@
راشد اشرف
جناب راشد اشرف صاحب سب سے پہلےآپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ تازہ ادبی معلومات بہم پہنچائیں۔ اس بہانے آپ کے فیس بک کے صفحے سے بھی آشنائی ہو گئی اور شہاب نامہ پر مرزا حامد بیگ صاحب کا مضمون بھی پڑھ لیا۔ ڈاکٹر حامد بیگ صاحب لگتا ہے کہ ادب کے نہیں بلکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور ان کا تخصص چیر پھاڑ یا پوسٹ پارٹم ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کو عام ڈاکٹروں پر فوقیت یہ حاصل ہے کہ عام ڈاکٹر مردہ لوگوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں حامد صاحب زندہ و مردہ دونوں کا، لہذا مذکورہ مضمون میں نہ صرف شہاب صاحب مرحوم (ممتاز مفتی اوراشفاق احمد کو تو شہاب صاحب کے حاشیہ برداروں میں سمجھیے)اور شاہد دہلوی مرحوم جیسے زعما ادب ان کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے بلکہ افتخار عارف بھی ان کی لپٹ میں آگے۔ طرز تحریر سے یوں لگتا ہے کہ جیسے سارا مضمون استغفر اللہ سے شروع ہوا ہو ، نعوذ باللہ پر پہلا اسٹاپ اور انا اللہ پر خاتمہ۔ اور چونکہ مضمون کی نوعیت پوسٹ مارٹم کی ہے لہذا قل شریف کا سوال ہی پیدا نہیں ۔
جو چیزیں شہاب صاحب کےبظاہر مخالفت میں ہیں ان کو ایک بین حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے اور چھان پٹک کی تو کیا بات بلکہ کچھ مبہم چیزوں کو بھی عدسہ شبہ کے نیچے رکھ کر ان کو فارنسک شواہد کے ذیل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اور جو الزامات شہرہ آفاق ہیں ان کو لے کر جناب حامد صاحب چہارہ آفاق ناچتے نظر آتے ہیں ۔
اس مضمون کے بعد کم از کم حامد صاحب کو اپنا نام ضرور بدلنے کی ضرورت ہے حامد کی بجائے جو نام جعفر زٹلی کا دیوان کھولتے ہی نظر آئے اس کو اپنا لیں۔
ہو سکتا ہے کہ میں چند دنوں میں ( بشرط فراغت) اس مضمون پر تفصیلی اظہار خیال کروں