شرح خواندگی بڑھانے میں انگریزی رکاوٹ ہے - قومی زبان تحریک

شرح خواندگی بڑھانے میں انگریزی ایک رکاوٹ ہے


  • Total voters
    21
ایک بات سمجھ نہیں آتی، دنیا بھر سے طلباء بے شک اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر کے برطانیہ یا امریکہ یا کینیڈا یا آسٹریلیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے زبان کے امتحان کو پاس کرتے ہیں اور پھر انہی یونیورسٹیوں میں جا کر انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ہر فیلڈ میں ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کرتے ہیں اور نہ صرف اپنے ملک، بلکہ امریکہ کی ترقی بھی بہت حد تک انہی بیرونی طلباء کی مرہون منت ہے۔ اس کی وضاحت کیسے کی جائے؟

قیصرانی ، اس میں سوال کی کچھ وضاحت نہیں ہوئی۔

کیا یہ کہنا مقصود ہے کہ تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرکے پروفیشنل تعلیم کے لیے انگریزی سیکھی جا سکتی ہے اور اعلی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ مشق اب بھی جاری ہے۔

یا یہ کہنا مقصد ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کے بعد بھی انگریزی لازم ہے تو پھر شروع سے ہی انگریزی کیوں نہیں۔
 
زیر بحث موضوع -شرح خوانگی بڑھانے میں انگریزی ایک رکاوٹ ہے

مزمل شیخ بسمل صاحب-اساتذہ کی غیر ذمہ داری کا ذکر کیا ہے
محمد شاکر عزیزصاحب - تعلیم نظام کی نااہلی کو دوش دیتے ہیں
اسد صاحب- مطالبے کی تفصیل اور قابل عمل طریقہ کار کی عدم دستیابی کا ذکر کرتے ہیں اور اردو ذریعہ تعلیم سے متفق ہیں
S. H. Naqvi صاحب - ضرورت مخلص اساتذہ کی ہے جو دل لگا کر محنت کریں
اسد صاحب - اردو میں تعلیمی مددگار مواد کی عدم دستیابی اوردیگر موجودہ نظام میں تعلیمی مسائل پر توجہ دینے کا ذکر کرتے ہیں
S. H. Naqvi صاحب - انگریزی پر محنت کرکے پہلے اسے سیکھنا پڑے گا اسی طرح یقین کریں اردو پر بھی محنت کرنی پڑے گی اور اسے بھی سیکھنا پڑے گا
اسد صاحب -'معیارِ تعلیم' بلند کرنے کی خواہش بھی بہت اہم ہے اور پرانی نسل کا نئی نسل کو تجربہ کی عدم منتقلی کا معاشرتی رویہ،
جہانزیب صاحب - ذریعہ تعلیم مادری زبان کو بنانا چاہیے،انگریزی کی وجہ سے (بہت یا بہت سے یا کچھ ؟؟)لوگوں کو تعلیم چھوڑنا پڑی، رائے عام پاکستانی کو مدنظر رکھ کر دینی چاہیے- انگریزی اختیاری مضمون ہونا چاہیے - یورپ کی ترقی میں ان کا لاطینی کو چھوڑ کر اپنی زبان میں تعلیم کا بہت دخل ہے
ابھی کچھ باقی ہے
 
پاکستان ایک بھکاری ہے، یہاں وہی ہو گا جس کے لئے بھیک ملے گی۔ اگر مجھے امید ہو کہ ورلڈ بینک وغیرہ ایک ایسے منصوبے کے لئے قرضہ دیں گے جس کے بعد (امریکہ کی نظر میں) طالبان سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکیں، تو میں بھی اردو کے نفاذ کا نعرہ بلند کر دوں گا!

یہ ایک مایوس طرز عمل ہے اور اس مایوسی سے کسی بہتری کی گنجائش نکالنا محال ہے۔ پہلے تو اس سے باہر آئیں ورنہ پھر گفتگو اور مباحث کی حاجت کیا ہے ، جب سب کچھ بگڑا ہوا ہی ہے اور اس نے ایسا ہی رہنا ہے۔

اردو اور تعلیم کے موضوع پر بیک وقت کئی جگہ جنگ چھڑی ہوئی ہے اور ایک لڑی (اور سائٹ) کا غم و غصہ دوسری میں بھی آ جاتا ہے۔ کم از کم مَیں اکثر موضوع کے بجائے، موضوع پر بیان داغنے والوں کے بارے میں شروع ہو جاتا ہوں۔ پہلے میرے خیالات بھی اردو کے نفاذ کے بارے میں کچھ ایسے ہی تھے۔ اب میں اس حل کی طرف جاتا ہوں جو میرے خیال میں ممکن ہو۔ ناممکن کی طرف جانا میرے خیال میں وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ بیان باز/نعرے باز عموماً ناممکن کی طرف جاتے ہیں۔

ایک حل جو آپ کی نظر میں ممکن ہو وہ کسی اور کی نظر میں ناممکن ہو سکتا ہے اور جو چیز آپ کے نزدیک وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے وہ کسی اور کی نظر میں مفید ہو۔
جنہیں آپ بیان باز ، نعرے باز کہہ رہے ہیں وہ ہو سکتا ہے مباحثہ میں یقین رکھتے ہوں اور آپ کو قنوطیت پسند اور جلد رائے قائم کرنے والا سمجھ رہے ہوں۔ موضوع پر رائے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا نہ کہ لوگوں پر لیبل لگانے اور ان کے زمرے بنانے میں وقت لگائیں۔


ہمارے پاس ایک تعلیمی نظام چل رہا ہے جس میں کم از کم دو زبانیں (اردو/انگلش اور مقامی) اور (کم از کم) تین شاخیں ہیں اور کئی نظام امتحانات۔ ایک شاخ مدرسے ہیں جس کا اردو کے نعرے لگانے والے ذکر نہیں کرتے، کیوں؟ یہ واحد شاخ ہے جو صرف اردو میں تعلیم دیتی ہے۔ دوسری شاخ سرکاری سکول ہیں، جو اردو اور انگلش دونوں میں تعلیم دیتے ہیں۔ غالباً سرکاری طور پر انہیں دو شاخیں کہا جاتا ہے، میں انہیں ایک ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ایک ہی بورڈ دونوں کے امتحانات لیتا ہے۔ تیسری شاخ وہ انگلش سکول ہیں جو غیر ملکی امتحانات دلواتے ہیں، عموماً کیمبرج کے۔ ان کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے۔

اس طبقاتی تعلیم کا کافی ذکر مئی 2013 کے الیکشن میں ہوا تھا اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے اسے ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا ، اس لیے آپ کا یہ کہنا کہ اس کا ذکر ہی گول کر دیا جاتا ہے غلط ہے۔

انگلش اور شرح خواندگی کے مسئلے کے میرے نزدیک دو حل ہیں۔
پہلا حل یہ ہے کہ انگلش شروع سے پڑھائی جائے اور لازمی مضمون ہو۔ میں اس حل کا حامی ہوں، ایک وجہ یہ کہ میرے خیال میں اس کا نفاذ ممکن ہے اور چند سالوں میں معیار تعلیم بلند کر سکتا ہے۔ اس کے لئے قرضہ مل جائے گا یا پرانے قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ۔ دوسری وجہ یہ کہ انگلش کے بغیر سرکاری (یا پرائیویٹ) ملازمت نہیں ملے گی، جو کہ اکثریت کا مقصد ہوتا ہے۔ اس سرکاری (ملازمت) پالیسی میں تبدیلی میرے خیال میں ناممکن ہے۔

انگریزی شروع سے پڑھائے جانے سے معیار تعلیم کے بلند ہونے کا کیا رشتہ ہے اس کی ذرا وضاحت کریں اور کیا کبھی آپ نے تحقیق کی ہے کہ انگریزی میں تعلیم دینے لیے کتنے اساتذہ میسر ہیں اور مستقبل میں انگریزی پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی تعداد پوری کرنے کے لیے کیا بندوبست کیا جائے گا۔
قرضوں پر اگر معیشت استوار کرنی ہے تو پھر زیادہ دیر نہیں کیونکہ پہلے ہی حد سے زیادہ قرضہ حکومت لے چکی ہے۔
انگریزی کی شرط سرکاری یا پرائیوٹ نوکری میں مجھے تو دیکھنے میں نہیں ملی۔ نوکری کے مطابق آپ کی تعلیم اور جس شعبہ میں نوکری دی جانی ہے اس میں آپ کی قابلیت دیکھی جاتی ہے جس میں کچھ لوگوں کی انگریزی بہتر اور کچھ کی کمزور بھی ہوتی ہے مگر صرف اس بنیاد پر کہ کسی کی انگریزی اچھی ہے چند نوکریوں کے لیے تو وجہ ہو سکتی ہے تمام کے لیے ہرگز نہیں۔


دوسرا حل (صرف شرح تعلیم بڑھانے کے لئے) یہ ہے کہ انگلش کو لازمی مضمون نہ بنایا جائے اور میٹرک میں اس کا پاس کرنا سند کے حصول کے لئے لازمی نہ ہو (اور چھوٹی جماعتوں میں اگلے درجے میں جانے کے لئے بھی)۔ آخر مدرسے والے بھی تو مدرسوں کے نظام میں انگلش کے بغیر امتحان دیتے ہیں، ان کی سند میٹرک کے برابر نہیں ہوتی۔ عام سکولوں کے طلبا کو بھی یہی سہولت دینی چاہیے کہ وہ ایک ایسی سند حاصل کر سکیں جو ان کی تعلیمی قابلیت (میٹرک ودآؤٹ انگلش) کو ظاہر کرے اور اگر وہ اس سند کو میٹرک کے مساوی کرنا چاہیں تو انگلش کا علیحدہ سے امتحان دے لیں۔ میٹرک کے بعد بھی وہ اردو یا مقامی زبان میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ سند سرکاری ملازمتوں کے لئے بیکار ہو گی۔
انگریزی کو اگر لازمی مضمون کے طور پر نہ پڑھایا جائے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ اسے اختیاری مضمون کے طور پر بھی نہ پڑھایا جائے۔ انگریزی کی بنیادی سمجھ بوجھ تو آپ چند ماہ میں حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ اسے صرف ایک زبان کے طور پر سیکھنا چاہیں اس کے لیے اسے لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا کس طرح لازم ٹھہرتا ہے۔

پاکستان میں پروفیشنل تعلیم تیرھویں سے شروع ہو جاتی ہے جبکہ امریکہ میں پروفیشنل تعلیم سترھویں سے شروع ہوتی ہے اور کم از کم چار سال کی ہوتی ہے۔ یعنی پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے لئے کم از کم بیس سال کی تعلیم ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی، جو سترہ سالہ تعلیم (بارھویں کے بعد پانچ سالہ میڈیکل کورس) کے بعد ڈاکٹر بن جاتے ہیں، امریکہ میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے تین سال مزید تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

امریکہ میں بھی تیرہویں سال سے پروفیشنل تعلیم شروع ہوتی ہے ، کچھ فیلڈ ایسی ہیں جس میں تعلیم کا دورانیہ چار سال سے زیادہ ہوتا ہے۔
قانون کی تعلیم کا طریقہ کار پاکستان میں گریجویٹ ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے اور امریکہ میں بھی ایسے ہی ہے۔
طب کی تعلیم امریکہ میں بہت لمبی ہے مگر دوسرے ممالک سے طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے USMLE کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ جو امریکہ میں ہی رہتے ہیں وہ طب کی تعلیم دوسرے ممالک سے حاصل کرکے دوبارہ امریکہ آ جاتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
کیا یہ کہنا مقصود ہے کہ تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرکے پروفیشنل تعلیم کے لیے انگریزی سیکھی جا سکتی ہے اور اعلی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ مشق اب بھی جاری ہے۔
یا یہ کہنا مقصد ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کے بعد بھی انگریزی لازم ہے تو پھر شروع سے ہی انگریزی کیوں نہیں۔
دنیا کے پیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہی طریقہ کئی دہائیوں سے رائج ہے کہ ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری و سیکنڈری اس وطن کی قومی زبان میں دی جائے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی،جرمن وغیرہ سیکھی جا سکتی ہے۔ اس پالیسی کا اصل مقصد یہ ہے کہ تعلیمی مقاصد کو پورا کیا جائے۔ یعنی یکساں نظام تعلیم سے گزرنے کے بعد طلباء ایک ہی مقام سے اپنی عملی زندگی کی ابتداء کریں گے۔ پاکستان کی طرح انگریزی شہری اور اردو دیہاتی اسکول والا چکر ان ترقی یافتہ ممالک کی میراث نہیں۔
میں یہاں ناروے میں خود شہری و دیہاتی اسکولوں میں پڑھا ہوا ہوں۔ دونوں مقامات پر یکساں نظام تعلیم اور نصاب ہے۔ کہیں بھی تھوڑی سی بھی اونچ نیچ کی گنجائش نہیں۔ یوں ایک نارویجن دیہاتی بھی سیکنڈری پاس کر کے کسی بڑے شہر کے کالج یا یونی ورسٹی میں داخلہ لے سکتا ہے کیونکہ اسکی اور دیگر شہریوں کی بنیاد ایک ہے۔ کچھ سمجھ آئی یا پہلی بھی گئی؟
اسی لئے میں بچپن سے کسی غیر زبان میں تعلیم کا حامی نہیں کیونکہ وہ آپکے مستقبل کی پود کو تباہ کر دیتی ہے۔ اب پاکستان کی کریم جیسے قیصرانی ، نبیل ، زیک یورپ و امریکہ میں آباد ہیں۔ یہی روز گار کے مواقع انکو پاکستان میں مل جاتے تو یہاں غیر قوموں کی خدمت گزاری کی کیا وجہ باقی تھی؟
 

اسد

محفلین
یہ ایک مایوس طرز عمل ہے اور اس مایوسی سے کسی بہتری کی گنجائش نکالنا محال ہے۔ پہلے تو اس سے باہر آئیں ورنہ پھر گفتگو اور مباحث کی حاجت کیا ہے ، جب سب کچھ بگڑا ہوا ہی ہے اور اس نے ایسا ہی رہنا ہے۔ ...
میں پاکستانی ہوں اور پاکستان میں ہی رہتا ہوں، مجھ سے آپ قنوطیت کے علاوہ کس چیز کی توقع رکھتے ہیں؟ مایوسی والا معاملہ مختلف ہے، پاکستان میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن میں بہت سے معاملات میں مایوس نہیں ہوں اور کچھ میں تھوڑا سا مایوس ہوں۔ 'اردو کا نفاذ' ایسی بات ہے جس سے میں تقریباً مکمل طور پر مایوس ہوں۔
میں 1990 کی دہائی میں تقریباً سات سال اسلام آباد میں رہا، اس عرصے میں پرائیویٹ ملازمتوں کے دوران مَیں پارلیمنٹ ہاؤس اور کئی وزارتوں سمیت مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کمپیوٹرز کی سپورٹ فراہم کرتا تھا۔ اس دوران پتہ چلا کہ یہاں ہر کام ہو سکتا ہے اگر کرنے والی کی پشت پر مضبوط سہارا ہو، سوائے اردو والے معاملے کے۔ میں 'راقم' اور 'صدف' کا سیٹ اپ اور مسائل کا حل جانتا تھا اور جو لوگ یہ استعمال کرتے تھے وہ اندر کی تمام باتیں جانتے تھے۔
اب پرانی تمام باتوں کے علاوہ مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ والا معاملہ شامل ہونے سے اردو کا نفاذ مزید مشکل ہو گیا ہے۔

میں اپنی باتوں کو مربوط نہیں کر سکا تھا اور آپ نے علیحدہ علیحدہ ہر حصے پر تبصرہ کیا ہے، لیکن میں اکٹھا جواب دوں گا۔

اصل چیز اردو نہیں انگلش کی حیثیت ہے، مجھے انقلاب کے علاوہ اس میں تبدیلی کسی اور طریقے سے نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی انقلاب کے بغیر ایسا کر سکتا ہے تو پہلے کر کے دکھائے، اس کے بعد تو مسئلہ ہی کوئی نہیں رہے گا۔ کم از کم منصوبہ ہی پیش کرے۔

میں نے سرکاری (یا پرائیویٹ) ملازمت پالیسی میں انگلش اچھی یا بری ہونے کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف ان اسناد کے قابلِ قبول ہونے کا حوالہ دیا ہے جن میں انگلش موجود ہوتی ہے۔ یعنی مذہبی مدرسوں کے فارغ التحصیل صرف اپنی اسناد کے بل پر بیشتر سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں کر سکتے۔ اس لئے اگر اردو اسناد (میٹرک / انٹر ودآؤٹ انگلش) کا اجرا کیا جاتا ہے تو ان اسناد کے حامل افراد کو سرکاری ملازمت نہیں مل سکے گی۔ اگر کسی کا مقصد صرف تعلیم حاصل کرنا اور علم میں اضافہ کرنا ہے تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لوگ اس کے لئے راضی ہوں تو میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ لیکن کتنے لوگ اپنے بچوں کو اس تعلیم کے لئے بھیجیں گے؟ میں لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، واہ کینٹ اور ایبٹ آباد میں رہا ہوں اور کراچی جاتا رہا ہوں، عوام کی اکثریت اپنی اولاد کے لئے سرکاری ملازمت کا خواب دیکھتی ہے اور اسی کی تکمیل کے لئے سکول بھیجتی ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں انگلش میڈیم سکولوں* کے طلبہ کو سرکاری اردو میڈیم کے طلبہ پر ملازمتوں میں فوقیت حاصل ہے، اگر سب انگلش میڈیم ہوں گے تو یہ فوقیت کچھ عرصے میں کم ہو جائے گی۔ معیارِ تعلیم انگلش میں امدادی تعلیمی مواد کی وجہ سے بہتر ہو 'سکتا ہے'۔ شروع سے انگلش پڑھنے سے طلبہ سکول اور امتحانات میں انگلش کے بجائے دوسرے مضامین پر توجہ دے سکیں گے۔
*: کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد میں اچھے خاصے بڑے سرکاری افسر اپنے بچوں کو سرکاری (انگلش میڈیم)سکولوں میں بھیجتے ہیں جبکہ باقی ملک میں عموماً پرائیویٹ سکولوں میں؟ وجہ معیارِ تعلیم ہے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی ، اس میں سوال کی کچھ وضاحت نہیں ہوئی۔

کیا یہ کہنا مقصود ہے کہ تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرکے پروفیشنل تعلیم کے لیے انگریزی سیکھی جا سکتی ہے اور اعلی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ یہ مشق اب بھی جاری ہے۔

یا یہ کہنا مقصد ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کے بعد بھی انگریزی لازم ہے تو پھر شروع سے ہی انگریزی کیوں نہیں۔
برادرم مرزا صاحب کا کہنا ہے کہ ابتدائی تعلیم اردو میں دی جائے۔ سوال ان کا بھی واضح نہیں ہے کہ اردو تو پاکستان میں اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے، پھر اردو میں ہی تعلیم کیوں؟ اسی وجہ سے میں نے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم تو آپ کسی بھی زبان میں حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ان کا زور ہے اردو زبان پر :)
 
برادرم مرزا صاحب کا کہنا ہے کہ ابتدائی تعلیم اردو میں دی جائے۔ سوال ان کا بھی واضح نہیں ہے کہ اردو تو پاکستان میں اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے، پھر اردو میں ہی تعلیم کیوں؟ اسی وجہ سے میں نے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم تو آپ کسی بھی زبان میں حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ان کا زور ہے اردو زبان پر :)

اصل میں بحث انگریزی میں تعلیم سے آگے ہی نہیں جاتی اس لیے مادری تک لوگ پہنچتے ہی نہیں ورنہ اگر صحیح بحث ہو تو مادری زبان سے تعلیم کا آغاز اور پھر بتدریج اردو اور انگریزی زبان میں تعلیم دینے پر بات ہونی چاہیے۔

اردو میں تعلیم پر بات میرے خیال میں اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ زبان اب بھی تعلیم کے لیے مختلف علاقوں میں اور اعلی سطح پر رائج ہے اور اس سے آگے بات مادری زبان کی طرف جانی تھی مگر اب تو اردو میں تعلیم ہی ختم ہوتی جا رہی ہے ، ایسے میں دیگر مادری زبانوں میں تعلیم تو ایک خواب ہی لگتا ہے۔
 
میں پاکستانی ہوں اور پاکستان میں ہی رہتا ہوں، مجھ سے آپ قنوطیت کے علاوہ کس چیز کی توقع رکھتے ہیں؟ مایوسی والا معاملہ مختلف ہے، پاکستان میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن میں بہت سے معاملات میں مایوس نہیں ہوں اور کچھ میں تھوڑا سا مایوس ہوں۔ 'اردو کا نفاذ' ایسی بات ہے جس سے میں تقریباً مکمل طور پر مایوس ہوں۔

اردو کے نفاذ کی مجھے بھی کوئی امید نہیں ہے اور ایسا ہو گا بھی نہیں۔ گفتگو اصل میں یہ ہے کہ تعلیم کن زبانوں میں ہونی چاہیے اور اس کے لیے اگر سیاسی نظام میں تبدیلی آتی ہے اور بلدیاتی سطح پر تعلیم کا کنٹرول دیا جاتا ہے تو پھر علاقائی بنیاد پر اور سکول کی سطح پر کسی زبان میں تعلیم دینے کی آزادی ممکن ہو سکے گی اور اس میں ضروری نہیں کہ ہر کوئی پابند ہو مگر پھر مادری اور اردو زبان میں اسکول کی سطح کی تعلیم کے لیے ماحول بن سکتا ہے ۔ موجودہ سیاسی نظام میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔


میں 1990 کی دہائی میں تقریباً سات سال اسلام آباد میں رہا، اس عرصے میں پرائیویٹ ملازمتوں کے دوران مَیں پارلیمنٹ ہاؤس اور کئی وزارتوں سمیت مختلف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں کمپیوٹرز کی سپورٹ فراہم کرتا تھا۔ اس دوران پتہ چلا کہ یہاں ہر کام ہو سکتا ہے اگر کرنے والی کی پشت پر مضبوط سہارا ہو، سوائے اردو والے معاملے کے۔ میں 'راقم' اور 'صدف' کا سیٹ اپ اور مسائل کا حل جانتا تھا اور جو لوگ یہ استعمال کرتے تھے وہ اندر کی تمام باتیں جانتے تھے۔
اب پرانی تمام باتوں کے علاوہ مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ والا معاملہ شامل ہونے سے اردو کا نفاذ مزید مشکل ہو گیا ہے۔
اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرافیہ ہی ہے کیونکہ وہ انگریزی ہی پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے وہ ہی زبان مقدم ہے اور وہ اسے ہی نافذ رکھیں گے۔ دوسرا انگریزی کی عالمی اہمیت کو بھی بخوبی استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی کو ایک زبان کے طور پر تو پڑھانا ضرور چاہیے مگر اس کا جو خبط برصغیر میں رگوں میں پیوست ہو گیا ہے وہ ایک سنگین احساس کمتری ہے جس سے نکلے بغیر ترقی کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اصل میں بحث انگریزی میں تعلیم سے آگے ہی نہیں جاتی اس لیے مادری تک لوگ پہنچتے ہی نہیں ورنہ اگر صحیح بحث ہو تو مادری زبان سے تعلیم کا آغاز اور پھر بتدریج اردو اور انگریزی زبان میں تعلیم دینے پر بات ہونی چاہیے۔

اردو میں تعلیم پر بات میرے خیال میں اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ زبان اب بھی تعلیم کے لیے مختلف علاقوں میں اور اعلی سطح پر رائج ہے اور اس سے آگے بات مادری زبان کی طرف جانی تھی مگر اب تو اردو میں تعلیم ہی ختم ہوتی جا رہی ہے ، ایسے میں دیگر مادری زبانوں میں تعلیم تو ایک خواب ہی لگتا ہے۔
ذرا پہلی پوسٹ دیکھ لینا کہ بات شروع ہی اردو زبان سے ہوئی ہے، مادری اور انگریزی کا چکر بعد میں چلا ہے :)
 

اوشو

لائبریرین
10422466_10152426690013704_2081455523079974757_n.jpg
 

اسد

محفلین
... گفتگو اصل میں یہ ہے کہ تعلیم کن زبانوں میں ہونی چاہیے ...
'اصل' موضوع 'زبانوں' کے بارے میں ہونا چاہیے لیکن یہ ہمیشہ صرف انگلش اور اردو تک ہی محدود رہتا ہے۔ اردو کے نعرے لگانے والے صرف 'قومی زبان' کا ذکر کرتے ہیں، مادری زبان(وں) کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔ اگر یہ حقیقت میں اردو کے نفاذ یا کم از کم اس کی حیثیت بہتر کرنے کے لئے سنجیدہ ہوتے تو سب سے پہلے مادری زبان کا نعرہ لگاتے صوبائی اور ذیلی زبانوں والوں کی حمایت حاصل کرتے اور بعد میں بارگیننگ کے دوران اردو (اور دوسری زبانوں) کی حیثیت بہتر بنانے پر کچھ حاصل کر لیتے۔
 
موجودہ نظام تعلیم کا ایک جائزہ

http://www.alsharia.org/mujalla/2002/sep/nizam-taleem-syed-azizurrahman
دنیا کے پیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہی طریقہ کئی دہائیوں سے رائج ہے کہ ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری و سیکنڈری اس وطن کی قومی زبان میں دی جائے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی،جرمن وغیرہ سیکھی جا سکتی ہے۔ اس پالیسی کا اصل مقصد یہ ہے کہ تعلیمی مقاصد کو پورا کیا جائے۔ یعنی یکساں نظام تعلیم سے گزرنے کے بعد طلباء ایک ہی مقام سے اپنی عملی زندگی کی ابتداء کریں گے۔ پاکستان کی طرح انگریزی شہری اور اردو دیہاتی اسکول والا چکر ان ترقی یافتہ ممالک کی میراث نہیں۔
میں یہاں ناروے میں خود شہری و دیہاتی اسکولوں میں پڑھا ہوا ہوں۔ دونوں مقامات پر یکساں نظام تعلیم اور نصاب ہے۔ کہیں بھی تھوڑی سی بھی اونچ نیچ کی گنجائش نہیں۔ یوں ایک نارویجن دیہاتی بھی سیکنڈری پاس کر کے کسی بڑے شہر کے کالج یا یونی ورسٹی میں داخلہ لے سکتا ہے کیونکہ اسکی اور دیگر شہریوں کی بنیاد ایک ہے۔ کچھ سمجھ آئی یا پہلی بھی گئی؟
اسی لئے میں بچپن سے کسی غیر زبان میں تعلیم کا حامی نہیں کیونکہ وہ آپکے مستقبل کی پود کو تباہ کر دیتی ہے۔ اب پاکستان کی کریم جیسے قیصرانی ، نبیل ، زیک یورپ و امریکہ میں آباد ہیں۔ یہی روز گار کے مواقع انکو پاکستان میں مل جاتے تو یہاں غیر قوموں کی خدمت گزاری کی کیا وجہ باقی تھی؟
گذارش ہے کہ کوئی ایسا گرافیکل تقابل پیش کر دیں جس میں مغربی اور مشرقی ، ترقی یافتہ مملک میں بنیادی تعلیم کی لیے استعمال کردہ زبان میڈیم آف انسٹرکشن کا ذکر ہو
 
ذرا پہلی پوسٹ دیکھ لینا کہ بات شروع ہی اردو زبان سے ہوئی ہے، مادری اور انگریزی کا چکر بعد میں چلا ہے :)

شروع اردو سے اس لیے بھی ہوتی ہے کہ اس بات کا ذکر آئین میں بھی ہے اور اس پر کافی عرصہ تک اتفاق بھی رہا ہے اور اس پر کام بھی ہوا ہے۔

مادری زبان میں تعلیم پر مباحث ایک دو دہائیوں سے زیادہ ہونے شروع ہوئے ہیں اور اردو پر زور بھی اس لیے دیا جاتا ہے کہ ایک زبان جس میں تعلیم ہوتی بھی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے اگر اسے بھی بتدریج ختم کیا جا رہا ہے تو مادری زبانوں کی تو کوئی اوقات ہی نہیں۔
 
Top