محمد یعقوب آسی
محفلین
آداب بجا لاتا ہوں، حضرت!محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کی نظم و نثر کے حوالے سے چند بہت مفید باتیں یہاں پڑھیں۔
آداب بجا لاتا ہوں، حضرت!محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کی نظم و نثر کے حوالے سے چند بہت مفید باتیں یہاں پڑھیں۔
یہ پورا مضمون سید شہزاد ناصر صاحب نے یہاں سے لیا ہے۔محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو ‘فالو’ کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام ‘بحرِ مُتَدارِک’ ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں ‘مفاعیلن’ چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن ‘فاعِلُن’ ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو ‘تسبیغ’ کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ ‘مقطع’ بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا – 212 – فاعلن
جا نِ رح – 212- فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف ‘کو’ لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز – 212 – فاعلن
مے ہِ دا – 212 – فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر ‘مے’ یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا – 212 – فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم – 212 – فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا – 212 – فاعلن
رے حَ رَم – 212 – فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا – 212 – فاعلن
رے شِ فا – 212 – فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح – 212 – فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع – 212 – فاعلن
بہ جُ کی – 212 – فاعلن
ان بَ ؤ – 212 – فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا – 212 – فاعلن
فَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن – 212 – فاعلن
جس کِ ہر – 212 – فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح – 212 – فاعلن
یے خُ دا – 212 – فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے – 212 – فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک – 212 – فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با – 212 – فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب – 212 – فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے – 212 – فاعلن
اُس کِ نا – 212 – فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو – 212 – فاعلن
مَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار – 212 – فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو – 212 – فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا – 212 – فاعلن
اس شِ کم – 212 – فاعلن
کی قَ نا – 212 – فاعلن
عَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ – 212 – فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را – 212 – فاعلن
طی یَ بہ – 212 – فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ – 212 – فاعلن
جا نِ اح – 212 – فاعلن
مد کِ را – 212 – فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا – 212 – فاعلن
کو سَ لا م – 1212 – فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
اَے (تخاطب) اس میں یائے لین ہے، مجہول نہیں۔
اَے، فَے، ہَے، نَے، رَے، شَے، مَے، طَے ۔۔ لبَیک، علَیک، کَیف، اَین، وَیسا، جَیسا، کَیسا، پَیسہ
و علیٰ ھٰذا القیاس۔
یائے مجہول: ریل پیل، تیل، سے، ارے، دے، لے، دیکھ، ایک؛ وغیرہ
یائے معروف: لی، دی، کی، سی، مِیم، نِیم، کھِیر، چِیز، تِیر؛ وغیرہ
نوٹ: کچھ لوگ طَے، مَے، شَے کے ہجے ’’طئے، مئے، شئے‘‘ لکھ دیتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔
قطعہ بنیادی طور پر ابیات ہی کا مجموعہ ہے۔ غزل میں ایک شعر میں ایک مضمون باندھنے کا تقاضا بہت معروف ہے۔ ایک مضمون ایسا آ گیا کہ ایک شعر میں پورا بیان نہیں ہوتا تو اُس کو دوسرے شعر میں لے جائیں، تیسرے میں لے جائیں۔ اساتذہ کے ہاں غزلوں کے اندر قطعہ بند اشعار ملتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ قطعہ بذاتِ خود ایک صنفِ شعر قرار پایا۔
بات گویا یوں بنی کہ:
قطعہ اپنی ہیئت میں غزل جیسا ہے (وزن کی پابندی ہے، قافیہ کی پابندی ہے، اور اگر آپ نے رویف اختیار کی ہے تو اُس کی بھی پابندی ہے)۔ قطعہ چونکہ بنا ہی اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مضمون سمونا مشکل لگا تھا، سو قطعے میں وحدتِ مضمون لازمی قرار پاتی ہے۔ ایک قطعے میں ایک سے زیادہ مضامین لانا مستحسن نہیں ہے۔ کہنا ہو تو ایک اور قطعہ کہہ لیجئے۔
ایک بات دل کی گہرائیوں سے کہنا چاہوں گا ۔ وہ یہ کہ :
کوشش کرو کہ شعر کو اپنے تابع کرنے کی خواہش پر شعر کے ’’سُپرد‘‘ ہو جاؤ کو فوقیت دو۔
یوں شعر میں داخلی آہنگ شامل ہوگا اور ردیف و قوافی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے بچ سکو گے۔
وضاحت کیے دیتا ہوں۔ شعر کو اپنے تابع کرنے سے مراد یہ کہ کسبی (مشق کرتے ہوئے) شعر سے گریز کرو۔یعنی ایک بحر چن لی اس میں ردیف بھی چن لی پھر قوافی طے کر لیے اور مشق کی بنیاد پر مضامین باندھنا ۔
شعر کے سپرد ہونے سے مراد یہ ہے کہ دیگر انسانی زندگی کے امور میں مبتلا رہتے ہوئے بھی اندر ہی اندر شعر کہنے کی کوشش کرو یوں ایک فضا پہلے اندر ترویج پائے گی اور ایک لمحہ ہوگا کہ اظہار کا چشمہ جاری ہوجائے گا، واضح رہے کہ ابتدا میں ایسا جلد نہیں ہوتا مگر بعد ازاں آپ اس سرشاری میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مزاج، ماحول اور مطالعہ یہ تین ’’م‘‘ آہستہ آہستہ آپ کے شعر میں الفاظ کے فطری بہاؤ میں چناؤ میں مدد کریں گے ۔ یعنی لفظ آپ کو اختیار نہیں کرنے پڑیں گے بلکہ لفظ خود آپ کے اظہار میں آنے کے لیے بےتاب ہوں گے۔۔ یہی راستہ اسلوب یعنی ’’ڈکشن‘‘ کی طرف بھی لے جائے گا۔ الخ
میرے خیال میں ایسا کرنا درست نہیں ہے اور عیوب سخن میں سے ہے، اس کو شتر گربہ کہا جاتا ہے یعنی اونٹ اور بلی کو اکھٹا کر دینا، شعر میں خطاب کا قرینہ ہونا چاہیے، ایک شعر میں ایک جگہ اگر آپ سے مخاطب کر رہے ہیں تو اسی شعر میں دوسری جگہ تم یا تو سے مخاطب کرنا شتر گربہ ہوگا، اسی طرح اگر تم ہے تو تُو یا آپ بھی شتر گربہ ہوگا۔
یہ تو تھی اصولی بات، عملی طور پر اساتذہ کے ہاں بھی شتر گربہ کی مثالیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اتنا بڑا عیب نہیں ہے، اور اساتذہ بھی ضرورتِ شعری کے تحت اس کو استعمال کرتے رہے ہیں۔
سو دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ضرور ہے، جس سے اجتناب اُولیٰ ہے
وارث بھائی کی بات سے کلی اتفاق کرتا ہوں۔ شتر گربہ بیسویں صدی سے پہلے کے یعنی متاخرین کے زمانے میں بہت پایا جاتا تھا، پھر حسرت موہانی کے دور اور بعد کے ادوار میں اس کو مکمل طور پر متروک جانا گیا۔ مصحفی، جرات وغیرہ کے کلام میں اس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی ہیں۔ پھر بعد کے اساتذہ مثلاً داغ دہلوی اور اس زمانے کے دیگر شعراء نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ تو اب مکروہ تحریمی ہی جانا جاتا ہے۔
وضع، قطع، طمع، طرح، صبح، وجہ، اور ایسے بہت سے الفاظ کو اردو شاعری میں وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں طرح لائے ہیں۔
؟؟؟؟؟؟وتد مجموع: ہجائے کوتاہ + ہجائے بلند جیسے: قلم ، سفر ، اثر ، ادا ، دعا ، عدو ، گھڑی۔وتد مفروق: ہجائے بلند + ہجائے کوتاہ جیسے: آم ، کار ، دور ، پیر۔وہ الفاظ جو وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں ہیں:
؟؟؟؟؟؟
’’وہ الفاظ جو وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں ہیں‘‘ ۔۔۔ یوں ہم کسی غلط سمت میں بھی جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہی الفاظ جو میں نے نقل کئے تھے: صبح، شمع، طمع، طرح وغیرہ؛ وہ اصولی طور پر وتد مفروق ہیں اور ہم اُن کو وتد مجموع قرار نہیں دے سکتے، کہ ایسا خلافِ ضابطہ ہو گا۔ اُن کو کئیوں نے وتد مجموع باندھا ہے، چلئے باندھ لیا، لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان الفاظ کی حیثیت ہی بدل دیں۔
بہت سارے مقامات ایسے بھی ہیں کہ معانی ہی بدل جاتے ہیں۔
ایک مثال: غزل : غ + زل (وتد مجموع ہے) یہی شاعری والی غزل؛ اور غزل : غز + ل (وتد مفروق ہے) سوت کی اٹی۔
لہٰذا، قاعدہ اور اصول اپنی جگہ قائم رہے گا، غلط العام، غلط العوام، اجازت، اختیار، تصرف، رعایت وغیرہ اپنی جگہ۔
محمد اسامہ سَرسَری ، محمد وارث ، مزمل شیخ بسمل ، شمشاد صاحبان۔
پہلے اپنی بات:مقطع میں آ پڑی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
یہ اشعار غالباً ناصر کاظمی کے ہیں:
تمہیں ملا ہے جو کردار ، وہ نبھاتے رہوپہاڑ ہو تو ہمیں راستہ دیا نہ کروتمام شہر کو ہم پیچھے چھوڑ سکتے ہیںہمارے ساتھ اگر تم مقابلہ نہ کروتمہارے سینے میں پتھر کا دل سہی ناصریہ بزمِ یار ہے ، باتیں تو شاعرانہ کرو
مقطع میں قافیہ کے مزاج شناس کیا فرماتے ہیں؟
جناب الف عین ، جناب مزمل شیخ بسمل ، جناب محمد وارث ، جناب محمد احمد، جناب التباس ، جناب محب علوی ، جناب منیر انور ، جناب فاتح اور دیگر اہلِ کرم۔
ضرب المثل اشعار یعنی ایسے اشعار جنکی شہرت ایسی بڑھی کہ مثال کے لئے استعمال ہونے لگے:در پے ہے عیب جُو ترے، حاتم تو غم نہ کر۔۔۔ دشمن ہے عیب جُو تو خدا عیب پوش ہے شاہ۔۔۔ حاتمفکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں۔۔۔ اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے۔۔۔ سوداجو کہ ظالم ہو وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں۔۔۔ سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھو شمشیر کا۔۔۔ سودادن کٹا، جس طرح کٹا لیکن۔۔۔ رات کٹتی نظر نہیں آتی۔۔۔ سید محمد اثرتدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب۔۔۔ اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا۔۔۔ میر تقی میراب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر۔۔۔ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔۔۔ میر تقی میرمیرے سنگ مزار پر فرہاد۔۔۔ رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد۔۔۔ میر تقی میرشرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں۔۔۔ عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے۔۔۔ میر تقی میربہت کچھ ہے کرو میر بس۔۔۔ کہ اللہ بس اور باقی ہوس۔۔۔ میر تقی میرمر گیا کوہ کن اسی غم میں۔۔۔ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے۔۔۔ میر تقی میریا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا۔۔۔ یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی۔۔۔ مہتاب رائے تاباںٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا قائم چاند پوریکی فرشتوں کی راہ ابر نے بند ۔۔۔جو گنہ کیجیے ثواب ہے آج۔۔۔ میر سوزہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا۔۔۔ یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا۔۔۔ نظیر اکبر آبادیپڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا۔۔۔ کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانےجو خوب دیکھا تو یار آخر۔۔۔ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔۔۔ نظیر اکبر آبادیٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے۔۔۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔ فدوی عظیم آبادیرکھ نہ آنسو سے وصل کی امید۔۔۔ کھاری پانی سے دال گلتی نہیں۔۔۔ قدرت اللہ قدرتبلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا۔۔۔ پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے۔۔۔ مصحفیہزار شیخ نے داڑھی بڑھائ سن کی سی۔۔۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔۔۔ انشااے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا۔۔۔ جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر۔۔۔ شاہ نصیرآئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے۔۔۔ میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا۔۔۔ آتشلگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب۔۔۔زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا۔۔۔ آتشمشاق درد عشق جگر بھی ہے، دل بھی ہے۔۔۔ کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ۔۔۔ آتشان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن۔۔۔ کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر۔۔۔ ذوقاسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں۔۔۔ اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر۔۔۔ خواجہ وزیربلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل۔۔۔ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔۔۔ غالبغالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے۔۔۔ ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے۔۔۔ غالبدیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے۔۔۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے۔۔۔ غالبجانتا ہوں ثواب طاعت و زہد۔۔۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔۔۔ غالبگو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں۔۔۔ کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی۔۔۔ غالبدام و در اپنے پاس کہاں۔۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔۔۔ غالبالجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں۔۔۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔۔۔ مومنشب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے۔۔۔ زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے۔۔۔ مومنلگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار۔۔۔ خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو۔۔۔ میر انیسنسیمِ دہلوی، ہم موجد باب فصاحت ہیں۔۔۔ کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں۔۔۔ اصغر علی خاں فہیموہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی۔۔۔ میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے۔۔۔ شیفتہہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ۔۔۔ پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے۔۔۔ شیفتہدینا وہ اسکا ساغر مے یاد ہےنظام۔۔۔ منہ پھیر کر اُدھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ۔۔۔ نظام رام پوریوہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف۔۔۔ ٹہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا۔۔۔ داغسب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ داغپان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں۔۔۔ یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں۔۔۔ ظہیر الدین ظہیرہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو۔۔۔ راست گوئی میں ہے رسوائی بہت۔۔۔ حالیدیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار۔۔۔ جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے۔۔۔ شاد عظیم آبادیدیکھ آؤ مریض فرقت کو۔۔۔ رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے۔۔۔ حسن بریلویتمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں۔۔۔مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا۔۔۔ مضطر خیر آبادیافسوس، بے شمار سخن ہائے گفتنی۔۔۔ خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے۔۔۔ آزاد انصاریتوڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے۔۔۔ بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے۔۔۔ حسرت موہانییہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں۔۔۔ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔۔۔ اقبالاقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے۔۔۔ گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا۔۔۔ اقبالکچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف۔۔۔ ورنہ میں بھی جانتا ہوں کہ عافیت ساحل میں ہے۔۔۔ وحشت کلکتویاپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن۔۔۔ بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا۔۔۔ عزیز لکھنویبڑی احتیاط طلب ہے وہ۔ جو شراب ساغر دل میں ہے۔۔۔جو چھلک گئی تو چھلک گئی۔ جو بھری رہی تو بھری رہی۔۔۔ بینظیر شاہدیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا۔۔۔ وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا۔۔۔ عزیز لکھنویوہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا۔۔۔ پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔ مہاراج بہادر برقہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی۔۔۔اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی۔۔۔ عزیز الحسن مجذوباب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔۔۔ یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں۔۔۔ فراق گو رکھپوریداورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ۔۔۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔۔۔ محمد دین تاثیرامید وصل نے دھوکے دیے ہیں اس قدر حسرت۔۔۔کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے۔۔۔ چراغ حسن حسرتاعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں۔۔۔ جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد۔۔۔ کرار نوریوہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے۔۔۔ گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے۔۔۔ عزیز حامد مدنیایک محبت کافی ہے۔۔۔ باقی عمر اضافی ہے۔۔۔ محبوب خزاںمری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے۔۔۔ مرے تھےجن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے۔۔۔ آتشپاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی۔۔۔ جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی۔۔۔
ایک اقتباس حاضر ہے
۔( علمِ عروض )۔
خلاصہ :
۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جب کہ اس اِضافی وزن کو بحرِ متدارک مخبون محدوف مضاعف کہنا عروض کا ایک صحیح حل ہے
تو پھر عروض کی کتابوں کے گیسوئے پیچاں کی مشّاطگی کرنے میں کیوں اپنا وقت برباد کریں ۰
خدا عروضیوں کو نیک توفیق دے اور ہم کو صبر و حلم اور علم عطا فرمائے ۰
آپ کا مخلص
ناظرؔ
ربط
http://www.abdullahnazir.com/