کسی بھی عراقی شہری کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت ہے۔ ليکن يہ حقیقت ہے کہ عراق ميں زيادہ تر شہريوں کی ہلاکت دہشت گرد تنظيموں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہے جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ کار بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان ميں ملوث يہ لوگ صرف اور صرف اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔
ایران عراق جنگ ، الانفال کی تحريک يا 1991 ميں ہزاروں کی تعداد ميں عراقی شيعہ برادری کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر صدام کا دور حکومت مزيد طويل ہوتا تو بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
کیا مسٹر فواد فرام ویجیٹیبل آوٹ فوکس ٹیم یہ بتانا پسند کریں گئے کہ وہ کب اسرائیل پر حملہ کر رہے ہیں
طالبان کی تخلیق اور افغانستان پر ان کی گرفت قایم کرانا پاکستان کی تاریخ میں بین الاقوامی معاملات میں کچھ بہترین کوششوں (مووز) میں سے ایک اور کامیاب ترین کوشش تھی۔
حضور روس کو افغان وار میں پھنسانے والا کون تھا؟
اب آج آپ نے مجھے جواب کے قابل سمجھ ہی لیا ہے تو یہ بھی بتاتے جائیے کہ "فلسطین" پر امریکی پالیسی کو امریکہ کسطرح بیان کرتا ہے ؟ چونکہ آپ اندر کے آدمی ہیں تو آپ کی فراہم کردہ معلومات میرے لیئے مستند ہوں گی
وسلام
اپنے اثر ، طاقت ، عیاری، چالاکی سے "مسلح گروہ"کو حکومت سے ہٹا تو دیا اور اس کی جگہ "اپنے بندے" کو حکومت میں لے آئےآپ يہ دعوی کر رہے ہیں کہ امريکی حکومت اتنی بااثر، طاقتور اور عيار تھی کہ روس کو افغانستان ميں سازش کے ذريعےجنگ ميں دھکيل ديا گيا تا کہ ايک دوردراز ملک ميں اپنے پرانے دشمن کو شکست دی جا سکے۔ ليکن پھر اس رائے کا بھی اظہار کيا جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام کے فيصلے کے مخالف تھا۔ ليکن حقيقت تو يہی ہے کہ طالبان 1995 سے 2001 تک طالبان افغانستان ميں برسراقدار رہے۔ يہ کيسے ممکن ہے کہ انتہائ طاقتور اور با اثر امريکہ جس نے اپنی عياری اور چالاکی سے روس جيسی سپر پاور کو ايک جنگ ميں ملوث کر ديا، وہ ايک مسلح گروہ کو اپنی مرضی کے خلاف افغانستان ميں حکومت کی تشکيل سے نہيں روک سکے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
اور جب یہ عیاری، چالاکی ناکام ہوگئ تو لگے سعودی عرب کی منتیں کرنے
جب بھی امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کا دورا کرتی ہیں فورا ہی اسرائیل "غزہ " پر حملہ کر کے بتا دیتا ہے کہ دوستی کتنی مضبوط ہے ۔ اب یہ نہ کہنا کہ ایسا نہیں ہوتا ۔موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ ان کوششوں کو امريکی سياسی منظرنامے پر عمومی طور پر يکساں حمايت حاصل ہے۔
بلکل صحیح ۔ اس لیے کہ موسم سرما شروع ہونے کو ہے دوسرا امریکہ میں بھی کچھ حالات اچھے نہیں ۔ اس لیے مستقبل میں پھر کوئی بہانہ بنا کر پھر کاروائی شروع ہو جائے گی ۔باسم
اور جب یہ عیاری، چالاکی ناکام ہوگئ تو لگے سعودی عرب کی منتیں کرنے
فواد صاحب کی ہمت کو واقع سلام کرنے کو جی چاہتا .............بس اپنا طنبورہ بجائے جاتے ہیں....جو بات ہضم نہ ہو کسی کی اس کے خلاف کسی بھی ویب کا لنک پوسٹ کر دیتے ہٰن.............حضرت اس طرح تو ہم بھی امریکیوں کے خلاف ویب لنکز کے پہاڑ کھڑے کر سکتے ہیں کہ جنہیں دیکھ آپ ایک مرتبہ ایسے ہو جائیں گے..........لیکن مانے گے آپ پھر بھی نہیں.........(
کیوں آپ اب بھی عراق اور افغانستان سے انخلا نہیں کر لیتے کیا
ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے کہ جدھر کسی کا ایماء دیکھا جھٹ سے ادھر کا رخ کیا ۔ ۔۔ کیا امریکیوں کا اپنا کوئی ایماء نہیں ۔ ۔ ؟ یا پھر اگر ہے تو اتنا بھیانک ہے ہمیشہ اس کو دوسروں کہ ایماء کی آڑ میں رکھتے ہیںاس وقت امريکی افواج عراق ميں منتخب عراقی حکومت کے ايما پر موجود ہيں
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے کہ جدھر کسی کا ایماء دیکھا جھٹ سے ادھر کا رخ کیا ۔ ۔۔ کیا امریکیوں کا اپنا کوئی ایماء نہیں ۔ ۔ ؟ یا پھر اگر ہے تو اتنا بھیانک ہے ہمیشہ اس کو دوسروں کہ ایماء کی آڑ میں رکھتے ہیں
ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے
فواد میں آپ کی توجہ ان بہت سارے شواہد میں سے صرف دو پر دلانا چاہوں گا جس سے عراق وار میں صدر بش کی نا اہلی بددیانتی اور گھٹا پن ظاہر ہوتا ہے ان میں سے پہلا لنک سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹنٹ اور دوسرا سابق امریکی نائب صدر الگور کے بیانات اور اقتباسات پر مبنی ہے یہ دونوں انتہائی سینئر امریکی عہدے دار رپ چکے ہیں امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں سرکاری موقف بیان کریں گئے۔
http://www.msnbc.msn.com/id/18351287/
http://www.ontheissues.org/Archive/Speech_on_Iraq_Al_Gore.htm
اس وقت دنیا جس رخ اور نہج پر جارہی ہے اس کو سمجھنے کے لیے اب کسی تفسیر اور تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ یہ بحث کہ اس صور حال کے ذمہ دار القاعدہ ہے طالبان ہیں یا امریکا بہت حد تک غیر ضروری یا مجھے کہنے دیجئے باکل بے کار ہو چکی ہے۔ بات اب محض میڈیا وار سے کہیں آگے کی ہے یہ اب ممکن نہیں رہا جو کچھ عراق ، افغانستان اور پاکستان میںایک بڑی تباہی کی صورت میں ہو رہا ہے اس کو میڈیا کے پر پیگنڈے ، خریدے ہوئے مبصرین ، ڈیجیٹل آوٹ ریچ ٹیم، انٹرینیٹ، مقامی کرپٹ سیاستدانوں کے ذریے چھپایا، بدلا، یا مسخ کیا جا سکے۔ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی حقائق کا ادراک کر ہی ہے اور باوجود اس کے کہ دنیا کی ایک بڑی قوت کی ساری مشنری اپنےکرتوتوں کو اپنی اخلاقی بالا دستی اور حق و صداقت پر مبنی قرار دے رہی ہے۔کچھ لوگوں کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی مگر يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس بحث کے دوران شديد اختلافات بھی سامنے آتے ہيں اورمتضاد رائے دہی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ليکن اہم بات يہ ہے کہ تمام تر فيصلے جمہوری نظام کے تحت اکثريت کی حمايت کے ساتھ کيے جاتے ہيں۔ آپ نے سابقہ اہم حکومتی اہلکاروں کے بيانات کے حوالے سے جن ويب لنکس کا ذکر کيا ہے، وہ کوئ غير معمولی يا غير روايتی امر نہيں ہے۔ امريکہ کی ہر حکومت ميں ايسے بہت سے عہديدار موجود ہوتے ہيں جو حکومت کے دوران اور اس کے بعد بھی بہت سی پاليسيوں اور فيصلوں سے اختلاف رکھتے ہيں۔ ان اختلافات کا ذکر وہ مختلف فورمز، اخباری آرٹيکلز يا کتابی شکل ميں عوام کے سامنے پيش کرتے رہتے ہيں۔ ليکن سب سے اہم بات يہ ہے کہ يہ عہديدار بحرحال مجموعی طور پر حکومتی سسٹم پر يقين رکھتے ہيں اسی ليے وہ حکومتی مشينری کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کرتے ہيں۔ يہ درست ہے کہ وہ بعض فيصلوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہيں ليکن يہ امريکی حکومت کے جمہوری نظام کی روايات کے عين مطابق ہے۔
.in September 2002, The Cia Contributed A Section To A Briefing Book For Policy-makers. It Included A Cia Paper Outlining Plans For Dealing With The “negative Consequences” Of Invading Iraq.
The Paper Laid Out A Series Of Worst-case Scenarios
Anarchy And The Territorial Breakup Of Iraq.
Region-threatening Instability In Key Arab States.
A Surge Of Global Terrorism Against U.s. Interests Fueled By Militant Islamism.
Disruption Of Major Oil Supplies And Severe Strains On The Atlantic Alliance.
Later, In January 2003, Two Months Before The War, The Cia Produced Another Paper With Detailed Warnings That, In Hindsight, Were Eerily Accurate.
It Forecast Violent Conflict Among Domestic Groups And Formation Of An Alliance Of Former Members Of Saddam’s Regime Who Would Be Able To Fight A Deadly Guerrilla War. It Predicted That Islamist Extremists Would Gain Traction Among The Population. And It Warned That Anti-u.s. Sentiment Would Fuel Militants’ Popularity And Deadliness
امریکی انتظامیہ نے ایک بڑی رائے عامہ کے خلاف یہ حمے کیے اور انہیں کسی طرح جائز قرا نہیں دیا جا سکتا