فرحت کیانی
لائبریرین
بہت اچهی بات ہے. کچه اور طلبا اور مناسب سے قدرے کم اور زیادہ تدریسی تجربہ رکهنے والوں سے کبهی اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق ہوا ہو ؟طالب علم تو ابھی تک ہوں اور مناسب سا تدریسی تجربہ بھی ہے
بہت اچهی بات ہے. کچه اور طلبا اور مناسب سے قدرے کم اور زیادہ تدریسی تجربہ رکهنے والوں سے کبهی اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق ہوا ہو ؟طالب علم تو ابھی تک ہوں اور مناسب سا تدریسی تجربہ بھی ہے
محترم بہن ،حالیہ دنوں میں کچھ زیادہ تو تبادلہ خیال کا موقع نہیں ملا، ویسے میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا کیا موقع محل ہے ؟بہت اچهی بات ہے. کچه اور طلبا اور مناسب سے قدرے کم اور زیادہ تدریسی تجربہ رکهنے والوں سے کبهی اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق ہوا ہو ؟
صرف اس بات کا اندازہ لگانا کہ آپ کی رائے صرف ذاتی تجربہ پر مبنی ہے یا مشاہدہ اور دوسروں کے تجربہ کو بهی شامل کیا ہے.محترم بہن ،حالیہ دنوں میں کچھ زیادہ تو تبادلہ خیال کا موقع نہیں ملا، ویسے میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا کیا موقع محل ہے ؟
اول تو ایک بات بڑی واضح ہے کہ اردو کسی اکثریت کی زبان نہیں ہے پاکستان میں، واہگہ سے لے کر کراچی چلے جائیں تو آپ کو پنجابی سے لے کر کئی طرح کی رنگ برنگی مادری زبانیں ملیں گی جو بعض اوقات کچھ کلومیٹرز کے فرق سے بھی آپس میں نہیں ملتیں۔ سو جس طرح انگریزی پر محنت کرکے پہلے اسے سیکھنا پڑے گا اسی طرح یقین کریں اردو پر بھی محنت کرنی پڑے گی اور اسے بھی سیکھنا پڑے گا اگر اسے زریعہ تعلیم بنایا جائے تو، بولنے میں تو بندہ اردو بول سکتا ہے اور گو کے رابطے کی زبان بھی ہے مگر بولنے میں جیسی تیسی بھی بولی جائے چلتی ہے، اور پھر اگر اردو کو زریعہ تعلیم بنایا جاتے تو بات اسد صاحب کی دہرانی پڑےگی کے اردو میں اتنے مواد کیسے اور کہاں سے لائیں گے؟ اتنے تیز تو ہم ہیں نہیں کہ ہر چیز کو اردو میں بدل چکے ہوں ہم ابھی تک۔۔۔۔۔۔! اور اگر ابھی بدلنے کا کام شروع کیا جائے یا ابھی اپنانا شروع کریں تو یقین کریں سائنس مضامین کو اردو میں پڑھنے سے بہتر ہے بندہ کے ٹو سر کر لے، زیادہ آسان ہو گا۔نہایت ادب سے گذارش ہے کہ میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں، ایک ایسی زبان (اردو )جس کے ساتھ طلباء کا معاشرےمیں زیادہ واسطہ رہتا ہے، اگر اس زبان میں کسی تصور اور ان دیکھی چیز کا بیان کیا جائے تو افہام و تفہیم کا زیادہ امکان ہے نا کہ پہلے اس زبان (انگلش ) کو سیکھا جائے اور پھر اس تصور کو بھی سیکھا جائے تو کام دگنا ہو جاتا ہے
جی بالکل، یہاں پوسٹنگ کے بعد وہاں سے ریزائن دے دیا۔ بہت زیادہ مختلف حالات ہیں دونوں اداروں کے۔۔۔۔۔ ادھربچے پڑھنا چاہتے ہیں مگر ٹیچر پڑھانا نہیں چاہتے کوئی کوئی ہے جو ان مجبور بچوں کا احساس کرتا ہے اللہ کا شکر ہے میری بیگم کو احساس ہے اور فی الحال جذبہ بھی، صورت حال یہ ہے کہ پہلے سے موجود ٹیچر ایک تو بہت زیادہ کوالیفائیڈ نہیں ہیں اور دوسر بہت سے عوامل کی وجہ سے پڑھانے کے بجائے وقت گزارنا ہی اپنا فرض سمجھتی ہیں، پرائیویٹ میں بچے کا حد سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور اسے کھلی چھوٹ ہوتی ہے حتٰی کہ معاملات بدتمیزی سے بھی گزر جاتے ہیں یہاں مارنہیں پیار کے قول پر عمل کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے اور ڈنڈا پیر بے دریغ استعمال ہوتا ہے، بہت سے سکول گو کے ابھی تک محروم ہیں مگر پھر بھی گورنمنٹ بہت کچھ کر رہی ہے اور بہت کچھ دے رہی ہے ٹیچر کو جس میں اچھی تنخواہ سے لے کر تعلیمی امداد تک شامل ہے۔ پرائیویٹ میں تنخواہ برائے نام دی جاتی ہے اور خون نچوڑ کر اسے پورا بھی کروایا جاتا ہے۔ بات وہی ہے کہ اگر بچے کو پڑھانا ہے تو پرائیویٹ سکول اس کے لیے اچھا ہے کہ وہ ایسے سکولوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے اور اگر نوکری کرنی ہے تو گورنمنٹ کی اچھی ہے۔ اگر ہمیں حالات بدلنے ہیں تو ہمیں ایسے خیالات کو بھی بدلنا ہو گا۔ گورنمنٹ میں جو بچے پڑھنا چاہتے ہیں انھیں پڑھانا ہو گااور جو ٹیچر گورنمنٹ کی طرف سے بہت سی سہولیات ملنے کے باوجود پڑھانا نہیں چاہتے انھیں لگام ڈالنی ہو گی اور پرائیویٹ میں جو بچے سر چڑھے اور حد سے گزرے ہیں انھیں لگام ڈالنی ہو گی اور ٹیچرز کو سہولیات بھی دینی ہوں گی۔ اسی سلسلے میں حال میں ہی پرائیویٹ سکولوں کی سینہ زوری، زیادہ فیسوں، کم تنخواہوں اور سخت شرائط کے بارے ایک مقدمہ بھی چال رہا ہ جس میں درخواست گزار نے بہت ہی اچھے نقاط اٹھائےہیں دیکھیں آگے چل کے اس کا کیا بنتا ہے۔ویسے مجهے یاد پڑتا ہے کہ آپ نے کہیں ذکر کیا تها کہ آپ کی بیگم ایپسیکس میں کام کرتی تهیں. کیسا لگ رہا ہے انہیں دو مختلف اداروں کا ماحول؟
رنگ شدہ بات کا عینی شاہد ہوںجی بالکل، یہاں پوسٹنگ کے بعد وہاں سے ریزائن دے دیا۔ بہت زیادہ مختلف حالات ہیں دونوں اداروں کے۔۔۔ ۔۔ ادھربچے پڑھنا چاہتے ہیں مگر ٹیچر پڑھانا نہیں چاہتے کوئی کوئی ہے جو ان مجبور بچوں کا احساس کرتا ہے اللہ کا شکر ہے میری بیگم کو احساس ہے اور فی الحال جذبہ بھی، صورت حال یہ ہے کہ پہلے سے موجود ٹیچر ایک تو بہت زیادہ کوالیفائیڈ نہیں ہیں اور دوسر بہت سے عوامل کی وجہ سے پڑھانے کے بجائے وقت گزارنا ہی اپنا فرض سمجھتی ہیں، پرائیویٹ میں بچے کا حد سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور اسے کھلی چھوٹ ہوتی ہے حتٰی کہ معاملات بدتمیزی سے بھی گزر جاتے ہیں یہاں مارنہیں پیار کے قول پر عمل کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے اور ڈنڈا پیر بے دریغ استعمال ہوتا ہے، بہت سے سکول گو کے ابھی تک محروم ہیں مگر پھر بھی گورنمنٹ بہت کچھ کر رہی ہے اور بہت کچھ دے رہی ہے ٹیچر کو جس میں اچھی تنخواہ سے لے کر تعلیمی امداد تک شامل ہے۔ پرائیویٹ میں تنخواہ برائے نام دی جاتی ہے اور خون نچوڑ کر اسے پورا بھی کروایا جاتا ہے۔ بات وہی ہے کہ اگر بچے کو پڑھانا ہے تو پرائیویٹ سکول اس کے لیے اچھا ہے کہ وہ ایسے سکولوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے اور اگر نوکری کرنی ہے تو گورنمنٹ کی اچھی ہے۔ اگر ہمیں حالات بدلنے ہیں تو ہمیں ایسے خیالات کو بھی بدلنا ہو گا۔ گورنمنٹ میں جو بچے پڑھنا چاہتے ہیں انھیں پڑھانا ہو گااور جو ٹیچر گورنمنٹ کی طرف سے بہت سی سہولیات ملنے کے باوجود پڑھانا نہیں چاہتے انھیں لگام ڈالنی ہو گی اور پرائیویٹ میں جو بچے سر چڑھے اور حد سے گزرے ہیں انھیں لگام ڈالنی ہو گی اور ٹیچرز کو سہولیات بھی دینی ہوں گی۔ اسی سلسلے میں حال میں ہی پرائیویٹ سکولوں کی سینہ زوری، زیادہ فیسوں، کم تنخواہوں اور سخت شرائط کے بارے ایک مقدمہ بھی چال رہا ہ جس میں درخواست گزار نے بہت ہی اچھے نقاط اٹھائےہیں دیکھیں آگے چل کے اس کا کیا بنتا ہے۔
درست۔ یہی ہماری معاشرتی پسماندگی ہے کہ کہنے کو تو ہم بڑے مسلمان بنے پھرتے ہیں کہ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے البتہ عملی زندگی میں جسکے پاس واقعی علم ہوتا ہے اور وہ دوسروں کیساتھ بانٹنا بھی چاہتا ہے تو اسپر پُرمزاح کی ریٹنگ کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے پسماندہ معاشروں میں عزت اور قدر علم کی نہیں "مبینہ"علم والے کی ہوتی یا جسکے بارے میں عام تاثر ہو کہ یہ بہت بڑا عالم ہے۔ جیسے اگر کوئی 60 سال کا بڈا کھوسٹ ہے اور عقل سے پیدل پروفیسر ہے تو اسکی ہمارے سماج میں عزت اور منزلت ہوگی۔ بیشک اسکے پاس علوم کا خزانہ 30 سال پرانا ہو چکا ہو۔ وہ ہمیں صدق دل سے قبول ہے۔ لیکن اسکے برعکس اگر آجکل کا کوئی چھوکرا اس سے زیادہ بہتر اور معقول بات بھی بتائے تو وہ ہمیں اجتماعی طور پر پر مزاح معلوم ہوگی۔نعرے بازوں نے نئے اساتذہ کی مدد کے لئے اپنے تجربات اور مشورے کہیں تحریر کیے ہیں؟ یہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے، سینہ بہ سینہ۔ ہم نے بیس (یا تیس) سال میں جو تجربہ حاصل کیا ہے وہ ہم کل کے چھوکروں (اور چھوکریوں) کے حوالے کر دیں! تاکہ وہ پہلے دن سے ہی ہمارے برابر آ جائیں! ہرگز نہیں!!! ہم نے بیس سال مشقت کی ہے انہیں بھی کرنے دو۔
لاہور:قومی زبان تحریک کےصدر ڈاکٹر محمد شریف نے کہا ہے کہ حکومت شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہے لیکن ایک چیز اس کی نظروں سے بالکل اوجھل ہے۔اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی زبان کی لازمی حثییت ہے۔اگر اسے اختیار حثییت دے دی جائے تو ہمارے ملک میں سو فیصد شرح خواندگی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے پالیسی سٹڈی گروپ کےطلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محض انگلش بطور لازمی مضمون ہونے کی وجہ سے ہر سال طلباء کی عظیم تعداد ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یکساں نظام تعلیم اردو رائج کیا جائے۔اس طرح ملک میں تعلیم بھی عام ہو گی اور ہمارے نوجوانوں کی رٹا بازی میں صرف ہونےوالی صلاحیتیں بھی پروان چڑھیں گی۔
حوالہ:15اپریل2014روزنامہ سٹی42لاہور
مجھے یہ تسلیم کرنے میں بالکل بھی عار نہیں، آپ کا مشاہدہ اور سوچ کی گہرائی بہت قابل قدر ہے ، آپ میری گزارشات ملاحظہ کریںمیں معذرت چاہتا ہوں کہ کچھ موضوعات پر زیادہ ہی تلخ ہو جاتا ہوں اور تعلیم ان میں سے ایک ہے۔ مذہب اور سیاست کی طرح اس میں بھی لوگ محض اپنے مفاد کی خاطر پورے ملک اور پوری قوم کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے خوبصورت نعرے گھڑتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی اکثریت محض اپنے وظیفوں کی مقدار بڑھانا چاہتی ہے۔
پاکستان میں جو بھی تعلیمی مسائل ہیں وہ سسٹم کی وجہ سے ہیں، جن میں کئی متوازی تعلیمی نظام، ٹیکسٹ بک بورڈ، تعلیمی/امتحانی بورڈ، امتحانی طریق کار، پبلشر، سکول انتظامیہ اور دوسرے عوامل شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہر جگہ کرپشن کا دخل۔ ان کے حل کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ ہر شخص اردو نظام تعلیم کی گیدڑ سنگھی پیش کرتا ہے۔ کوئی نہیں مانتا کہ پوری قوم چور ہے(سو میں سے نوے چور ہوں تو پوری قوم چور ہے)، ایمانداری سے کام کرنے والے پاکستانی اور پاکستانی نژاد غیر ممالک سے درآمد کرنے پڑتے ہیں۔ یہ ہمارے سسٹم کی کجی ہے، یہی لوگ اگر پاکستان میں رہتے تو ان میں سے نوے فیصد چور ہوتے۔ (جو لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی چوری نہیں کی وہ یا تو دس فیصد میں سے ہیں یا انہیں کبھی موقعہ ہی نہیں ملا۔)
پاکستان میں اردو میں پچاس سال سے زیادہ عرصے سے تعلیم دی جا رہی ہے، اس زبان میں ہمارے پاس نئے اساتذہ کے لئے کیا مواد موجود ہے؟ میں نے کبھی سکول میں نہیں پڑھایا، اگر میں آج عارضی طور پر کسی سکول میں اردو (یا کوئی دوسرا مضمون) پڑھانے جاؤں تو مجھے اردو میں کیا امدادی مواد دستیاب ہو گا؟ اگر میں انگلش پڑھاؤں تو آسانی سے انٹرنیٹ سے اس کے انسٹرکٹرز سولوشن مینؤل ڈاؤنلوڈ کر سکتا ہوں، یہ امریکی یا برطانوی نظام سے ہوں گے لیکن کام دے جائیں گے۔ بھارتی ویب سائٹس سے ہمارے حالات کے مطابق مدد مل جائے گی۔ لیسن پلاننگ پر دس منٹ میں کسی بھی موضوع پر آٹھ دس آرٹیکل مل جائیں گے۔ یہی تمام چیزیں ان ممالک میں مقامی لائبریریوں میں بھی دستیاب ہیں کیونکہ لوگوں نے ان موضوعات پر لکھا ہے، پبلشرز نے ان موضوعات پر کتابیں چھاپیں ہیں اور لوگوں اور لائبریریوں نے یہ کتابیں خریدی ہیں، پڑھی ہیں اور استعمال کی ہیں۔ اردو میں اس جیسا کیا اور کتنا کام ہوا ہے؟ جو کام ہوا ہے اسے کس نے استعمال کیا ہے؟ جو کتابیں چھپی ہیں وہ کس نے خریدی ہیں؟
ہماری ہر بات کا آغاز ایک ہی انداز میں ہوتا ہے "حکومت کو چاہییے کہ ..."۔ ہم خود کچھ نہیں کرنا چاہتے، سوائے بھیک مانگنے کے۔ تو پھر جو مطالبہ ہم کرتے ہیں اس کے لئے پہلے کوئی خیرات دینے والا کیوں نہیں ڈھونڈتے؟ ہم حکومت سے بھیک مانگتے ہیں جو آگے کسی اور سے بھیک مانگے گی۔ براہ راست ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھیک مانگیں اگر ہماری تجویز اور اس پر عمل درآمد کروانے والے منصوبے میں جان ہو گی تو یہ کام ہو جائے گا، یہ ادارے خود حکومت سے کام کروائیں گے۔ پیسوں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اگر ہم دیکھیں تو کمپیوٹر پر اردو کے لئے جو کام ہوا، اس میں ایک بہت بڑا حصہ امریکی امداد کے تحت کیا گیا۔ جسے استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر سرمد نے CRULP کے دور میں بہت سے پروجیکٹ کیے اور کروائے۔ CRULP کی تعمیر کردہ بنیادوں پر ہم نے اردو کمپیوٹنگ میں بہت سے کام کیے۔ کچھ بنیاد انہوں نے تیار کی جس پر ہم نے اپنی تعمیر کی۔
آج جب کوئی تعلیمیاصطلاحاتاصلاحات کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ اس پر اصل میں عمل کون کرے گا/کروائے گا؟ استاد! اس کے لئے ہم نے کیا کِیا ہے؟ اوپر میں نے اساتذہ کے لئے مددگار مواد کا ذکر کیا ہے، جو لوگ کئی دہائیوں سے اس بارے میں شور مچا رہے ہیں انہوں نے آج تک اردو میں کتنے ٹیچرز' ایڈ تیار کیے ہیں؟ انہوں نے اس موضوع پر کتنی تعلیمی کتابیں لکھی ہیں اور دوسروں کی کتنی کتابیں (خرید کر) پڑھی ہیں؟ جو بھی نئے لوگ تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے مشیر بنائے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ موجودہ سسٹم کے تحت نتائج حاصل کرنا کئی پنج سالہ منصوبوں پر محیط ہو گا۔ کیونکہ اساتذہ کے لئے کتابیں لکھوانے اور ان سے نتائج حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ جبکہ انگلش میں یہ سب ابھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب مواد پہلے سے موجود ہے، صرف تھوڑا سا کرتا پاجامہ پہنانا پڑے گا، کئی مضامین میں اس کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔
1106 دونوں پرجتنے لوگ اردو کے نام پر نعرے بازی کرتے ہیں ان کا اصل مقصد کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر دوسری چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔ انہیں 'شرحِ خواندگی' بڑھانے کی تکلیف کیوں ہے؟ 'معیارِ تعلیم' بلند کرنے کی خواہش کیوں نہیں ہے؟ تعلیم کی شرح یا زبان سے کوئی فرق نہیں پڑتا، معیار سے پڑتا ہے۔ شاید پہلے کہیں ذکر کیا ہے کہ بہت پہلے ایک کمپیوٹر کورس میں مَیں انسٹرکٹر تھا اور میرے تمام سٹوڈنٹس تعلیمی قابلیت میں میرے برابر یا زیادہ تھے(کم از کم گریجویٹ یا ماسٹرز)۔ ان میں اردو اور انگلش دونوں میڈیم کے پڑھے ہوئے لوگ تھے۔ نمبر سسٹمز کے دوران ساتویں کے حساب کا تقسیم کا سوال (کیلکولیٹر کے بغیر) بیشتر حل نہیں کر سکے۔ آپ بھی بغیر کیلکولیٹر کے 17696 کو 16 سے تقسیم کریں اور پھر کیلکولیٹر میں دیکھیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جب انگلش ذریعہ تعلیم ہو گی اور ترقی کے لئے نتائج کو دیکھا جائے گا تو یہ لوگ بری طرح مار کھائیں گے۔ انہیں معلوم ہے کہ دو مہینے کی ٹریننگ کے بعد انگلش میں تعلیم دینے والے 'فریش گریجویٹس' بیس بیس سال کے لُک بزی ڈو نتھنگ 'تجربہ کار' ٹیچرز سے بہتر ریزلٹ دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ انگلش میں اساتذہ کی مدد کے لئے مواد موجود ہے، اسے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم دنیا سے کتنے پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کی کیا وجہ ہے۔ اگر نئے اساتذہ اس مواد سے مدد لیں تو پرانے اساتذہ کے مقابلے میں کہیں بہتر نتائج دیں گے۔ ایک مثال ہے کہ اچھی ٹیچرز'-ایڈ میں ہر سبق میں استعمال ہونے والی مکمل ووکیبلری موجود ہوتی ہے۔ سبق کے تمام اہم الفاظ کی فہرست اور مختصر تعریف ہوتی ہے، ان کے مترادف اور متضاد الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ طلبا اور اساتذہ کے لئے مزید ریسورسز(کتابیں، مضامین اور ویب سائٹس) کی فہرست ہوتی ہے۔ ایڈوانس طلبا کے لئے مزید ریسورسز کی فہرست ہوتی ہے۔ ادبی اور سائنسی موضوعات میں متعلقہ مصنفین یا سائنسدانوں کے مختصر حالات زندگی اور کارناموں کا ذکر ہوتا ہے۔
نعرے بازوں نے نئے اساتذہ کی مدد کے لئے اپنے تجربات اور مشورے کہیں تحریر کیے ہیں؟ یہ ہمارا معاشرتی رویہ ہے، سینہ بہ سینہ۔ ہم نے بیس (یا تیس) سال میں جو تجربہ حاصل کیا ہے وہ ہم کل کے چھوکروں (اور چھوکریوں) کے حوالے کر دیں! تاکہ وہ پہلے دن سے ہی ہمارے برابر آ جائیں! ہرگز نہیں!!! ہم نے بیس سال مشقت کی ہے انہیں بھی کرنے دو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نعرے بازوں کو دورے لگانے، جلسے کرنے، دعوتیں دینے اور اڑانے کے لئے پیسے کون دے رہا ہے؟ تعلیمی مافیا، جسے نظر آ رہا ہے کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں ان کی لگی لگائی لاٹری ختم ہو جائے گی۔
عام غلطی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو کیری کرنا نہیں آتا یا بھول چکے ہوتے ہیں، لہٰذا غلط جواب 116 نکالتے ہیں۔1106 دونوں پر
میں اس بات سے تھوڑی سی ترمیم کر کے بالکل متفق ہوں کہ ذریعہ تعلیم مادری زبان کو بنانا چاہیے، ذاتی طور پر میں اس بات کا گواہ ہوں کہ کس طرح صرف انگریزی کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تعلیم چھوڑنا پڑی ۔ جب میں گاؤں میں اسکول جانا شروع ہوا تو پہلی جماعت سے 30 بچے تھے، جن تمام نے پرائمری پاس کی، اس کے بعد ہم دوسرے گاؤں ہائی اسکول جانے لگے اور پہلی دفعہ انگریزی سے واسطہ ہمارا وہیں پڑا، دوسرا گاؤں ہمارے گاؤں سے دو کلومیٹر کی مسافت پر ہے، تمام بچے وہاں پیدل ہی جاتے تھے، پھر چھٹی میں کئی بچے انگریزی میں ناکام ہوئے اور چھٹی میں دوسرا سال دوبارہ لگانا پڑا، مڈل تک ان تیس بچوں میں سے آدھے اسکول جانا چھوڑ چکے تھے، باقی پندرہ میں سےدس میٹرک اور صرف دو نے گریجوئشن مکمل کی، ان سب میں ایک ہی بات مشترک تھی کہ تمام کے تمام انگریزی میں فیل ہوئے تھے، وہ کوئی بے وقوف بھی نہیں تھے کہ آج ان سب نے اپنی گھرداری مکمل ذمہ داری سے سنبھالی ہوئی ہے، اپنے کاموں اور روزگار اور زمین داری میں بھی طاق ہیں، کچھ اپنے کاروبار کر رہے ہیں لیکن تعلیم میں رکاوٹ صرف ایک ایسی زبان کی وجہ سے بنی جو نہ ان کی زبان تھی نہ ہی کبھی ان کی روزمرہ میں اس زبان کا استعمال تھا، ان میں سے حساب میں بھی لائق فائق تھے، کئی ساینس میں اچھے تھے، لیکن فیل سب کے سب انگریزی میں ہوئے ۔
دو انتہائی قریبی مثالیں ایک میرا چچازاد جو ایف اے میں انگریزی میں فیل ہوا، پھر سپلیمنٹری میں پھر دوبارہ پورا امتحان دے کر انگریزی میں فیل، اور پڑھائی چھوڑ دی ۔ میرا ماموں زاد کالج میں داخلہ ٹیسٹ میں انگریزی میں دو نمبر سے فیل ہوا تو کالج نے داخلہ روک لیا، استاد صاحب وہ دو گریس مارکس نہیں دے پائے اور اس نے پڑھائی چھوڑ دی حالانکہ باقی مضامین میں اسکے سترسے اسی فی صد نمبر تھے ۔
میرا یقین ہے کہ انگریزی کو لازمی سے ہٹا دیا جائے تو بہت سے بچے دیگر شعبوں میں مزید پڑھیں گے لیکن انگریزی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ آپ کے اردگرد بھی بہت سے ایسے ہی انگریزی کے ڈسے کردار ہوں گے
نہیں، بطور مضمون پڑھایا جائے، لیکن انگریزی لازمی نہیں ہونا چاہیے ۔ انگریزی کو لازمی قرار دے کر بہت سے بچوں کو ہم تعلیم ہی سے محروم کر دیتے ہیں ۔ جب تک میں پاکستان میں پڑھ رہا تھا چھٹی جماعت سے انگریزی لازمی تھی، مطلب اس ایک مضمون میں ناکام ہونا ہی اگلی جماعت میں نہ پہنچنے کی وجہ بن جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اپنے چچا زاد کی مثال دوں گا، اس نے تین دفعہ انگریزی پاس کرنے کی کوشش کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ۔یعنی انگریزی ذریعہ تعلیم تو درکنار آپ انگریزی کو بطور مضمون پڑھانے ہی کے حق میں نہیں۔
اگر انگریزی لازمی نہ ہو تو طلبہ کی ایک کثیر تعداد انگریزی نہ پڑھے۔ بتائیے ان میں سے کتنے لوگ جدید تعلیم میں کامیاب ہوسکیں گے ؟نہیں، بطور مضمون پڑھایا جائے، لیکن انگریزی لازمی نہیں ہونا چاہیے ۔ انگریزی کو لازمی قرار دے کر بہت سے بچوں کو ہم تعلیم ہی سے محروم کر دیتے ہیں ۔ جب تک میں پاکستان میں پڑھ رہا تھا چھٹی جماعت سے انگریزی لازمی تھی، مطلب اس ایک مضمون میں ناکام ہونا ہی اگلی جماعت میں نہ پہنچنے کی وجہ بن جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اپنے چچا زاد کی مثال دوں گا، اس نے تین دفعہ انگریزی پاس کرنے کی کوشش کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ۔
تو کیا آپ اس حق میں ہیں کہ وہ چند لوگ جو جدید تعلیم کی طرف جائیں گے ان کی قیمت پر باقی تمام کو تعلیم سے محروم رکھا جائے؟ لاطینی امریکہ، یورپ، مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک کیا انگلش میڈیم سے پڑھے ہیں؟ ان ممالک میں انگریزی میڈیم کا برصیغیر میں انگریزی اسکولوں سے تناسب نکالیں، پھر ان ممالک کی ترقی کا اپنے ممالک کی ترقی کے ساتھ بھی تناسب نکال لیںاگر انگریزی لازمی نہ ہو تو طلبہ کی ایک کثیر تعداد انگریزی نہ پڑھے۔ بتائیے ان میں سے کتنے لوگ جدید تعلیم میں کامیاب ہوسکیں گے ؟