سارا
محفلین
شوہر حضرات بھی تو لوگوں کی ہی ایک قسم ہیں کیونکہ خواتین کی اکثریت کی گفتگو شوہروں کے قصیدوں یا فضیحتوں سے شروع ہو کر اس موضوع پر ختم ہوتی ہے۔۔یہاں ہماری مراد شادی شدہ خواتین ہیں۔۔دنیا کا کوئی مسلئہ ہو'کوئی معاملہ ہو'بادہ ساغر کی طرح بچے اور شوہر صاحب دھرے ہوتے ہیں اور ان کی رائے حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔۔سقراط'بقراط سب ان کے شوہروں سے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔۔بھئی شوہر ان کے ہیں نکاح میں بندھی ہوئی ہیں مجبوری ہے۔۔جو چاہیں انہیں سمجھیں مگر دوسروں نے کیا کیا ہے جو وہ بھی ایمان لائیں۔۔
ایک دوست ہیں ہماری۔۔کہنے لگیں''بھئی میرے میاں تو چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہیں۔۔''
''کون سی والی؟ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا یا شاہکار بک والوں کی ؟
''وہ انسان ہیں کتاب نہیں۔۔میں تو کہہ رہی تھی کہ دنیا کی تمام معلومات ان کی فنگر ٹپس پر ہوتی ہیں ملکی معاملات ہوں کہ بین الاقوامی'سیاست ہو یا معیشت'تاریخ ہو یا جغرافیہ یہاں تک کہ اسٹاک ایک چینج کے کریش کی وجوہات بلکہ راز بھی تمہیں بتا دیں گے'اور اسپورٹس میں تو خیر ان کی جان ہے۔۔تم جو چاہو پوچھ لو۔۔''
''ہمیں کسوٹی کسوٹی کھیلنے کا کوئی شوق نہیں'نہ ہمارا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔۔تم ہی کان کھاؤ ان کے۔۔''
''سچ کہتی ہوں تم کوئی موضوع چھیڑ کر تو دیکھو۔۔بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔۔''
''بھئی بخیے ادھیرنا تو سب سے مشکل کام ہے۔۔ہمیں تو زہر لگتا ہے۔۔اس لیے ہم نے سینا پرونا سیکھا ہی نہیں۔۔کون بخیے ادھیڑتا رہے اور ترپائیاں کرتا رہے۔۔کیا وہ ترپائی کاج بٹن وغیرہ بھی کرلیتے ہیں؟؟
''نا'' کیا وہ درزی کی اولاد ہیں؟ ایک بہت بڑی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔۔سمجھیں تم۔۔''
''تو پھر بخیے کیوں ادھیڑتے ہیں۔۔؟ ہم نے معصومیت سے پوچھا۔۔''
''اللہ تم سے پوچھے تم تو بات کی کھال ادھیڑتی ہو۔۔وہ خفا ہو گئیں۔۔
یہ آپ کو ادھیرنے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے کہ بے چارے بال کی بھی کھال لے کے ادھی دی ہے۔۔ارے بھئی بال کی تو کھال اتاری جاتی ہے۔۔''
''خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔۔وہ چلائیں۔۔''اب کیا تم میری کھال اتارو گی۔۔''
دوسری خاتون بولیں۔۔''بھئی میرے میاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔۔وہ محض گفتار کے غازی نہیں ہیں۔۔عمل کرتے ہیں عمل۔۔ہر فن مولا ہیں۔۔دیوار میں کیل ٹھکوانی ہو'فیوز لگوانا ہو'فلش کی ٹنکی ٹھیک کروانی ہو'گیزر کا مزاج درست کرنا ہو۔۔کسی کی خوشامد نہیں کرنی پڑتی۔۔یہ سارے بکھیڑے وہی سنبھال لیتے ہیں۔۔''
تو کیا آپ کے میاں کوئی پلمبر وغیرہ ہیں؟'' کسی نے پوچھا۔۔
''کیوں جی گھر کے کام کرنے سے کوئی پلمبر یا مستری بن جاتا ہے' کیا امریکہ یورپ میں سب کے میاں گاربیج کے تھیلے ڈھوتے نظر نہیں آتے'گھر میں ویکیوم وغیرہ بھی کرتے ہیں۔۔کرتے ہیں یا نہیں؟؟
''ہم نے فورا ہاں میں ہاں ملائی۔۔''کیوں نہیں' کیوں نہیں''
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
یک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبعیت بھی
’’یہ حسرت صاحب کون ہیں؟ میرے میاں کا نام تو شفقت ہے اور میں نے یہ کب کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیستے ہیں۔۔یہ تم بھری محفل میں بیٹھ کر الٹی سیدھی نہ ہانکا کرو۔۔
ان کی ہمسائی بولیں۔۔تم نے تو بتایا تھا کہ ایک بار جو وہ کیل ٹھونکنے لگے تو اپنی آستین کا کف بھی ساتھ میں ٹھونک دیا۔۔’’
ہائے تو کیا وہ تصویر کی طرح دیوار سے لٹک گئے تھے۔۔’’
اللہ نہ کرے وہ کیوں لٹکتے ۔۔انہوں نے فورا قمیص اتار دی۔۔سو وہ لٹکی رہی۔۔اصل میں ان کی نظر کمزور ہے۔۔اس دن اپنی عینک کہیں رکھ کر بھول گئے تھے تو بغیر عینک کے ہی کیل ٹھونکنے لگے۔۔ایک دو بار تو اپنے انگوٹھے پر بھی ہتھوڑی دے ماری۔۔’’
ان ہی ہمسائی نے پھر یاد دلایا۔۔ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی گل کھلاتے رہتے ہیں۔۔’ ایک بار جو غسل خانے کا نلکا ٹھیک کرنے لگے تو پورا پائپ ہی اکھاڑ دیا۔۔لو جی سارا گھر ہی جل تھل ہو گیا۔۔قالین بھیگ گئے’بچوں کی کاپیاں ’کتابیں اور جوتے تیرتے پھر رہے تھے۔۔
تو کیا ہو گیا۔۔آخر کو بندہ بشر ہیں بھول چوک ہو جاتی ہے۔۔’’
’اچھا جی اس دن تو تم نے اس بندہ بشر کے ایسے لتے لیے کہ تم سے جان چھڑا کر ہر فن مولا صاحب ایسے اڑنچھو ہوئے کہ شام کی خبر لائے۔۔
لو۔۔کیسی ہمسائی ہے میری۔۔تمہیں اور کوئی کام نہیں’سوائے میرے گھر کے اندر تانکا جھانکی کرنے اور کن سوئیاں لینے کے۔۔’’
لو جی اور سنو’ اب جو تم پنچم سر میں میاں سے لڑو گی تو کان میں آواز تو آئے گی نا۔۔میں کوئی بہری تو نہیں اور نہ سارا دن کان میں روئی ٹھونس کر بیٹھ سکتی ہوں۔۔بھئی تم پیسے بچانے کا چکر چھوڑ کر اصلی پلمبر بلوا لیا کرو تاکہ تمہارے بہت سے مسائل حل ہو جایا کریں۔۔سچی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تم اپنے میاں سے تنکا دوہرا نہیں کروایا۔۔وہ خیر سے ہمارے شوہر ہیں نوکر نہیں۔۔ہم تو چائے ناشتہ تک ان کو بستر پر پہنچاتے ہیں۔۔کپڑے استری کر کے غسل خانے میں لٹکا دیے۔۔جوتے چمکا کر سامنے دھر دیے۔۔
اور منہ کون دھلاتا ہے۔۔؟ ہمسائی کی ہمسائی بولیں۔۔’’
ایک دوست ہیں ہماری۔۔کہنے لگیں''بھئی میرے میاں تو چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا ہیں۔۔''
''کون سی والی؟ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا یا شاہکار بک والوں کی ؟
''وہ انسان ہیں کتاب نہیں۔۔میں تو کہہ رہی تھی کہ دنیا کی تمام معلومات ان کی فنگر ٹپس پر ہوتی ہیں ملکی معاملات ہوں کہ بین الاقوامی'سیاست ہو یا معیشت'تاریخ ہو یا جغرافیہ یہاں تک کہ اسٹاک ایک چینج کے کریش کی وجوہات بلکہ راز بھی تمہیں بتا دیں گے'اور اسپورٹس میں تو خیر ان کی جان ہے۔۔تم جو چاہو پوچھ لو۔۔''
''ہمیں کسوٹی کسوٹی کھیلنے کا کوئی شوق نہیں'نہ ہمارا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔۔تم ہی کان کھاؤ ان کے۔۔''
''سچ کہتی ہوں تم کوئی موضوع چھیڑ کر تو دیکھو۔۔بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔۔''
''بھئی بخیے ادھیرنا تو سب سے مشکل کام ہے۔۔ہمیں تو زہر لگتا ہے۔۔اس لیے ہم نے سینا پرونا سیکھا ہی نہیں۔۔کون بخیے ادھیڑتا رہے اور ترپائیاں کرتا رہے۔۔کیا وہ ترپائی کاج بٹن وغیرہ بھی کرلیتے ہیں؟؟
''نا'' کیا وہ درزی کی اولاد ہیں؟ ایک بہت بڑی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔۔سمجھیں تم۔۔''
''تو پھر بخیے کیوں ادھیڑتے ہیں۔۔؟ ہم نے معصومیت سے پوچھا۔۔''
''اللہ تم سے پوچھے تم تو بات کی کھال ادھیڑتی ہو۔۔وہ خفا ہو گئیں۔۔
یہ آپ کو ادھیرنے سے اتنی دلچسپی کیوں ہے کہ بے چارے بال کی بھی کھال لے کے ادھی دی ہے۔۔ارے بھئی بال کی تو کھال اتاری جاتی ہے۔۔''
''خدا کے واسطے چپ ہو جاؤ۔۔وہ چلائیں۔۔''اب کیا تم میری کھال اتارو گی۔۔''
دوسری خاتون بولیں۔۔''بھئی میرے میاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔۔وہ محض گفتار کے غازی نہیں ہیں۔۔عمل کرتے ہیں عمل۔۔ہر فن مولا ہیں۔۔دیوار میں کیل ٹھکوانی ہو'فیوز لگوانا ہو'فلش کی ٹنکی ٹھیک کروانی ہو'گیزر کا مزاج درست کرنا ہو۔۔کسی کی خوشامد نہیں کرنی پڑتی۔۔یہ سارے بکھیڑے وہی سنبھال لیتے ہیں۔۔''
تو کیا آپ کے میاں کوئی پلمبر وغیرہ ہیں؟'' کسی نے پوچھا۔۔
''کیوں جی گھر کے کام کرنے سے کوئی پلمبر یا مستری بن جاتا ہے' کیا امریکہ یورپ میں سب کے میاں گاربیج کے تھیلے ڈھوتے نظر نہیں آتے'گھر میں ویکیوم وغیرہ بھی کرتے ہیں۔۔کرتے ہیں یا نہیں؟؟
''ہم نے فورا ہاں میں ہاں ملائی۔۔''کیوں نہیں' کیوں نہیں''
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
یک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبعیت بھی
’’یہ حسرت صاحب کون ہیں؟ میرے میاں کا نام تو شفقت ہے اور میں نے یہ کب کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیستے ہیں۔۔یہ تم بھری محفل میں بیٹھ کر الٹی سیدھی نہ ہانکا کرو۔۔
ان کی ہمسائی بولیں۔۔تم نے تو بتایا تھا کہ ایک بار جو وہ کیل ٹھونکنے لگے تو اپنی آستین کا کف بھی ساتھ میں ٹھونک دیا۔۔’’
ہائے تو کیا وہ تصویر کی طرح دیوار سے لٹک گئے تھے۔۔’’
اللہ نہ کرے وہ کیوں لٹکتے ۔۔انہوں نے فورا قمیص اتار دی۔۔سو وہ لٹکی رہی۔۔اصل میں ان کی نظر کمزور ہے۔۔اس دن اپنی عینک کہیں رکھ کر بھول گئے تھے تو بغیر عینک کے ہی کیل ٹھونکنے لگے۔۔ایک دو بار تو اپنے انگوٹھے پر بھی ہتھوڑی دے ماری۔۔’’
ان ہی ہمسائی نے پھر یاد دلایا۔۔ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی گل کھلاتے رہتے ہیں۔۔’ ایک بار جو غسل خانے کا نلکا ٹھیک کرنے لگے تو پورا پائپ ہی اکھاڑ دیا۔۔لو جی سارا گھر ہی جل تھل ہو گیا۔۔قالین بھیگ گئے’بچوں کی کاپیاں ’کتابیں اور جوتے تیرتے پھر رہے تھے۔۔
تو کیا ہو گیا۔۔آخر کو بندہ بشر ہیں بھول چوک ہو جاتی ہے۔۔’’
’اچھا جی اس دن تو تم نے اس بندہ بشر کے ایسے لتے لیے کہ تم سے جان چھڑا کر ہر فن مولا صاحب ایسے اڑنچھو ہوئے کہ شام کی خبر لائے۔۔
لو۔۔کیسی ہمسائی ہے میری۔۔تمہیں اور کوئی کام نہیں’سوائے میرے گھر کے اندر تانکا جھانکی کرنے اور کن سوئیاں لینے کے۔۔’’
لو جی اور سنو’ اب جو تم پنچم سر میں میاں سے لڑو گی تو کان میں آواز تو آئے گی نا۔۔میں کوئی بہری تو نہیں اور نہ سارا دن کان میں روئی ٹھونس کر بیٹھ سکتی ہوں۔۔بھئی تم پیسے بچانے کا چکر چھوڑ کر اصلی پلمبر بلوا لیا کرو تاکہ تمہارے بہت سے مسائل حل ہو جایا کریں۔۔سچی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تم اپنے میاں سے تنکا دوہرا نہیں کروایا۔۔وہ خیر سے ہمارے شوہر ہیں نوکر نہیں۔۔ہم تو چائے ناشتہ تک ان کو بستر پر پہنچاتے ہیں۔۔کپڑے استری کر کے غسل خانے میں لٹکا دیے۔۔جوتے چمکا کر سامنے دھر دیے۔۔
اور منہ کون دھلاتا ہے۔۔؟ ہمسائی کی ہمسائی بولیں۔۔’’