آپ شاید پھر جلسوں ، عوامی اجتماعات اور ٹیبل ٹاک ، ٹی وی شو اور اندرونی بیٹھک میں گفتگو کو سمجھ نہیں رہیں۔ کیا عمران جلسوں والی زبان اور جوش ٹی وی شو ، سیاسی مباحثوں اور براہ راست پوچھے جانے والے سوالوں میں بھی کرتا ہے ، یقینا نہیں کیونکہ وہاں آپ کے سامعین اور ہوتے ہیں اور وہ فورم بالکل مختلف ہوتا ہے وہاں بلند آہنگ ، نعرے اور خاص طرز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دلائل اور منطق جلسوں میں بھی دی جاتی ہے مگر آپ جیسے لوگ بھی صرف تنقید ہی پر غور کرتے ہیں۔ عمران نے سیکڑوں بار یہ دہرایا ہے کہ ہمارا نصب العین ہے۔
ایاک نعبدو و ایاک نستعین
کتنی دفعہ اس کا ذکر کیا ہے مخالفین نے یا آپ نے خود بھی کتنی بار سوچا ہے کہ اتنی بار اس چیز کو عمران نے اتنی بار کیوں دہرایا ہے، کیا اسی آیت کو بار بار دہرا کر وہ اپنا نصب العین نہیں بتا رہا مگر اس پر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے افسوس کے ساتھ نہ حامی نہ مخالفین۔
میں جلسوں، کارنر میٹنگز ، ٹی وی ٹاک شوز اور عمومی گفتگو سب کا فرق بھی سمجھتی ہوں کسی حد تک اور ان سب کے بارے میں ہی بات کر رہی تھی۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ اکثر اس موضوع پر دوسروں سے بات کرتے ہوں گے اس لئے آپ میری بات کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
آج کی نہیں، یہ اس سال کے شروع کی بات ہے۔ خان صاحب جیو ٹیلی ویژن کے کسی مارننگ شو میں آئے ہوئے تھے۔ سوال کیا گیا کہ آپ کی پارٹی کا منشور کیا ہے؟ جواب آیا۔ 'میں ابھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا کیونکہ اگر ہم نے ابھی تفصیلات بتا دیں تو باقی پارٹیاں بھی اسی کو کاپی کر لیں گی۔' اور تب حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کہ عمران خان بھی ایسی بات کر سکتے ہیں۔
جہاں تک ایاک نعبدو و ایاک نستعین کا تعلق ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ واقعی اس کو اپنا منشور بنا لیں اور اپنی پیروی کرنے والوں کو بھی اسے اپنانے کے لئے تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
اس کے علاوہ سیکڑوں بار وہ یہ بھی کہہ دہراتا ہے کہ ہماری سیاست "منتخب" ہونے والے سیاستدانوں کے گرد نہیں بلکہ ہم تبدیلی اور نوجوانوں کے سر پر سیاست کر رہے ہیں اور ہر تقریر میں یہ بیان ہوتا ہے اور یہ بھی تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے۔
معذرت ، میں اس بات کو سمجھ نہیں پا رہی۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی کے عمل میں 'منتخب' سیاستدان کچھ اہمیت نہیں رکھتے؟ اگر تبدیلی لانی ہے تو منتخب لوگ ہی ایوانِ اقتدار یا اختلاف میں بیٹھ کر کچھ اصول و ضوابط ا لائحہ عمل ترتیب دیں گے نا۔
یا اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ منتخب شدہ سیاست دان ان کی تبدیلی پروجیکٹ کا حصہ نہیں ہوں گے؟ اگر ایسا ہے تو انہوں نے پرانے چہروں کو اپنے کارواں میں شامل کیوں کیا؟
تیسری بات: جن نوجوانوں کے سر پر وہ اپنی سیاست یا بعد میں حکومت چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، کیا عمران خان نے انہیں نظم و ضبط اور قانون یا اصولوں کی پابندی کا کوئی درس بھی دیا؟ ایک کپتان کا اپنی ٹیم یا پیروکاروں کو پہلا سبق ڈسپلن اور قاعدے کی پابندی سے متعلق ہوتا ہے۔ عمران خان ماشاءاللہ کتنے عرصے سے سیاست میں متحرک ہیں۔ میں بہت پرانی بات نہیں کرتی۔سال ڈیڑھ پہلے کی بات کرتی ہوں جب انہوں نے جلسوں کے سونامی منعقد کر کے حریفوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ جو مجھے نظر آیا کہ ان کے جلسے واقعی سونامی کی مانند ہی ہوتے ہیں۔ کوئی نظم و ضبط نہیں ، کوئی کوڈ آف کونڈکٹ نہیں، کسی دوسرے کا خیال نہیں۔ خیر یہ تو ایک بات سے بات نکل آئی۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گی۔
پٹواریوں اور تھانہ کلچر کو بدل کر اختیارات بنیادی سطح تک منتقل کر دیں گے، یہ سب سے اہم اور انقلابی پیغام ہے اور کامیاب نظام جتنے بھی ہیں ان میں اس چیز کا کلیدی کردار ہے۔ آپ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور نہ باقی مخالفین بھی اس پر کبھی بحث کرتے نظر آئے ہیں۔
بحث کرنے والے اس پر بھی بہت بحث کر چکے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ تھانہ کلچر کو کیسے بدلا جائے گا؟ پالیسی میکرز کو خود بھی معلوم نہیں ہے۔ تحریک انصاف ہی کے ایک ورکر کسی پروگرام میں اس پر کوئی تسلی بخش جواب دینے میں ناکام نظر آئے۔ کہا گیا کہ تھانہ کے ہر کام سے لیکر تنخواہ تک ذمہ دار اس کا علاقہ اور وہاں کے لوگ ہوں گے۔ اس کا مطلب؟ میں ان صاحب کا نام بھول رہی ہوں ۔۔لیکن یہ پوائنٹ بھی انہوں نے خود ہی دیا تھا اور اس کی تفصیل بھی بتانے میں وہی ناکام رہے تھے۔
ایک اور بار۔۔۔میں یہاں جو بھی بات کہہ رہی ہوں وہ مخالف یا ناقد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک غیر جانبدار اور کنفیوژڈ شہری کی حیثیت سے کہہ رہی ہوں۔ اگر ایسی ہی بحث کسی اور پارٹی کے بارے میں ہو گی تو ان سے متعلق ابہام کے متعلق بھی ایسے ہی گفتگو ہو گی۔
سچ بولنے اور اپنے حامیوں سے اس کا وعدہ لینے کو بار بار دہرایا ہے عمران نے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ۔ اب یہ ایک بہترین روایت ہے جس پر مثبت تنقید ہونی چاہیے تھی مگر اسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا۔
کون سا سچ؟
میری پارٹی میں کسی آزمائے ہوئے شخص کی جگہ نہیں ہے؟ اور جب سوال پوچھا جائے کہ آپ کے اس بیان کا کیا ہوا تو جواباً ادھر ادھر کی باتیں۔ تو اس وعدے کو کون قابل اعتنا جانے گا؟
امریکہ کی غلامی سے قوم کو نکالوں گا ، اسے بار بار دہرایا ہے عمران نے اور ایک بنیادی نعرے کے طور پر دیا ہے مگر اس پر بھی نہ تنقید نہ بحث ہوتی ہے۔
یہ صرف ایک نعرہ ہے۔ حمایت یا تنقید کو ایک طرف رکھ کر آپ بتائیے کہ کیا اس بات کو صرف نعرے سے زیادہ اہمیت دی جا سکتی ہے؟
تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات صرف تحریک انصاف نے کی ہے اور کئی بار اسے دہرایا ہے ، کسی اور پارٹی نے تعلیم کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو پانچ گنا تک بڑھانے کا بار بار ذکر ہوتا ہے جبکہ باقی پارٹیاں بلٹ ٹرین چلانے ، سڑکیں بنانے اور ترقیاتی کام کروانے کی باتیں ہی کر رہی ہیں۔
کون سی ایمرجنسی؟ میں نے بارہا عمران خان کی تعلیمی پالیسی کو دیکھ کر کوئی قابلِ عمل شے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن شاید اپنی کم علمی کی وجہ سے ناکام ہی رہی ہوں۔ امید ہے آپ سے رہنمائی مل سکے گی۔
- تعلیم (اور صحت) کے بجٹ یا سہولتوں کو پانچ گنا (یا پانچ فیصد تک؟ ) بڑھانے کا وعدہ۔ بہت اچھی بات ہے۔آپ نے تو تحریک انصاف کے تمام پالیسی پیپرز پڑھے ہوں گے۔ اگر میں غلط ہوں تو پلیز تصحیح کر دیں۔ کیا اس کو معاشی پالیسی کی کامیابی سے مشروط نہیں کیا گیا؟ کہ آپ کی معاشی پالیسی کامیاب ہو گی ۔۔جی ڈی پی میں اضافہ ہو گا تو ان دونوں سیکٹرز کا بجٹ بڑھے گا۔ تو اس میں کیا نئی بات ہے؟ اکثر جماعتوں کا یہی دعوی ہے۔ ویسے ترقیاتی کام، سڑکیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی 'معاشی پالیسی' اور 'معاشی ترقی' ہی کا حصہ ہوتی ہیں۔
- پانچ گنا اور پانچ فیصد میں بہت فرق ہے۔ موجودہ دو اعشاریہ پانچ فیصد کا پانچ گنا کچھ اور ہو گا اور اس کو دو اعشاریہ پانچ سے بڑھا کر پانچ فیصد کرنا کچھ اور۔ کیلکیولیشنز آپ خود کر سکتے ہیں۔
- یکساں نظامِ تعلیم: تمام پبلک اور پرائیویٹ سکولوں میں ابتدائی جماعتوں سے لیکر آٹھویں تک تدریسی زبان علاقائی زبانیں یا اردو۔ نویں دسویں میں انگریزی اور پھر بڑی جماعتوں میں بھی یہی۔ پلیز۔ آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟ کیا آپ کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ ایسا ہو جائے گا؟ کیا خود آپ کی پارٹی ورکرز خصوصاً جو ہائی پروفائل کے لوگ سمجھے جاتے ہیں، اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں پڑھانے بھیجیں گے؟ کیا پرائیویٹ سیکٹر جس کی تعلیمی نظام میں منوپلی ہے وہ آپ کو ایسا کرنے دے گا؟ آپ جتنے بھی ممالک دیکھ لیں تعلیمی ادارے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ سرکاری اور گرامر سکولز ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ قومی نصاب ایک ہوتا ہے لیکن سلیبس مختلف۔ اور سب سے بڑی بات اگر کسی صورت آپ ان تمام سوالوں کا جواب ہاں میں لے بھی لیں تو کیا پانچ سال میں آپ تمام کے تمام نصاب کو اردو میں کر سکیں گے؟ کیا انگریزی کو آل توگیدر ایک طرف کرنے سے آپ اپنے بچوں کو کہیں اور نہیں تو اپنی نمل یونیورسٹی جو بریڈ فورڈ برطانیہ کے نصاب و نظام کو اپناتی ہے، میں پڑھنے کے قابل کر سکیں گے؟
- پوری پالیسی میں کہیں بھی طالبان کے ہاتھوں تباہ سکولوں خصوصاً لڑکیوں کے سکولوں کے دوبارہ بنانے یا بچانے کے لئے مجھے کوئی ایک پوائنٹ بھی نہیں ملا۔
- تعلیم کی اپ لفٹ کے لئے جتنے بھی پوائنٹس لکھے گئے ہیں مثلاً بہتر سہولیات ، ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر فوکس ، تعمیرِ کردار، ان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ آپ قومی تعلیمی پالیسی اور صوبائی پالیسیاں اٹھا کر دیکھ لیں۔ سب میں یہی کچھ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ پالیسیوں اور ان پر عمل کے درمیان گیپ کی وجہ اور ان اقدامات کو واضح کر دیا جاتا جن کے ذریعے اس خلا کو پر کیا جا سکتا ہے تو شاید اس پالیسی سے متاثر ہوا جا سکتا تھا۔
- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پالیسی کو فریم کرنے والوں نے گزشتہ پالیسیوں کو ٹھیک طرح پڑھا نہیں یا موجودہ صورتحال کا غیر جانبدرانہ تجزیہ نہیں کیا۔ Weaknesses of the current Government curriculum کی سرخی کے نیچے جن کمزوریوں کا ذکر کیا گیا ہے، مجھ جیسے کم فہم بھی اگر قومی نصاب کو اٹھا کر دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی کمزوری نہیں دکھتی۔ کوئی ان لوگوں کو یہ سمجھا دے کہ کریکلم اور سلیبس و ٹیکسٹ بک میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ نیشنل کریکلم کسی صورت بھی کسی ترقی یافتہ کریکلم سے کم نہیں ہے۔ نصابی کتب میں مسائل ہیں لیکن اگر پالیسی میکرز ہی بنیادی اصلاحات کے فرق کو نظر انداز کر دیں گے تو ہم عوام کو کیا خاک سمجھ آئے گی۔ نیشنل کریکلم وفاقی وزارت تعلیم جو اب منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ ہے ، کی ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ روابط اکثر ٹوٹے پھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر وہاں نہ ملے تو میرے پاس کہیں نہ کہیں اس کی سافٹ کاپی ضرور پڑی ہو گی۔ ورنہ پاکستان کی تمام تحقیقات اور پالیسی جرنلز ۔ نیشنل لائبریری اسلام آباد میں موجود ہیں۔ کسی کو دلچسپی ہو تو وہاں سے مل سکتے ہیں۔ اگر آپ پڑھ لیں تو شاید عمران خان کی پالیسی کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ سو مجھے دوسرا بڑا دھچکا عمران خان کی قومی پالیسی کو دیکھ کر لگا۔ مزید تبصرہ پھر سہی۔
روایتی ، منفی ہتھکنڈے تو تب ہوتے جب مخالفین کی طرح ان پر ذاتی تنقید شروع کر دی جائے ۔ اب مخالفین کی کمیاں اور برائیاں گنوانا تو ایک لازمی امر ہے اور اس کے بغیر کہیں بھی سیاست نہیں ہو سکتی ، ظاہر ہے آپ دوسرے کی کمیاں اجاگر کرکے ہی اپنی خوبیاں بیان کر سکتے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ اس صدی میں سب سے بہتر طور پر باراک اوباما نے لگایا تھا اور اگر آپ اوباما کی تقاریر سنیں تو اس میں بش پر زبردست قسم کی تنقید ہوا کرتی تھیں اور ٹھیک تھی اور ایسی تنقید تھی کہ republican پارٹی کے امیدوار نے خود کو بش کے دور سے علیحدہ رکھا اور کہیں اس کا نام نہیں لیا، اتنا نام اچھالا گیا تھا بش کا اور اس کے دور کے مضمرات کو۔
محب علوی آپ واقعی اپنے نام کا حق ادا کر رہے ہیں
۔ میں دوبارہ وہ ساری باتیں نہیں کروں گی کیونکہ آپ نے ماننا تو ہے نہیں کہ خان صاحب بھی کبھی کبھی بلکہ ان دنوں اکثر پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔
فضل الرحمان کے بارے میں دوسرے صوبوں میں فرق نہیں پڑتا مگر خیبر پختونخواہ میں کافی پڑتا ہے اور وہاں لوگ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اب بھی عمران نے جواب میں کیا کہا ہے وہ دیکھ لیں اور جو فضل الرحمان نے کہا ہے وہ دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ کس نے کیسی تنقید کی ہے۔
تو جہاں لوگ متاثر ہوتے ہیں اگر وہ صرف وہاں ایسا ہی لب و لہجہ اختیار کرتے۔ ہر جگہ ایک ہی انداز کیوں؟
ذوالفقار علی بھٹو کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ، ان کے سیاسی قد کاٹھ اور تقاریر پر آپ کی کیا رائے ہے ؟
بالکل سُن رکھا ہے۔ جاگیردارانہ اور خاندانی سیاست بھٹو خاندان کا دوسرا نام ہے۔ ان کی تقاریر کے بارے میں میں نے اپنے بڑوں سے یہی سنا ہے کہ اول فول کی کمی وہاں بھی نہیں تھی۔
پارٹی کے اندر الیکشن کروانے کا انتہائی مشکل کام عمران نے کیا اور اگر ہم سمجھ سکیں تو یہ پاکستانی سیاست میں انتہائی روشن باب ہے اور اگر اس کام کو پذیرائی ملی تو سیاست کا نقشہ بدل جائے گا۔
پارٹی الیکشنز تو جماعت اسلامی بھی ایک عرصے سے کروا رہی ہے۔
تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے ملک کے 9 بڑے مسائل پر انتہائی جامع پالیسیاں دی ہیں جو کہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ کرپشن کا سدباب کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دی ہے اور واحد پارٹی ہے جس نے اس پر کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذوروں اور ماحول کے حوالے سے پالیسی دینے والی بھی پہلی پارٹی ہے۔
فی الحال نو کومنٹس
اب ان چیزوں کی ستائش یا حوالے پر لوگوں کی نظر نہیں پڑتی ، پڑتی ہے تو صرف خطاب اور تقریر پر۔ اگر کسی کو جانچنا صرف اس کی تقریر اور خطابات سے ہوتا ہے تو یقین جانیں کہ بہترین مقرر اور خطیب ہی دنیا نے بہترین لوگ کہلاتے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اچھی تقریر اور اچھے عمل میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔
خطاب نہیں انداز ، بات اور موضوعِ گفتگو۔
اصرف ایک بات کوٹ کروں گی۔
'اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے حالات کا سوؤموٹو نوٹس لے لیا ہے'۔ موقع: لاہور ریلی۔