یہ غزل میں نے اپنے بلاگ پہ بھی دی تھی تو وہاں پہ ایک دوست نے کمنٹ میں اس کی بحر پوچھی ہے۔
میں نے کوشش کی تو مجھے یہ "بحر خفیف" لگی۔
شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
ساقیا! ساقیا! شراب! شراب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
آبِ حیواں کو مَے سے کیا نسبت!
فاعِلاتن مفاعلن فَعلُن
پانی پانی ہے اور شراب شراب!
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
رند بخشے گئے قیامت میں
فاعِلاتن مفاعلن فَعلُن
شیخ کہتا رہا حساب حساب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
اک وہی مستِ با خبر نکلا
فاعِلاتن مفاعلن فَعلُن
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
مجھ سے وجہِ گناہ جب پوچھی
اس کی بحر نہیں سمجھ میں آئی۔
سر جھکا کے کہا شباب شباب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
جام گرنے لگا، تو بہکا شیخ
فاعِلاتن مفاعلن فَعلَان
تھامنا ! تھامنا! کتاب! کتاب!
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
کب وہ آتا ہے سامنے کشفی
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلُن
کَشَفِی بروزن فَعِلُن ہو گا میرے خیال میں۔
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب
فاعِلاتن مفاعلن فَعِلان
محمد وارث بھائی
مزمل شیخ بسمل بھائی
مہدی نقوی حجاز بھائی
zeesh بھائی