پاکستان ایک بھکاری ہے، یہاں وہی ہو گا جس کے لئے بھیک ملے گی۔ اگر مجھے امید ہو کہ ورلڈ بینک وغیرہ ایک ایسے منصوبے کے لئے قرضہ دیں گے جس کے بعد (امریکہ کی نظر میں) طالبان سرکاری ملازمتیں حاصل کر سکیں، تو میں بھی اردو کے نفاذ کا نعرہ بلند کر دوں گا!
یہ ایک مایوس طرز عمل ہے اور اس مایوسی سے کسی بہتری کی گنجائش نکالنا محال ہے۔ پہلے تو اس سے باہر آئیں ورنہ پھر گفتگو اور مباحث کی حاجت کیا ہے ، جب سب کچھ بگڑا ہوا ہی ہے اور اس نے ایسا ہی رہنا ہے۔
اردو اور تعلیم کے موضوع پر بیک وقت کئی جگہ جنگ چھڑی ہوئی ہے اور ایک لڑی (اور سائٹ) کا غم و غصہ دوسری میں بھی آ جاتا ہے۔ کم از کم مَیں اکثر موضوع کے بجائے، موضوع پر بیان داغنے والوں کے بارے میں شروع ہو جاتا ہوں۔ پہلے میرے خیالات بھی اردو کے نفاذ کے بارے میں کچھ ایسے ہی تھے۔ اب میں اس حل کی طرف جاتا ہوں جو میرے خیال میں ممکن ہو۔ ناممکن کی طرف جانا میرے خیال میں وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ بیان باز/نعرے باز عموماً ناممکن کی طرف جاتے ہیں۔
ایک حل جو آپ کی نظر میں ممکن ہو وہ کسی اور کی نظر میں ناممکن ہو سکتا ہے اور جو چیز آپ کے نزدیک وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے وہ کسی اور کی نظر میں مفید ہو۔
جنہیں آپ بیان باز ، نعرے باز کہہ رہے ہیں وہ ہو سکتا ہے مباحثہ میں یقین رکھتے ہوں اور آپ کو قنوطیت پسند اور جلد رائے قائم کرنے والا سمجھ رہے ہوں۔ موضوع پر رائے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا نہ کہ لوگوں پر لیبل لگانے اور ان کے زمرے بنانے میں وقت لگائیں۔
ہمارے پاس ایک تعلیمی نظام چل رہا ہے جس میں کم از کم دو زبانیں (اردو/انگلش اور مقامی) اور (کم از کم) تین شاخیں ہیں اور کئی نظام امتحانات۔ ایک شاخ مدرسے ہیں جس کا اردو کے نعرے لگانے والے ذکر نہیں کرتے، کیوں؟ یہ واحد شاخ ہے جو صرف اردو میں تعلیم دیتی ہے۔ دوسری شاخ سرکاری سکول ہیں، جو اردو اور انگلش دونوں میں تعلیم دیتے ہیں۔ غالباً سرکاری طور پر انہیں دو شاخیں کہا جاتا ہے، میں انہیں ایک ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ایک ہی بورڈ دونوں کے امتحانات لیتا ہے۔ تیسری شاخ وہ انگلش سکول ہیں جو غیر ملکی امتحانات دلواتے ہیں، عموماً کیمبرج کے۔ ان کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے۔
اس طبقاتی تعلیم کا کافی ذکر مئی 2013 کے الیکشن میں ہوا تھا اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے اسے ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا ، اس لیے آپ کا یہ کہنا کہ اس کا ذکر ہی گول کر دیا جاتا ہے غلط ہے۔
انگلش اور شرح خواندگی کے مسئلے کے میرے نزدیک دو حل ہیں۔
پہلا حل یہ ہے کہ انگلش شروع سے پڑھائی جائے اور لازمی مضمون ہو۔ میں اس حل کا حامی ہوں، ایک وجہ یہ کہ میرے خیال میں اس کا نفاذ ممکن ہے اور چند سالوں میں معیار تعلیم بلند کر سکتا ہے۔ اس کے لئے قرضہ مل جائے گا یا پرانے قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ۔ دوسری وجہ یہ کہ انگلش کے بغیر سرکاری (یا پرائیویٹ) ملازمت نہیں ملے گی، جو کہ اکثریت کا مقصد ہوتا ہے۔ اس سرکاری (ملازمت) پالیسی میں تبدیلی میرے خیال میں ناممکن ہے۔
انگریزی شروع سے پڑھائے جانے سے معیار تعلیم کے بلند ہونے کا کیا رشتہ ہے اس کی ذرا وضاحت کریں اور کیا کبھی آپ نے تحقیق کی ہے کہ انگریزی میں تعلیم دینے لیے کتنے اساتذہ میسر ہیں اور مستقبل میں انگریزی پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی تعداد پوری کرنے کے لیے کیا بندوبست کیا جائے گا۔
قرضوں پر اگر معیشت استوار کرنی ہے تو پھر زیادہ دیر نہیں کیونکہ پہلے ہی حد سے زیادہ قرضہ حکومت لے چکی ہے۔
انگریزی کی شرط سرکاری یا پرائیوٹ نوکری میں مجھے تو دیکھنے میں نہیں ملی۔ نوکری کے مطابق آپ کی تعلیم اور جس شعبہ میں نوکری دی جانی ہے اس میں آپ کی قابلیت دیکھی جاتی ہے جس میں کچھ لوگوں کی انگریزی بہتر اور کچھ کی کمزور بھی ہوتی ہے مگر صرف اس بنیاد پر کہ کسی کی انگریزی اچھی ہے چند نوکریوں کے لیے تو وجہ ہو سکتی ہے تمام کے لیے ہرگز نہیں۔
دوسرا حل (صرف شرح تعلیم بڑھانے کے لئے) یہ ہے کہ انگلش کو لازمی مضمون نہ بنایا جائے اور میٹرک میں اس کا پاس کرنا سند کے حصول کے لئے لازمی نہ ہو (اور چھوٹی جماعتوں میں اگلے درجے میں جانے کے لئے بھی)۔ آخر مدرسے والے بھی تو مدرسوں کے نظام میں انگلش کے بغیر امتحان دیتے ہیں، ان کی سند میٹرک کے برابر نہیں ہوتی۔ عام سکولوں کے طلبا کو بھی یہی سہولت دینی چاہیے کہ وہ ایک ایسی سند حاصل کر سکیں جو ان کی تعلیمی قابلیت (میٹرک ودآؤٹ انگلش) کو ظاہر کرے اور اگر وہ اس سند کو میٹرک کے مساوی کرنا چاہیں تو انگلش کا علیحدہ سے امتحان دے لیں۔ میٹرک کے بعد بھی وہ اردو یا مقامی زبان میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ سند سرکاری ملازمتوں کے لئے بیکار ہو گی۔
انگریزی کو اگر لازمی مضمون کے طور پر نہ پڑھایا جائے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ اسے اختیاری مضمون کے طور پر بھی نہ پڑھایا جائے۔ انگریزی کی بنیادی سمجھ بوجھ تو آپ چند ماہ میں حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ اسے صرف ایک زبان کے طور پر سیکھنا چاہیں اس کے لیے اسے لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا کس طرح لازم ٹھہرتا ہے۔
پاکستان میں پروفیشنل تعلیم تیرھویں سے شروع ہو جاتی ہے جبکہ امریکہ میں پروفیشنل تعلیم سترھویں سے شروع ہوتی ہے اور کم از کم چار سال کی ہوتی ہے۔ یعنی پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے لئے کم از کم بیس سال کی تعلیم ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی، جو سترہ سالہ تعلیم (بارھویں کے بعد پانچ سالہ میڈیکل کورس) کے بعد ڈاکٹر بن جاتے ہیں، امریکہ میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے تین سال مزید تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
امریکہ میں بھی تیرہویں سال سے پروفیشنل تعلیم شروع ہوتی ہے ، کچھ فیلڈ ایسی ہیں جس میں تعلیم کا دورانیہ چار سال سے زیادہ ہوتا ہے۔
قانون کی تعلیم کا طریقہ کار پاکستان میں گریجویٹ ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے اور امریکہ میں بھی ایسے ہی ہے۔
طب کی تعلیم امریکہ میں بہت لمبی ہے مگر دوسرے ممالک سے طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے USMLE کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ جو امریکہ میں ہی رہتے ہیں وہ طب کی تعلیم دوسرے ممالک سے حاصل کرکے دوبارہ امریکہ آ جاتے ہیں۔