مہوش علی
لائبریرین
القمر آنلائن پر ابھی ابھی یہ خبر پڑھنے کو ملی ہے۔ یقین تو نہیں آ رہا۔۔۔۔
شوکت عزیز کيخلاف تحقیقات : بیرون ملک جانے پر پابندی
محمد ہارون عباس؛ سرفراز احمد عباسی، القمرآن لائن،اسلام آباد
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف حساس اداروں نے مالی بد عنوانیوں اور کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
انہیں ایک حساس ادارے کے کہنے پر انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے ۔ باخبر ذرائع نے القمر آن لائن کو بتایا کہ حساس ادارے نے شوکت عزیز کے بارے میں ایک جامع رپورٹ مجازحکام کو پیش کرتے ہوئے سٹیل ملز سیکنڈل گوادر پورٹ سیکنڈل حبیب بنک کی فروخت اور بار بار سٹاک ایکسچینج کے کریش کے بارے میں تفصیلی تحقیقات کی اجازت طلب کی ہے کیونکہ پرویز مشرف حکومت کو سابق وزیراعظم کے حوالے سے خاصے سنجیدہ الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی اور عدلیہ سے ایک نہ ختم ہونے والا جھگڑا شروع ہو گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ شوکت عزیز نے صدر سے ملاقات کیلئے وقت مانگا مگر وہ صدر کی مصروفیت کی وجہ سے اس ملاقات میں کامیاب نہ ہو سکے اگلے ہفتے ان کی صدر سے ملاقات ممکن ہو سکتی ہے۔
شوکت عزیز حکومت کے سٹیل ملز سکینڈل کی وجہ سے صدر مشرف کو شدید خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، جب سپریم کورٹ نے از خود اس کی فروخت کا نوٹس لیا
اس کے علاوہ حبیب بینک، پی ٹی سی ایل، لینڈ مافیا، ریلوے انجنوں، سٹاک ایکسچینج، قیدیوں کے تبادے کے معاہدے، چینی کا بحران، پاک امریکن فرٹیلائزرجیسے سکینڈلز میں بھی شوکت عزیز کا نام آتا رہا
شوکت عزیز پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خزانہ تھے ۔ 1999 میں وہ وزیر خزانہ تھے جبکہ 6[ جون] 2004 میں جب سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے استعفٰی دیا تو 28 اگست 2004 میں وزارتِ عظمٰی کا قلم دان ان کے حصے میں آیا۔
1999 کی تبدیلیوں کے بعد شوکت عزیز نے صدر پرویز مشرف کی دعوت پر پاکستان میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ۔
وہ وزارت عظمیٰ کیساتھ ساتھ سٹی بینک کی نائب صدارت بھی سنبھالے رہے۔انہوں سٹی بینک کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بہت سارے کنٹریکٹ لے کر دئے تھے۔وہ پارلیمانی نظام ہونے کے باوجود صدارتی نظام کے تحت محدود اختیارات کسیاتھ حکومت کرتے رہے۔انہوں نے نج کاری کے ذریعے پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کی بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا
مزید برآن غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی امداد کے سہارے پر مضبوط ہونے والی معیشت کا کریڈٹ وہ بطور وزیرخزانہ لیتے رہے۔
ان کی شہریت پر بھی کافی سوالات اٹھتے رہے کیونکہ مبینہ طور پر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔ اگر کوئی امریکی قومیت رکھے تو اسے اپنی پرانی قومیت چھوڑنا پڑتی ہے۔ کوئی امریکی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے اگر ان کے پاس امریکی شہریت ہے تو وہ پاکستان کے قانونی طور پر شہری نہیں اور وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ اسی بات پر چیف جسٹس افتخار چودھری کیس شروع کرنے لگے تھے مگر ان کو ایک ریفرنس کے ذریعے غیر فعال کر دیا گیا۔
گزشتہ سنیچر مسلم لیگ ہاؤس میں ہونیوالی ایک پریس کانفرنس جس میں پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین، سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید اور سیکرٹری اطلاعات سینیٹر طارق عظیم بھی موجود تھے ، شوکت عزیز نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ان کے خلاف مبینہ الزامات کی وجہ سے ہی انہیں ٹکٹ نہیں دیا جارہا
گزشتہ ہفتے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نیب میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز،مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، سیکریٹری (ق) لیگ سینیٹر مشاہد حسین سید اور سابق وزیر اطلاعات محمدعلی درانی کے خلاف مالی خزانے کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کرنے اور حکومت کو نقصان پہچانے پرریفرنس بھی دائرکیاتھا
شوکت عزیز کيخلاف تحقیقات : بیرون ملک جانے پر پابندی
محمد ہارون عباس؛ سرفراز احمد عباسی، القمرآن لائن،اسلام آباد
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف حساس اداروں نے مالی بد عنوانیوں اور کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
انہیں ایک حساس ادارے کے کہنے پر انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے ۔ باخبر ذرائع نے القمر آن لائن کو بتایا کہ حساس ادارے نے شوکت عزیز کے بارے میں ایک جامع رپورٹ مجازحکام کو پیش کرتے ہوئے سٹیل ملز سیکنڈل گوادر پورٹ سیکنڈل حبیب بنک کی فروخت اور بار بار سٹاک ایکسچینج کے کریش کے بارے میں تفصیلی تحقیقات کی اجازت طلب کی ہے کیونکہ پرویز مشرف حکومت کو سابق وزیراعظم کے حوالے سے خاصے سنجیدہ الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی اور عدلیہ سے ایک نہ ختم ہونے والا جھگڑا شروع ہو گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ شوکت عزیز نے صدر سے ملاقات کیلئے وقت مانگا مگر وہ صدر کی مصروفیت کی وجہ سے اس ملاقات میں کامیاب نہ ہو سکے اگلے ہفتے ان کی صدر سے ملاقات ممکن ہو سکتی ہے۔
شوکت عزیز حکومت کے سٹیل ملز سکینڈل کی وجہ سے صدر مشرف کو شدید خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، جب سپریم کورٹ نے از خود اس کی فروخت کا نوٹس لیا
اس کے علاوہ حبیب بینک، پی ٹی سی ایل، لینڈ مافیا، ریلوے انجنوں، سٹاک ایکسچینج، قیدیوں کے تبادے کے معاہدے، چینی کا بحران، پاک امریکن فرٹیلائزرجیسے سکینڈلز میں بھی شوکت عزیز کا نام آتا رہا
شوکت عزیز پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خزانہ تھے ۔ 1999 میں وہ وزیر خزانہ تھے جبکہ 6[ جون] 2004 میں جب سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے استعفٰی دیا تو 28 اگست 2004 میں وزارتِ عظمٰی کا قلم دان ان کے حصے میں آیا۔
1999 کی تبدیلیوں کے بعد شوکت عزیز نے صدر پرویز مشرف کی دعوت پر پاکستان میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ۔
وہ وزارت عظمیٰ کیساتھ ساتھ سٹی بینک کی نائب صدارت بھی سنبھالے رہے۔انہوں سٹی بینک کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بہت سارے کنٹریکٹ لے کر دئے تھے۔وہ پارلیمانی نظام ہونے کے باوجود صدارتی نظام کے تحت محدود اختیارات کسیاتھ حکومت کرتے رہے۔انہوں نے نج کاری کے ذریعے پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کی بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا
مزید برآن غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی امداد کے سہارے پر مضبوط ہونے والی معیشت کا کریڈٹ وہ بطور وزیرخزانہ لیتے رہے۔
ان کی شہریت پر بھی کافی سوالات اٹھتے رہے کیونکہ مبینہ طور پر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔ اگر کوئی امریکی قومیت رکھے تو اسے اپنی پرانی قومیت چھوڑنا پڑتی ہے۔ کوئی امریکی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے اگر ان کے پاس امریکی شہریت ہے تو وہ پاکستان کے قانونی طور پر شہری نہیں اور وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ اسی بات پر چیف جسٹس افتخار چودھری کیس شروع کرنے لگے تھے مگر ان کو ایک ریفرنس کے ذریعے غیر فعال کر دیا گیا۔
گزشتہ سنیچر مسلم لیگ ہاؤس میں ہونیوالی ایک پریس کانفرنس جس میں پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین، سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید اور سیکرٹری اطلاعات سینیٹر طارق عظیم بھی موجود تھے ، شوکت عزیز نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ان کے خلاف مبینہ الزامات کی وجہ سے ہی انہیں ٹکٹ نہیں دیا جارہا
گزشتہ ہفتے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نیب میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز،مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، سیکریٹری (ق) لیگ سینیٹر مشاہد حسین سید اور سابق وزیر اطلاعات محمدعلی درانی کے خلاف مالی خزانے کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کرنے اور حکومت کو نقصان پہچانے پرریفرنس بھی دائرکیاتھا