شریف برادران کے کارنامے پیپلز پارٹی کے اشتہارات کی زینت

کیونکہ اس وقت جو لوگ عمران خان کے طرز تقریر پر پریشان ہوتے ہیں وہ بھٹو کے زمانے میںاس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ہوتے تو شاید تب ان پر بھی اتنی ہی تنقید کرتے۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کسی خاص وقت میں کسی ایک غلط بات کی قبولیت کو بعد میں بھی ایسے ہی طریقہ کار کی لوجک بنا لینا کچھ غلط نہیں ہے؟

میں جو کہنا چاہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ بھٹو اب تک پاکستان میں بہترین مقرر رہے ہیں اور جیسی عمدہ تقاریر بھٹو نے کی ہیں اب تک عوامی سطح پر کوئی بھی سیاستدان اس پائے تک نہیں پہنچ سکا ہے مگر جوش خطابت میں کبھی کبھی وہ بھی غلطیاں کر جاتے تھے حالانکہ تقریر کے فن کا ملکہ ان میں بہت زیادہ تھا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی شخص کو کیا تقریر سے پہچانتے ہیں ، اس کے طرز گفتگو سے یا اس کے طرز عمل سے۔

اگر آپ کسی شخص کو تقریر اور گفتگو سے پہچان رہے ہیں بالخصوص کسی سیاستدان کو تو پھر میری نظر میں سخت غلطی کر رہے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی پہلی تربیت تقریر اور گفتگو میں مہارت پر ہی مبنی ہوتی ہے ، اعمال اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

میں یہی نکتہ نظر بہت سن رہا ہوں اور میں اس پر اس لیے بھی حیران ہوں کہ بہت سے لوگ صرف یہی دلیل دے رہے ہیں اور جو بنیادی تبدیلی اور دور رس کام کیے ہیں عمران نے اس سے صرف نظر کر رہے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے یعنی یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ جو اچھی تقریر کر سکتا ہے یا جس کی خطیبانہ صلاحیتیں اچھی ہیں وہی اچھا شخص ہے۔

عمران کو تقریر کا فن نہیں آتا ، یہ بات میں تو جانتا ہوں کیا اس پر تنقید کرنے والے اس سادہ نکتہ کو نہیں سمجھ پا رہے۔
 
عمران خان کےطرزتقریریراوراندازپرافسوس ہوتا ہے یہ کسے پڑھے لکھے اورتبدیلی کا نعرہ لگانے والےکی زبان ہے
لیکن کیا کریں کہ ان کی اندھی حمایت کرنے والے ہی ان کولےڈوبیں گے جو ان کے بارے میں تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ
رکھنے والوں کو بھی شک کی نظرسے دیکھتے اوران سے صرف پرستش کی اُمید رکھتے ہیں

زبیر مرزا ، آپ کی بات پر جو جواب بنتا ہے وہ میں اوپر لکھ چکا ہوں ۔ صرف ایک بات پھر دہرا رہا ہوں کہ طرز تقریر پر آپ کا اعتراض تو سمجھ میں آتا ہے مگر اندھی حمایت کا الزام لگانے اور پرستش کی امید کا الزام لگانے پر کیا میں بھی آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ یہ کیسا طرز عمل ہے جو بغیر تحقیق اور جانے بغیر الزام کے ساتھ ساتھ پیشن گوئیاں بھی کر رہا ہے۔

اگر تو آپ کسی تحریک انصاف کے حامی کی وجہ سے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ نہ رکھیں اور اگر کسی اصول یا نظریات کو پرکھ کر رکھ رہے ہیں تو کسی حمایتی کے عمل کے لیے آپ ذمہ دار نہیں ہیں ۔

ویسے تحریک انصاف وہ جماعت ہے جس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اس پر سخت ترین تنقید کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ حامی ہیں یا مخالفین ۔ :LOL:

ہارون رشید اور حسن نثار اس کی تازہ مثالیں ہیں جو تواتر سے تحریک انصاف کی حمایت میں لکھتے رہے اور اب الیکشن کے بالکل قریب آ کر ایسے کالم لکھ رہے ہیں جس سے سمجھ نہیں آتی کہ حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت۔
 

ساجد

محفلین
محب علوی کی کامیاب "وکالت" کے طفیل اس دھاگے کا قفل کھول دیا گیا ہے :)
اراکین سے التماس ہے کہ اب مہربانی فرما کر سیاست کے دھاگوں میں الزامی اشتہارات پیش نہ کئے جائیں۔ جو کہنا ہے لکھ کر کہئیے اور مستند ذرائع سے روابط بھی دیجئے لیکن ان دھاگوں کو "اشتہاری" بنانے سے پرہیز کیجئے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
محب علوی کی کامیاب "وکالت" کے طفیل اس دھاگے کا قفل کھول دیا گیا ہے :)
اراکین سے التماس ہے کہ اب مہربانی فرما کر سیاست کے دھاگوں میں الزامی اشتہارات پیش نہ کئے جائیں۔ جو کہنا ہے لکھ کر کہئیے اور مستند ذرائع سے روابط بھی دیجئے لیکن ان دھاگوں کو "اشتہاری" بنانے سے پرہیز کیجئے۔
ساجد صاحب یہ تو کہیں نہیں ہوتا کہ کسی جماعت کے راہنما کے اخباری بیانات کو الزامی اشتہارات قرار دیا جائے
ہمیشہ ماضی کی کارکردگی یا ماضی میں دیئے گئے بیانات زیرِ بحث آتے ہیں اور الزام تو تب ہو کہ جب کوئی ایسی بات منسوب کی جائے جو کسی نے نہ کہی ہو
 

ساجد

محفلین
ساجد صاحب یہ تو کہیں نہیں ہوتا کہ کسی جماعت کے راہنما کے اخباری بیانات کو الزامی اشتہارات قرار دیا جائے
ہمیشہ ماضی کی کارکردگی یا ماضی میں دیئے گئے بیانات زیرِ بحث آتے ہیں اور الزام تو تب ہو کہ جب کوئی ایسی بات منسوب کی جائے جو کسی نے نہ کہی ہو
تو یہ بات اس اخبار کے ربط کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں جہاں ان کا بیان شائع ہوا ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
ساجد صاحب نواز شریف کے ادوار کے ای پیپر کے لنک اب موجود نہیں۔ چودہ سال پرانے لنک کونسا اخبار رکھتا ہے البتہ بیانات کے ساتھ تاریخیں پیش کی جاتی ہیں
 
محب علوی کی کامیاب "وکالت" کے طفیل اس دھاگے کا قفل کھول دیا گیا ہے :)
اراکین سے التماس ہے کہ اب مہربانی فرما کر سیاست کے دھاگوں میں الزامی اشتہارات پیش نہ کئے جائیں۔ جو کہنا ہے لکھ کر کہئیے اور مستند ذرائع سے روابط بھی دیجئے لیکن ان دھاگوں کو "اشتہاری" بنانے سے پرہیز کیجئے۔

بہت شکریہ ساجد اور میں ذاتی طور پر اس کے لیے آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے اختیارات رکھتے ہوئے بھی جمہوری رویہ اختیار کیا جس کی اس وقت ملک کو کافی ضرورت بھی ہے۔

بلاول بھٹو کی گلابی اردو والے اشتہار لگانے کو میرا بہت دل کر رہا ہے ، کیا کروں اس کے لیے :LOL:
 

جہانزیب

محفلین
عمران خان کی تقاریر اچھی نہیں ہوتیں اس سے مجھے بھی اتفاق ہے اور اس میں بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران لکھی ہوئی تقریر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا حالانکہ اسے تقریر لکھ کر دی ہر دفعہ جاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ اکثر پٹھانوں والی تذکیر و تانیث کی غلطیاں بھی کرتا ہے مگر چونکہ کچھ عوامی نعرے اور تنقید سے لوگوں کو ابھارنے میں کامیاب رہتا ہے اس لیے اسی طریقہ کو کامیابی سے اپنایا ہوا ہے۔
یہ پٹھانوں والی غلطیاں کیوں کرتا ہے، ویسے میں نے آج تک عمران خان کو ایسے کرتے دیکھا سنا نہیں ہے ۔ جوش خطابت میں آپ بھی حد ہی پھلانگ دیتے ہیں ۔ اب یہ نہ کہہ دینا کہ عمران خان پٹھان ہے ۔ میانوالی کا نیازی ہے اور پشتو کا ایک لفظ نہیں آتا ہو گا لیکن پنجابی میں ہو سکتا ہے آپ کے کانوں کو ہاتھ لگوا دے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ ایسا ہی پٹھان ہے جیسے آپ عرب :D
 

جہانزیب

محفلین
جہاں تک مقرر ہونے کا تعلق ہے تو میں عمران خان کو اس وقت موجود دیگر سیاست دانوں سے اس معاملہ میں بہتر سمجھتا ہوں ۔
 

طالوت

محفلین
میں زرقا بی بی کی اس بات کی تکرار پر حیران ہوں کہ لب و لہجہ کے حوالے شہباز شریف پر تنقید کیوں نہیں؟ بھئی سادہ سی بات ہے عمران خان سے ایسےعامیانہ لب و لہجے کی توقع نہیں کرتے لوگ ، کیونکہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ، ہر سطح پر۔
 

زرقا مفتی

محفلین
میں زرقا بی بی کی اس بات کی تکرار پر حیران ہوں کہ لب و لہجہ کے حوالے شہباز شریف پر تنقید کیوں نہیں؟ بھئی سادہ سی بات ہے عمران خان سے ایسےعامیانہ لب و لہجے کی توقع نہیں کرتے لوگ ، کیونکہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ، ہر سطح پر۔
جناب تکرار کسے کہتے ہیں؟؟
میں نے صرف ایک مراسلے میں شہباز شریف کی زبان بات کی ۔ ایک مراسلہ آپ کی نازک طبع پر اتنا گراں گزرا
یا پھر یوں ہے کہ
آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے
عمران خان پر تنقید کے مراسلے گن لیجیے اور ہمارے حوصلے کی داد دیجیے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت بھٹو تو نہیں رہے مگر شہباز شریف تو ہیں نا ان پر تنقید کیوں نہیں کرتے
زربابا چاليس چور وں نے قوم کوبے حال کر ديا،شہبازشريف
http://jang.com.pk/urdu/update_details.asp?nid=89179#

http://www.express.pk/story/121440/
http://www.dailypakistan.com.pk/bahawalpur/29-Dec-2012/32227
اقتدار میں آ کر زربابا سے پائی پائی کا حساب لیں گے: شہباز شریف
السلام علیکم زرقا۔ کافی عرصے بعد آپ سے براہِ راست بات ہو رہی ہے۔ کیسی ہیں آپ؟
عمران خان کے طرزِ تقریر یا کہنا چاہئیے اندازِ گفتگو پر اعتراض اس لئے اٹھائے جاتے ہیں کہ ماشاءاللہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن سے آپ غلط الفاظ اور انداز کی توقع نہیں کرتے۔ میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ عمران خان خود کو نوجوانوں کے لیڈر کہتے ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ جو لوگ خصوصاً نوجوان نسل اور بچے ان کو پسند کرتے ہیں وہ انہیں 'رول ماڈل' مانتے ہیں اور رول ماڈل کو بہت سی ایسی باتوں پر بھی حوصلے اور تحمل کے مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے جن پر عام لوگ بھڑک اٹھتے ہیں یا خود پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر عمران خان بھی شہباز شریف یا کسی بھی ایکس وائے زیڈ کی پیروی کرتے ہوئے وہی انداز اپنا لیں گے تو ان میں مختلف کیا رہے گا؟
 

زرقا مفتی

محفلین
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے پاس بہترین مقرر ہیں۔ جو عوامی لب و لہجہ اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ تو کیا عمران خان کے طرزِ تقریر سے نالاں لوگ جماعت کو ووٹ دیں گے؟؟
عمران خان محب وطن ہے مخلص ہے ایماندار ہے ۔ ان خصوصیات پر تو کسی کو اعتراض نہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو ہم اپنے حکمرانوں میں چاہتے ہیں۔ عمران خان معاشرے کے ہر طبقے کو ساتھ لے چلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔
انتخابی جلسوں کی بیان بازی ایک عارضی عمل ہے ۔ مگر اسے سب سے زیادہ اہم گردانا جا رہا ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ شاید پھر جلسوں ، عوامی اجتماعات اور ٹیبل ٹاک ، ٹی وی شو اور اندرونی بیٹھک میں گفتگو کو سمجھ نہیں رہیں۔ کیا عمران جلسوں والی زبان اور جوش ٹی وی شو ، سیاسی مباحثوں اور براہ راست پوچھے جانے والے سوالوں میں بھی کرتا ہے ، یقینا نہیں کیونکہ وہاں آپ کے سامعین اور ہوتے ہیں اور وہ فورم بالکل مختلف ہوتا ہے وہاں بلند آہنگ ، نعرے اور خاص طرز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دلائل اور منطق جلسوں میں بھی دی جاتی ہے مگر آپ جیسے لوگ بھی صرف تنقید ہی پر غور کرتے ہیں۔ عمران نے سیکڑوں بار یہ دہرایا ہے کہ ہمارا نصب العین ہے۔

ایاک نعبدو و ایاک نستعین

کتنی دفعہ اس کا ذکر کیا ہے مخالفین نے یا آپ نے خود بھی کتنی بار سوچا ہے کہ اتنی بار اس چیز کو عمران نے اتنی بار کیوں دہرایا ہے، کیا اسی آیت کو بار بار دہرا کر وہ اپنا نصب العین نہیں بتا رہا مگر اس پر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے افسوس کے ساتھ نہ حامی نہ مخالفین۔

اس کے علاوہ سیکڑوں بار وہ یہ بھی کہہ دہراتا ہے کہ ہماری سیاست "منتخب" ہونے والے سیاستدانوں کے گرد نہیں بلکہ ہم تبدیلی اور نوجوانوں کے سر پر سیاست کر رہے ہیں اور ہر تقریر میں یہ بیان ہوتا ہے اور یہ بھی تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے۔

پٹواریوں اور تھانہ کلچر کو بدل کر اختیارات بنیادی سطح تک منتقل کر دیں گے، یہ سب سے اہم اور انقلابی پیغام ہے اور کامیاب نظام جتنے بھی ہیں ان میں اس چیز کا کلیدی کردار ہے۔ آپ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور نہ باقی مخالفین بھی اس پر کبھی بحث کرتے نظر آئے ہیں۔

سچ بولنے اور اپنے حامیوں سے اس کا وعدہ لینے کو بار بار دہرایا ہے عمران نے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ۔ اب یہ ایک بہترین روایت ہے جس پر مثبت تنقید ہونی چاہیے تھی مگر اسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا۔

امریکہ کی غلامی سے قوم کو نکالوں گا ، اسے بار بار دہرایا ہے عمران نے اور ایک بنیادی نعرے کے طور پر دیا ہے مگر اس پر بھی نہ تنقید نہ بحث ہوتی ہے۔

تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات صرف تحریک انصاف نے کی ہے اور کئی بار اسے دہرایا ہے ، کسی اور پارٹی نے تعلیم کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو پانچ گنا تک بڑھانے کا بار بار ذکر ہوتا ہے جبکہ باقی پارٹیاں بلٹ ٹرین چلانے ، سڑکیں بنانے اور ترقیاتی کام کروانے کی باتیں ہی کر رہی ہیں۔




روایتی ، منفی ہتھکنڈے تو تب ہوتے جب مخالفین کی طرح ان پر ذاتی تنقید شروع کر دی جائے ۔ اب مخالفین کی کمیاں اور برائیاں گنوانا تو ایک لازمی امر ہے اور اس کے بغیر کہیں بھی سیاست نہیں ہو سکتی ، ظاہر ہے آپ دوسرے کی کمیاں اجاگر کرکے ہی اپنی خوبیاں بیان کر سکتے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ اس صدی میں سب سے بہتر طور پر باراک اوباما نے لگایا تھا اور اگر آپ اوباما کی تقاریر سنیں تو اس میں بش پر زبردست قسم کی تنقید ہوا کرتی تھیں اور ٹھیک تھی اور ایسی تنقید تھی کہ republican پارٹی کے امیدوار نے خود کو بش کے دور سے علیحدہ رکھا اور کہیں اس کا نام نہیں لیا، اتنا نام اچھالا گیا تھا بش کا اور اس کے دور کے مضمرات کو۔




فضل الرحمان کے بارے میں دوسرے صوبوں میں فرق نہیں پڑتا مگر خیبر پختونخواہ میں کافی پڑتا ہے اور وہاں لوگ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اب بھی عمران نے جواب میں کیا کہا ہے وہ دیکھ لیں اور جو فضل الرحمان نے کہا ہے وہ دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ کس نے کیسی تنقید کی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ، ان کے سیاسی قد کاٹھ اور تقاریر پر آپ کی کیا رائے ہے ؟

پارٹی کے اندر الیکشن کروانے کا انتہائی مشکل کام عمران نے کیا اور اگر ہم سمجھ سکیں تو یہ پاکستانی سیاست میں انتہائی روشن باب ہے اور اگر اس کام کو پذیرائی ملی تو سیاست کا نقشہ بدل جائے گا۔

تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے ملک کے 9 بڑے مسائل پر انتہائی جامع پالیسیاں دی ہیں جو کہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ کرپشن کا سدباب کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دی ہے اور واحد پارٹی ہے جس نے اس پر کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذوروں اور ماحول کے حوالے سے پالیسی دینے والی بھی پہلی پارٹی ہے۔

اب ان چیزوں کی ستائش یا حوالے پر لوگوں کی نظر نہیں پڑتی ، پڑتی ہے تو صرف خطاب اور تقریر پر۔ اگر کسی کو جانچنا صرف اس کی تقریر اور خطابات سے ہوتا ہے تو یقین جانیں کہ بہترین مقرر اور خطیب ہی دنیا نے بہترین لوگ کہلاتے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اچھی تقریر اور اچھے عمل میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔
بہت شکریہ محب علوی۔ آپ نے خود تو تالا لگے دھاگے کے تالے کھول کر پیغام لکھ دیا تھا ۔ مجھے ساجد بھائی کے آنے اور سرکاری طور پر دھاگے کا تالا کھولنے کا انتظار کرنا پڑا۔ اسے کہتے ہیں ۔۔ 'خواص' اور 'عوام' میں فرق :jokingly: ۔

آپ کی پوسٹ کا تفصیلی جواب دینا چاہوں گی لیکن ابھی تھوڑی مصروفیت ہے۔ صرف ایک بات کہوں گی۔ میں نے عمران خان سمیت تمام جماعتوں کا منشور پڑھنے کی کوشش کی ہے خصوصاً تعلیمی پالیسی کے بارے میں۔ تحریکِ انصاف کی تعلیمی پالیسی کے salient پوائنٹس سننے میں تو کانوں کو بہت بھلے لگتے ہیں لیکن تفصیلاً دیکھا جائے تو میرے جیسے کم علم کو بھی بہت سی contradictions دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس پالیسی کے بنانے میں over-ambitious قسم کے لوگ بھی شامل تھے۔ تفصیلاً تبصرہ پہلی ہی فرصت میں ان شاءاللہ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم زرقا۔ کافی عرصے بعد آپ سے براہِ راست بات ہو رہی ہے۔ کیسی ہیں آپ؟
عمران خان کے طرزِ تقریر یا کہنا چاہئیے اندازِ گفتگو پر اعتراض اس لئے اٹھائے جاتے ہیں کہ ماشاءاللہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن سے آپ غلط الفاظ اور انداز کی توقع نہیں کرتے۔ میرا پوائنٹ صرف یہ ہے کہ عمران خان خود کو نوجوانوں کے لیڈر کہتے ہیں تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ جو لوگ خصوصاً نوجوان نسل اور بچے ان کو پسند کرتے ہیں وہ انہیں 'رول ماڈل' مانتے ہیں اور رول ماڈل کو بہت سی ایسی باتوں پر بھی حوصلے اور تحمل کے مظاہرے کی ضرورت ہوتی ہے جن پر عام لوگ بھڑک اٹھتے ہیں یا خود پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر عمران خان بھی شہباز شریف یا کسی بھی ایکس وائے زیڈ کی پیروی کرتے ہوئے وہی انداز اپنا لیں گے تو ان میں مختلف کیا رہے گا؟
وعلیکم السلام فرحت الحمد اللہ ہر طرح سے خیریت ہے
عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ اُسے معاشرے کے ہر طبقے سے ووٹ درکار ہیں۔ ہجوم کا مائنڈ سیٹ کچھ اور ہوتا ہے اور گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگوں کا کچھ اور
کچھ روز پہلے چیمبر آف کامرس والوں نے ایک استقبالیہ پی سی لاہور میں دیا تھا۔ وہاں تو عمران خان نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ سالہا سال سے ٹاک شوز میں ہم اُسے سُنتے آئے ہیں وہ ہمیشہ بدعنوانی کی نشاندہی کرتا رہا مگر شائستہ پیرائے میں۔ اب وہ ہجوم کی نفسیات کے مطابق بات کر رہا ہے۔ معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے۔ ہجوم کو ایجوکیٹ نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی خواہشات کے مطابق لب و لہجہ اختیار کئے بغیر اُن سے ووٹ لینا بھی مشکل ہے۔ اگر آسان ہوتا تو پاکستان میں جماعت اسلامی حکمران ہوتی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جماعتِ اسلامی کے پاس بہترین مقرر ہیں۔ جو عوامی لب و لہجہ اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ تو کیا عمران خان کے طرزِ تقریر سے نالاں لوگ جماعت کو ووٹ دیں گے؟؟
عمران خان محب وطن ہے مخلص ہے ایماندار ہے ۔ ان خصوصیات پر تو کسی کو اعتراض نہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو ہم اپنے حکمرانوں میں چاہتے ہیں۔ عمران خان معاشرے کے ہر طبقے کو ساتھ لے چلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔
انتخابی جلسوں کی بیان بازی ایک عارضی عمل ہے ۔ مگر اسے سب سے زیادہ اہم گردانا جا رہا ہے
زرقا ایک بات بتائیے۔ جب کسی بھی اہم پوسٹ کے لئے اہل امیدواروں کو دیکھا جاتا ہے تو اس میں کیا صرف ان کی ایک یا دو خوبیاں ہی دیکھی جاتی ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ امیدواران کے اٹھنے بیٹھنے سے لیکر ایک ایک انداز کو اس کی شخصیت کے الجھاؤ سلجھاؤ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے؟
بیان بازی چاہے عارضی ہو۔۔یہ انسانی شخصیت کے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ یہاں بیان بازی کو سب سے اہم تو نہیں لیکن انتہائی اہم ضرور مانا جائے گا۔
بہرحال اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ میں جماعت اسلامی کی حامی نہ سہی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر کبھی موازنہ کرنا پڑے تو میں ان کے بہت سے لوگوں کو طرزِ گفتگو کی بنا پر عمران خان سے زیادہ فہم اور تدبر والا مانوں گی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وعلیکم السلام فرحت الحمد اللہ ہر طرح سے خیریت ہے
عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ اُسے معاشرے کے ہر طبقے سے ووٹ درکار ہیں۔ ہجوم کا مائنڈ سیٹ کچھ اور ہوتا ہے اور گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگوں کا کچھ اور
کچھ روز پہلے چیمبر آف کامرس والوں نے ایک استقبالیہ پی سی لاہور میں دیا تھا۔ وہاں تو عمران خان نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ سالہا سال سے ٹاک شوز میں ہم اُسے سُنتے آئے ہیں وہ ہمیشہ بدعنوانی کی نشاندہی کرتا رہا مگر شائستہ پیرائے میں۔ اب وہ ہجوم کی نفسیات کے مطابق بات کر رہا ہے۔ معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے۔ ہجوم کو ایجوکیٹ نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی خواہشات کے مطابق لب و لہجہ اختیار کئے بغیر اُن سے ووٹ لینا بھی مشکل ہے۔ اگر آسان ہوتا تو پاکستان میں جماعت اسلامی حکمران ہوتی
یقیناً ایسا ہی ہو گا لیکن یہ بھی دیکھیں کہ وہ جس ووٹ بنک پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں وہ کسی حد تک تعلیم یافتہ ہیں۔ جہاں تعلیم کی کمی ہے وہاں سے تو ویسے بھی انہوں نے زیادہ تر انہی لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں جن کی عرصہ دراز سے اپنے علاقوں میں monopoly ہے۔ ایسے ووٹرز کو کنوینس کرنے کے چکر میں بہت سے متوقع حامیوں میں کمی کی طرف پارٹی کی توجہ کیوں نہیں جا رہی؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں جو کہنا چاہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ بھٹو اب تک پاکستان میں بہترین مقرر رہے ہیں اور جیسی عمدہ تقاریر بھٹو نے کی ہیں اب تک عوامی سطح پر کوئی بھی سیاستدان اس پائے تک نہیں پہنچ سکا ہے مگر جوش خطابت میں کبھی کبھی وہ بھی غلطیاں کر جاتے تھے حالانکہ تقریر کے فن کا ملکہ ان میں بہت زیادہ تھا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی شخص کو کیا تقریر سے پہچانتے ہیں ، اس کے طرز گفتگو سے یا اس کے طرز عمل سے۔

اگر آپ کسی شخص کو تقریر اور گفتگو سے پہچان رہے ہیں بالخصوص کسی سیاستدان کو تو پھر میری نظر میں سخت غلطی کر رہے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی پہلی تربیت تقریر اور گفتگو میں مہارت پر ہی مبنی ہوتی ہے ، اعمال اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

میں یہی نکتہ نظر بہت سن رہا ہوں اور میں اس پر اس لیے بھی حیران ہوں کہ بہت سے لوگ صرف یہی دلیل دے رہے ہیں اور جو بنیادی تبدیلی اور دور رس کام کیے ہیں عمران نے اس سے صرف نظر کر رہے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے یعنی یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ جو اچھی تقریر کر سکتا ہے یا جس کی خطیبانہ صلاحیتیں اچھی ہیں وہی اچھا شخص ہے۔

عمران کو تقریر کا فن نہیں آتا ، یہ بات میں تو جانتا ہوں کیا اس پر تنقید کرنے والے اس سادہ نکتہ کو نہیں سمجھ پا رہے۔

میں نے صرف تقریر کی تو بات ہی نہیں کی۔ اور میرا پوائنٹ 'خطیبانہ صلاحیتوں' سے بھی اتنا نہیں جڑتا۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ چاہے جلسہ ہو یا ٹاک شو، عمران خان اکثر ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ عوامی جلسوں میں الزامی یا جواب عرض الزامی (یہ میری اختراع ہے کیونکہ مجھے اس وقت کوئی موزوں لفظ یاد نہیں آ رہا) تقریریں اور بیانات میں بھی یہی بات۔ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ ان کے حواس پر صرف مخالف پارٹیاں (یا مجھے صرف ایک پارٹی کہنا چاہئیے) سوار ہیں۔ آپ کی تقریر اور گفتگو شروع ہوئی تو ان کے ذکر سے اور ختم ہوئی تو بھی انہی کے ذکر سے۔ مجھے لیڈرشپ کی پڑھائی میں جو پڑھایا یا سکھایا اور دکھایا گیا، اس کی روشنی میں تو یہ ایک کنفیوژ ذہن کی نشانی ہے۔
عمران خان کے اچھے کاموں سے مراد ان کے فلاحی کام ہیں؟ جی بالکل اس سے کسی کو انکار نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک کپتان کے طور پر وہ کسی طرح کھیلا کرتے تھے کیونکہ میرے ذہن میں ان کے 1992 والے ورلڈ کپ کی ہلکی سی یاد موجود ہے کہ اس وقت ان چیزوں کا اتنا شعور نہیں تھا۔ بس یہ معلوم تھا کہ سارے گھر والے سحری سے لیکر شام تک تسبیح پکڑے ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے تھے اور بھائی، کزن وغیرہ نعروں پہ نعرے لگائے جاتے تھے:jokingly:۔ لیکن مجھے یہ بہت اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو کینسر ہاسپٹل بنانے کے لئے کیسے موبلائز کیا تھا۔ ہم نے بھی اپنے سکول میں جس طرح فنڈنگ اکھٹی کی تھی وہ عمران خان کی ہی تحریک کا حصہ تھی نا۔ اسی طرح آپ میانوالی کی نمل یونیورسٹی کا ذکر کرنا چاہیں گے تو یہ بھی میں خود کر دیتی ہوں۔ بہت اچھا پروجیکٹ ہے چاہے ایک سمسٹر کی فیس لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔:thinking2:
بہرحال میرا تجربہ اور مشاہدہ (جو کہ ضروری نہیں آپ یا بہت سے لوگوں کی نظر میں درست ہو) یہ بتاتا ہے کہ یہ کوئی فارمولہ نہیں ہے کہ ایک اچھا فلاحی ورکر ایک اچھا سیاست دان بھی ہو۔ سیاست ایک بالکل مختلف میدان ہے جہاں آپ کو جوش کے ساتھ ساتھ ہوش، جذبے کے ساتھ ساتھ تدبر، فہم اور حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان میں یقیناً یہ ساری خوبیاں موجود ہوں گی لیکن کم از کم گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی شخصیت کا تاثر ایسا ہی آ رہا ہے کہ وہ جوشیلے تو ہیں لیکن معلوم نہیں ضبط اور ٹھنڈے مزاج کو کہاں چُھپا کر بیٹھے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
زبیر مرزا ، آپ کی بات پر جو جواب بنتا ہے وہ میں اوپر لکھ چکا ہوں ۔ صرف ایک بات پھر دہرا رہا ہوں کہ طرز تقریر پر آپ کا اعتراض تو سمجھ میں آتا ہے مگر اندھی حمایت کا الزام لگانے اور پرستش کی امید کا الزام لگانے پر کیا میں بھی آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ یہ کیسا طرز عمل ہے جو بغیر تحقیق اور جانے بغیر الزام کے ساتھ ساتھ پیشن گوئیاں بھی کر رہا ہے۔

اگر تو آپ کسی تحریک انصاف کے حامی کی وجہ سے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ نہ رکھیں اور اگر کسی اصول یا نظریات کو پرکھ کر رکھ رہے ہیں تو کسی حمایتی کے عمل کے لیے آپ ذمہ دار نہیں ہیں ۔

ویسے تحریک انصاف وہ جماعت ہے جس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اس پر سخت ترین تنقید کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ حامی ہیں یا مخالفین ۔ :LOL:

ہارون رشید اور حسن نثار اس کی تازہ مثالیں ہیں جو تواتر سے تحریک انصاف کی حمایت میں لکھتے رہے اور اب الیکشن کے بالکل قریب آ کر ایسے کالم لکھ رہے ہیں جس سے سمجھ نہیں آتی کہ حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت۔
:shock: آپ حسن نثار کے کہے اور لکھے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟ :eyerolling:
 

ساجد

محفلین
کچھ روز پہلے چیمبر آف کامرس والوں نے ایک استقبالیہ پی سی لاہور میں دیا تھا۔ وہاں تو عمران خان نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ سالہا سال سے ٹاک شوز میں ہم اُسے سُنتے آئے ہیں وہ ہمیشہ بدعنوانی کی نشاندہی کرتا رہا مگر شائستہ پیرائے میں۔ اب وہ ہجوم کی نفسیات کے مطابق بات کر رہا ہے۔ معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے۔ ہجوم کو ایجوکیٹ نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی خواہشات کے مطابق لب و لہجہ اختیار کئے بغیر اُن سے ووٹ لینا بھی مشکل ہے۔ اگر آسان ہوتا تو پاکستان میں جماعت اسلامی حکمران ہوتی
یہ تو پھر روایتی سیاست ہو گئی نا "تبدیلی" اور "نیا پاکستان" کے نعرے کے متضاد:)
 
Top