منیجمنٹ میں عام طور پر پائی جانے والی خرابیاںدیانت،نظم وضبط اور وقت کی پابندی جیسی جن اقدار کا حامل آپ اپنے سٹاف کو دیکھنا چاہتے ہیںاگر آپ کااپنا عمل ان کے موافق نہیں تو آپ کبھی بھی دوسروں سے اپنی عزت نہیں کرواسکتے۔تجربات سے سیکھنا ایک سست رفتار عمل ہے جب کہ ٹریننگ سے سیکھنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں منیجرز کو اپنا 25 فیصد وقت اپنے عملے کودینے میں صرف کرنا چاہیے۔پیشہ ورانہ ماحول میں منیجرز پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ماتحت ہر ہر شخص کو اس کی کارگردگی کی بنیاد پر چانچے ورنہ تنظیم اپنے مقصد کی جنگ ہار جائے گی۔منیجمنٹ کا ایک اصول ہے: ’’(تنظیمیں کام کرنے والے )لوگ تنظیم کو(انتظامیہ کے)لوگوں کی وجہ سے چھوڑتے ہیں نہ کہ خود تنظیم کی وجہ سے‘‘۔اگر کوئی تنظیم مسابقتی برتری کا سنہری مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو تو اس کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس مہارت یافتہ لوگ ہوں۔مہارت یافتہ لوگوں سے ہماری مراد ہے:
(الف)وہ رہنما جو حکمت عملی سے متعلق ایک موزوں وژن تشکیل دیں اور اسے پروان چڑھائیں۔
(ب)وہ منیجر جو (اپنی تنظیم کی تیار کردہ اشیا کی خدمات کی)قدرو قیمت میں اضافہ کرنے والے فیصلے کریں،باکفایت کاروباری سرگرمیاں تشکیل دیں اور اپنے کارکنوں کو تربیت بھی دیں اور ترغیب بھی۔
(ج)وہ باصلاحیت کارکن جو اپنی کمپنی کی حکمت عملیوں اور تدابیر پر عمل پیرا ہوں ۔
مختلف تنظیموں میں (جن میں وسیع حجم رکھنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شامل ہیں اور محدود غیر شراکتی کاروبار والی تنظیمیں بھی)گزشتہ 12 سال سے متوسط انتظامی شعبے میں بحیثیت ملازم کام کرتے ہوئے مجھے ایسے متعدد انتظامی رویوں کا سامنا کرناپڑا جنہیں میں انتظامی ذمہ داریاں موثر طور پر ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہوں ۔درحقیقت ایسے رویے کام کے ماحول پر برا اثر ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں حالا ت مزید ابتر ہوجاتے ہیں ۔چنانچہ ملازمین نا خوش رہتے ہیں ،مورال پست ہوجاتا ہے ،پیداوار میں کمی آجاتی ہے اور ایک ایسا ماحول تشکیل پاتا ہے جو تمام متعلقہ لوگوں میں ذہنی تناؤ پیدا کرتا ہے ،اور ان سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تزویراتی(سٹریٹیجک)سطح پر تنظیم مکمل طور پر ناکام ہوجاتی ہے۔
ذیل میں منیجر کے ان مضر رویوں میں سے جو کام کے ماحول پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں،چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱۔)خود عملی نمونہ بننا:
موثر قیادت کے لیے ’’اپنی عملی مثال پیش کرنا‘‘یا’’اپنے قول پر خود عمل کرکے دکھانا‘‘انتہائی اہم ہے۔دیانت،نظم وضبط اور وقت کی پابندی جیسی جن اقدار کا حامل آپ اپنے سٹاف کو دیکھنا چاہتے ہیںاگر آپ کااپنا عمل ان کے موافق نہیں تو آپ کبھی بھی دوسروں سے اپنی عزت نہیں کرواسکتے۔بہترین منیجر جس چیز کی دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اس پر خود عمل کرکے دکھا تے ہیں ۔بہت سے لیڈر اور منیجر یہ کہتے ہیں کہ ہم تبدیلی اورمسلسل بہتری چاہتے ہیں لیکن اس تبدیلی کے لیے خود کچھ نہیں کرتے،بلکہ اس کی بجائے اپنے ماتحت لوگوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی انفرادی صلاحیتوں میں اپنے طور پر ہی بہتری لاکر(تنظیم کے کاروبار میں مثبت)تبدیلیاں لائیں، حالانکہ ملازمین کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز موثر نہیں کہ وہ اپنے برتر لوگوں کو خود ایسے رویوں پر عمل پیرا پائیں جن کو اپنا نے کا وہ اپنے عملے کو حکم دیتے ہیں۔ نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ نے ’’اپنی عملی مثال پیش کرکے قیادت کرنے ‘‘کی حقیقت کو ثابت کردکھایا۔
(2)رابطے کا فقدان:
ایک اچھا باہمی رابطہ یہ ہے کہ اپنے عملے کو یہ بتایاجائے کہ آپ کی ان سے کیا توقعات ہیں ؟آپ کے کام کا معیار کیاہونا چاہیے ؟نیز آپ کے مسائل کون کون سے ہیں؟اپنے عملے کو(اس طرح کی چیزوں سے)آگاہ رکھنے میں ناکامی یا یہ فرض کرلیناکہ آپ کا عملہ یہ جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے(لہذا اسے بتانے کی یہ ضرورت نہیں)،اس طرح کا رویہ واضح طور پر پست کارگردگی کی طرف لے جاتا ہے۔(اپنے ماتحت لوگوں سے)یہ توقع کرنا کہ وہ (آپ کے بتائے بغیر ہی )جانتے ہیں، ایک انتہائی غیر محفوظ خیال ہے، کیوں کہ لوگ کا م کے بارے میں مختلف آرائ، خیالات اور اقدار رکھتے ہیں۔میں نے کئی مواقع پر منیجر کو اس طرح کی ہدایات دیتے ہوئے دیکھا ہے:’’رپورٹ تیا کریں!‘‘
’’اب آپ ایک سینئیر آدمی ہیں، لہذا آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے، کیا میں آپ کو بتاؤں؟‘‘(اس طرح کے احکام کے علاوہ)اور کچھ نہیں بتاتے اور اگر متعلقہ آدمی(رپورٹ کی تیاری کے حوالے سے اپنے منیجر سے)کچھ پوچھ لیں تو اس کے سوالات کو اس طرح کے بیانات کے ذریعے نظر انداز کردیا جاتا ہے: یقینا ’’آپ رپورٹ تیار کرنا جانتے ہیں ‘‘۔پھر جب چند دن بعد رپورٹ جمع ہوتی ہے تو منیجر صاحب برہم ہوجاتے ہیں اور اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے ہیں :’’آپ نے اخراجات اور آمدنی کا صرف خلاصہ کیوں تحریر کیا ہے ؟تفصیلات کہاں ہیں؟گوشوارے اور جدول کیوں نہیں بنائے ؟مثالیں کیوں نہیں دیں؟‘‘
میرا مطلب یہ ہے کہ کیا رپورٹ کی تیاری سے پہلے یہ سب باتیں نہیں بتائی جاسکتی تھیں؟اگر ایسا ہوجاتاتو وقت بھی بچتا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ کہ رپورٹ تیار کرنے والے کی حوصلہ شکنی نہ ہوتی۔
باہمی رابطے کا ایک اہم عنصر’’ٹھیک ٹھیک سننا‘‘ہے ۔یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جو میرے خیال میں بہت سے منیجرز میں نہیں پائی جاتی ۔ایسا لگتا ہے کہ منیجرز’’میری بات سنو!اس لیے کہ میں باس ہوں‘‘قسم کے رویے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔ ’’ٹھیک ٹھیک سننا!‘‘منیجرز کو یقینا اپنے ماتحت لوگوں کے مسائل سے آگاہ ہونے کے قابل بنائے گا اور اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ وہ کام سے متعلق (کارکنوں کے )رد عمل( فیڈ بیک) سے باخبر رہیںگے۔اس کے پیش نظر منیجرز اپنے کام ،کام کے مراحل،پالیسیوں اور گاہک کے مفاد کا خیال رکھنے جیسے امور میں بہتری لانے والے اقدام اٹھانے کے قابل ہوسکیں گے ۔
(3)ماتحت عملے کی ٹریننگ اور ان (کی مہارتوں)میں بہتری لانے میں ناکامی:
کاروباری مقاصد کے حصول اور کارگردگی میں اضافے کے لیے تنظیم کی ہر سطح کے لیے صحیح تربیت یافتہ ملازمین ضروری ہیں۔اپنی ذمہ داریاں باکفایت اور موثر طور پر ادا کرنے کے لیے عملے کو جدید ترین مہارتوں اور بہترین عملی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مہارتوں اور علم کی ترقی کا یہ عمل کاروبار کی ایک اہم اور قابل قدر سرمایہ کاری ہے۔
اکثر تنظیموں کے منیجرز،میرے مشاہدے کے مطابق یہ فرض کرلیتے ہیںکہ ان کے ماتحت لوگ آخر کار کام کے ٹریک پر آجائیں گے یا یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا کام خود بخود سیکھ لیں گے ۔جی ہاں !یہ درست ہے لیکن تجربات سے سیکھنا ایک سست رفتار عمل ہے جب کہ ٹریننگ سے سیکھنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں منیجرز کو اپنا 25 فیصد وقت اپنے عملے کو دینے میں صرف کرنا چاہیے۔چنانچہe.bay کے چیف ایگزیکٹو آفیسر’’میک وائٹ مین‘‘جیسا شخص یہ تسلیم کرتا ہے:’’میری کمزوری یہ ہے کہ میں نے (اپنے عملے کی)روزانہ کی بنیاد پر تربیت اور اصلاح نہیں کی ہے۔(اس کے برخلاف )میں نے بہت سے منیجرز کو یہ کہتے ہوئے سناہے:’’اپنے ماتحت لوگوں کی ٹریننگ پر پیسے خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مہارت حاصل کرنے کے بعد ان کی خواہش ہوگی کہ ہمیں چھوڑ کر دوسری کمپنی میں چلے جائیں۔ ‘‘ عموماً میں(اس کے)جواب میں یہ سوال کرتاہوں:’’اگر آپ ان کو ٹریننگ نہ دیں اور یہ آپ کی کمپنی چھوڑ کر دوسری کمپنی میں نہ جائیں تو(پھر کیا ہوگا)؟‘‘یہ خطرہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے کہ کارکن ٹریننگ لینے کے بعد کہیں اور چلے جائیں گے لیکن میرے خیال میں اس سے زیادہ بڑاخطرہ منیجرز کا ان لوگوں کو تربیت نہ دینا ہے،اور اس کا نتیجہ غیر تربیت یافتہ اور غیر مہارت یافتہ عملے کی صورت میں نکلتا ہے۔
(4)خوف کا عنصر:
ایسا لگتا ہے کہ منیجر سب سے زیادہ اسی طریقے کو استعمال کرنا پسند کرتے ہیں ۔دھمکیوں سے کام کرواناآسان دکھائی دیتا ہے، کیوں کے اس طرح نتائج فوراً حاصل ہوتے ہیں۔
اس قسم کے رویے کی ایک خامی یہ ہے کہ کام کا ماحول تناؤ اور خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ،جبکہ یہ صورت حال کام کی مقدار اور معیار کے لیے انتہائی غیر موزوں ہوتی ہے۔ (ایسے ماحول میں)ملازمین گویا کہ روبوٹ ہوتے ہیں جو(تفویض کردہ)چھوٹے چھوٹے کام کر کے خوش ہوتے ہیں ،اس(طرح کا غلط رویہ رکھنے والے منیجرز)کے برعکس ٹھوس قائدانہ صلاحیتوں کے حامل حوصلہ افزائی کرنے والے(انتظامی)لوگ اپنے کارکنوں کی بہترین صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں،کارکنوں(کی صلاحیتوںکو)پہچاننا،ان کو انعام دینا،ان کی حوصلہ افزائی اور ستائش یہ سب امور پیداوارمیں نمایاںحد تک اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ملازمین اپنی قدراورستائش سے جِلاپاتے ہیں اور منصفانہ سلوک سے کے متمنی ہوتے ہیں۔(لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ)یہ چیز اکثر تنظیموں میں مفقود دکھائی دیتی ہے۔
(5)بے جا ترجیح وناجائز پاسداری کا مظاہرہ:
ستم ظریفی ہی کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے منیجر کچھ چہیتوں کو اپنے ارد گرد جمع رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔حالانکہ انہیں عام طور پر یہ پسند ہوتا ہے کہ دریافت کرنے پر ہم میں سے اکثر تنظیموں کے ملازمین میں سے کم از کم پانچ ایسے ’’ترجیح یافتہ‘‘ناموں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو اپنے برابر درجے کے’’غیر ترجیح یافتہ‘‘ملازمین میں سے کم تر کارگردگی دکھاتے ہیں ۔تاہم جب انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام نہیںکرتے تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟تنظیمیں بھاری تنخواہیں دیتی ہیں،لیکن ان کے عوض اچھی خدمات کا مطالبہ کیوں نہیں کرتیں؟ ایک مرتبہ پھر اس کا ذمہ دار، اپنے کلچر کو قرار دوں گا جس میں ہم سب کی اپنی اپنی پسند وناپسندہے اور جب ماتحت لوگوں کی قدروقیمت چانچنے اور ان کو ترقی دینے کا وقت آتا ہے تو یہی پسندوناپسند اپنا کام دکھاتی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ دوسروں کو پسند یا نا پسند کرنا انسانی طبیعت کا خاصہ ہے ،لیکن پیشہ ورانہ ماحول میں منیجرز پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ماتحت ہر ہر شخص کو اس کی کارگردگی کی بنیاد پر چانچے ورنہ تنظیم اپنے مقصد کی جنگ ہار جائے گی، کیوں کہ (تنظیم میں کام کرنے والے)دوسرے لوگوں پر منفی اور حوصلہ شکن اثر ڈالنے کے لیے ’’ترجیح یافتہ اور چہیتے‘‘قسم کا صرف ایک ہی ملازم کافی ہے۔
(6)معیار کے بجائے مقدار پر زیادہ توجہ:
اکثراوقات منیجرز کی نظر صرف مقاصد پر ہوتی ہے،ذرائع پر نہیں۔وہ’’مقدار کے لحاظ سے‘‘انتظام کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔انتظامیہ صرف چند اعداد حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوتی ہے اور بس۔ جب (ان مطلوبہ اعدادکا)ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو منیجر(غرور میں)اندھے ہوجاتے ہیں۔میرا، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اعداد تو تنظیم کے صرف کامیاب اور سوچے سمجھے لائحہ عمل اور پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جب کہ معیار پر سمجھوتہ کرنا اور معیار(کو یقینی بنانے والی)پالیسیوں کا عدم نفاذ متعلقہ مارکیٹوں میں تنظیم کی اثر انگیزی ااور شہرت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو منیجرز کو ایک یا دو سال کے لیے کنٹریکٹ پر رکھتی ہیں۔ بعد میں ان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ معاہدے کی تجدید ،آپ کی کارگردگی(مختصر الفاظ میں منافع)پر منحصر ہے۔چنانچہ منیجر قلیل مدتی اہداف پر نظر رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ’’نمبر گیم‘‘کھیلتے ہیں۔یہ (قلیل مدتی اہداف)متعلقہ تنظیم کو طویل مدتی نقصان پہنچا کر ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔اپنی کتاب’’Great Good t‘‘میں مائیکل کولنز کہتا ہے :’’بڑی کمپنیاں ہر گز ہرگز راتوں رات کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ یہ (کامیابی)اس ایک فرد کی طرف سے کمپنی کی طویل نگرانی کا پھل ہے جس نے اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور خاص طور پر طویل مدتی اہداف کو سامنے رکھا۔‘‘
ستم تو یہ ہے کہ اکثر منیجر مذکورہ بالا(خامیوں)سے آگاہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اس قسم کے رویوں میں سے اکثر کو کم کرنے میں یا اس سے بڑھ کر بالکلیہ ختم کرنے کے قابل ہیں وہی آخر کار اس کا پھل بھی کھائیں گے۔خصوصاً انتظامی فوقیت صورت میں ،اور اسی سے ہی آپ کو اپنے کیرئیر بحیثیت منیجر میں اطمینان،ترغیب وحوصلہ افزائی حاصل ہو گی۔
بحوالہ:
http://www.shariahandbiz.com/index.php/business-management/molana-imran-qureshi/99-imran-quershi