واجدحسین
معطل
اٹھائیسواں باب
شہادت کی خواہش شہادت کے لئے دعاء کرنے کی
ترغیب اور بعض شہادت پانے والوں کا تذکرہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے : شہادت کی خواہش شہادت کے لئے دعاء کرنے کی
ترغیب اور بعض شہادت پانے والوں کا تذکرہ
( 1 ) [arabic]إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ [/arabic]( فاتحہ 5 ۔ 6 )
ہم کو سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا انعام کرتا رہا ۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر لازم کیا ہے کہ وہ ہر نماز میں ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعاء کیا کریں جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ۔ اور وہ لوگ جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے اس آیت میں مذکور ہیں :
( 2 ) [arabic]فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا [/arabic](النساء ۔ 69 )
تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ( کیساتھ ) اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں ۔
٭ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگی اللہ تعالی اسے شہداء کے مقام تک پہنچا دے گا اگر چہ وہ اپنے بستر پر مرے ۔ ( مسلم شریف)
٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دودھ دوھنے کے درمیانی وقفے جتنی دیر جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس نے سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگی پھر وہ انتقال کر گیا یا قتل کر دیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے ۔ ( ابوداؤد ۔ ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ )
[ اس طرح کی روایات کتب حدیث میں بہت زیادہ ہیں ہم نے ان میں سے مذکورہ بالا دو روایات ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے ]
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نماز میں حاضرہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ شخص جب صف میں پہنچا تو اس نےکہا اے میرے پروردگار مجھے وہ سب سے افضل چیز عطاء فرمائیے جو آپ اپنے نیک بندوں کو عطاء فرماتے ہیں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل فرمالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی کون یہ دعاء کررہا تھا اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میں [ یہ دعاء کر رہا تھا] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تو تیرے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں گی اور تو اللہ کے راستے میں شہید کیا جائے گا [ یعنی وہ افضل ترین چیز ہے جو اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو عطاء فرماتے ہیں ] ( ابویعلی ۔ الزار ۔ ابن حبان ۔ المستدرک صحیح الاسناد)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے میرے پروردگار میری امت کی موت اللہ کے راستے میں نیزوں اور طاعون سے مارے جانے کو بنا دیجئے ۔ ( مسند احمد )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے شہادت کی دعاء فرمائی جبکہ آگے والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارک کے لیے بھی شہادت کی تمنا فرمائی ۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں ۔ ( بخاری شریف )
٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب شہداء احد کا تذکرہ کرتے تو ارشاد فرماتے : اللہ کی قسم مجھے یہ محبوب ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں شہید کر دیا گیا ہوتا ۔ ( المستدرک و قال صحیح علی شرط مسلم )
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُحد کے دن حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا آؤ ہم دونوں اللہ تعالی سے دعاء مانگیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دونوں کسی گوشہ میں سب سے علیحدہ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے ۔ پہلے میں نے دعاء مانگی کہ اے اللہ آج میرا دشمن سے مقابلہ ہو جو نہایت شجاع اور دلیر اور غضبناک ہو کچھ دیر میں اس کا مقابلہ کروں اور وہ میرا مقابلہ کرے پھر اس کے بعد اے اللہ تعالی مجھے اس پر فتح نصیب فرما یہاں تک کہ میں اسے قتل کردوں ۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے آمین کہی اور پھر انہوں نے یہ دعاء مانگی ۔ اے اللہ آج میرا ایسے دشمن سے مقابلہ ہو جو بڑا ہی سخت زور اور غضب ناک ہو میں محض تیرے لیے اس سے قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے بالآخر وہ مجھے قتل کردے اور میری ناک اور کان کائے اور اے پروردگار جب میں تجھ سے ملوں اور تو دریافت فرمائے اے عبداللہ یہ تیرے ناک اور کان کہا کئے تو میں عرض کروں اے اللہ تیری اور تیرے پیغمبر کی راہ میں اور تو اس وقت یہ فرمائے تو نے سچ کہا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی دعاء میری دعاء سے بہتر تھی میں نے شام کو دیکھا کہ ان کے ناک کان ایک دھاگے میں لٹکے ہوئے ہیں ۔ ( زرقانی ۔ المستدرک )
حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی دعاء کا پہلا حصہ اللہ تعالی نے قبول فرمایا اسی طرح ان کی دعاء کا آخری حصہ بھی قبول فرمائے گا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
واقعہ نمبر 1 :
غزوہ موتہ کا واقعہ ہے کہ جب مسلمان اس لشکر کے امراء اور مجاہدین کو رخصت کرنے لگے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ رو پڑے ۔ لوگوں نے کہا اے ابن رواحہ کس چیز نے آپ کو رلایا ہے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم ! مجھے نہ دنیا سے محبت ہے اور نہ تم سے شیفتگی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے سنا ہے [ ترجمہ] تم میں سے ہر شخص نے دوزخ سے گزرنا ہے اور اللہ کے نزدیک یہ بات مقدر ہو چکی ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ جہنم پر گزرنے کے بعد میرے لیے واپسی کیسے ہوگی [ پس یہی چیز مجھے رلا رہی ہے ] مسلمانوں نے [ لشکر کو رخصت کرتے ہوئے ] کہا اللہ کا ساتھ تمھیں نصیب ہو اور اللہ تعالی تمھاری حفاظت فرمائے اور آپ کو صحیح سالم واپس لائے یہ سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ نے یہ اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
میں واپسی نہیں چاہتا بلکہ اللہ کی مغفرت اور اس کی راہ میں ایسے زخم کا سوال کرتا ہوں جوکہ جھاگ پھینکتا ہو یا ایسی کاری زخم ہو کہ جو تیز ہو اور ایسے نیزے سے لگے جو میری آنتوں اور جگر سے پار ہو جائے یہاں تک کہ لوگ جب میری قبر سے گزریں تو یہ کہا جائے کہ ماشاء اللہ کیا غازی تھا اور کیسا کامیاب ہوا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام )
واقعہ نمبر2 :
ابن عساکر ایک ایسے شخص سے نقل کرتے ہیں جو خود غزوہ موتہ میں شریک تھے وہ فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن ہم نے بہت سخت جنگ کی ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ [ جو مسلمانوں کے پہلے امیر تھے ] نے زرہ پہن لی اور گھوڑے پر سوار ہوگئے اور جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اورلڑتے رہے پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور زرہ بھی اتار دی اور فرمایا یہ کون لے گا آپ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ان کے بعد جھنڈا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے لے لیا وہ بھی پہلے زرہ پہن کر سوار ہوکر لڑتے رہے پھر انہوں نے بھی زرہ اتار دی اور گھوڑے سے اتر کر لڑے اور شہید ہو گئے تب حضرت عبداللہ بن رواحہ آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا لیا اور پہلے والے دو حضرات کی طرح لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
٭ حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دعاء فرمایا کرتے تھے اے میرے پروردگار مجھے اپنے رستے کی شہادت عطاء فرمائیے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت نصیب فرمائیے۔ ( بخاری )
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں [ خراسان اور بصرہ کے حاکم ] اجراح بن عبداللہ حکمی رحمہ اللہ کے پاس گیا تو انہوں نے دعاء کے لیے ہاتھ اٹھا لئے ان کے وزراء نے بھی ہاتھ اٹھا لئے وہ کافی دیر دعاء کرتے رہے پھر مجھ سے کہنے لگے اے ابو یحیٰ کیا تم جانتے ہو کہ ہم کیا مانگ رہے تھے میں نےکہا نہیں ۔ میں نے تو تمہیں توجہ سے دعاء مانگتے دیکھا تو میں نے بھی ہاتھ اٹھا لئے انہوں نے فرمایا ہم اللہ تعالی سے شہادت مانگ رہے تھے ۔ سلیم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ان تمام حضرات کو شہادت نصیب ہوئی ۔ ( اسیر اعلام النبلاء)
حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اسود بن کلثوم جب چلتے تھے تو اپنے پاؤں اور انگلیوں کی پوروں کی طرف دیکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ جہاد کے لیے نکلے تو انہوں نے دعاء کی اے میرے پرور دگار میرا نفس آسانی کے دنوں میں یہ گمان کرتا تھاکہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے اگر میرا نفس سچا ہے تو پھر اسے اپنی ملاقات نصیب فرما اگر یہ جھوٹا ہے تو تب بھی اس پر اپنی ملاقات ڈال دے اگرچہ یہ اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرے ۔ اور میری موت کو اپنے راستے کی شہادت بنا دیجئے اور میرا گوشت درندوں اور پرندوں کو کھلا دیجئے ۔ اس کے بعد وہ لشکر کے ایک حصے کے ساتھ چل پڑے اور ایک شگاف کے ذریعے ایک چاردیواری میں داخل ہوگئے اچانک دشمن کا لشکر آگیا اور وہ اسی شگاف پر قابض ہوگیا حضرت اسود کے ساتھی تو کسی طرح اس چاردیواری سے نکل گئے مگر وہ خود نہ نکل سکے یہاں تک کہ دشمنوں کی بڑی تعداد اس شگاف پر پہنچ گئی حضرت اسود رحمہ اللہ اپنے گھوڑے سے اترے اور انہوں نے گھوڑے کے منہ پر کوڑا مارا تو وہ گھوڑا اتنا تیز دوڑا کہ دشمنوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا پھر وہ پانی پر گئے اور وضو کرکے نماز پڑھنے لگے دشمن کہنے لگے کہ عرب لوگ اسی طرح ہتھیار ڈالتے ہیں [ یعنی نماز پڑھنے کے بعد وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردیں گے ] نماز کے بعد حضرت اسود رحمہ اللہ نے دشمنوں پر حملہ کردیا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے بعد میں مسلمانوں کا لشکر وہاں سے گزرا تو اس میں حضرت اسود رحمہ اللہ کے بھائی بھی تھے۔ ان کے بھائی سے کسی نے کہا کہ تم اس چاردیواری میں جاکر اپنے بھائی کی بچی کچھی ہڈیاں تو چن کر دفنا دو ۔ ان کے بھائی نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا میرے بھائی نے ایک دعاء کی تھی اور اللہ تعالی نے اس کی دعاء کو قبول فرمالیا ہے ان کے بھائی کے اس جواب پر دوسرے مسلمانوں نے تنقید نہیں کی ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی ہشام جنگ یرموک میں شریک تھے رات کو میں بھی اور وہ بھی اللہ تعالی سے شہادت کی دعاء کرتے رہے جب صبح [ لڑائی] ہوئی تو انہیں شہادت نصیب ہو گئی جبکہ میں محروم رہا ۔ ( سیر اعلام النبلاء )
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ دشمنوں پر برابر حملے کرتے رہے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرکے شہید ہوئے ۔ شہادت کے بعد گھوڑوں نے انہیں روند ڈالا یہاں تک کہ ان کے بھائی نے ان کے جسم کے ٹکڑے ایک چادر میں جمع کئے پھر انہیں دفنا دیا۔
حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں وہ اسلام کی بھترین مددگار تھے۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن میں حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے پاس گزرا تو وہ حنوط کی خوشبو لگا رہے تھے میں نے کہا چچا جان مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہیں اور آپ یہاں ہیں [ جنگ یمامہ میں ابتداً مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ مگر بعد میں اللہ تعالی نے انہیں فتح عطاء فرمائی ] یہ سن کر وہ مسکرائے اور فرمانے لگے لو بھتیجے [ ابھی میں نکل رہا ہوں ] انہوں نے اسلحہ لٹکایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں پہنچ گئے اور فرمایا افسوس ہے مسلمانوں پر آج یہ کیا کر رہے ہیں اور افسوس ہے دشمنوں پر اور ان کے معبودوں پر ۔ چھوڑ دو میرے گھوڑے کا راستہ کہ میں جنگ کی گرمی میں کود جاؤ اس کے بعد حملہ فرمایا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں حنوط کی خوشبوں عام طور پر مردوں کو لگائی جاتی ہے۔ شاید حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے نفس کو موت کے لیے تیار کرنےکی خاطر اور شہادت پانے کے عزم کو مضبوط کرنے کے لیے یہ استعمال فرماتے ہوں۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالی اس سے فرمائے گا اے آدم کے بیٹے تو نے کیسا مقام پایا وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے بہترین جگہ پائی ۔ اللہ تعالی فرمائے گا تو مجھ سے مانگ اور کسی چیز کی تمنا کر ! وہ کہے گا میں تجھ سے [اور ] کیا مانگوں اور کس چیز کی تمنا کروں ؟ میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں کہ مجھے دنیا میں لوٹا دے تاکہ تیرے راستے میں دس بار شہید کیا جاؤں وہ یہ تمنا شہادت کی فضیلت دیکھنے کی وجہ سے کرے گا پھر ایک جہنمی کو لایا جائے گا اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے تو نے کیسی جگہ پائی وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے بہت بری جگہ پائی اللہ تعالی فرمائے گا کیا تو اس عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں زمین بھر سونا دے گا وہ کہے گا ہاں ۔ اللہ تعالی فرمائے گا جھوٹ بولتا ہے میں نے تجھ سے اس سے کم مانگا تھا مگر تو نے نہیں دیا تھا [ یعنی دنیا میں تھوڑا سا مال بھی تونے میرے راستے میں اور نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کیا تھا ] ( المستدرک ۔ نسائی ۔ ابوعوانہ )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ جنت والے اعلی درجے کی کامیابی اور عظیم الشان نعمتوں کو پا لینے کے باوجود شہادت کی تمنا کریں گے تو وہ شخص جو دنیا کے دھوکے ، امتحان اور غم والی جگہ پر ہے وہ کیسے شہادت کی تمنا نہیں کرتا حالانکہ اس کو کچھ علم نہیں کہ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ کا برا ٹھکانا اس کا مقدر بنے گا اس کے علاوہ بھی اور کئی احادیث میں آیا ہے کہ شہداء جنت کی اعلی نعمتوں کی جدائی برداشت کرکے دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے تاکہ شہادت کی لذت اور اس کی فضیلت کو پا سکیں ۔ یہ احادیث انشاء اللہ آگے آئیں گی۔
٭ عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے ہر ممکنہ جگہ پر شہادت کو تلاش کیا لیکن بستر پر مرنا ہی میرا مقدر تھا اور میرے پاس لاالہ الا اللہ کے بعد سب سے زیادہ امید والا عمل وہ رات ہے جو میں نے ہاتھ میں ڈھال لے کر گزاری تھی اور آسمان سے بارش برس رہی تھی ہم لوگ صبح کی انتظار میں تھے تاکہ علی الصبح کافروں پر حملہ کردیں پھرفرمایا میرے مرنے کے بعد میرا اسلحہ اور میرا گھوڑا جہاد کے لیے دے دینا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
٭ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زخمی ہوئے یہ سارے زمین پر گھسٹتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے تھے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا میرا چہرہ آپ کی ڈھال بن جائے اور میری جان آپ کی خاطر قربان ہوجائے آپ پر ہمیشہ اللہ کی طرف سے سلامتی رہے ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ [ غزوہ احد کے دن ] حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہو کر دشمنوں پر تیر برسا رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پیچھے سے اپنا سر مبارک اٹھا کر [ دشمنوں کی طرف ] دیکھتے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنا چہرہ آگے کر لیتے اور فرماتے میری گردن آپ کی گردن کے سامنے ہے ۔ اے اللہ کے رسول ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
٭ محمد بن سرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر دشمنوں سے قتال شروع ہو جائے اور میرے اندر طاقت نہ ہو تو مجھے چارپائی پر لاد کر میدان جنگ میں رکھ دینا ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ سر اعلام النبلاء )
٭ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت حسیل بن جابر رضی اللہ عنہ [ جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد تھے] اور حضرت ثابت بن وقش کو اونچی جگہ پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا یہ دونوں بہت بوڑھے تھے ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ہم کس چیز کا انتظار کر رہےہیں اللہ کی قسم ہماری زندگی کے بہت تھوڑے دن باقی ہیں اور آج کل میں ہم مرنے والے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنی تلواریں لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ممکن ہے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شہادت نصیب ہوجائے ۔ یہ دونوں حضرات تلواریں لے کر لڑائی میں شامل ہوگئے اور کسی کو ان کے بارے میں علم نہیں تھا حضرت ثابت بن وقش رضی اللہ عنہ کو تو مشرکوں نے شہید کر ڈالا جبکہ حضرت حسیل بن جابر مسلمانوں کی تلواروں کے درمیان آکر شہید ہوگئے۔ یہ دیکھ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے بےشک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ان کی والد کی دیت اداء کریں توحضرت حذیفہ رضی الل عنہ نے وہ دیت معاف کردی اور اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کا مقام اور بڑھ گیا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام)