نیرنگ خیال
لائبریرین
پرانی بات ہے کہ مرزا بھائی نے مجھ سےالقلم فورم پر ایک گپ شپ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اور کئی ایک دوستوں نے کچھ سوال پوچھے تھے۔ جن کے میں نے اوٹ پٹانگ قسم کے جوابات دیے تھے۔
یونہی خیال آیا ہے کہ اس سارے قصے کو محفل پر بھی لکھ لیاجائے کیوں کہ میری ہر تحریر محفل پر موجود ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی تحاریر شئیر ہی محفل پر کرتا ہوں اور اس کے بعد کبھی بلاگ پر لگاتا ہوں۔
امید ہے احباب میری اس جسارت سے درگزر فرمائیں گے۔
زبیر مرزابھائی :
السلام علیکم جناب! نیرنگ خیال آن لائن ہوں گے اور سوالات کے جوابات دیں گے - یہ ایک مسخرانہ اور لطیفانہ سلسلہ ہوگاآپ نیرنگ خیال سے اشعار کی تشریح کراسکتے ہیں ،اپنی سر کی خشکی کا علاج دریافت کریں یا محاوروں کا مطلب پوچھیں جوابات دیں گے مشہور ومعروف دانشور جناب ڈاکٹر نیرنگِ خیال اپنے مخصوص انداز میں۔
نیرنگ خیال:
وعلیکم السلام!اس سے پہلے کہ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کروں۔ قارئین میں آپ کی توجہ" میزبان مرزا" کے اس جملے کی طرف دلانا چاہوں گا۔ کہ یہ ایک مسخرانہ اور لطیفانہ سلسلہ ہوگا۔قارئین کسی بھی دانشور کے اقوال اور خیالات کا مذاق اڑانا ان مرزا یاروں کا پرانہ طریق رہا ہے۔ کسی کے سنجیدہ اقوال کو اگر آپ پروگرام کے شروع میں ہی ایسے الفاظ سے متعارف کروائیں گے تو ظاہر ہے بات کا اثر جاتا رہے گا۔ اور یہی مرزا کی دلی خواہش ہے۔ کہ کسی بھی طریق سے ہماری جگ ہنسائی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ لیکن وہ نیرنگ ہی کیا جو ڈر جائے پروگرام کے خونی منظر سے۔۔۔۔
آپ سب کے سامنے نیرنگ خیال حاضر ہے۔ حاضرین آپ کے مشکل سوالات کا تو میں کیا جواب دے پاؤں گا۔ لیکن اپنی سی سعی ضرور کروں گا۔ کوشش ہوگی کہ تمام جوابات غیر مستند اور کسی بھی حوالے کے بغیر ہوں۔ جہاں تک ممکن ہوا بلاوجہ کے تاریخی حوالہ جات سے احتراز کروں گا۔ اور وجہ بھی ہوئی تو صرف اپنی مرضی کے حوالے دوں گا۔ حقائق کو خوب توڑ موڑ کر بیان کروں گا۔ امید ہے کہ شافی جوابات ملنے پر آپ کے اندر کے محقق کی چند ایک سوالات ہی میں موت واقع ہوجائے گی۔ بصورت دیگر اس محقق کو مجھے خود آکر مارنا پڑے گا۔ جو کہ اس مہنگائی کے دور میں کچھ بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم اگر ریٹرن ٹکٹس دستیاب ہوں تو خادم یہ سہولت بھی فراہم کرنے کو تیار ہے۔
تو اب شروع کرتے ہیں پروگرام۔۔۔
ڈاکٹر نیرنگ خیال پہلا سوال آپ سے یہ ہے کہ آموں کی آمد آمد ہے تو ہمیں اس کہاوت کا مطلب سمجھادیں۔
"آم کے آم گھٹلیوں کے دام"
نیرنگ خیال:
جناب مرزا نے پہلے ہاتھ ہی آموں کے بارے میں سوال پوچھا ہے۔ اس سے آپ احباب کو بہت اچھا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ کہ یہ ایک تاریخی سوال ہے۔ جو کم از کم مرزا جتنا پرانا تو ہے ہی۔ لیکن ناظرین اس سوال کو تہذیبی رنگ دینے کو ضروری ہے کہ صاحباں کے ذکر سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔
ہائے آم۔۔۔۔ واہ۔۔۔ اوپر سے موسم بھی آگیا ہے۔ ہمارے علاقے میں تو دوسیری اب بازار میں آگیا ہوگا۔۔۔ خیر چھوڑیں جی علاقے کو۔۔۔ سوال کی طرف آئیں۔
یہ ایک کاروباری سوال ہے۔ عمومی طور پر آم لوگ اس کو کسی غیر متوقع منافع حاصل کر لینے کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ بیچنے والا گھٹلی سمیت ہی بیچے گا اور تولے گا۔ خریدنے والا اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں گھٹلیوں کے الگ سے دام استعاراتی طور پر بھی استعمال کرنا کسی آم کی دل شکنی کا باعث ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ آم بناء گھٹلی کے بیچنا ایسا ہی ہے جیسے محبوب کو دل دیے بغیر محبت کرنا۔
ہاں تو قارئین میں کہہ رہا تھا کہ آم بہت سی چیزوں کے لیے استعارہ رہا ہے۔ عمومی طور پر آم آدمی کو بھی عام آدمی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو تو بھی آم حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ کام نہ ہو تو بھی آم کا کاروبار عروج پر رہتا ہے۔ الغرض آم ایک ایسی چیز ہے جو ایک بہترین روزگار ہے وہیں بیکاری کے دنوں کا ایک بہترین شغل بھی۔
یعنی اگر آم آدمی کے تناظر میں دیکھیں تو ووٹ اس کی گھٹلی بنتا ہے۔ جس کے وہ عرصہ پنچ سال کے بعد چند سو روپے وصول کر لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یا پھر اپنے گھر کے باہر والی نالی پکی کروا لیتا ہے۔
دوسری صورت آم کی یہ بنتی ہے کہ آم کھاؤ اور آم کی گھٹلی اپنے گھر کی چھت پر سکھا کر کھاؤ۔۔۔ اس کا بھی اپنا لطف ہے۔ لیکن اس حرکت سے لوگ آپ کو آم آدمی کم اور حاتم طائی کا قاتل زیادہ سمجھیں گے۔ لہذا اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے کسی بچے کے کاندھے کا سہارا لیں۔
اس کے اگر آپ آموں کا باغ لگانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو بھی گھٹلیوں کے دام کہیں نہیں گئے۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب
اگر مزید کسی کی تسلی و تشفی ان جوابات سے نہیں ہوئی۔ تو اس کے لیے لازم ہے کہ اپنی تسلی و تشفی پر ان للہ پڑھ لے۔
نوٹ: احباب کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ اس میں "ڈاکٹر " جیسے القابات مزاحاً استعمال ہوئے ہیں۔
یونہی خیال آیا ہے کہ اس سارے قصے کو محفل پر بھی لکھ لیاجائے کیوں کہ میری ہر تحریر محفل پر موجود ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی تحاریر شئیر ہی محفل پر کرتا ہوں اور اس کے بعد کبھی بلاگ پر لگاتا ہوں۔
امید ہے احباب میری اس جسارت سے درگزر فرمائیں گے۔
زبیر مرزابھائی :
السلام علیکم جناب! نیرنگ خیال آن لائن ہوں گے اور سوالات کے جوابات دیں گے - یہ ایک مسخرانہ اور لطیفانہ سلسلہ ہوگاآپ نیرنگ خیال سے اشعار کی تشریح کراسکتے ہیں ،اپنی سر کی خشکی کا علاج دریافت کریں یا محاوروں کا مطلب پوچھیں جوابات دیں گے مشہور ومعروف دانشور جناب ڈاکٹر نیرنگِ خیال اپنے مخصوص انداز میں۔
نیرنگ خیال:
وعلیکم السلام!اس سے پہلے کہ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کروں۔ قارئین میں آپ کی توجہ" میزبان مرزا" کے اس جملے کی طرف دلانا چاہوں گا۔ کہ یہ ایک مسخرانہ اور لطیفانہ سلسلہ ہوگا۔قارئین کسی بھی دانشور کے اقوال اور خیالات کا مذاق اڑانا ان مرزا یاروں کا پرانہ طریق رہا ہے۔ کسی کے سنجیدہ اقوال کو اگر آپ پروگرام کے شروع میں ہی ایسے الفاظ سے متعارف کروائیں گے تو ظاہر ہے بات کا اثر جاتا رہے گا۔ اور یہی مرزا کی دلی خواہش ہے۔ کہ کسی بھی طریق سے ہماری جگ ہنسائی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ لیکن وہ نیرنگ ہی کیا جو ڈر جائے پروگرام کے خونی منظر سے۔۔۔۔
آپ سب کے سامنے نیرنگ خیال حاضر ہے۔ حاضرین آپ کے مشکل سوالات کا تو میں کیا جواب دے پاؤں گا۔ لیکن اپنی سی سعی ضرور کروں گا۔ کوشش ہوگی کہ تمام جوابات غیر مستند اور کسی بھی حوالے کے بغیر ہوں۔ جہاں تک ممکن ہوا بلاوجہ کے تاریخی حوالہ جات سے احتراز کروں گا۔ اور وجہ بھی ہوئی تو صرف اپنی مرضی کے حوالے دوں گا۔ حقائق کو خوب توڑ موڑ کر بیان کروں گا۔ امید ہے کہ شافی جوابات ملنے پر آپ کے اندر کے محقق کی چند ایک سوالات ہی میں موت واقع ہوجائے گی۔ بصورت دیگر اس محقق کو مجھے خود آکر مارنا پڑے گا۔ جو کہ اس مہنگائی کے دور میں کچھ بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم اگر ریٹرن ٹکٹس دستیاب ہوں تو خادم یہ سہولت بھی فراہم کرنے کو تیار ہے۔
زبیر مرزا بھائی:ڈاکٹر نیرنگ خیال پہلا سوال آپ سے یہ ہے کہ آموں کی آمد آمد ہے تو ہمیں اس کہاوت کا مطلب سمجھادیں۔
"آم کے آم گھٹلیوں کے دام"
نیرنگ خیال:
جناب مرزا نے پہلے ہاتھ ہی آموں کے بارے میں سوال پوچھا ہے۔ اس سے آپ احباب کو بہت اچھا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ کہ یہ ایک تاریخی سوال ہے۔ جو کم از کم مرزا جتنا پرانا تو ہے ہی۔ لیکن ناظرین اس سوال کو تہذیبی رنگ دینے کو ضروری ہے کہ صاحباں کے ذکر سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔
ہائے آم۔۔۔۔ واہ۔۔۔ اوپر سے موسم بھی آگیا ہے۔ ہمارے علاقے میں تو دوسیری اب بازار میں آگیا ہوگا۔۔۔ خیر چھوڑیں جی علاقے کو۔۔۔ سوال کی طرف آئیں۔
یہ ایک کاروباری سوال ہے۔ عمومی طور پر آم لوگ اس کو کسی غیر متوقع منافع حاصل کر لینے کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ بیچنے والا گھٹلی سمیت ہی بیچے گا اور تولے گا۔ خریدنے والا اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں گھٹلیوں کے الگ سے دام استعاراتی طور پر بھی استعمال کرنا کسی آم کی دل شکنی کا باعث ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ آم بناء گھٹلی کے بیچنا ایسا ہی ہے جیسے محبوب کو دل دیے بغیر محبت کرنا۔
ہاں تو قارئین میں کہہ رہا تھا کہ آم بہت سی چیزوں کے لیے استعارہ رہا ہے۔ عمومی طور پر آم آدمی کو بھی عام آدمی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو تو بھی آم حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ کچھ کام نہ ہو تو بھی آم کا کاروبار عروج پر رہتا ہے۔ الغرض آم ایک ایسی چیز ہے جو ایک بہترین روزگار ہے وہیں بیکاری کے دنوں کا ایک بہترین شغل بھی۔
یعنی اگر آم آدمی کے تناظر میں دیکھیں تو ووٹ اس کی گھٹلی بنتا ہے۔ جس کے وہ عرصہ پنچ سال کے بعد چند سو روپے وصول کر لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یا پھر اپنے گھر کے باہر والی نالی پکی کروا لیتا ہے۔
دوسری صورت آم کی یہ بنتی ہے کہ آم کھاؤ اور آم کی گھٹلی اپنے گھر کی چھت پر سکھا کر کھاؤ۔۔۔ اس کا بھی اپنا لطف ہے۔ لیکن اس حرکت سے لوگ آپ کو آم آدمی کم اور حاتم طائی کا قاتل زیادہ سمجھیں گے۔ لہذا اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے کسی بچے کے کاندھے کا سہارا لیں۔
اس کے اگر آپ آموں کا باغ لگانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو بھی گھٹلیوں کے دام کہیں نہیں گئے۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب
اگر مزید کسی کی تسلی و تشفی ان جوابات سے نہیں ہوئی۔ تو اس کے لیے لازم ہے کہ اپنی تسلی و تشفی پر ان للہ پڑھ لے۔
نوٹ: احباب کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ اس میں "ڈاکٹر " جیسے القابات مزاحاً استعمال ہوئے ہیں۔
آخری تدوین: