محسن حجازی
محفلین
شمار کا خمار
محسن حجازی
محسن حجازی
افراد ہی نہیں اقوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں
اگر کسی طے شدہ حکمت عملی کے امکان کو رد بھی کر دیا جائے تب بھی طیش میں آئے اور بھنائے ہوے امریکیوں کا غریب کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑنا خود امریکی عوام کے نکتہ نظر سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دنیا میں سب سے زیادہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کے شائق امریکی جنگ کو بھی ایک ویڈیو گیم ہی سمجھے۔ ایک ایسا کھیل جسے بڑی سی سکرین کے پار بیٹھ کر محض بٹن دبانے سے کھیلا جا سکتا ہے۔ آغاز میں برسائے جانے والے بموں پر تحریر تھا کہ بن لادن اور بسٹ! آخر میں برستی گولیوں کے ساتھ ممیا جا رہا ہے کہ آئیے بات کر لیجئے! امریکی اس مغالطے میں رہے کہ ویڈیو گیم کی طرح یا تو مٹھی بھر طالبان ختم ہو جائیں گے اور اگر نہ بھی ختم ہوئے تو ایک روز ان کے 'بم' ختم ہو جائيں گے۔ بس پھر اسی لمحے انہیں دبوچ لیا جائے گا۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔
آٹھ برس پر محیط اس جنگ نے دنیا بھر کے اقتصادی ڈھانچے تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب عقل پر پتھر پڑ جائیں تو سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔ واقعہ کیا تھا کہ دو عمارتیں گر گئیں جن کا کل تخمینہ چند بلین ڈالر نکلتا تھا۔ لیکن اس سب کے ازالے کے لیے تین ٹریلین ڈالر جھونک دئے گئے اور گرائی جانے والی عمارتوں کا تو شمار ہی نہیں۔
خود امریکی معیشت بھی کچھ خاص پہلوان نہ تھی بس سرمایہ دارانہ نظام کا بھرم باقی تھا کہ تین مزید معیشتیں اس ایک معیشت کے سر پر پال لی گئیں۔ ان میں عراق، افغانستان اور پاکستان کی معیشتیں شامل ہیں۔ اور معیشتیں بھی وہ جن کے پیندے سرے سے نہیں۔ جتنا ڈالیئے ھل من مزید کی صدا کے ساتھ اتنا ہی غائب!
غالبا حضرت علی کا قول ہے کہ جو نادان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہو اسے چاہئے کہ بڑے شر کے لیے تیار رہے۔ امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کی دانست میں طالبان شریر ہی سہی تاہم اس اعتبار سے عقلیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ چند ایک حفاظتی اقدامات کر لیے جاتے اللہ اللہ خیر سلا۔ پھر بات تو یوں بھی ہے کہ امریکی بھی کبھی چھوٹے شر پر راضی ہوئے ہیں؟ قصہ مختصر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا گیا عراق افغانستان اور پاکستان تین محاذ کھل گئے۔فوجی امداد پر امداد! پوری کی پوری معیشتیں پہلے تباہ حال کی گئيں اور پھر از سر نو کھڑی کی گئیں۔ دیکھئے قضیہ محض دو عمارتوں کا ہی تو ہے۔کہتے ہیں کہ سوداگر کے بندر نے منہ پر مکھی بیٹھی دیکھ کر خنجر سے ناک ہی جدا کر دی تھی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ امریکی صدر، پالیسی سازوں اور سوداگر کے بندر میں کس قدر تفاوت ہے؟
ناقدین سوال اٹھا سکتے ہیں کہ محض دو عمارتیں تو نہ تھیں انسانی جانیں بھی گنئے۔ صراحتا عرض کیے دیتے ہیں کہ اب جب کہ ہم خالصتا امریکی نکتہ نظر سے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، انسانی جان کی حرمت کا پاس و قیاس کرنا بعید از حقیت ہو گا سو محض عمارتوں اور ڈالروں میں گنئے۔اگر شک ہے تو آٹھ سالہ جنگ دیکھ لیجئے، ہلاک شدگان کی تعداد دیکھ لیجئے جو ہمارے طرز استدلال کی صحت ثابت کرتی ہے۔ اب بھی ہم کو امریکہ کی جانب سے جنگ کے متعلق اعداد و شمار میں انسانی جانوں کے ضیاع کی بجائے سیدھا سیدھا ڈالروں میں خرچ ہی نظر آتا ہے۔
معاملہ رہا طالبان کا تو پرنالہ وہیں ہے۔ طالبان کے معاملے میں امریکی شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ غالبا امریکیوں کا تصور یہ رہا ہوگا کہ ڈھاٹوں میں ملفوف کچھ باریش غاروں میں چھپے بیٹھے ہیں کلسٹر بموں سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ نہ غار رہیں گے نہ طالبان۔ سو ابتدا میں یہی بم استعمال کیے گئے اور بے انتہا کیے گئے۔ خیال تھا کہ چند ہزار طالبان کی کمک کی مکمل ہلاکت کے بعد طالبان کسی ناپید جاندار کی نسل کی مانند معدوم ہو جائیں گے۔
اور یہیں بہت غلطی ہوئی! امریکی طالبان کی تعداد کا درست شمار نہیں کر پائے۔اور تعداد کا شمار کوئی ایسی پیچید ہ چیز نہیں جو نہ کی جا سکے۔ اصل غلطی کہیں اور ہوئی۔ اور وہ اصل غلطی یہ کہ طالب ہے کون؟ طالب کسے کہا جائے گا؟ طالبان وہ مدرسوں کے نوجوان ہیں جو روس کے خلاف جنگ کے بعد مسلح تھے۔ پاکستان نے اپنے مفادات کے پیش نظر سرحدوں کے تحفظ کی خاطر ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس سب میں پاکستان کا اپنا مفاد تھا اور طالبان کا اپنا۔ دوسری طرف طالبان علاقے پر غلبے اور شرعی قوانین کے نفاذ کے خواہاں تھے ۔ بنیادی طور پر دین دار لیکن مسلح جدو جہد کے اہل لوگ طالبان ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ حقیقت انسان کی اپنی نگاہ سے بھی اوجھل ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ یہی ہوا۔ طالبان کو وحشی اجڈ جاہل غیر مہذب بتاتے بتاتے یہ حقیقت خود امریکہ کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو گئی کہ اصل میں طالبان اپنے مذہب پر سختی سے عمل پیرا لوگوں کا گروہ ہے۔ فرق ہے تو محض اتنا کہ یہ مسلح جدوجہد کے فن سے واقف ہیں۔
اور یہیں سے اصل تباہی کا آغازہوا۔ امریکہ انہیں مٹھی بھر سمجھتے ہوئے مسلنے کی مہم پر نکل کھڑا ہوا لیکن یہ بھول گیا کہ تمام افغانستان طالب ہے! اور یہی نہیں پاکستان کا ہر چوتھا باشندہ طالب ہے! لیجئے چند مثالیں:
میں نے انیس برس کی عمر میں لاہور میں پانچ ہزار روپے کی ایک معمولی ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ جن صاحب کے ہاں ملازمت کرتا تھا، ان کا کاروبار پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا۔ باہر دبئی میں بھی ان کی شاخیں تھیں۔ دراز ریش، نمازی ۔ الیکٹرانکس انجینئر۔ پیشانی پر سجدوں کے سبب محراب سر پرسے ٹوپی کبھی اتارتے انہیں میں نے نہیں دیکھا۔ میں ذہنی طور پر ان کے کافی قریب تھا، عمر میں دوگنے سے بھی زیادہ تفاوت کے باوجود ہم میں گھنٹوں تبادلہ خیال ہوا کرتا تھا۔ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ ایک ملازم محض اس بات پر مقرر تھا کہ دوسرے ملازمین سے پتہ کرے کہ وہ آج کھانے میں کیا کھائیں گے اور لاہور میں کس جگہ سے ان کے لیے مطلوبہ ڈش لائی جائے۔ ذکر الہی کرتے اکثر شدت جذبات سے رو پڑتے۔ بیگم ایک دفعہ تشریف لائیں لیکن برقعے میں ملبوس۔طالبان کی تمام نشانیاں ہم گنوا چکے۔
والدہ کے معالج ملک کے چوٹی کے نیورو سرجن۔ لمبی داڑھی، سر سے ٹوپی اتارتے انہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ادھر اذان کی آواز سنائی دی ادھر ڈاکٹر صاحب نے معذرت کر لی۔ یہ صاحب میرے ماموں کے ذاتی دوست ہیں سو ان سے پہلے بھی ملنا جلنا رہا لیکن کبھی شلوار قمیص کے علاوہ نہیں دیکھا۔ ایک روز ملنے گیا تو معلوم ہوا کہ اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ وہ بھی حجاب میں ملبوس۔ طالبان کی تمام نشانیاں ہم بتا چکے۔
بلال ہاشمی، مائکروپراسیسرز، کنٹرولرز اسمبلی لینگویجز پر اس قدر مہارت رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ فاسٹ سے وابستہ ہیں، میرے استاد بھی ہیں۔ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران ملنے کا اتفاق ہوا۔ ٹخنوں تک شلوار، سر پر ٹوپی، لمبی داڑھی۔ میٹنگ کے دوران نماز کے لیے معذرت کر کے اٹھ گئے۔ طالبان کی نشانیاں ہم گنوا چکے۔
خود ہمارے ماموں محترم،فزیشن، اس کے علاوہ ایک بڑے میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کا عہدہ رکھتے ہیں۔ سر پر ٹوپی، لمبی داڑھی۔ نماز روزے کی بابت وہی پابندی۔ مجھے تئیس برس ہو گئے میں نے انہیں آج تک پینٹ شرٹ میں نہیں دیکھا۔ راسخ العقیدہ مسلمان۔طالبان کی نشانیاں ہم گنوا چکے۔
انصار عباسی، نامور صحافی۔ ان کے بلاگ پر اس بات کا ذکر موجود ہے کہ ان کی اہلیہ نے نقاب کے بغیر ٹی وی پر انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ بچوں کے کسی مقابلے میں ان کے صاحبزادے نے انعام جیتا۔ انٹرویو کے لیے والدین کو بھی بلایا گيا۔ کیمرہ کے سامنے کہا گیا کہ نقاب اتار دیجئے اچھا نہیں لگتا سکول کی شہرت بھی خراب ہوگی۔ جواب میں انعام لینے سے ہی انکار کر دیا گيا۔ یہی طالبان ہیں۔
پچھلے دنوں ہسپتال میں ہمیں ہر چوتھا ڈاکٹر اسی حلئے کا دکھائی دیا کہ لمبی داڑھی، پیشانی پر محراب، شلوار قمیص۔ سو بس امریکہ نے ہر باریش شخص کا تشخص اس قدر برباد کیا کہ خود بھی بھول بیٹھا کہ اس قماش کے لوگ مٹھی بھر ہر گز نہیں۔ لڑنے والے چند سامنے ہوں گے جنگ میں پیسہ لگانے والے کہیں اور ہوں گے۔ ہمدردیوں کا ایک سیلاب ہے جو آج بھی طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی نکتے سے امریکہ غافل رہا اور اپنی دانست میں مٹھی بھر لوگوں پر ہاتھ ڈال بیٹھا۔یہ تو میڈیا وار نے اچھے بھلے اذہان کو بھی اس قدر الجھا کر رکھ دیا ہے کہ طالبان کا نام سنتے ہی جھاگ اڑنے لگتے ہیں وگرنہ اسی قماش کے لوگ آپ کے قرب و جوار میں ہیں بس اتنا کہ مسلح نہیں ہیں۔ اور ہم مکرر کہیں گے کہ امریکہ سے یہیں غلطی ہوئی کہ طالب ہے کون؟
اور پھر بوکھلاہٹ کا وہ مظاہرہ بھی سامنے آیا کہ امریکی وزیر خارجہ نے فرمایا طالبان کا اثرو رسوخ ختم ہو چکا ہے تاہم ان سے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ صاحب اثرورسوخ ختم ہو چکا ہوتا جیسا کہ آپ کا شروع میں خیال تھا تو آپ بات چیت پر آتے ہی کیوں آپ تو چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر مذاکرات کے شوقین ہیں۔اب حالات یہ ہیں کہ امریکی خسارہ پانچ سو ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ بری طرح سات سو پوائنٹ تک بھی نیچے جا گری، سات سو ارب ڈالر کی ہنگامی امداد بھی کچھ کام نہ آئی اگلے روز ہی مارکیٹیں پھر منہ کے بل جا گریں، دنیا بھر سے امریکہ کی اقتصادی حکمت عملی کو عالمی بحران کا سبب بتا کر انگشت نمائی کی جا رہی ہے۔
اور ادھر ان کا کہنا ہے کہ طالبان کا اثر روسوخ ختم ہو چکا ہے
واقعی افراد ہی نہیں اقوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں