعد ہو جائے گا۔
مجھے نہیں معلوم کہ والد کی ہستی کو کس چیز سے تشبیہ دوں۔ شجرِ سایہ دار لکھ تو دیا، مگر شجر تو اپنی حدود تک ہی سایہ دیتا ہے۔ باپ کا سایہ تو ہمہ وقت ساتھ رہتا ہے۔ جب کوئی پریشانی آئی، ان سے رہنمائی لینے پہنچ گئے۔ جب کسی معاملے میں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آئی، تو ابو سے رائے لے لی۔
پچھلے دنوں کچھ معاشی پریشانی کے سبب بیٹی کے میڈیکل وزٹ کو مؤخر کیا۔ ابو کو پتہ چلا تو شدید برہمی کا اظہار کیا اور پیسے نکال کر ہاتھ میں تھما دیے۔
مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ورنہ جو کچھ لکھا یہ تو محض معاشی پہلو ہے۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں سیکھنے کے عمل میں ان کی رہنمائی ہی سب سے بنیادی ذریعہ رہی۔
اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
میرے گھر کے قریبی سٹاپ سے میری یونیورسٹی کے قریبی سٹاپ تک ایک ہی کوسٹر چلتی تھی۔ صبح صبح سٹاپ پر جا کر گھنٹوں انتظار کے بعد کوسٹر آتی، تو پائیدان تک بھری ہوتی۔ عموماً دروازے سے منسلک لوہے کے راڈ سے لٹک کر آدھا راستہ طے کرنا پڑتا ، پھر کہیں کوسٹر میں داخلہ نصیب ہوتا تھا۔ یہ معمول کوئی دو سمسٹر چلا اور عادت بھی بن گئی تھی۔ پھر ایک دن ابو نے اچانک کھانے کی میز پر پوچھ لیا کہ موٹر سائیکل کتنے کا مل جائے گا؟
پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کس لیے پوچھ رہے ہیں، جب پوچھا تو کہنے لگے کہ کب تک اس طرح لٹک کر یونیورسٹی جاتے رہو گے۔ میں نے اس وقت تک بہت دوستوں کی کوشش کے باوجود بائیک چلانا بھی نہیں سیکھی تھی، ابو کے سامنے بھی یہی بات رکھی۔ انہوں نے کہا چلاؤ گے تو آ جائے گی، تم قیمت پتہ کرو۔
خیر کچھ دوست احباب سے سیکنڈ ہینڈ ہونڈا 70 اور چائنہ مارکہ دیگر بائیکس کی قیمتیں معلوم کی، تو 25 سے 30 ہزار تک تھی۔ ابو کو بتائی تو کہنے لگے کہ سیکنڈ ہینڈ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکہ دے جائے اور چائنہ بائیک کا تو سوچو بھی مت۔ نئی ہونڈا کی قیمت پتہ کرو۔ معلوم کیا تو 53 ہزار تھی۔ اگلے ہفتے ابو نے 60 ہزار پکڑا دیے کہ رجسٹریشن، ہیلمٹ اور گارڈ وغیرہ پر بھی خرچہ آئے گا۔
----
ایک اور واقعہ:
وقت گزرتا گیا، آخری سمسٹر آن پہنچا۔ اچھی جاب کی فکروں نے بھی دل و دماغ میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مل کر اپنا کام کرنے کا منصوبہ بنا لیا، کہ جاب پتہ نہیں ملے یا نہ ملے، ایک دوسرا ذریعہ موجود ہونا چاہیے۔
دفتری ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ بجٹ بنا کر تقسیم کیا، اور کمپیوٹر کے حوالے سے طے کیا کہ اپنا اپنا لایا جائے۔گھر میں کمپیوٹر موجود تو تھا، مگر دفتر لے جاتا تو گھر میں بھی ضرورت تھی۔
لہٰذا ابو سے مدعا بیان کیا، انہوں نے قیمت معلوم کرنے کا کہا۔ اور دو دن بعد نیا لیپ ٹاپ میرے ہاتھ میں تھا۔
-----
بظاہر یہ روزمرہ زندگی کے دو واقعات ہیں جو کم و بیش تمام متوسط گھرانوں میں کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہتے ہیں۔
جس وقت یہ پیش آئے تو نیا بائک ملنے کی خوشی یا نیا لیپ ٹاپ ملنے کی خوشی تو اپنی جگہ تھی، مگر بہرحال ایک معمول کا واقعہ تھا کہ ایک ضرورت تھی اور ابو نے پوری کر دی۔
اور آج - - -
جبکہ الحمدللہ اللہ تعالٰی نے رزقِ حلال کا معقول انتظام کیا ہوا ہے۔ اگر کسی حوالے سے خرچہ کرنا پڑے تو سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس خرچے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، اور کیا اس خرچے کے بغیر کام چلایا جا سکتا ہے۔
جب جب معاشی الجھنیں سہنا پڑتی ہیں، تب تب یہ واقعات اور اس طرح کے کئی واقعات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ اور اس وقت درپیش معاشی مسائل بھی یاد آنے لگتے ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے بھی ابو نے ہمارے آرام و آسائش میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ ہمیں کبھی نہیں کہا کہ بیٹا ابھی رہنے دو، یا کچھ عرصہ بعد ہو جائے گا۔
مجھے نہیں معلوم کہ والد کی ہستی کو کس چیز سے تشبیہ دوں۔ شجرِ سایہ دار لکھ تو دیا، مگر شجر تو اپنی حدود تک ہی سایہ دیتا ہے۔ باپ کا سایہ تو ہمہ وقت ساتھ رہتا ہے۔ جب کوئی پریشانی آئی، ان سے رہنمائی لینے پہنچ گئے۔ جب کسی معاملے میں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آئی، تو ابو سے رائے لے لی۔
پچھلے دنوں کچھ معاشی پریشانی کے سبب بیٹی کے میڈیکل وزٹ کو مؤخر کیا۔ ابو کو پتہ چلا تو شدید برہمی کا اظہار کیا اور پیسے نکال کر ہاتھ میں تھما دیے۔
مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ورنہ جو کچھ لکھا یہ تو محض معاشی پہلو ہے۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں سیکھنے کے عمل میں ان کی رہنمائی ہی سب سے بنیادی ذریعہ رہی۔
اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا