شمار کا خمار۔۔۔ محسن حجازی

فاروقی

معطل
فواد صاحب کی ہمت کو واقع سلام کرنے کو جی چاہتا .............بس اپنا طنبورہ بجائے جاتے ہیں....جو بات ہضم نہ ہو کسی کی اس کے خلاف کسی بھی ویب کا لنک پوسٹ کر دیتے ہٰن.............حضرت اس طرح تو ہم بھی امریکیوں کے خلاف ویب لنکز کے پہاڑ کھڑے کر سکتے ہیں کہ جنہیں دیکھ آپ ایک مرتبہ ایسے :eek: ہو جائیں گے..........لیکن مانے گے آپ پھر بھی نہیں....اور یہی کہیں گے بش تو فرشتہ ہے ......جسے معلوم نہیں کہ خون کی چاٹ کیا ہوتی ہے........

حضرت اگر آپ ان کے تنخواہ دار بھی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ........لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری بھی کبھی کسی نے قبول کی ہے.......آپ ناحق اپنا وقت بر باد کرتے ہیں....کوئی اور اچھا سا کام کیجیئے نا...............(دل دکھنے پر معذرت چاہوں گا کہ آپ بھی امریکیوں کی طرح نازک مزاج ہو ہی چکے ہوں گے.......(
 

محسن حجازی

محفلین
فاروقی صاحب میں ان دستاویزات میں سے کچھ دیکھ چکا ہوں رات کچھ وقت اسی کام کے لیے وقف کیا تھا، اس میں سے بھی بہت کچھ چونکا دینے والا سامنے آیا ہے اسے بھی یہاں جلد ہی پیش کرتا ہوں۔ اس میں کچھ ایسا بھی ہے جو میرے لیے کسی جاسوسی ناول سے کم نہیں تھا امریکی حکومت کے اندرونی عزائم اور سوچ کا سراغ بھی ملا۔ تاہم اپنی دانست میں دستاویزات کے حساس حصوں پر کاغذ چپکا کر سکین کیا گیا ہے جس سے بسااوقات معاملات مبہم رہ گئے ہیں۔
دلچسپ حصے وہ ہیں جہاں سفارتخانے کے ایک افسر پیچھے گھر پر طالبان کی کہانی سنا رہے ہیں اور نوازشریف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کا ذہن واضح نہیں ہے۔ اسے پڑھئے تو پتہ چلتا ہےکہ امریکی سفیر سفارت سے زیادہ جاسوسی اور مخبری کے ذہن کے ساتھ دوسرے ممالک میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

فواد صاحب چلئے یوں آئیے:
کیا اب طالبان کا مسئلہ حل ہو گیا؟
کیا اب دہشت گردی تھم گئی ہے؟
میری تحریر کا محض اتنا سا مقصد ہے کہ امریکیوں کو اپنے طریق کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
آپ فرمائیے کیا فرماتے ہیں؟
 

ملائکہ

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے پر میں اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتی کہ ہر داڑھی رکھنے اور ٹخنوں تک شلوال پہننے والا مرد اور ہر نقاب کرنے والی عورت طالب ہے۔ طالبان یقینا" ہم میں سے ہی ہیں مگر انکی یہ تعریف غلط ہوگی:):):)
 

محسن حجازی

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے پر میں اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتی کہ ہر داڑھی رکھنے اور ٹخنوں تک شلوال پہننے والا مرد اور ہر نقاب کرنے والی عورت طالب ہے۔ طالبان یقینا" ہم میں سے ہی ہیں مگر انکی یہ تعریف غلط ہوگی:):):)

بالکل! لمبے بال رکھ لینے سے آدمی فیشن ڈیزائنر یا مصور نہیں ہو جاتا :grin:
بچہ پارٹی کیا کر ہی ہے بھئی یہاں؟ :eek: :eek:
بچو جی بات یہ ہے کہ ہم نے کب کہا کہ سبھی طالبان ہیں۔ طالبان کی اصل تعریف پر بحث ہے۔ میں تنظیمی طور پر طالب ہونے کی بات نہیں کررہا بلکہ طرز حیات کی بات کر رہا ہوں کہ انداز فکر کم و بیش وہی ہے۔
اب تو طالبان کا معاملہ اتنا اچھالا گیا ہے کہ فلمسازوں اور ناول نگاروں نے بھی اس پر خوب طبع آزمائی کی ہے کہ تشخص ہی بگڑ کر رہ گیا ہے سو نتیجہ اس سب کا یہ ہے کہ طالبان کے لفظ کا آپ کے اور میرے مفہوم میں ہی تفاوت اور بعد المشرقین ہے۔
ایک حالیہ بھارتی فلم بھی اسی موضوع پر ہے۔ تاہم جیسا وہ یہ سب دکھا رہے ہیں، بلا تحقیق ہے۔
ممبئی میں حسیناؤں اور سازندوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر طالبان پر کہانی لکھنا اور فلمانا آسان ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کے لیے میدان جنگ میں خود اترنا پڑتا ہے۔
اس قسم کی سنجیدہ کاوش طلعت حسین کے علاوہ مجھے کم ہی نظر آئی ہے۔
 

ملائکہ

محفلین
بالکل! لمبے بال رکھ لینے سے آدمی فیشن ڈیزائنر یا مصور نہیں ہو جاتا :grin:
بچہ پارٹی کیا کر ہی ہے بھئی یہاں؟ :eek: :eek:
بچو جی بات یہ ہے کہ ہم نے کب کہا کہ سبھی طالبان ہیں۔ طالبان کی اصل تعریف پر بحث ہے۔ میں تنظیمی طور پر طالب ہونے کی بات نہیں کررہا بلکہ طرز حیات کی بات کر رہا ہوں کہ انداز فکر کم و بیش وہی ہے۔
اب تو طالبان کا معاملہ اتنا اچھالا گیا ہے کہ فلمسازوں اور ناول نگاروں نے بھی اس پر خوب طبع آزمائی کی ہے کہ تشخص ہی بگڑ کر رہ گیا ہے سو نتیجہ اس سب کا یہ ہے کہ طالبان کے لفظ کا آپ کے اور میرے مفہوم میں ہی تفاوت اور بعد المشرقین ہے۔
ایک حالیہ بھارتی فلم بھی اسی موضوع پر ہے۔ تاہم جیسا وہ یہ سب دکھا رہے ہیں، بلا تحقیق ہے۔
ممبئی میں حسیناؤں اور سازندوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر طالبان پر کہانی لکھنا اور فلمانا آسان ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کے لیے میدان جنگ میں خود اترنا پڑتا ہے۔
اس قسم کی سنجیدہ کاوش طلعت حسین کے علاوہ مجھے کم ہی نظر آئی ہے۔

میں آپکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں:):)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ابھی فواد صاحب آپ کو سارے حساب کتاب ہندسوں کی مدد سے ثابت کر کے بتائیں گے کہ بُش موجودہ وقت سب سے جینیئس بندہ ہے۔ اور امریکہ کی سب پالیسیاں انسانیت کی خیر خواہی کے لیے ہیں۔

ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور انظاميہ کے اراکين عقل کل ہيں يا ہميشہ درست فيصلے کرتے ہيں۔ ميں نے اکثر اپنی پوسٹ ميں يہ بات کہی ہے کہ يقينی طور پر غلطياں سرزد ہوئ ہيں اور ايسے فيصلے بھی کيے گئے ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہوئے ہيں۔

ميں صرف اس پس منظر، تاريخی حقائق اور تناظر کی وضاحت کرتا ہوں جن کی بنياد پر فيصلے کيے گئے تھے اور پاليسياں مرتب کی گئيں۔ يہ نامکن ہے کہ غلطيوں سے پاک ايسی پاليسياں تشکيل دی جائيں جس سے دنيا کے سارے مسائل حل کيے جا سکيں۔ ايسا کرنا امريکہ سميت دنيا کی کسی بھی حکومت کے ليے ممکن نہيں ہے۔

ليکن ميں اس بنيادی سوچ اور نقظہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت ہر واقعہ، بيان اور پاليسی کو سازش کی عينک سے ديکھا جاتا ہے۔ يہ سوچ فہم اور منطق کے منافی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور جہاں تک عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے تو امریکہ اور دیگر قابض قوتیں اس میں بھی بازی لے گئی ہیں۔

شادی کی تقریب پر بھی بمباری
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080714_afghan_survivors_rr.shtml

امریکی فوج نے خود بھی شہریوں کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/10/081009_us_concede_fz.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/10/081016_afghan_civilians.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2007/06/070622_helmand_attack_sq.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080706_aghan_nangahar.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080717_us_afghan_bombing_sz.shtml

فوجی کارروائیوں‌میں شہریوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کی تشویش

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اتحادی فوج کے فضائی حملوں میں افغان شہری ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/09/080908_hrw_civic_kill_afghan_zs.shtml


افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کے ضمن ميں ميرا آپ سے ايک سوال ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ بے گناہ شہريوں پر دانستہ حملے سے امريکہ کو کوئ فائدہ جاصل ہوتا ہے؟ کيا ان ہلاکتوں سے امريکہ کو فوجی، سياسی يا انتظامی معاملات ميں اپنے مقاصد کی تکميل ميں کوئ کاميابی حاصل ہوتی ہے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے امريکہ کو سياسی اور سفارتی سطح پر بہت سی مشکلات، چيلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ يہ اور ايسی ديگر وجوہات کی بنا پر امريکہ کی يہ ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے واقعات رونما نہ ہوں۔ يہ حکمت عملی بہرحال ان ہتھکنڈوں سے متضاد ہے جو اپنے سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دہشت گرد استعمال کرتے ہيں جس کا محور دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کی ہلاکت ہے۔

کسی بھی تناظے، جنگ يا فوجی کاروائ کے دوران عام شہريوں کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ اور تاريخ کی کسی بھی جنگ کی طرح افغانستان ميں بھی ايسی فوجی کاروائياں يقينی طور پر ہوئ ہيں جن ميں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہيں۔ ليکن ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب آپ ایسے کسی واقعے کا ذکر کرتے ہيں اور اس ضمن ميں خبر کا حوالہ ديتے ہيں تو اس وقت يہ بات بھی ياد رکھنی چاہيے کہ ايسے واقعات بھی رونما ہوئے ہيں جس کے نتيجے ميں نيٹو افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں خود امريکی اور اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہيں۔ ان تمام واقعات کی باقاعدہ فوجی تفتيش ہوتی ہے اور اس کے نتيجے ميں حاصل شدہ معلومات کی روشنی ميں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ مستقبل ميں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔ ليکن کيا آپ دہشت گردوں سے اس رويے اور حکمت عملی کی توقع کر سکتے ہيں جن کی اکثر "فوجی کاروائياں" دانستہ بےگناہ افراد کے قتل پر مرکوز ہوتی ہيں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
فواد صاحب میرے سوالوں کا تو جواب دیجئے۔
ملائکہ آپ کو اب کون سمجھائے کہ ہم کہنا کیا چاہ رہے ہیں :grin:
زیک نہیں مجھے مطالعے کا اتفاق نہیں ہوا۔
 

سعود الحسن

محفلین
افغانستان ميں 90 کی دہائ کے دوران امريکی پاليسی کے حوالے سے ميری يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ان امريکی اہلکاروں سے بڑی تفصيلی گفتگو ہوئ ہے جو 1995 ميں طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل کے حالات و واقعات اور اس ضمن ميں امريکی پاليسی سے براہراست منسلک تھے۔ اس کے علاوہ ميں نے ايسی سينکڑوں رپورٹوں اور دستاويزات کا بھی تفصيلی مطالعہ کيا ہے جو اس زمانے ميں امريکی اور پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے درميان معلومات کے تبادلے پر مبنی ہيں۔ ان دستاويزات سے حاصل شدہ معلومات سے امريکی اہلکاروں کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ميں نے ان ميں سے کچھ دستاويزات کے لنکس اسی فورم پر کچھ سوالات کے جوابات کے ضمن ميں پوسٹ بھی کيے ہيں۔

موضوع کی مناسبت سے ميں دوبارہ وہ لنکس يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ ان دستاويزات پر درج تاریخيں توجہ طلب ہيں۔ يہ رپورٹیں 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے پہلے کی ہيں۔ ان دستاويزات سے يہ بات ثابت ہے کہ 90 کی دہائ کے دوران امريکی حکومت نےکئ بار حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کی ديگر تمام سياسی قوتوں کو پس پشت ڈال کر صرف طالبان کی حمايت اور مدد پر شديد تحفظات کا اظہار کيا ۔ کم ازکم 30 مختلف موقعوں پر پاکستانی حکومت اور فوج کے اعلی حکام کو خطے ميں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ضمن ميں ممکنہ خطرات سے آگاہ کيا گيا۔

ايک دستاويز ميں طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت ميں دہشت گردی کے فروغ کے بارے ميں امريکی خدشات کے جواب ميں ايک پاکستانی اہلکار کا جواب خاصا توجہ طلب ہے

"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اعتدال پسندی کی راہ اختيار کر ليں گے اور جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو يہ آج کا اہم مسلہ نہيں ہے اس مسلئے سے مستقبل ميں نبرد آزما ہوں ليں گے"۔

آپ يو – ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر ميری رائے کو جانب داری کے زمرے ميں ڈال سکتے ہيں۔ ليکن حقائق ان دستاويزات کی صورت ميں آپ کے سامنے ہيں۔

نومبر7 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689832&da=y


ستمبر26 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے
"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689833&da=y

اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689834&da=y

فروری6 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689835&da=y

جنوری 16 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689836&da=y

اکتوبر 22 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689837&da=y

امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689838&da=y

اگست 27 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689839&da=y

دسمبر 22 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689840&da=y

اکتوبر 18 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689841&da=y

مارچ 9 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689842&da=y

ستمبر 28 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689843&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689844&da=y

دسمبر 5 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔ پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689845&da=y

جنوری 29 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689846&da=y

اکتوبر 18 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689847&da=y

ستمبر 30 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689848&da=y

اکتوبر 2 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689849&da=y

نومبر 12 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689850&da=y

مارچ 10 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689851&da=y

جولائ 1 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689853&da=y

اگست 6 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689854&da=y

پاکستان کی جانب سے طالبان کی پشت پناہی، اور اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں القائدہ کی تنظيم نو اور 11 ستمبر 2001 کے حادثے سميت دنيا بھر ميں دہشت گردی کے واقعات کی اس تاريخ کے پس منظر ميں کيا يہ دعوی کرنا حقيقت کے منافی نہيں کہ ہم امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں اور"طالبان کا مسلہ" ہم پر مسلط کيا جا رہا ہے؟

طالبان اور پاکستان کی يہی وہ تاريخ ہے جس کے نتيجے ميں امريکی حکومتی حلقوں ميں پاکستان کے سرحدی علاقوں ميں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر شديد تشويش پائ جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov


فواد صاحب، آپ نے جتنی عرق ریزی سے ہزاروں صفحات پر مشتمل سینکڑوں دستاویزات پڑھیں اور ان کے لنک پیش کیے اس کی داد دینی چاہیے، جو کام آپ نے اکیلے کر لیا یقین جانیے اس کے لیے تو ایک پوری ٹیم چاہیے۔

میں ایمانداری سے اعتراف کروں گا کہ میں نے ان میں سے کسی بھی دستاویز کا مطالعہ نہیں کیا، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میرے پاس اتنا فارغ وقت نہیں ہے کہ میں ان دستاویز کا تفصیلی مطالعہ کرسکوں، دوسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے ایک معمولی طالبعلم ہونے کی وجہ سے مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان میں کیا ہوگا، ان میں سے اکثر تفصیلات اس وقت کے پاکستانی اخبارات میں چھپ بھی چکی ہیں، اتفاق سے میں ان دنوں جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کر رہا تھا یا یہ اس کے فوری بعد کا عرصہ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ نہ صرف ہم طالبعلم بلکہ شعبہ کے اکثر (یا شاید تمام) اساتذہ (جو ایک کو چھوڑ کر سب ہی لبرل تھے/ہیں) اس بات پر متفق تھے کہ طالبان کی تخلیق اور افغانستان پر ان کی گرفت قایم کرانا پاکستان کی تاریخ میں بین الاقوامی معاملات میں کچھ بہترین کوششوں (مووز) میں سے ایک اور کامیاب ترین کوشش تھی۔ اور میرے خیال میں آج بھی بحثیت پاکستانی میں اس کامیاب کوشش پر نہ صرف میں مطمین ہوں بلکہ شاید ہی کوی پاکستانی ہوگا جو بین الاقوامی تعلقات کو سمجھتا ہوں اور اس کے باوجود اس کوشش کی حمایت نہ کرتا ہو۔

آپ کی اس پوری تحریر اور حوالوں سے جو پہلا سوال میرے زہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر امریکہ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میلوں دور واقع ایک انتہای پسماندہ اور لینڈ لاکڈ (وہ ریاست جس کی سرحدیں کسی بین الاقوامی سمندر سے نہ ملتی ہوں، ان ممالک کو بین القوامی سیاسی حوالے سے بد قسمت تریں ممالک سمجھا جاتا ہے) ملک میں ایسی کیا دلچسپی تھی کہ امریکہ ہر حال میں وہاں اپنی مرضی کی ایک اقلیتی اور افغان پٹھانوں کی نسبت زیادہ غیر مہزب (آپ کے الفاظ میں) شمالی اتحاد کی حکومت قایم رکھنا چاہتا تھا۔؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا معاملات تھے جن کی وجہ سے امریکہ ان ہی ادوار میں پاکستان کی حکومت کی طرف اس احتجاج کو مسلسل نظر انداز کرتا رہا (جس طرح اب بھی کر رہا ہے) کہ شمالی اتحاد کی کابل حکومت کا رویہ پاکستان کے ساتھ معاندانہ ہے، اور وہ ہندوستان سے مسلسل سفارتی اور فوجی تعلقات بڑھا رہی ہے، اور ہندوستان کی حکومت کو پاکستان کے سرحدی علاقوں تک مسلسل رسایی دے رہی ہے، ہندوستان کی پاکستان کے سرحدی علاقوں اور سندھ میں مداخلت بڑھ رہی ہے، اور یہ کہ افغان حکومت میں افغان پٹھانوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے حصہ دیا جاے۔

اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ پاکستان کے اعتراضات غلط تھے، یا انھیں‌دور کردیا گیا تھا، کیونکہ یہی وہ معاملات تھے جن سے مجبور ہو کر پاکستان کی حکومت نے امریکہ سے یہ بغاوت کی اور طالبان کو سپورٹ کیا۔

مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ ہم نے 80 کی دھای میں افغانوں کا ساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کہ جب جنگ ختم ہو، تو حلوہ آپ کھایں اور ہم اتنا مفاد بھی حاصل نہ کر سکیں کہ سرحدوں کے سایز کے حوالے سے ہمارے ایک بڑے ہمساے ملک میں ایک ایسی حکومت قایم کردی جاے جو نہ صرف ہماری مخالف ہو بلکہ ہماری دوسری سرحد پر موجود ہمارے ازلی دشمن سے دوستیاں بڑھاے اور اسے ہمارے خلاف کاروایاں کرنے کے لیے اپنے ملک میں مواقعہ فراہم کرے۔ (ویسے آپ کے مطابق افغانی طالبان کا بھی یہی قصور تھا کہ انہوں نے امریکہ کے خلاف القاعدہ کو اپنی زمین استعمال کرنے دی)۔

لہزا پاکستان نے ظالبان کو افغانستان کی حکومت حاصل کرنے میں مدد دی تاکہ اس کی ایک بڑے پروسی ملک میں اس کی دوست حکومت قایم ہوسکے، جس طرح امریکہ اور ہندوستان افغانستان میں اپنے مشترکہ مفادات کہ لیے شمالی اتحاد کی حکومت قایم رکھنا چاہتے تھے۔

لہزا طالبان کی افغان حکومت تک رسای کے لیے پاکستانی کوششیں ایک بہترین اور کامیاب حکمت عملی تھی، لیکن اس حکمت عملی کے بڑے متاثرین امریکہ، ہندوستان اور شمالی اتحاد تھے، لہزا امریکی حکومت کی طرف سے کی جانے والی تمام کوششیں (جن میں آپ کے فراہم کیے گے لینک بھی شامل ہیں ) بنیادی طور پر انگور کھٹے ہیں کی اس وقت کی امریکی زہنیت کے تناظر میں ہیں، اور ان کا 11 ستمبر کے حملوں سے کوی تعلق نہیں ہے۔

(باقی آیندہ)

کافی دیر ہوچکی ہے گھر بھی پہنچنا ہے، پھر لکھ لکھ کر میری انگلیاں درد کرنے لگی ہیں،
 

سعود الحسن

محفلین
محسن اس چکر میں آپ کے کالم کی تعریف تو رہی گی، چلیں قرض رہی کل اتار دوں گا،

ہاں ایک تجویز ہے کہ اگر اس ہی طرح کا ایک کالم "سرکاری ترجمانوں" پر بھی ہوجاے تو کیا بات ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
مجھے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ ہم نے 80 کی دھای میں افغانوں کا ساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کہ جب جنگ ختم ہو، تو حلوہ آپ کھایں اور ہم اتنا مفاد بھی حاصل نہ کر سکیں کہ سرحدوں کے سایز کے حوالے سے ہمارے ایک بڑے ہمساے ملک میں ایک ایسی حکومت قایم کردی جاے جو نہ صرف ہماری مخالف ہو بلکہ ہماری دوسری سرحد پر موجود ہمارے ازلی دشمن سے دوستیاں بڑھاے اور اسے ہمارے خلاف کاروایاں کرنے کے لیے اپنے ملک میں مواقعہ فراہم کرے۔ (ویسے آپ کے مطابق افغانی طالبان کا بھی یہی قصور تھا کہ انہوں نے امریکہ کے خلاف القاعدہ کو اپنی زمین استعمال کرنے دی)۔

ختم کر دی جناب آپ نے تو بات ہی ختم کر دی۔
بالکل ہمیں بھی غنڈہ گردی کا برابر کا حق حاصل ہے، دنیا پر تسلط کے خواب ہم بھی دیکھ سکتے ہیں، اپنے پڑوس میں مرضی کی حکومت لانا ہمیں بھی آتا ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین
محسن آپ کی تحریر کی تو پوری محفل ہی معترف ہے، غضب کا اور جما کر لکھتے ہیں، یقین جانیے گو کہ مزاحہ یا طنز لکہنے والے تو بہت ہیں لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جن کی تحریر میں ہر جملہ اپنی جگہ مکمل مزا رکھتا ہے، آپ ان میں سے ایک ہیں۔

اب آجایے پیغام پر، طالبان کو عام پابند شرعیت مسلمانوں سے ملانے پر کی افراد نے اعتراض کیا ہے، لیکن میرے خیال میں وہ سمجھ نہ سکے کہ یہاں آپ اپنی نہیں بلکہ امریکی یا مغربی سوچ کا بیان کر رہے ہیں کہ ان کے لحاظ سے جو مسلمان بھی ایک خاص حلیہ میں نظر آے وہ اسے انتہا ہسند یا بنیاد پسند سمجھتے ہیں، جب کہ اصل میں اس کا تعلق حلیہ سے نہیں بلکہ سوچ سے ہے۔ جیسے ہر تھری پیس سوٹ پہننے والا لبرل نہیں ہوتا۔

جہاں تک تعلق ہے، صرف دو عمارتوں کے گرنے پر ردعمل کا، تو اس کا تعلق مالی یا جانی نقصان سے نہیں ہے بلکہ مسلہ ساکھ کا ہے، آپ اسے ہمارے ہاں کہ روایتی جاگیرداروں کہ رویے سے مماثل کہ سکتے ہیں۔
 

سعود الحسن

محفلین
اصل میں تاریخی طور پر امریکیوں کی بد قسمتی یہ رہی کہ وہ اصل دنیا (کوی متبادل اصطلاح نہیں سوجھ رہی) یعنی یورپ اور ایشیا سے کافی فاصلہ پر آیسولیشن (کٹے ہوے) کی کیفیت میں رہے، لہزا عام طور پر باقی دنیا کے سیاسی معاملات سے غیر متّلق رہنے کی پالیسی پر گامزن رہے۔ پہلی مرتبہ صحیح معنوں میں یہ کیفیت پہلی جنگ عظیم میں ختم ہوی لیکن امریکہ پھر اسی کیفیت میں چلا گیا، لہزا دوسری جنگ عظیم سے بھی اس وقت تک لاتعلق رہا جب تک پورا یورپ مدد کے لیے چیخ نہ پڑا اور امریکہ کے معاشی مفادات متاثر ہونے لگے اور اس کے پانی کے جہازوں کو یورپ کے سمندروں میں غرق کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر دنیا بدل چکی تھی، پرانی سپر پاورز اپنے مقبوضہ علاقہ تیزی سے چھوڑ رہی تھیں اور اصل ملک کو بحال کرنے میں لگی تھی اور اس کے لیے بھی انہیں امریکی مدد کی ضرورت تھی کیونکہ دوسری جنگ عظیم سے سب سے کم متاثر امریکہ اور سویت یونین ہی تھے۔

لہزا امریکہ بدلی ہوی دنیا کا نیا سپر پاور تھا، لیکن جلد ہی اس کی اس حثیت میں سویت یونین کی مداخلت نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا، اور دنیا کو تقریبا پچاس سالہ سرد جنگ سے گزرنا پڑا۔

اللہ اللہ کر کے سویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یہ امریکیوں کہ لیے ایک تاریخی دور تھا، پوری دنیا کی واحد سپر پاور اور یک قطبی دنیا کا راگ پوری توانای سے گایا جارہا تھا کہ یورپ اور چین نے انگڑای لینا شروع کردی، اس پر ظلم یہ کہ کسی ظالم نے (ابھی نام یاد نہیں آرہا) تہزیبوں کے درمیان جنگ کا نیا شوشہ چھوڑ دیا جس کہ مطابق مسلمانوں کی تہزیب مسقبل قریب میں مغربی تہزیب کو چیلنج دے سکتی تھی۔ اس وقت امریکی دنیا پر اپنی تنہا حاکمیت کے بارے میں بہت زیادہ جزباتی اور کچھ بھی کرنے کہ لیے تیار تھے۔

ایسے میں دو عمارتوں پر حملہ ان کی مستقبل کی حاکمیت کے قایم رکھنے کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا، آپ ذرا کسی ایسے جاگیردار یا بدمعاش کا تصور کریں جو ابھی حال ہی میں اپنے بڑے دشمن سے جیت کر علاقہ میں اپنا کنٹرول قایم کرنے میں کامیاب ہوا ہے ایسے میں کوی عام مزارعہ یا عام آدمی بھرے مجموعہ میں اس کے تھپڑ جڑ دے تو اس کا رد عمل کا تصور کریں، اس کی بقا کا دارومدار اس تھپڑ مارنے والے کو نشان عبرت بنادینے میں ہوتا ہے تاکہ آیندہ کوی اس کی مرضی کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہ سکے۔

بس یہی امریکی ردعمل اور اس کا جواز تھا۔
 

محسن حجازی

محفلین
محسن آپ کی تحریر کی تو پوری محفل ہی معترف ہے، غضب کا اور جما کر لکھتے ہیں، یقین جانیے گو کہ مزاحہ یا طنز لکہنے والے تو بہت ہیں لیکن ایسے کم ہی ہوتے ہیں جن کی تحریر میں ہر جملہ اپنی جگہ مکمل مزا رکھتا ہے، آپ ان میں سے ایک ہیں۔

اب آجایے پیغام پر، طالبان کو عام پابند شرعیت مسلمانوں سے ملانے پر کی افراد نے اعتراض کیا ہے، لیکن میرے خیال میں وہ سمجھ نہ سکے کہ یہاں آپ اپنی نہیں بلکہ امریکی یا مغربی سوچ کا بیان کر رہے ہیں کہ ان کے لحاظ سے جو مسلمان بھی ایک خاص حلیہ میں نظر آے وہ اسے انتہا ہسند یا بنیاد پسند سمجھتے ہیں، جب کہ اصل میں اس کا تعلق حلیہ سے نہیں بلکہ سوچ سے ہے۔ جیسے ہر تھری پیس سوٹ پہننے والا لبرل نہیں ہوتا۔

جہاں تک تعلق ہے، صرف دو عمارتوں کے گرنے پر ردعمل کا، تو اس کا تعلق مالی یا جانی نقصان سے نہیں ہے بلکہ مسلہ ساکھ کا ہے، آپ اسے ہمارے ہاں کہ روایتی جاگیرداروں کہ رویے سے مماثل کہ سکتے ہیں۔


سعود بھائی تحاریر کی پسندیدگی کا بے حد شکریہ ذرہ نوازی ہے جناب کی :hatoff:

آپ نے بہت لطیف نکتہ پکڑا ہے یہی ساری تحریر کا نچوڑ ہے کہ جاگیردار یا ایک طاقت ور کی نفسیات ہی یہ ہوجاتی ہےکہ کچل دو مسل دو کچھ نہ چھوڑو۔ حالاں کہ معاملہ دیگر ذرائع سے بخوبی حل ہو سکتا تھا۔ اصول یہ ہے کہ اول تو طیش میں آئیے مت اور آئیے تو پھر کچھ چھوڑئیے مت۔ ساری جنگ کا نتیجہ تباہی اور جگ ہنسائی کے سوا میرے خیال میں کچھ نہیں نکلا۔ اتحادی افواج کے تعینات کمانڈرز بھی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں فتح کا حصول ناممکن ہے۔

مسلمانوں کے مابین فرق کی بات بھی خوب کہی۔ یہی نکتہ میں واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کی تعداد کافی ہے۔ یاد رہے کہ میں راسخ العقیدہ کہہ رہا ہوں، عقائد بذات خود کیا ہیں، ان سے بحث نہیں۔ اور تو اور ہم کو لوگ بغیر داڑھی کے طالبان میں گرداننے لگے ہیں :grin:

تاہم میرے نظریات طالبان سے کافی مختلف ہیں میں اقتصادی جدوجہد پر یقین رکھتا ہوں۔ اداروں کے ادارے کھڑے کیجئے منڈیاں قابو کیجئے تجارت کے راستے سنبھالیے دیگر کو اپنا دست نگر بنائیے اور پھر منوائیے جو منوانا ہے۔ یہی ہمارے ساتھ اگر کیا جا سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔

آپ پشاور والے سفیر صاحب کی رپورٹ جو انہوں نے پیچھے گھر بھیجی ہے وہ تو دیکھئے بڑے مزے کی ہے۔ امریکی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کا مزہ ہی الگ ہے۔ پتہ بھی کھڑکتا ہے تو بے چارے فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ کہیں بالادستی کو کوئی خطرہ تو نہیں؟ :grin:

میرے پاس کوئی چار منصوبے بیک وقت چل رہے ہیں، پڑھائی کو بھی وقت دینا پڑ رہا ہے ديگر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں، تاہم ارادہ ہے کہ ان دستاویزات میں سے دلچسپ حصے نکال کر قارئین کے لیے پیش کروں۔

تاہم امریکیوں کے لیے پیغام محض اتنا ہے کہ ان کی بالا دستی اسلحہ خانوں کے مرہون منت نہیں یہ ان صوفیوں کی دین ہے جو یونیورسٹیوں کی راہداریوں میں ہی تفکر و تعمق میں غرق زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جنہیں کیرئیر کی نہیں تحقیق اور تجسس کی آگ بے چین رکھتی ہے۔ جو ایک پاجامے اور قمیص میں ملبوس پیدل ہی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ اپنے مضمون کے بارے میں اس قدر مجنوں ہوتے ہیں کہ راہ چلتے بھی اسی کی دھن میں رہتے ہیں۔

یہ امریکہ انہی صوفیوں کی دین ہے جن میں ایڈیسن، بنجمن فرینکلن سے لے کر بل گیٹس اور سٹیو جیسے معمار شامل ہیں۔
امریکہ میزائلوں کی نوک پر نہیں ان بے شمار پیٹینٹس پر کھڑا ہے جو سب انہی صوفیوں اور سالکوں کی دین ہیں۔
اور امریکہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں عالم انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔
یہی تین ٹریلین ڈالر کاش تم نے دنیا بھر سے ذہین ترین لوگ جمع کرنے پر لگا دیا ہوتا تو آج انسانیت جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہوتی۔۔۔ کیا کیا اسرار منکشف ہو چکے ہوتے۔۔۔ کن کن بیماریوں کا علاج دریافت ہو چکا ہوتا۔۔۔ علم کی کئی نئی شاخیں جنم لیتیں۔۔۔
دنیا کی سربراہی کرنے کا شوق ہے تو اصل کام کرنے کا تو یہ تھا۔۔۔
اسی سے دنیا میں تمہارے اثرونفوذ میں وہ اضافہ ہوتا کہ تم سے محبتیں سنبھالے نہ سنبھلتیں۔۔۔
لیکن جیسا کہ میں لکھ چکا کہ عقل پر پتھر پڑ جائیں تو سامنے کی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیا 6 سے 7 لاکھ عراقیوں کے قتل کا مداوا ان چند گھٹیا اور لاحاصل جملوں سے ہو سکتا ہے ؟

کسی بھی عراقی شہری کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت ہے۔ ليکن يہ حقیقت ہے کہ عراق ميں زيادہ تر شہريوں کی ہلاکت دہشت گرد تنظيموں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہے جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ کار بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان ميں ملوث يہ لوگ صرف اور صرف اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔

ميں آپ کو ايک عراقی تنظيم کی ويب سائٹ کا لنک دے رہا ہوں جس کا امريکی حکومت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ اس ويب سائٹ پر آپ عراق ميں ہلاک ہونے والے تمام شہريوں کے نام، ان کے کوائف اور ان واقعات کی تفصيل پڑھ سکتے ہيں جن کے نتيجے ميں يہ شہری ہلاک ہوئے۔ يہ اعداد وشمار آپ کو عراق ميں بے گناہ شہريوں کے حوالے سے حقيقی صورت حال سمجھنے ميں مدد ديں گے۔

http://www.iraqbodycount.org/database/

عراق جنگ کے آغاز سے اب تک 87790 عراقی ہلاک ہو چکے ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک عظيم سانحہ ہے۔ بے گناہ شہريوں کی موت اس ليے بھی قابل مذمت ہے کيونکہ فوجيوں کے برعکس وہ ميدان جنگ کا حصہ نہيں ہوتے۔ اس وقت عراق ميں بے شمار مسلح گروپ دہشت گردی کی کاروائيوں ميں دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ عراق ميں موجود ان تنظيموں کے نام اور انکی کاروائيوں کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے عراقيوں کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار۔

http://img76.imageshack.us/my.php?image=clipimage002if6.jpg

ايران عراق جنگ ، الانفال کی تحريک يا 1991 ميں ہزاروں کی تعداد ميں عراقی شيعہ برادری کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر صدام کا دور حکومت مزيد طويل ہوتا تو بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

گوانتا ناموبے میں قید لوگوں کے ساتھ کونسا انصاف کیا جا رہا ؟

پاکستانی ميڈيا پر اکثر گوانتاناموبے ميں غير انسانی سلوک کے حوالے سے کافی کچھ کہا جاتا ہے۔ان الزامات کی شدت کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتاناموبے کا دورہ کيا تھا تاکہ حقائق کا پتا چلايا جا سکے۔ وہاں پر موجود پاکستانی آپ انگليوں پر گن سکتے ہيں اور يہ بات ميں وثو‍ق سے بتا سکتا ہوں کہ وہ تشدد کا شکار نہيں ہيں۔ باقی قيديوں کی طرح انھيں مناسب خوراک اور علاج کی سہوليات دستياب ہيں اور اس کے ساتھ انھيں اپنے مذہبی فرائض انجام دينے کی بھی آزادی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

طالوت

محفلین
آپ امریکی عینک سے معاملات کو دیکھتے ہیں ، اسلیئے ان معاملات پر شاید اتفاق رائے ممکن نہیں ۔۔۔ عراق میں دہشت گردوں سے عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں لیکن ان سب کا سبب کون ہے ؟ عظیم سانحہ جس پر امریکی سرکار کو افسوس ہے مائی فٹ !
گوانتا نا موبے میں پاکستانیوں پر تشدد نہیں ہوا یا ہو رہا ۔۔۔ سوائے مسکرانے کے اس پر اور کیا کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔
برحال اطمینان رکھیئے کہ آپ کی تمام تر "وضاحتوں" کے باوجود کم از کم میرے دل میں امریکی حکومت اور اس کی پالیسیوں کے لیئے نفرت کم نہیں ہوئی بلکہ اس "عاجزانہ اور افسوس ناک" قسم کی باتوں سے اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔۔۔
اب آج آپ نے مجھے جواب کے قابل سمجھ ہی لیا ہے تو یہ بھی بتاتے جائیے کہ "فلسطین" پر امریکی پالیسی کو امریکہ کسطرح بیان کرتا ہے ؟ چونکہ آپ اندر کے آدمی ہیں تو آپ کی فراہم کردہ معلومات میرے لیئے مستند ہوں گی
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ابو غریب جیل کے خنزیروں کا کس نے احتساب کیا ؟

جب آپ ابوغريب ميں امريکی فوجيوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے واقعات کا ذکر کرتے ہيں تو آپ يہ کيوں بھول جاتے ہيں کہ وہ بھی امريکی فوجی ہی تھے جنھوں نے اپنے ساتھيوں کی بدسلوکی کے بارے ميں حکام کو آگاہ کيا تھا؟ صرف يہی نہيں بلکہ ان امريکی فوجيوں نے اپنے ہی ساتھيوں کے خلاف مقدمات ميں گواہی بھی دی اور انھی کی کوششوں کی وجہ سے ان جرائم ميں ملوث فوجيوں کے خلاف باقاعدہ مقدمے بنے اور انھيں سزائيں بھی مليں۔

http://www.usatoday.com/news/nation/2005-09-26-england_x.htm

http://news.bbc.co.uk/2/hi/middle_east/3669331.stm

http://www.usatoday.com/news/world/iraq/2005-01-06-graner-court-martial_x.htm

http://www.csmonitor.com/2007/0821/p99s01-duts.html

امريکی حکومت نے يہ تسليم کيا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امريکی آرمی کا ريکارڈ مثالی نہيں ہے۔ ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ تاريخ انسانی کی ہر فوج ميں ايسے افراد موجود رہے ہيں جنھوں نے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی اور قانون توڑا۔ اہم بات يہ ہے ہر اس امريکی فوجی کے خلاف تفتيش بھی کی گئ اور اسے ملٹری کورٹ کے سامنے لايا گيا جس پر اس حوالے سے الزامات لگے۔ ايسے کئ کيسز امريکی عوام کے سامنے بھی لائے گئے۔ ليکن يہ تمام واقعات کسی منظم سسٹم کے تحت نہيں رونما نہيں ہوئے تھے بلکہ کچھ افراد کے انفرادی عمل کا نتيجہ تھے۔ يہ لوگ امريکی فوج کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتے۔

ميں نے يہ بات پہلے بھی کہی ہے اور امريکی صدر سميت اہم امريکی اہلکاروں نے بھی اس بات کو دہرايا اور دنيا بھر کے ميڈيا کے سامنے بھی اس بات کا اعادہ کيا گيا ہے کہ ابوغراب کا واقعہ عام امريکيوں اور امريکی حکومت کے ليے انتہائ افسوس ناک تھا جس کی سب نے نہ صرف يہ کہ بھرپور مزحمت کی بلکہ اس واقعے ميں شامل تمام افراد کا ٹرائل ہوا اور انھيں قانون کے مطابق سزائيں دی گئيں۔ آپ دنيا کے کتنے ممالک کے بارے ميں يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ جہاں حکومت کی جانب سے فوجيوں کے کردار اور ان کے اعمال کا اس طرح احتساب کيا جاتا ہے؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
 
Top