بنت عائشہ

محفلین
دل پہ قابو جو نہیں رہتا ہے دیدار کے دن
لفظ بھی ساتھ نہیں دیتے ہیں اظہار کے دن
روز مسکان سجاتے ہیں ہمیں دیکھ کے جو
کرتے اعراض ہیں پھر کیوں مرے اقرار کے دن
وصلِ احباب تو موسم پہ بھی رکھتا ہے اثَر
کیسی دلشاد فضا ہوتی ہے اتوار کے دن
پھر تو دو چند ہو یہ عید ، جو محبوب ہمیں
آکے خود ’’عید مبارک‘‘ کہے تہوار کے دن
رات ساری انھی سوچوں میں گزر جاتی ہے
کیسے پرلطف ہوا کرتے تھے وہ پیار کے دن
ہجر کی تیغِ جفا کھاکے ہمیں یاد آیا
قیس و لیلیٰ کا زمانہ ، وہی تلوار کے دن
سَرسَرؔی سی نظر اک بار پڑی تھی ان پر
اب گزرتے نہیں اُس دید کے بیمار کے دن
 

منیر انور

محفلین
مجھے محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا یہ شعر بہت اچھا لگتا ہے:

آج میرے ایک واقف کار نے مجھ سے کہا
نام تیرا بن نہ جائے جنگ کا اعلان کل
ان کی اسی غزل کا مقطع بھی بہت شاندار ہے:
آس کا دامن نہ چھوڑو یار آسی ، دیکھنا
مشکلیں جو آج ہیں ہوجائیں گی آسان کل

مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ غزل ۱۹۸۵ء کی ہے اور یہی میرا سن پیدائش ہے۔:)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہنے آسی صاحب ۔۔ واہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اردو محفل سے کافی عرصے تک دور رہنے والے شاعر جناب نوید صادق صاحب کی یہ غزل آپ کی خدمت میں پیش ہے
کون آسیب آ بسا دل میں​
کر لیا ڈر نے راستہ دل میں​

اے مرے کم نصیب دل!کچھ سوچ​
ہے کوئی تیرا آشنا دل میں​

کم ہے جس درجہ کیجئے وحشت​
گونجتا ہے دماغ سا دل میں​

عکس بن بن کے مٹتے جاتے ہیں​
رکھ دیا کس نے آئنہ دل میں​

میں ہوں، ماضی ہے اور مستقبل​
کم ہے فی الحال حوصلہ دل میں​

آخر آخرنوید صادق بھی​
آن بیٹھا، رہا سہا، دل میں​
 
بہت ہی اعلیٰ دھاگہ
واہ واہ بہت ہی خوب کام کیا ہے اسامہ بھائی۔۔۔ ! خوش رہیے۔
آداب جناب!
اللہ تعالیٰ آپ سب کو سدا خوش و خرم رکھے۔
آپ جیسے اہلِ ذوق حضرات کی دیکھا دیکھی کچھ کرتا ہوں ، پھر آپ حضرات کی حوصلہ افزائی کے بعد مزید کرنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔
اس ”ذوق و شوق“ پر ممنون و متشکر ہوں۔
 
صاحبان محفل! مجھے آئے تو یہاں دوسرا ہی دن ہے لیکن ایک شاعر کی سخن آفرینی کا قائل ہو بیٹھا ہوں۔ حیرانی ہے کہ کسی نے اس کا اس دھاگے میں کوئی شعر بھی نقل نہیں کیا۔ خیر میں اپنی پسند کے کچھ اشعار لکھتا ہوں:
میں ہوں فرد گام حیات میں ولے روزگار نیا نہیں
یہی وہ عذاب عظیم ہے کوئی اس سے بڑھ کے سزا نہیں
یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے
مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں
----------
بسکہ پورے کیجئے مقدور تک
سارے وعدے وعدۂ مشہور تک
نالہ خاک لحد تاثیردار
لوٹ آیا قاتل مفرور تک
میں کہ خود بھاگا بصد قلب شہید
ناوک یک دیدہ مغرور تک
بارے فاتح چشمہ حیرت لگا
اب نظر جانے لگی ہے دور تک
------------
وسعت تحریر میں صحرا سی پہنائی نہ تھی
جتنی ہم سمجھے تھے غم اتنی گہرائی نہ تھی
وائے مایوسی برائے دیدہ ہائے موسوی
ذوق نظارہ تھا لیکن کوئی بینائی نہ تھی
---------
مشمول اہل باغ ہوں ہر چند مثل گل
اک رنگ خود نمائی جداگانہ چاہیئے
----------
کسے فراغ پریشانی عدو کے لئے
بہت ہے حلقہ احباب ہاؤ ہو کے لئے
زشہر سنگ پرستاں ہوں داد خواہ جنوں
شکست شیشہ پندار آبرو کے لئے
(منیب احمد فاتح)​
 
جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں​
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں
ترا تذکرہ خود سے بھی کر نہ پائے
یہ کیسا ستم ہم بہم دیکھتے ہیں
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد
تماشا ہے کیسا ستم دیکھتے ہیں
کبھی دیکھ لیں ہم پلٹ کر جو ماضی
تو حال اپنی آنکھوں کا نم دیکھتے ہیں
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں
جو لاچار پر ہو خطاکار پر بھی
فقط اک خدا کا کرم دیکھتے ہیں
 

عرفان سرور

محفلین
اسلام و علیکم۔۔۔!
یہاں بہت اچھے محفلین کا بہت اچھا کلام شئیر کیا گیا ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ مجھے بھی لکھنے کا شوق ہے
لیکن آپ سب کے سامنے تو ننھا منا شاعر ہوں اپنی دو غزلیں شئیر کرکے آپ سب کے صبر کا امتحان لینا چاہتا ہوں اگر
اجازت ہو تو ۔۔ شکریہ :biggrin:
 

شیزان

لائبریرین
اس غزل کا ایک ایک شعر زبردست ہے۔ خوش رہیئے احمد بھائی​
سارے وعدے ، وعید ہو گئے ہیں
آہ ! محرومِ دید ہو گئے ہیں
زندگی کے کئی حسیں پہلو
نذرِ ذہنِ جدید ہو گئے ہیں
طعن و تشنیع کب سے ہیں معمول
کچھ رویّے شدید ہو گئے ہیں
مضمحل تھے ، مگر تجھے مل کر
اور بھی کچھ مزید ہو گئے ہیں
حُسن آراستہ، نہتّے ہم
ہونا کیا تھا شہید ہوگئے ہیں
ہم نے پڑھ لکھ کے نوکری کر لی
سر تا سر زر خرید ہو گئے ہیں
مجھ پہ تنقیدی جائزہ ، اُن کا
گویا انورسدید ہو گئے ہیں
کل زمانے میں جو یزید ہوئے
آج وہ با یزید ہو گئے ہیں
زندگی تو ذرا نہیں بدلی
ہم ہی کچھ خوش اُمید ہو گئے ہیں
محمد احمدؔ
 
اسلام و علیکم۔۔۔ !
یہاں بہت اچھے محفلین کا بہت اچھا کلام شئیر کیا گیا ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ مجھے بھی لکھنے کا شوق ہے
لیکن آپ سب کے سامنے تو ننھا منا شاعر ہوں اپنی دو غزلیں شئیر کرکے آپ سب کے صبر کا امتحان لینا چاہتا ہوں اگر
اجازت ہو تو ۔۔ شکریہ :biggrin:

گو اس دھاگے میں شرکائے فورم نے اپنے علاوہ شرکائے فورم کا پسندیدہ کلام پیش کیا ہے، لیکن اگر آپ اپنا کلام یہاں پیش کردیں تو بھی کوئی حرج نہیں، ممکن ہے آپ کے کلام سے ہمیں بھی کچھ سرور کا عرفان نصیب ہوجائے۔:)
 

عرفان سرور

محفلین
تیرے جانے کا کوئی غم نہیں پر
تیرے جانے کے غم میں گھُل رہا ہوں
میں لب بستہ رہا برسوں مگر اب
میں اپنے آپ سے کچھ کھُل رہا ہوں
میں اندر سے بہت میلا ہوں لیکن
فقط باہر سے ہی بس دُھل رہا ہوں ۔۔۔۔

شاعر ۔ عرفان سرور
 

عرفان سرور

محفلین
یقیں کی موت واقع ہو گئی ہے
گمانوں کے سہارے جی رہا ہوں
مجھے ہے علم کے حرام ہے یہ
مگر ہے کیا کے پھر بھی پی رہا ہوں
گریباں چاک ہونا ہی ہے تو پھر
اسے یوں بیٹھ کر کیوں سی رہا ہوں
یہ میرا وہم تھا مر جاؤں گا میں
مگر ہوں ڈھیٹ اب تک جی رہا ہوں ۔۔۔۔

شاعر۔ عرفان سرور
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مثالِ ذرۂ ناچیز تو نہیں دِکھتا
بجا کہ دہر میں شاہد! ترا جواب نہیں
شکریہ، کہ ہمیں بھی کسی نے یاد کیا، وہ بھی پسندیدہ اشعار کے سلسلے میں ۔۔۔ فی الحال ایک شعر جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا رقم کیے دیتے ہیں:
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
 

محمداحمد

لائبریرین
شکستہ پر، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں
(مجھے یہ شعر اس طرح یاد رہ گیا ہے اگر درست نہ ہو تو خود صاحبِ شعر حاشیہ گزاری کر سکتے ہیں! :))
محمداحمد


بالکل درست ہے بھیا۔۔۔۔! آپ کی محبت ہے کہ آپ نے شعر اور صاحبِ شعر دونوں کو یاد رکھا ۔ :)
 
Top