اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص! تُو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تِرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلدباز! خفا ہو کے چل دِیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا
اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دِیا ، ورنہ
مِری دُعا سے، وہ پتّھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عُمرتِر ا منتظر رہا مُحسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا
مُحسؔن نقوی
یہ غزل میرے دوست ندیم رومی کی ہے جو غلطی سے محسن نقوی کے نام سے شئیر ہو رہی ہے