چونکہ آپ نے ہانس بلکس کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جائے جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔
فواد ویسے کیا آپ بتائیں گئے کہ صدام کس چیز میں عدم تعاون کی راہ اپنائے ہوئے تھا اور کون کون سے تباہی کے ہتھیار اس کے پاس سے براًمد ہو گئے درحقیقت عراق پر حملہ آپ لوگوں کی وہ غلیظ تریں حماقت ہے جس کا خمیازہ انشاء اللہ آپ کو آپ کے ملک امریکا کو بھگتنا پڑے گا۔ عنقریب یہ تباہی آپ کے اپنے ملک تک رسائی کرے گی اور پھر ہم اس کا تماشا دیکھیں گئے۔
(بش کو حال ہی میں جو جوتا مارا گیا ہے میرے خیال یہ جوتا پورے امریکا کے منہ پر مارا گیا ہے اور اس سے ہی عراقی عوام کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے)
ہانس بلکس کے بیانات بی بی سی کی اردو سائیٹ پر موجود ہیں اور ساتھ ہی انگلش میں ویب پر ان کی تمام رپورٹس موجود ہیں اور ان کی اس تمام مسئلے پر کتاب بھی چھپ چکی ہے ۔اپنے ان بیانات میں وہ امریکی رویہ پر براہمی کا اظہار معتدد بار کر چکے ہیں۔
اور فواد آپ کی اس تھریڈ سے آُپ کا یہ بیان میری نظر میں مجروح ہو گیا ہے لگتا ہے کہ آپ کے ذاتی مفادات حقائق سے کہیں بالاتر ہیں۔کیوں کہ اپنی اس تھریڈ میں آپ نے حقائق کو جس طرح پائمال کیا ہے وہ افسوسناک ہے۔
آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔
آئیے فواد کے دونوں حوالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
فواد نے پہلا حوالہ یہ دیا تھا
ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھائے جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلہ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجائے مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"
جو لوگ اس معاملہ میں دلچسپی لے رہے ان سے میں گذارش کروں گا کہ وہ یہ پوری رپورٹ پڑھیں جس سے ہانس بلکس کے پورے موقف اور اس پوری فضا کا اندازہ ہو سکے گا جس کی بابت یہ رپورٹ تھی۔
فواد اس چیز کو بلکس نے بعد ازاں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کلیئر کر دیا تھا۔
7مارچ 2003 میں جو ہانس بلکس کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش ہوئی اس میں اس معاملے کی بابت ہانس نے یہ کہا تھا
Until today, 34 Al Samoud 2 missiles, including four training missiles, two combat warheads, one launcher and five engines, have been destroyed under UNMOVIC's supervision. Work is continuing to identify and inventory the parts and equipment associated with the Al Samoud 2 program.
Two reconstituted casting chambers used in the production of solid propellant missiles have been destroyed, and the remnants melted or encased in concrete.
The legality of the Al Fatah missile is still under review, pending further investigation and measurement of various parameters of that missile.
More papers on anthrax, VX and missiles have recently been provided. Many have been found to restate what Iraq already has declared, and some will require further study and discussion.
There is a significant Iraqi effort under way to clarify a major source of uncertainty as to the quantities of biological and chemical weapons which were unilaterally destroyed in 1991. A part of this effort concerns a disposal site, which was deemed too dangerous for full investigation in the past. It is now being re-excavated.
To date, Iraq has unearthed eight complete bombs, comprising two liquid-filled intact R-400 bombs and six other complete bombs. Bomb fragments are also found. Samples have been taken.
The investigation of the destruction site could, in the best case, allow the determination of the number of bombs destroyed at that site. It should be followed by serious and credible effort to determine the separate issue of how many R-400-type bombs were produced.
In this, as in other matters, the inspection work is moving on and may yield results.
Iraq proposed an investigation using advanced technology to quantify the amount of unilaterally destroyed anthrax dumped at a site. However, even if the use of advanced technology could quantify the amount of anthrax said to be dumped at the site, the results will still be open to interpretation. Defining the quantity of anthrax destroyed must of course be followed by efforts to establish what quantity was actually produced.
With respect to VX, Iraq has recently suggested a similar method to quantify VX precursors stated to have been unilaterally destroyed in the summer of 1991.
Iraq has also recently informed us that following the adoption of the presidential decree prohibiting private individuals and mixed companies from engaging in work relating to weapons of mass destruction, further legislation on the subject is to be enacted
.
اب بتائیے فواد عراق کا یہ تعاون تھا یا نہیں ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ فواد نے اپنا دوسرا حوالہ اسی رپورٹ یعنی 7 مارچ 2007 کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے ایک اقتباس کی شکل میں دیا ہے لیکن جو حصہ میں نے نقل کیا ہے جو کہ ان کے پہلے اقتباس کا جواب تھا اس کو وہ نظر انداز کر گئے ہیں اس سے ہی ان کی دیانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دوسرا حوالہ جو فواد نے پیس کیا ہے وہ یہ ہے
"ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوئے يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جائے تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔
اس رپورٹ کا لنک حاضر ہے اور سب لوگوں سے درخواست ہے کہ بتائیے کہ یہ الفاظ جو فواد نے پیش کیے ہیں وہ اس رپورٹ کے کس حصہ کا ایماندارنہ ترجمہ ہیں؟
http://www.cnn.com/2003/US/03/07/sprj.irq.un.transcript.blix/index.html
یعنی خیانت کاری کی حد ہو گئی ذرا آپ لوگ بھی ان حضرت کی حرکت ملاحظہ کیجئے یہ ہیںوہ جملے جن کا خلاصہ کوٹیشن مارک کے اندر فواد نے دیا ہے ،جس کا مطلب ہوتا ہے کہ فواد پورا حقیقی ترجمہ پیش کرہے ہیں،لیکن انہوں نے درحقیقت کئی پیراگراف پر مبنی بیان کو توڑ موڑ کر اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے۔
.
Against this background, the question is now asked whether Iraq has cooperated, "immediately, unconditionally and actively," with UNMOVIC, as is required under Paragraph 9 of Resolution 1441. The answers can be seen from the factor descriptions that I have provided.
However, if more direct answers are desired, I would say the following: The Iraqi side has tried on occasion to attach conditions, as it did regarding helicopters and U-2 planes. It has not, however, so far persisted in this or other conditions for the exercise of any of our inspection rights. If it did, we would report it.
It is obvious that while the numerous initiatives which are now taken by the Iraqi side with a view to resolving some longstanding, open disarmament issues can be seen as active or even proactive, these initiatives three to four months into the new resolution cannot be said to constitute immediate cooperation. Nor do they necessarily cover all areas of relevance. They are, nevertheless, welcome. And UNMOVIC is responding to them in the hope of solving presently unresolved disarmament issues.
نیز اس سے پہلے اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا
One can hardly avoid the impression that after a period of somewhat reluctant cooperation, there's been an acceleration of initiatives from the Iraqi side since the end of January. This is welcome. But the value of these measures must be soberly judged by how many question marks they actually succeed in straightening out.
This is not yet clear
اوپر کے اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عراق کا رویہ پہلے سے بہتر تھا اور وہ اپنے تعاون کو بڑھا رہے تھے جس کو ہانس خوش آمدید سے تعبیر کر رہے ہیں ۔نیز اس پیرا سے اوپر ہانس بلکس نے متعدد ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عراق تعاون کی راہ اپنائے ہوئے تھا ۔گو کہ ابھی اس معاملے پر ہانس کچھ تحفظات کا اظہار کر تے ہیں تاہم اسی رپورٹ کے آخر میں وہ اپنے اس کام کو انجام دینے کے لیے مزید وقت مانگتے ہیں جو بقول ان کے کچھ ماہ پر محیظ ہو سکتا تھا تو کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ عراقی معائنہ کاروں کو ان کا مطلوبہ وقت مہیا کر دیا جاتا ناکہ کہ عراق پر حملہ ہی کر دیا جاتا اور پھر اس بات کے ساتھ بلکس کا ایک اور بیا ن بھی دیکھئے
اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کی معائنہ ٹیم کے سابق سربراہ ہانس بلکس نے پھر کہا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ امریکہ اور برطانیہ کی بلا جواز مسلح کارروائی تھی۔
عراق پر یلغار کا پہلا سال مکمل ہونے سے کچھ قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب میں ہانس بلکس لکھتے ہیں کہ عراق کے خلاف کارروائی سے نہ صرف دو حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے اقوامِ متحدہ کے اختیار پر بھی ضرب لگی ہے۔
جب ہانس بلکس کو عراق میں کچھ نہ ملا تو امریکہ اور برطانیہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ثبوت کا نہ ملنا خود ثبوت ہے کہ عراق میں کچھ نہیں ملے گا۔
اپنی کتاب میں ہانس بلکس لکھتے ہیں کہ اکتوبر دو ہزار دو میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ البرادعی اور خود انہیں امریکی نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ ایک ملاقات کا اتفاق ہوا۔
اس میٹنگ میں ڈک چینی نے کہا ’اگر معائنہ کاروں کے کام کا کوئی فوری نتیجہ نہیں نکلتا تویہ نہیں ہو سکتا کہ ہتھیاروں کی تلاش کا سلسلہ چلتا رہے۔‘
امریکی نائب صدر نے یہ بھی کہا: ’امریکہ عراق کو غیر مسلح کرنے پر تیار ہے خواہ اس کے لئے معائنہ کاروں کی عزت کم ہو جائے۔‘
ہانس بلکس کہتے ہیں کہ ڈک چینی کی اس بات سے وہ یہ سمجھ گئے کہ اگر ’ہمیں جلد ہتھیار نہ ملے تو امریکہ یہ اعلان کردے گا کہ معائنہ کاروں کی کوشش فضول ہے اور دیگر ذرائع استعمال کرکے عراق کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/news/story/2004/03/040310_hans_blix_rza.shtml
آخر میں اس آخری رپورٹ کا آخری دو پیرےجس میں ہانس بلکس مزید وقت کی درخواست کرتے ہیں جو ان کو نہیں دیا گیا
How much time would it take to resolve the key remaining disarmament tasks? While cooperation can -- cooperation can and is to be immediate, disarmament, and at any rate verification of it, cannot be instant. Even with a proactive Iraqi attitude induced by continued outside pressure, it will still take some time to verify sites and items, analyze documents, interview relevant persons and draw conclusions. It will not take years, nor weeks, but months.
Neither governments nor inspectors would want disarmament inspection to go on forever. However, it must be remembered that in accordance with the governing resolutions, a sustained inspection and monitoring system is to remain in place after verified disarmament to give confidence and to strike an alarm if signs were seen of the revival of any proscribed weapons programs.
Thank you, Mr. President.
http://www.cnn.com/2003/US/03/07/sprj.irq.un.transcript.blix/index.html