محب علوی مجھے آپ سے اس دلیل کی امید نہیں تھی۔ کسی بھی ٹیم کو لیڈ کرنے کے لئے کپتان کی بنیادی خوبی دوسروں کے جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن اس میں ہوشمندی کو فراموش کر دینا اس کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ ہوتا ہے۔ عمران خان چاہے لکھی ہوئی تقریر نہ کریں لیکن جب وہ خود کو پڑھے لکھے یا نوجوان طبقے کا نمائندہ کہتے ہیں تو انہیں اس بات کو ضرور سامنے رکھنا چاہئیے کہ سننے والے ان کے بیان کو جوش یا نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل اور منطق کی بنیاد پر پرکھیں گے۔ میں ایک تعلیم یافتہ سیاست دان سے اس بات کی ہر گز توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح دوسروں پر بے جا اور کسی حد تک فضول تنقید کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا لیں گے۔
آپ شاید پھر جلسوں ، عوامی اجتماعات اور ٹیبل ٹاک ، ٹی وی شو اور اندرونی بیٹھک میں گفتگو کو سمجھ نہیں رہیں۔ کیا عمران جلسوں والی زبان اور جوش ٹی وی شو ، سیاسی مباحثوں اور براہ راست پوچھے جانے والے سوالوں میں بھی کرتا ہے ، یقینا نہیں کیونکہ وہاں آپ کے سامعین اور ہوتے ہیں اور وہ فورم بالکل مختلف ہوتا ہے وہاں بلند آہنگ ، نعرے اور خاص طرز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دلائل اور منطق جلسوں میں بھی دی جاتی ہے مگر آپ جیسے لوگ بھی صرف تنقید ہی پر غور کرتے ہیں۔ عمران نے سیکڑوں بار یہ دہرایا ہے کہ ہمارا نصب العین ہے۔
ایاک نعبدو و ایاک نستعین
کتنی دفعہ اس کا ذکر کیا ہے مخالفین نے یا آپ نے خود بھی کتنی بار سوچا ہے کہ اتنی بار اس چیز کو عمران نے اتنی بار کیوں دہرایا ہے، کیا اسی آیت کو بار بار دہرا کر وہ اپنا نصب العین نہیں بتا رہا مگر اس پر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے افسوس کے ساتھ نہ حامی نہ مخالفین۔
اس کے علاوہ سیکڑوں بار وہ یہ بھی کہہ دہراتا ہے کہ ہماری سیاست "منتخب" ہونے والے سیاستدانوں کے گرد نہیں بلکہ ہم تبدیلی اور نوجوانوں کے سر پر سیاست کر رہے ہیں اور ہر تقریر میں یہ بیان ہوتا ہے اور یہ بھی تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے۔
پٹواریوں اور تھانہ کلچر کو بدل کر اختیارات بنیادی سطح تک منتقل کر دیں گے، یہ سب سے اہم اور انقلابی پیغام ہے اور کامیاب نظام جتنے بھی ہیں ان میں اس چیز کا کلیدی کردار ہے۔ آپ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور نہ باقی مخالفین بھی اس پر کبھی بحث کرتے نظر آئے ہیں۔
سچ بولنے اور اپنے حامیوں سے اس کا وعدہ لینے کو بار بار دہرایا ہے عمران نے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ۔ اب یہ ایک بہترین روایت ہے جس پر مثبت تنقید ہونی چاہیے تھی مگر اسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا۔
امریکہ کی غلامی سے قوم کو نکالوں گا ، اسے بار بار دہرایا ہے عمران نے اور ایک بنیادی نعرے کے طور پر دیا ہے مگر اس پر بھی نہ تنقید نہ بحث ہوتی ہے۔
تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات صرف تحریک انصاف نے کی ہے اور کئی بار اسے دہرایا ہے ، کسی اور پارٹی نے تعلیم کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو پانچ گنا تک بڑھانے کا بار بار ذکر ہوتا ہے جبکہ باقی پارٹیاں بلٹ ٹرین چلانے ، سڑکیں بنانے اور ترقیاتی کام کروانے کی باتیں ہی کر رہی ہیں۔
یقیناً ایسا ہی ہو گا تو اگر ایک 'تبدیلی' کا نعرہ لگانے والا فرد بھی روایتی ، منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرے گا تو میں اس سے کیا توقع رکھوں کہ وہ منفی کو مثبت میں بدلنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔
روایتی ، منفی ہتھکنڈے تو تب ہوتے جب مخالفین کی طرح ان پر ذاتی تنقید شروع کر دی جائے ۔ اب مخالفین کی کمیاں اور برائیاں گنوانا تو ایک لازمی امر ہے اور اس کے بغیر کہیں بھی سیاست نہیں ہو سکتی ، ظاہر ہے آپ دوسرے کی کمیاں اجاگر کرکے ہی اپنی خوبیاں بیان کر سکتے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ اس صدی میں سب سے بہتر طور پر باراک اوباما نے لگایا تھا اور اگر آپ اوباما کی تقاریر سنیں تو اس میں بش پر زبردست قسم کی تنقید ہوا کرتی تھیں اور ٹھیک تھی اور ایسی تنقید تھی کہ republican پارٹی کے امیدوار نے خود کو بش کے دور سے علیحدہ رکھا اور کہیں اس کا نام نہیں لیا، اتنا نام اچھالا گیا تھا بش کا اور اس کے دور کے مضمرات کو۔
فضل الرحمان صاحب کی کریڈیبیلیٹی کو جتنا پاکستانی عوام اہمیت دیتی ہے سوائے ان کے آبائی علاقوں کے ، وہ سب پر واضح ہے۔ اگر وہ فتوے دے رہے ہیں تو میرے اور آپ کے سمیت کتنے لوگوں نے ان فتوؤں پر یقین کر لیا؟
اور جوابی حملے کرنا یا اپنا دفاع کرنا تو کسی حد تک مان لیا ضروری ہے لیکن کیا اس میں کوئی حد بھی لاگو ہوتی ہے؟
میں تو انتخابات کی گہماگہمی سے پہلے سے یہ دیکھتی آئی ہوں کہ عمران خان بیان دیں یا خطاب کریں، تھوڑی ہی دیر میں وہ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یا تو ہنسی نہیں رکتی یا سر پکڑ کر رونے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کسی کو مختلف سمجھا بھی تو غلط سمجھا۔
فضل الرحمان کے بارے میں دوسرے صوبوں میں فرق نہیں پڑتا مگر خیبر پختونخواہ میں کافی پڑتا ہے اور وہاں لوگ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اب بھی عمران نے جواب میں کیا کہا ہے وہ دیکھ لیں اور جو فضل الرحمان نے کہا ہے وہ دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ کس نے کیسی تنقید کی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ، ان کے سیاسی قد کاٹھ اور تقاریر پر آپ کی کیا رائے ہے ؟
پارٹی کے اندر الیکشن کروانے کا انتہائی مشکل کام عمران نے کیا اور اگر ہم سمجھ سکیں تو یہ پاکستانی سیاست میں انتہائی روشن باب ہے اور اگر اس کام کو پذیرائی ملی تو سیاست کا نقشہ بدل جائے گا۔
تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے ملک کے 9 بڑے مسائل پر انتہائی جامع پالیسیاں دی ہیں جو کہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ کرپشن کا سدباب کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دی ہے اور واحد پارٹی ہے جس نے اس پر کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذوروں اور ماحول کے حوالے سے پالیسی دینے والی بھی پہلی پارٹی ہے۔
اب ان چیزوں کی ستائش یا حوالے پر لوگوں کی نظر نہیں پڑتی ، پڑتی ہے تو صرف خطاب اور تقریر پر۔ اگر کسی کو جانچنا صرف اس کی تقریر اور خطابات سے ہوتا ہے تو یقین جانیں کہ بہترین مقرر اور خطیب ہی دنیا نے بہترین لوگ کہلاتے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اچھی تقریر اور اچھے عمل میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔