ساقی۔
محفلین
ٹیپ کا مصرع:
مثال سے سمجھائیے۔
ٹیپ کا مصرع:
از افادات: محترم جناب شاکرالقادریياد رکھيں اچھا شعر کہنے کے ليے مصرعوں کو بار بار تمام ممکنہ صورتوں ميں موزوں کرنا اور پھر ان ميں سے بہتر صورت کا انتخاب کرنا ہي"رياضت" ہے اور اسي رياضت سے اچھا شعر وجود ميں آتا ہے۔
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں۔مثال سے سمجھائیے۔
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں۔
@ساقی بھائی۔۔۔آپ نے صبح کی آمد نام کی نظم نہیں پڑھی۔ مولوی اسمعیل میرٹھی کی۔ اسی لیے سمجھ نہیں آیا۔وہ نظم پڑھیں تو بہت اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا ۔اس کے کچھ ابیات یا بند یہ ہیں۔سمجھ نہیں آئی کہ ٹیپ کا مصرع کیا ہوتا ہے۔
@ساقی بھائی۔۔۔ آپ نے صبح کی آمد نام کی نظم نہیں پڑھی۔ مولوی اسمعیل میرٹھی کی۔ اسی لیے سمجھ نہیں آیا۔وہ نظم پڑھیں تو بہت اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا ۔اس کے کچھ ابیات یا بند یہ ہیں۔
اورجناب سرخ رنگ کا بولڈ مصرع ہے ٹیپ کا مصرع۔ امید واثقق ہے کہ اب خوب واضح ہو جائے گا۔
×××××××××××××××××××
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
میں سب کاربہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
مجھے آپ کی کتاب آو شاعری سیکھیں درکار ہے۔ کراچی میں کہاں مل سکتی ہے۔۔۔ ؟ اب یہ نہ کہیے کہ ”کسی بھی اچھے بُک اسٹال سے“!نظم اور غزل کی کچھ وضاحت:
نظم اور غزل کی تخصیص میں ایک تو ہیئت کی بات ہے۔
غزل کے لئے ’’زمین‘‘ کا ہونا ضروری ہے: بحر اور قافیہ (ردیف اختیاری چیز ہے ۔ تاہم جب اختیار کر لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہو گیا)۔ پھر اس میں مطلع اور مقطع کا اہتمام بھی راجح ہے۔ نظم کے لئے اس ہیئت کے علاوہ بہت سی ہیئتیں ہیں۔ مثنوی، مخمس، مسدس، قطعہ بند، ترجیع بند، ترکیب بند اور بہت ساری۔
دوسرا فرق ہے معنوی یا موضوعاتی ۔ یہ اہم تر ہے! ۔۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل معنوی اکائی ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آگے پیچھے والے اشعار سے مربوط ہو یا نہ ہو۔ نظم میں پوری نظم کا ایک موضوع ہوتا ہے (بڑا چھوٹا، وسیع خفیف ۔۔ یہ الگ بحث ہے) اور نظم کا ہر شعر یا ہر بند اس موضوع کو آگے بڑھاتا ہے۔
ہیئت اس میں کوئی منع نہیں، تاہم اس کو کسی نہ کسی ’’نظم‘‘ کے ماتحت ہونا چاہئے، نہ کہ مادر پدر آزاد۔
بات آ جاتی ہے ’’آزاد نظم‘‘ تک۔ اس میں بھی ایک ’’نظم‘‘ ہوتا ہے، کوئی رکن ہوتا ہے جو سطروں میں رواں ہوتا ہے۔
ایک اور شے بھی ہے جسے خواہ مخواہ شاعری قرار دیا جا رہا ہے، میں اس کو شاعری نہیں مانتا۔
از افاداتِ استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
یہ کتاب صرف لاہور کے ایک پبلشر کے پاس مل سکتی ہے ، انھوں نے سوشل میڈیا پر ہی فروخت کی ہے ، نیا ایڈیشن تیار ہورہا ہے ، لڑی کی بیشتر باتیں کتاب میں شامل کی ہیں ، فی الحال آپ کتاب کے بیس اسباق یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔مجھے آپ کی کتاب آو شاعری سیکھیں درکار ہے۔ کراچی میں کہاں مل سکتی ہے۔۔۔ ؟ اب یہ نہ کہیے کہ ”کسی بھی اچھے بُک اسٹال سے“!
کیا اس کی کوئی تازہ ایڈیشن آرہی ہے اورکیا اس لڑی میں اور شاعری سے متعلق جتنی مزید معلوماتی باتیں یہاں ہوئی ہے کیا وہ بھی اس میں شامل کی گئی ہے؟
غزل
میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے
مزارِ شمس پہ رومی ہیں حجتِ آخر
کہ جو جہاں بھی ہے مرشد کے ساتھ رقص میں ہے
ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان
کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے
اُتاق کنگرۂ عرش کے چراغ کی لو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے
سنائؔی ہوں کہ وہ عطّار ہوں کہ رومیؔ ہوں
ہر اک مقام پہ اک خوش صفات رقص میں ہے
یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی، یہ وجد و وفُور
میں رقص میں ہوں، کہ کُل کائنات رقص میں ہے
مجال ہے کوئی جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے
میں ایک شمس کی آمد کا منتظر تھا سو اب
مرے وجود کے رومی کی ذات رقص میں ہے
وہ قونیہ ہو ، کہ بغداد ہو کہ سہون ہو
زمین اپنے ستاروں کے ساتھ رقص میں ہے
افتخارعارف
جدید و قدیم اسالیب میں عام رہا ہے سو ناجائز کہنا مشکل ہے ۔مستحسن البتہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔افتخار عارف نے اپنی اس غزل میں جو قوافی استعمال کیے ہیں ان میں حیات، کائینات، ذات، صفات وغیرہ کے علاؤہ چار اشعار میں لفظ "ساتھ" استعمال کیا ہے۔ کیا فرماتے ہیں فقہائے شاعری اس باب میں کہ کیا یہ استعمال درست ہے؟
افتخار عارف نے اپنی اس غزل میں جو قوافی استعمال کیے ہیں ان میں حیات، کائینات، ذات، صفات وغیرہ کے علاؤہ چار اشعار میں لفظ "ساتھ" استعمال کیا ہے۔ کیا فرماتے ہیں فقہائے شاعری اس باب میں کہ کیا یہ استعمال درست ہے؟
فیض احمد فیضجدید و قدیم اسالیب میں عام رہا ہے سو ناجائز کہنا مشکل ہے ۔مستحسن البتہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
جی چھین لیا اس نے دکھا دست حنائی۔ کیا ہات ہے کیا ہات ہے کیا ہات ہے واللہ
۔جرات