مہ جبین
محفلین
شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں
سرکار کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں میں
شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ
موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں
طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں
منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں میں
صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین ہوں
دارا و کیقیا و سکندر نہیں ہوں میں
مجھ کو درِ حضور سے دوری کا رنج ہے
آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں میں
مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں
آقا ! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں میں
مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس
یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں میں
روشن ہے نورِ عشقِ محمد سے میرا دل
پامالِ جلوہء مہ و اختر نہیں ہوں میں
آقا کے در پہ ہے سرِ تسلیمِ خم ایاز
اللہ جانتا ہے کہ خود سر نہیں ہوں میں
ایاز صدیقی