مغزل

محفلین

محمداحمد

لائبریرین
گل ہوئی ہر روشنی، بس ایک در روشن رہا
شہرِ تاریکی میں اک آنکھوں کا گھر روشن رہا
ذہن سوکھی گھاس تھا، ننھی سی چنگاری تھی یاد
وہ الاؤ جل اٹھا جو رات پھر روشن رہا
سارے گھر کی بتّیاں ایک ایک کر کے بجھ گئیں
چھاؤں تھی تاروں کی بس، اور ایک در روشن رہا
کشتیِ جاں تھی کہ سیلِ آب میں بہتی رہی
آندھیوں میں اک چراغِ بے سپر روشن رہا
*****

پڑے رہ گئے کئیٔ زخمی جسم نواح میں
وہ جو کج کلاہ تھے شہ سوار، چلے گئے
*****​
لاکھ رستے بدل کے گھر جاؤں
راہ میں وہ سڑک تو آئے گی
محترم اعجاز عبید صاحب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آغاز استادِ محترم الف عین صاحب کی ایک خوبصورت غزل سے

کبھی تو دھوپ کبھی ابر کی رِدا مانگے
یہ کشتِ غم بھی عجب موسم و ہوا مانگے
فقیر جھولی کی کلیاں لٹانے آیا ہے
امیر شہر کو ڈر ہے نہ جانے کیا مانگے
کبھی ہو دورِ قناعت تو حالِ بد میں بھی خوش
جو مانگنے پہ دل آئے تو بارہا مانگے
قدم رکیں تو لہو کا بہاؤ رک جائے
شکستہ پا بھی پہاڑوں کا سلسلہ مانگے
میں جس تلاش میں تھک کر خموش بیٹھ رہا
وہ مل گیا ہے خزینہ مجھے بِنا مانگے
جو میرے ہاتھوں میں ہاتھ آگئے وہ رنگ بھرے
یہ دل کہ بھاگتے لمحوں کو تھامنا مانگے

1986ء
 

بنت عائشہ

محفلین
دل پہ قابو جو نہیں رہتا ہے دیدار کے دن
لفظ بھی ساتھ نہیں دیتے ہیں اظہار کے دن
روز مسکان سجاتے ہیں ہمیں دیکھ کے جو
کرتے اعراض ہیں پھر کیوں مرے اقرار کے دن
وصلِ احباب تو موسم پہ بھی رکھتا ہے اثَر
کیسی دلشاد فضا ہوتی ہے اتوار کے دن
پھر تو دو چند ہو یہ عید ، جو محبوب ہمیں
آکے خود ’’عید مبارک‘‘ کہے تہوار کے دن
رات ساری انھی سوچوں میں گزر جاتی ہے
کیسے پرلطف ہوا کرتے تھے وہ پیار کے دن
ہجر کی تیغِ جفا کھاکے ہمیں یاد آیا
قیس و لیلیٰ کا زمانہ ، وہی تلوار کے دن
سَرسَرؔی سی نظر اک بار پڑی تھی ان پر
اب گزرتے نہیں اُس دید کے بیمار کے دن
 
Top