محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو ‘فالو’ کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام ‘بحرِ مُتَدارِک’ ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں ‘مفاعیلن’ چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن ‘فاعِلُن’ ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو ‘تسبیغ’ کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ ‘مقطع’ بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا – 212 – فاعلن
جا نِ رح – 212- فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف ‘کو’ لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز – 212 – فاعلن
مے ہِ دا – 212 – فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر ‘مے’ یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا – 212 – فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم – 212 – فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا – 212 – فاعلن
رے حَ رَم – 212 – فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا – 212 – فاعلن
رے شِ فا – 212 – فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع – 212 – فاعلن
بہ جُ کی – 212 – فاعلن
ان بَ ؤ – 212 – فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا – 212 – فاعلن
فَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن – 212 – فاعلن
جس کِ ہر – 212 – فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح – 212 – فاعلن
یے خُ دا – 212 – فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے – 212 – فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک – 212 – فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با – 212 – فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب – 212 – فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے – 212 – فاعلن
اُس کِ نا – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو – 212 – فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار – 212 – فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا – 212 – فاعلن
اس شِ کم – 212 – فاعلن
کی قَ نا – 212 – فاعلن
عَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ – 212 – فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را – 212 – فاعلن
طی یَ بہ – 212 – فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ – 212 – فاعلن
جا نِ اح – 212 – فاعلن
مد کِ را – 212 – فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
یہ پورا مضمون سید شہزاد ناصر صاحب نے یہاں سے لیا ہے۔
 
اَے (تخاطب) اس میں یائے لین ہے، مجہول نہیں۔
اَے، فَے، ہَے، نَے، رَے، شَے، مَے، طَے ۔۔ لبَیک، علَیک، کَیف، اَین، وَیسا، جَیسا، کَیسا، پَیسہ
و علیٰ ھٰذا القیاس۔
یائے مجہول: ریل پیل، تیل، سے، ارے، دے، لے، دیکھ، ایک؛ وغیرہ
یائے معروف: لی، دی، کی، سی، مِیم، نِیم، کھِیر، چِیز، تِیر؛ وغیرہ
نوٹ: کچھ لوگ طَے، مَے، شَے کے ہجے ’’طئے، مئے، شئے‘‘ لکھ دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔
 
قطعے کے بارے میں کچھ مفید باتیں:
قطعہ بنیادی طور پر ابیات ہی کا مجموعہ ہے۔ غزل میں ایک شعر میں ایک مضمون باندھنے کا تقاضا بہت معروف ہے۔ ایک مضمون ایسا آ گیا کہ ایک شعر میں پورا بیان نہیں ہوتا تو اُس کو دوسرے شعر میں لے جائیں، تیسرے میں لے جائیں۔ اساتذہ کے ہاں غزلوں کے اندر قطعہ بند اشعار ملتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ قطعہ بذاتِ خود ایک صنفِ شعر قرار پایا۔
بات گویا یوں بنی کہ:
قطعہ اپنی ہیئت میں غزل جیسا ہے (وزن کی پابندی ہے، قافیہ کی پابندی ہے، اور اگر آپ نے رویف اختیار کی ہے تو اُس کی بھی پابندی ہے)۔ قطعہ چونکہ بنا ہی اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مضمون سمونا مشکل لگا تھا، سو قطعے میں وحدتِ مضمون لازمی قرار پاتی ہے۔ ایک قطعے میں ایک سے زیادہ مضامین لانا مستحسن نہیں ہے۔ کہنا ہو تو ایک اور قطعہ کہہ لیجئے۔
 
شعر کے ”سُپرد“ ہوجاؤ۔
ایک بات دل کی گہرائیوں سے کہنا چاہوں گا ۔ وہ یہ کہ :
کوشش کرو کہ شعر کو اپنے تابع کرنے کی خواہش پر شعر کے ’’سُپرد‘‘ ہو جاؤ کو فوقیت دو۔
یوں شعر میں داخلی آہنگ شامل ہوگا اور ردیف و قوافی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے بچ سکو گے۔
وضاحت کیے دیتا ہوں۔ شعر کو اپنے تابع کرنے سے مراد یہ کہ کسبی (مشق کرتے ہوئے) شعر سے گریز کرو۔یعنی ایک بحر چن لی اس میں ردیف بھی چن لی پھر قوافی طے کر لیے اور مشق کی بنیاد پر مضامین باندھنا ۔
شعر کے سپرد ہونے سے مراد یہ ہے کہ دیگر انسانی زندگی کے امور میں مبتلا رہتے ہوئے بھی اندر ہی اندر شعر کہنے کی کوشش کرو یوں ایک فضا پہلے اندر ترویج پائے گی اور ایک لمحہ ہوگا کہ اظہار کا چشمہ جاری ہوجائے گا، واضح رہے کہ ابتدا میں ایسا جلد نہیں ہوتا مگر بعد ازاں آپ اس سرشاری میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مزاج، ماحول اور مطالعہ یہ تین ’’م‘‘ آہستہ آہستہ آپ کے شعر میں الفاظ کے فطری بہاؤ میں چناؤ میں مدد کریں گے ۔ یعنی لفظ آپ کو اختیار نہیں کرنے پڑیں گے بلکہ لفظ خود آپ کے اظہار میں آنے کے لیے بےتاب ہوں گے۔۔ یہی راستہ اسلوب یعنی ’’ڈکشن‘‘ کی طرف بھی لے جائے گا۔ الخ
 
شترگربہ:
میرے خیال میں ایسا کرنا درست نہیں ہے اور عیوب سخن میں سے ہے، اس کو شتر گربہ کہا جاتا ہے یعنی اونٹ اور بلی کو اکھٹا کر دینا، شعر میں خطاب کا قرینہ ہونا چاہیے، ایک شعر میں ایک جگہ اگر آپ سے مخاطب کر رہے ہیں تو اسی شعر میں دوسری جگہ تم یا تو سے مخاطب کرنا شتر گربہ ہوگا، اسی طرح اگر تم ہے تو تُو یا آپ بھی شتر گربہ ہوگا۔

یہ تو تھی اصولی بات، عملی طور پر اساتذہ کے ہاں بھی شتر گربہ کی مثالیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اتنا بڑا عیب نہیں ہے، اور اساتذہ بھی ضرورتِ شعری کے تحت اس کو استعمال کرتے رہے ہیں۔
سو دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ضرور ہے، جس سے اجتناب اُولیٰ ہے :)

وارث بھائی کی بات سے کلی اتفاق کرتا ہوں۔ شتر گربہ بیسویں صدی سے پہلے کے یعنی متاخرین کے زمانے میں بہت پایا جاتا تھا، پھر حسرت موہانی کے دور اور بعد کے ادوار میں اس کو مکمل طور پر متروک جانا گیا۔ مصحفی، جرات وغیرہ کے کلام میں اس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی ہیں۔ پھر بعد کے اساتذہ مثلاً داغ دہلوی اور اس زمانے کے دیگر شعراء نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ تو اب مکروہ تحریمی ہی جانا جاتا ہے۔
 
وتد مجموع: ہجائے کوتاہ + ہجائے بلند جیسے: قلم ، سفر ، اثر ، ادا ، دعا ، عدو ، گھڑی۔
وتد مفروق: ہجائے بلند + ہجائے کوتاہ جیسے: آم ، کار ، دور ، پیر۔
وہ الفاظ جو اصلاً وتد مفروق ہیں، مگر انھیں وتد مجموع کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے:
وضع، قطع، طمع، طرح، صبح، وجہ، اور ایسے بہت سے الفاظ کو اردو شاعری میں وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں طرح لائے ہیں۔
 
وتد مجموع: ہجائے کوتاہ + ہجائے بلند جیسے: قلم ، سفر ، اثر ، ادا ، دعا ، عدو ، گھڑی۔​
وتد مفروق: ہجائے بلند + ہجائے کوتاہ جیسے: آم ، کار ، دور ، پیر۔​
وہ الفاظ جو وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں ہیں:​
؟؟؟؟؟؟
’’وہ الفاظ جو وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں ہیں‘‘ ۔۔۔ یوں ہم کسی غلط سمت میں بھی جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہی الفاظ جو میں نے نقل کئے تھے: صبح، شمع، طمع، طرح وغیرہ؛ وہ اصولی طور پر وتد مفروق ہیں اور ہم اُن کو وتد مجموع قرار نہیں دے سکتے، کہ ایسا خلافِ ضابطہ ہو گا۔ اُن کو کئیوں نے وتد مجموع باندھا ہے، چلئے باندھ لیا، لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان الفاظ کی حیثیت ہی بدل دیں۔
بہت سارے مقامات ایسے بھی ہیں کہ معانی ہی بدل جاتے ہیں۔
ایک مثال: غزل : غ + زل (وتد مجموع ہے) یہی شاعری والی غزل؛ اور غزل : غز + ل (وتد مفروق ہے) سوت کی اٹی۔
لہٰذا، قاعدہ اور اصول اپنی جگہ قائم رہے گا، غلط العام، غلط العوام، اجازت، اختیار، تصرف، رعایت وغیرہ اپنی جگہ۔

محمد اسامہ سَرسَری ، محمد وارث ، مزمل شیخ بسمل ، شمشاد صاحبان۔
 

محمد وارث

لائبریرین
؟؟؟؟؟؟
’’وہ الفاظ جو وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں ہیں‘‘ ۔۔۔ یوں ہم کسی غلط سمت میں بھی جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہی الفاظ جو میں نے نقل کئے تھے: صبح، شمع، طمع، طرح وغیرہ؛ وہ اصولی طور پر وتد مفروق ہیں اور ہم اُن کو وتد مجموع قرار نہیں دے سکتے، کہ ایسا خلافِ ضابطہ ہو گا۔ اُن کو کئیوں نے وتد مجموع باندھا ہے، چلئے باندھ لیا، لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان الفاظ کی حیثیت ہی بدل دیں۔
بہت سارے مقامات ایسے بھی ہیں کہ معانی ہی بدل جاتے ہیں۔
ایک مثال: غزل : غ + زل (وتد مجموع ہے) یہی شاعری والی غزل؛ اور غزل : غز + ل (وتد مفروق ہے) سوت کی اٹی۔
لہٰذا، قاعدہ اور اصول اپنی جگہ قائم رہے گا، غلط العام، غلط العوام، اجازت، اختیار، تصرف، رعایت وغیرہ اپنی جگہ۔

محمد اسامہ سَرسَری ، محمد وارث ، مزمل شیخ بسمل ، شمشاد صاحبان۔

آسی صاحب آپ نے اسامہ صاحب کی جس تحریر کا اقتباس لیا تھا اس میں اسامہ صاحب کی خواہش پر حسبِ منشا تدوین کر دی گئی ہے۔
 
مقطع میں آ پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اشعار غالباً ناصر کاظمی کے ہیں:

تمہیں ملا ہے جو کردار ، وہ نبھاتے رہو​
پہاڑ ہو تو ہمیں راستہ دیا نہ کرو​
تمام شہر کو ہم پیچھے چھوڑ سکتے ہیں​
ہمارے ساتھ اگر تم مقابلہ نہ کرو​
تمہارے سینے میں پتھر کا دل سہی ناصر​
یہ بزمِ یار ہے ، باتیں تو شاعرانہ کرو​

مقطع میں قافیہ کے مزاج شناس کیا فرماتے ہیں؟

جناب الف عین ، جناب مزمل شیخ بسمل ، جناب محمد وارث ، جناب محمد احمد، جناب التباس ، جناب محب علوی ، جناب منیر انور ، جناب فاتح اور دیگر اہلِ کرم۔
 
مقطع میں آ پڑی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

یہ اشعار غالباً ناصر کاظمی کے ہیں:

تمہیں ملا ہے جو کردار ، وہ نبھاتے رہو​
پہاڑ ہو تو ہمیں راستہ دیا نہ کرو​
تمام شہر کو ہم پیچھے چھوڑ سکتے ہیں​
ہمارے ساتھ اگر تم مقابلہ نہ کرو​
تمہارے سینے میں پتھر کا دل سہی ناصر​
یہ بزمِ یار ہے ، باتیں تو شاعرانہ کرو​

مقطع میں قافیہ کے مزاج شناس کیا فرماتے ہیں؟

جناب الف عین ، جناب مزمل شیخ بسمل ، جناب محمد وارث ، جناب محمد احمد، جناب التباس ، جناب محب علوی ، جناب منیر انور ، جناب فاتح اور دیگر اہلِ کرم۔
پہلے اپنی بات:
اصولِ قافیہ یعنی علمِ قافیہ پر لکھی گئی کسی بھی مستند کتاب کو اٹھا لیجئے "مہا راجہ سر کشن پرشاد بہادر" کی "مخزن القوافی" سے لیکر نجم الغنی رامپوری کی "بحر الفصاحت" تک سب کی سب کتابیں پڑھ کر، سمجھ کر اور غور کرکے بھی کوئی اس قافیہ کو درست ثابت نہیں کر سکتا۔ کچھ ثابت کر سکتا ہے تو وہ یہ کہ یہ عیوب قافیہ میں سے ایک عیب ہے جسے اصطلاح میں "معمولِ ترکیبی" یا "معمولِ تحلیلی" کہتے ہیں۔ گویا یہ قافیہ غلط ہے۔ :)

اب رواج کی بات:
اصول کی بات تو اوپر کر چکا ہوں۔ مگر اب مسئلہ یہاں یہ ہے کہ یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ قافیہ غلط ہے۔ :) وجہ اس کی یہ ہے کہ اساتذہ کے کلام میں یہ عیب اکثر پایا جاتا رہا ہے۔ اس لئے بعد کے شعرا نے اس عیب کو اپنی کم فہمی کی بنا پر یا اپنی آسانی کی بنیاد پر اسے شعر کا حسن قرار دے دیا ہے۔ اساتذہ میں دہلی والوں کے یہاں عموماً اور لکھنو والوں کے یہاں خصوصاً اس عیب کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔ پوری پوری غزلوں میں جگہ جگہ 4، 5 قوافی معمولِ ترکیبی کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی طرح غالب کا شعر:
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کہ دل دلستاں روانہ ہوا
جبکہ مطلع:
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

یہاں اول الذکر شعر میں معمول تحلیلی واقع ہوتا ہے۔
تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ رواج میں یہ بات بہت عام ہے اس لئے اصول قافیہ اس عیب میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ اصول ویسا ہی ہے جیسے "عیبِ تنافر" ہے۔ گو کہ عیب ہے مگر اس لئے خاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے کہ اساتذہ کے کلام میں بہت عام ہے۔ :)
خیر!!! خدا بچائے ان عروضیوں سے۔ :cool:
 
ضرب المثل اشعار:
ضرب المثل اشعار یعنی ایسے اشعار جنکی شہرت ایسی بڑھی کہ مثال کے لئے استعمال ہونے لگے:
در پے ہے عیب جُو ترے، حاتم تو غم نہ کر۔۔۔ دشمن ہے عیب جُو تو خدا عیب پوش ہے شاہ۔۔۔ حاتم
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں۔۔۔ اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے۔۔۔ سودا
جو کہ ظالم ہو وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں۔۔۔ سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھو شمشیر کا۔۔۔ سودا
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن۔۔۔ رات کٹتی نظر نہیں آتی۔۔۔ سید محمد اثر
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب۔۔۔ اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا۔۔۔ میر تقی میر
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر۔۔۔ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔۔۔ میر تقی میر
میرے سنگ مزار پر فرہاد۔۔۔ رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد۔۔۔ میر تقی میر
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں۔۔۔ عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے۔۔۔ میر تقی میر
بہت کچھ ہے کرو میر بس۔۔۔ کہ اللہ بس اور باقی ہوس۔۔۔ میر تقی میر
مر گیا کوہ کن اسی غم میں۔۔۔ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے۔۔۔ میر تقی میر
یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا۔۔۔ یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی۔۔۔ مہتاب رائے تاباں
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا قائم چاند پوری
کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند ۔۔۔جو گنہ کیجیے ثواب ہے آج۔۔۔ میر سوز
ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا۔۔۔ یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا۔۔۔ نظیر اکبر آبادی
پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا۔۔۔ کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر۔۔۔ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔۔۔ نظیر اکبر آبادی
ٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے۔۔۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔ فدوی عظیم آبادی
رکھ نہ آنسو سے وصل کی امید۔۔۔ کھاری پانی سے دال گلتی نہیں۔۔۔ قدرت اللہ قدرت
بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا۔۔۔ پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے۔۔۔ مصحفی
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائ سن کی سی۔۔۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔۔۔ انشا
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا۔۔۔ جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر۔۔۔ شاہ نصیر
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے۔۔۔ میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا۔۔۔ آتش
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب۔۔۔زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا۔۔۔ آتش
مشاق درد عشق جگر بھی ہے، دل بھی ہے۔۔۔ کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ۔۔۔ آتش
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن۔۔۔ کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر۔۔۔ ذوق
اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں۔۔۔ اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر۔۔۔ خواجہ وزیر
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل۔۔۔ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔۔۔ غالب
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے۔۔۔ ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے۔۔۔ غالب
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے۔۔۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے۔۔۔ غالب
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد۔۔۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔۔۔ غالب
گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں۔۔۔ کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی۔۔۔ غالب
دام و در اپنے پاس کہاں۔۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔۔۔ غالب
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں۔۔۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔۔۔ مومن
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے۔۔۔ زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے۔۔۔ مومن
لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار۔۔۔ خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو۔۔۔ میر انیس
نسیمِ دہلوی، ہم موجد باب فصاحت ہیں۔۔۔ کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں۔۔۔ اصغر علی خاں فہیم
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی۔۔۔ میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے۔۔۔ شیفتہ
ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ۔۔۔ پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے۔۔۔ شیفتہ
دینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہےنظام۔۔۔ منہ پھیر کر اُدھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ۔۔۔ نظام رام پوری
وہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف۔۔۔ ٹہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا۔۔۔ داغ
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ داغ
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں۔۔۔ یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں۔۔۔ ظہیر الدین ظہیر
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو۔۔۔ راست گوئی میں ہے رسوائی بہت۔۔۔ حالی
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار۔۔۔ جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے۔۔۔ شاد عظیم آبادی
دیکھ آؤ مریض فرقت کو۔۔۔ رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے۔۔۔ حسن بریلوی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں۔۔۔مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا۔۔۔ مضطر خیر آبادی
افسوس، بے شمار سخن ہائے گفتنی۔۔۔ خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے۔۔۔ آزاد انصاری
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے۔۔۔ بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے۔۔۔ حسرت موہانی
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں۔۔۔ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔۔۔ اقبال
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے۔۔۔ گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا۔۔۔ اقبال
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف۔۔۔ ورنہ میں بھی جانتا ہوں کہ عافیت ساحل میں ہے۔۔۔ وحشت کلکتوی
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن۔۔۔ بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا۔۔۔ عزیز لکھنوی
بڑی احتیاط طلب ہے وہ۔ جو شراب ساغر دل میں ہے۔۔۔جو چھلک گئی تو چھلک گئی۔ جو بھری رہی تو بھری رہی۔۔۔ بینظیر شاہ
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا۔۔۔ وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا۔۔۔ عزیز لکھنوی
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا۔۔۔ پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔ مہاراج بہادر برق
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی۔۔۔اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی۔۔۔ عزیز الحسن مجذوب
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔۔۔ یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں۔۔۔ فراق گو رکھپوری
داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ۔۔۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔۔۔ محمد دین تاثیر
امید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت۔۔۔کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے۔۔۔ چراغ حسن حسرت
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں۔۔۔ جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد۔۔۔ کرار نوری
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے۔۔۔ گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے۔۔۔ عزیز حامد مدنی
ایک محبت کافی ہے۔۔۔ باقی عمر اضافی ہے۔۔۔ محبوب خزاں
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے۔۔۔ مرے تھےجن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے۔۔۔ آتش
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی۔۔۔ جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی۔۔۔
 
روزنامہ جنگ کا ایک قطعہ کچھ کچھ یاد ہے
ڈال تو بھی گلے میں کوئی سیاسی ڈھول
کھول نذیرا تو بھی کوئی جادوئی پٹارا کھول
راجہ جی موتی برسایں رول فقیرا رول
بول وزیرا کرسی کی جے بول وزیرا کرسی کی جے بول
کچھ یوں ہی یاد ہے ممکن ہے کہ اس میں مجھ سے اغلاط ہو گئی ہوں مگر قطعے کا مضمون یہ ہی تھا اور میرے خیال میں روزنامے میں ہر روز ایک قطعہ لکھنا بہت مشکل کام ہے اور یہ کام کوئی استاد شاعر ہی کر سکتا ہے
 
ایک اقتباس حاضر ہے
۔( علمِ عروض )۔
علمِ عروض شعر کے وزن کی موزونیت کی جان پہچان کے لیئے وجود میں آیا ۔ اور اس کے ذریعہ وزن میں کسی خلل کی شناخت
ہوسکتی ہے ۔ اس علم کے اول موجد خلیل ابن احمد الفراھیدی کہلائے جن کی کتاب کا نام(العروض ) ہے جو ۱۵ بحروں پر
مشتمل ہے لیکن ان کے شاگرد اخفش نے ایک اور بحر کا اضافہ کیا جس کا نام ’’ خبب’’ رکھا جو ‘‘متدارک‘‘ کہلاتی ہے
خلیل ابن الفراھیدی کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کا نام ،خلیل ابن احمد الفراھیدی الازدی ہے جو عمان میں ۱۰۰ ھجری =
۷۱۸ ء میں پیدا ہوے اور ان کا انتقال ۱۷۵ ھجری = ۷۹۱ ء میں ہوا
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
۔۔(شعر کا مفہوم )۔۔
وہ منظوم کلام جس میں عام طور پر عمودِ کلام یعنی وزن و قافیہ ہو ورنہ وہ نثر کہلائے گا جس کو منتخب حسین الفاظ
کی صورت میں آج کل نثری نظم کہا جارہا ہے جس کی اس تعریف سے اکثر دانشوروں کو اختلاف ہے البتہ آزاد نظم کو
عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے جس میں وزن تو ہوتا ہے لیکن کسی مصرع میں مکمل وزن کسی میں وزن کے ایک جزو کے اضافہ کے ساتھ یا کمی کے ساتھ
۔۔۔ ( ارکان یا تفاعیل )۔۔۔
ارکان یا تفاعیل کی تعریف یہ ہے کہ وہ اسباب اور اوتاد کے مجموعے ہوتے ہیں ۰ سبب اس کو کہتے ہیں جو ایک متحرک حرف
اور ایک ساکن سے بنتا ہے جیسے فا ، لن ، تن ، مس ، تف ، اور وتد وہ ہیں جو عام ظور پر دو یا دو سے زیادہ متحرک اور
ایک ساکن حرف سے بنتا ہے جیسے عِلا ، عِلن ، فعِلن ، متَفا وغیرہ
جب شعر کی صوتی تحلیل یا تقطیع کی جاتی ہے تو حرکات اور سکنات کے مجموعات کا تقابل لفظ اور رکن سے کیا جاتا ہے
جس کو وزن کہتے ہیں ۰

اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۵۵۲ اور ۶۵۲ پر خاص اور عام زحافوں کا ذکر ہے جو ترتیب وا ر ۴ اور
۱۱ ہیں یعنی جملہ ۱۵ ۰ اس کتاب کی مندچۂ بالا عبارات پڑھنے کے بعد اس کے ذمہّ دار افراد
کی اور مجھ جیسے نقل نویس کی اہمیت پر اعتماد کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۰
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کتابِ آہنگ اور عروض
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔
اس کے صفحۂ نمبر ۱۹۵ پر لکھا ہے :
۱۵ ۔ کامل مربّع مرفّل ( متفاعلن متفاعلاتن ۔ دو بار ) ۰
میں بھی اس سے متّفق ہوں کہ ترفیل کی وجہ سے متفاعلن سے متفاعلاتن صحیح ہے َ ۰
جب ۱۵ زحاف میں ترفیل کا کوئی ذکر نہیں ہے تو پھر یہ ‘‘ترفیل ‘‘ جس سے بحر کے ارکان
پر اثر پڑتا ہے ؟
اسی کتاب کے صفحۂ نمبر ۱۰ اور ۱۱ پر یہ پڑھیئے :
‘‘ اگر آپ سے ہم یہ کہیں کہ سب زحافوں کی مجموعی تعداد اڑتالیس (۴۸ ) ہے تو آپ میں
سے ،،،،،، ( وغیرہ ) ۰
مندرجہ‘ بالا سے یہ انکشاف ہورہا ہے کہ زحافوں کو ۱۵ تک محدود سمجھنا بھی ہمارے علم کا
نقص ہے ۰
صفحۂ نمبر ۵۳ پر عنوان ہے ‘‘ عروض اور ضرب کے لیئے مخصوص زحاف ‘‘۰ یہاں ۲۴ زحافوں
کا ذکر ہے جن میں ‘‘ ترفیل ‘‘ بھی شامل ہے ۰
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اب ہم عربی میں عروض کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں زحاف کے عِلاوہ ایک اور شئے
بھی ہے جس کو ( علّت ) کہتے ہیں ( شاید اردو میں اس کو بھی زحاف میں شامل سمجھا گیا ہے)۰
(علّت ) صرف عروض اور ضرب پر اثر انداز ہوتی ہے ۰ وہ علّتیں جو کسی رکن میں ایک یا ایک
سے زیادہ حرف کا اضافہ کرتی ہیں وہ تین (۳ ) ہیں تذئیل، ترفیل ، اور تسبیغ ، ۰ وہ علّتیں
جن کی وجہ سے رکن میں کمی کی جاتی ہے وہ دس (۱۰ ) ہیں : بتر ، تشعشث ، حذذ ، حذف ،
صلم ، قصر ، قطع ، قطف ، کسف اور وقف ۰

مزید تفصیلات کو چھوڑتے ہوے ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ‘‘ ترفیل ‘‘ سے رکن پر کیا
اثر پڑتا ہے ۰ ایسی تفعیلہ جس کے آخر میں وتدِ مجموع ہوتا ہے ( جیسے ’’ عِلُن ‘‘) اس میں
‘‘ ترفیل ‘‘ کی علّت سببِ خفیف کا اِضافہ کرتی ہے جیسے متفاعلُن کو متفاعِلاتن بنادیتی ہے ۰
متفاعلاتن بحرِ کامل مجزوء میں واقع ہوتی ہے ‘‘ ترفیل ‘‘ کے اثر سے ِ اس بنیاد پر اگر ہم ایک
تفعیلہ کو ‘‘ متفاعلَتُن ‘‘ ثابت کرنا چاہیں تو ضروری ہوگا کہ کسی زحاف یا علّت کا نام لیں
جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہو ۰
میں اس مقام پر عاجز آتے ہوے صرف مولوی عبدالحق کی کتاب کے صفحۂ نمبر ۲۵۳ پر مذکور
مندرجۂ ذیل قول کی تصدیق اہلِ علم و فن سے چاہوں گا :
‘‘خلیل ( یعنی موجدِ علمِ عروض خلیل ابنِ احمد الفراھیدی ) کا خیال ہے کہ انہیں بحروں پر تمام
عروض منحصر ہے ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، بحروں میں بہت اضافہ ہوا اور ہوسکتا ہے ، افاعیلِ
ہفتگانہ کے عِلاوہ ایک اور مشہور رکن مفاعِلَتُن ہے مگر مروّج نہیں ۰ ‘‘
خلاصہ :
۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جب کہ اس اِضافی وزن کو بحرِ متدارک مخبون محدوف مضاعف کہنا عروض کا ایک صحیح حل ہے
تو پھر عروض کی کتابوں کے گیسوئے پیچاں کی مشّاطگی کرنے میں کیوں اپنا وقت برباد کریں ۰
خدا عروضیوں کو نیک توفیق دے اور ہم کو صبر و حلم اور علم عطا فرمائے ۰


آپ کا مخلص
ناظرؔ

ربط
http://www.abdullahnazir.com/
 
ایک اقتباس حاضر ہے
۔( علمِ عروض )۔
خلاصہ :
۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جب کہ اس اِضافی وزن کو بحرِ متدارک مخبون محدوف مضاعف کہنا عروض کا ایک صحیح حل ہے
تو پھر عروض کی کتابوں کے گیسوئے پیچاں کی مشّاطگی کرنے میں کیوں اپنا وقت برباد کریں ۰
خدا عروضیوں کو نیک توفیق دے اور ہم کو صبر و حلم اور علم عطا فرمائے ۰

آپ کا مخلص
ناظرؔ
ربط
http://www.abdullahnazir.com/

اللہ مرحوم کو راحت بخشیں۔ مگر ایک بات جو میں کم از کم کہے بنا نہیں رہ سکتا۔
وہ یہ ہے کہ میں نے محترم کی کافی تحریریں عروض کے موضوع پر پڑھی ہیں۔ اور نتیجہ یہ اخذ کیا کہ موصوف مرحوم عروض کے چکر میں خود اتنا الجھے ہوئے تھے کہ اکثر باتوں کو سمجھ نہ پائے ہیں۔ بہت زیادہ تردد تھا طبیعت میں عروضی حوالے سے۔
 
Top