مشتبہ گوشت سے مسلم اقلیتوں کو بچائیے، غیر مسلم تاجروں سے مقابلے کیلئے آگے بڑھیے
٭۔۔۔۔۔۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں صرف حلال گوشت کا تخمینہ 500 تا 600 ارب ڈالر ہے۔ یہ مارکیٹ تقریباً 100 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جس کا اکثر حصہ براعظم ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک میں ہے
٭۔۔۔۔۔۔ صرف UAE میں میکڈونلڈ کے 369 ریسٹورنٹ ہیں، جن کے لیے صرف سال 2012 میں 12000 ٹن حلال چکن درآمد کیا گیا
زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح کھانے پینے میں اب مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی حلال فوڈ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حلال فوڈ کی اس عالمی مارکیٹ سے مسلمانوں کےبجائے غیر مسلم سرمایہ کار زیادہ فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ جو مسلمان ممالک اس میں تھوڑا بہت حصہ دار ہیں وہ نمائندگی اور ضروت کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حلال فوڈ کی اس عالمی مارکیٹ سے مسلمانوں کےبجائے غیر مسلم سرمایہ کار زیادہ فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ جو مسلمان ممالک اس میں تھوڑا بہت حصہ دار ہیں وہ نمائندگی اور ضروت کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان اس حوالے سے بہت پیچھے ہے، حالانکہ مملکتِ خداداد پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں سال میں چار موسم آتے ہیں۔ دنیا کی ہر طرح کی فصلیں یہاں کاشت ہوتی ہیں۔ دنیا کا بہترین نہری نظام پاکستان میں موجود ہے۔ سورج پورے آب وتاب کے ساتھ سارا سال ہمارے افق پر چمکتا رہتا ہے۔ یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں، گندم میں چھٹا، حلال گوشت میں سولہواں جبکہ پھلوں اور دالوں کی پیداوار کے حوالے سے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہے۔ حلال فوڈ کے دوسرے شعبوں کے علاوہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں صرف حلال گوشت کا تخمینہ 500 تا 600 ارب ڈالر ہے۔ یہ مارکیٹ تقریباً 100 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جس کا اکثر حصہ براعظم ایشیا اور مشرق وسطی کے ممالک میں ہے۔ پوری دنیا سے ہر ملک کی یہ کوشش ہے کہ کسی طریقے سے اس مارکیٹ تک رسائی حاصل کی جائے۔
خلیجی ممالک میں اس وقت سب سے زیادہ مسابقت (competition)کی صورت ہے۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف UAE میں میکڈونلڈ کے 369 ریسٹورنٹ ہیں، جن کے لیے صرف سال 2012 میں 12000 ٹن حلال چکن درآمد کیا گیا۔ یہ مقدار اس سے پچھلے سال یعنی 2011 کے مقابلے میں 12.3 فیصد زیادہ ہے ۔مسلم صارفین کے مطالبے کی وجہ سے UAE میکڈونلڈ حلال سر ٹیفکیٹ لینے پر مجبور ہے۔ UAE کی طرح کویت کے اعلیٰ سطحی وفد نے بھی میکڈونلڈ کے نمائندوں کے ساتھ جاکر ملائشیا کا دورہ کیا جہاں کویت کے لیے حلال گوشت کی درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ سعودی عرب اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں کی 16 ملین مقامی آبادی کے علاوہ 9 ملین غیر ملکی محنت کش تارکینِ وطن کام کرتے ہیں۔ یہ ملک سالانہ 6 بلین ڈالرخوراک کی درآمد پر خرچ کرتا ہے۔ ہر سال تقریباً 18 ملین صرف چھوٹے جانور درآمد کرتا ہے، جن میں سے 2 ملین سے زائد چھوٹے جانور صرف حج و عید کے موقع پرذبح کیے جاتے ہیں۔ مستقبل میں خوراک کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیشِ نظر سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک نے براعظم افریقہ میں 20,230,000 ایکٹر زرعی زمین خریدی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلم دنیا کے قلب میں واقع حلال گوشت کی اتنی بڑی مارکیٹ سے مسلمانوں کے بجائے غیر مسلم سرمایہ کار فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ چنانچہ عرب ممالک کے گوشت کی مارکیٹ کے کل حصے کا 54 فیصدبرازیل،9 فیصدآسٹریلیا، 4 فیصدنیوزی لینڈ، 3 فیصد امریکا،1 فیصدارجنٹائن،7 فیصد یورپی ممالک، 11 فیصد انڈیا اور 11 فیصد پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک فراہم کر رہے ہیں۔
حال ہی میں روس کی ایک کمپنی اکاشیو(Akashevo) نے سعودی عرب کی'' ساحل المدینہ'' نامی کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ سائن کیا ہے ، جس کے تحت یہ رشین کمپنی سالانہ 38000 ٹن مرغی کا گوشت سعودی عرب برآمد کرے گی۔سعودی عرب کے علاوہ مذکورہ روسی کمپنی نے بحرین، UAE اور دیگر عرب ممالک سمیت ایران کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ Akashevo پہلی روسی کمپنی ہے جس نے اسلامک چیمبر ریسرچ اینڈ انفارمیشن سنٹر (ICRIC) سے حلال گوشت کے بارے میں منظوری حاصل کی ہے اور اس نے سال 2013 کے لیے 2 لاکھ ٹن گوشت سالانہ کا ہدف مقرر کیا ہے۔
بندے نے روسی کمپنی کے بارے میں قدرِ تفصیل سے اس لیے عرض کیا کہ یہ بات ہماری تاجر برادری کے لیے خصوصی توجہ کی مستحق ہے، کیونکہ یورپ، افریقہ اور روس جیسے دوردراز علاقوں سے اگر گوشت سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں پہنچتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی سپلائی وغیرہ پر زیادہ خرچ آنے کی وجہ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوگی، لیکن پاکستان اور عرب ممالک کے بیچ صرف ایک سمندر حائل ہے جس کے ذریعے ہم خلیجی ممالک میں سے کسی بھی ملک میںکم ترین خرچ پر اپنا مال پہنچا سکتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں اس وجہ سے بھی حلال گوشت کی شدید طلب ہے کہ یہاں 10 لاکھ سے زائد توصرف پاکستانی رہتے ہیں، جو مختلف شعبوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کے علاوہ مقامی آبادی، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لاکھوں کروڑوں مسلمان تارکینِ وطن ہیں جن کو حلال گوشت کے سلسلے میں پاکستانی حلال گوشت سے زیادہ کسی بھی گوشت پر اعتماد نہ ہوگا۔
حج کے موسم میں تقریباً 30 لاکھ حاجیوںاورپورا سال عمرہ کرنے والے حضرات کے علاوہ مقامی عرب آبادی میں بھی پاکستانی گوشت انتہائی مقبول ہے۔ اسی وجہ سے یہاں پاکستانی گوشت کی شدید ڈیمانڈموجود ہے۔ حال ہی میں یورپ میں گائے کا لیبل لگا کر حلال کے نام پر گھوڑے اور خنزیرکا گوشت فروخت کرنے کا جو اسکینڈل سامنے آیا ہے، اس کے بعدسے سعودی عرب نے یورپی ممالک سے ہر قسم کا گوشت درآمد کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔ سعودی عرب کی '' فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی '' نے ملک میں گوشت درآمد کرنے والے تمام افراد اور اداروں کو تاکید کی ہے کہ وہ یورپی کمپنیوں کے ساتھ اپنے تمام معاہدے منسوخ کر دیں۔ اس صورت حال سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو خوب فائدہ اُٹھاکراس شعبے میں بھر پور سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو نہ صرف کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ منافع کا سبب ہے، بلکہ باعثِ ثواب بھی ہے۔حلال فاؤنڈیشن حکومت اور متعلقہ ذمہ دار محکموں سے پر زو ر اپیل کرتا ہے کہ وہ حلال فوڈ خصوصاً حلال گوشت کی برآمد کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کریں۔
بحوالہ:
http://www.shariahandbiz.com/index....mishriq-e-wusta-main-halaal-ghosht-key-market