شہادت کی خواہش شہادت کے لئے دعاء کرنے کی فضیلت کا بیان

اٹھائیسواں باب
شہادت کی خواہش شہادت کے لئے دعاء کرنے کی
ترغیب اور بعض شہادت پانے والوں کا تذکرہ
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( 1 ) [arabic]إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ [/arabic]( فاتحہ 5 ۔ 6 )
ہم کو سیدھے راستے پر چلا ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا انعام کرتا رہا ۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر لازم کیا ہے کہ وہ ہر نماز میں ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعاء کیا کریں جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ۔ اور وہ لوگ جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے اس آیت میں مذکور ہیں :
( 2 ) [arabic]فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا [/arabic](النساء ۔ 69 )
تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ( کیساتھ ) اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں ۔
٭ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگی اللہ تعالی اسے شہداء کے مقام تک پہنچا دے گا اگر چہ وہ اپنے بستر پر مرے ۔ ( مسلم شریف)
٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دودھ دوھنے کے درمیانی وقفے جتنی دیر جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس نے سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت مانگی پھر وہ انتقال کر گیا یا قتل کر دیا گیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہے ۔ ( ابوداؤد ۔ ترمذی ۔ نسائی ۔ ابن ماجہ )
[ اس طرح کی روایات کتب حدیث میں بہت زیادہ ہیں ہم نے ان میں سے مذکورہ بالا دو روایات ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے ]
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نماز میں حاضرہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ شخص جب صف میں پہنچا تو اس نےکہا اے میرے پروردگار مجھے وہ سب سے افضل چیز عطاء فرمائیے جو آپ اپنے نیک بندوں کو عطاء فرماتے ہیں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل فرمالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی کون یہ دعاء کررہا تھا اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میں [ یہ دعاء کر رہا تھا] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تو تیرے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں گی اور تو اللہ کے راستے میں شہید کیا جائے گا [ یعنی وہ افضل ترین چیز ہے جو اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو عطاء فرماتے ہیں ] ( ابویعلی ۔ الزار ۔ ابن حبان ۔ المستدرک صحیح الاسناد)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے میرے پروردگار میری امت کی موت اللہ کے راستے میں نیزوں اور طاعون سے مارے جانے کو بنا دیجئے ۔ ( مسند احمد )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے شہادت کی دعاء فرمائی جبکہ آگے والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارک کے لیے بھی شہادت کی تمنا فرمائی ۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں ۔ ( بخاری شریف )
٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب شہداء احد کا تذکرہ کرتے تو ارشاد فرماتے : اللہ کی قسم مجھے یہ محبوب ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں شہید کر دیا گیا ہوتا ۔ ( المستدرک و قال صحیح علی شرط مسلم )
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُحد کے دن حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا آؤ ہم دونوں اللہ تعالی سے دعاء مانگیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دونوں کسی گوشہ میں سب سے علیحدہ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے ۔ پہلے میں نے دعاء مانگی کہ اے اللہ آج میرا دشمن سے مقابلہ ہو جو نہایت شجاع اور دلیر اور غضبناک ہو کچھ دیر میں اس کا مقابلہ کروں اور وہ میرا مقابلہ کرے پھر اس کے بعد اے اللہ تعالی مجھے اس پر فتح نصیب فرما یہاں تک کہ میں اسے قتل کردوں ۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے آمین کہی اور پھر انہوں نے یہ دعاء مانگی ۔ اے اللہ آج میرا ایسے دشمن سے مقابلہ ہو جو بڑا ہی سخت زور اور غضب ناک ہو میں محض تیرے لیے اس سے قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے بالآخر وہ مجھے قتل کردے اور میری ناک اور کان کائے اور اے پروردگار جب میں تجھ سے ملوں اور تو دریافت فرمائے اے عبداللہ یہ تیرے ناک اور کان کہا کئے تو میں عرض کروں اے اللہ تیری اور تیرے پیغمبر کی راہ میں اور تو اس وقت یہ فرمائے تو نے سچ کہا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی دعاء میری دعاء سے بہتر تھی میں نے شام کو دیکھا کہ ان کے ناک کان ایک دھاگے میں لٹکے ہوئے ہیں ۔ ( زرقانی ۔ المستدرک )
حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی دعاء کا پہلا حصہ اللہ تعالی نے قبول فرمایا اسی طرح ان کی دعاء کا آخری حصہ بھی قبول فرمائے گا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

واقعہ نمبر 1 :

غزوہ موتہ کا واقعہ ہے کہ جب مسلمان اس لشکر کے امراء اور مجاہدین کو رخصت کرنے لگے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ رو پڑے ۔ لوگوں نے کہا اے ابن رواحہ کس چیز نے آپ کو رلایا ہے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم ! مجھے نہ دنیا سے محبت ہے اور نہ تم سے شیفتگی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے سنا ہے [ ترجمہ] تم میں سے ہر شخص نے دوزخ سے گزرنا ہے اور اللہ کے نزدیک یہ بات مقدر ہو چکی ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ جہنم پر گزرنے کے بعد میرے لیے واپسی کیسے ہوگی [ پس یہی چیز مجھے رلا رہی ہے ] مسلمانوں نے [ لشکر کو رخصت کرتے ہوئے ] کہا اللہ کا ساتھ تمھیں نصیب ہو اور اللہ تعالی تمھاری حفاظت فرمائے اور آپ کو صحیح سالم واپس لائے یہ سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ نے یہ اشعار پڑھے [ جن کا مفہوم یہ ہے ]
میں واپسی نہیں چاہتا بلکہ اللہ کی مغفرت اور اس کی راہ میں ایسے زخم کا سوال کرتا ہوں جوکہ جھاگ پھینکتا ہو یا ایسی کاری زخم ہو کہ جو تیز ہو اور ایسے نیزے سے لگے جو میری آنتوں اور جگر سے پار ہو جائے یہاں تک کہ لوگ جب میری قبر سے گزریں تو یہ کہا جائے کہ ماشاء اللہ کیا غازی تھا اور کیسا کامیاب ہوا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام )
واقعہ نمبر2 :

ابن عساکر ایک ایسے شخص سے نقل کرتے ہیں جو خود غزوہ موتہ میں شریک تھے وہ فرماتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن ہم نے بہت سخت جنگ کی ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ [ جو مسلمانوں کے پہلے امیر تھے ] نے زرہ پہن لی اور گھوڑے پر سوار ہوگئے اور جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اورلڑتے رہے پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور زرہ بھی اتار دی اور فرمایا یہ کون لے گا آپ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ان کے بعد جھنڈا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے لے لیا وہ بھی پہلے زرہ پہن کر سوار ہوکر لڑتے رہے پھر انہوں نے بھی زرہ اتار دی اور گھوڑے سے اتر کر لڑے اور شہید ہو گئے تب حضرت عبداللہ بن رواحہ آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا لیا اور پہلے والے دو حضرات کی طرح لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
٭ حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دعاء فرمایا کرتے تھے اے میرے پروردگار مجھے اپنے رستے کی شہادت عطاء فرمائیے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت نصیب فرمائیے۔ ( بخاری )
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں [ خراسان اور بصرہ کے حاکم ] اجراح بن عبداللہ حکمی رحمہ اللہ کے پاس گیا تو انہوں نے دعاء کے لیے ہاتھ اٹھا لئے ان کے وزراء نے بھی ہاتھ اٹھا لئے وہ کافی دیر دعاء کرتے رہے پھر مجھ سے کہنے لگے اے ابو یحیٰ کیا تم جانتے ہو کہ ہم کیا مانگ رہے تھے میں نےکہا نہیں ۔ میں نے تو تمہیں توجہ سے دعاء مانگتے دیکھا تو میں نے بھی ہاتھ اٹھا لئے انہوں نے فرمایا ہم اللہ تعالی سے شہادت مانگ رہے تھے ۔ سلیم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ان تمام حضرات کو شہادت نصیب ہوئی ۔ ( اسیر اعلام النبلاء)
حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اسود بن کلثوم جب چلتے تھے تو اپنے پاؤں اور انگلیوں کی پوروں کی طرف دیکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ جہاد کے لیے نکلے تو انہوں نے دعاء کی اے میرے پرور دگار میرا نفس آسانی کے دنوں میں یہ گمان کرتا تھاکہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے اگر میرا نفس سچا ہے تو پھر اسے اپنی ملاقات نصیب فرما اگر یہ جھوٹا ہے تو تب بھی اس پر اپنی ملاقات ڈال دے اگرچہ یہ اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرے ۔ اور میری موت کو اپنے راستے کی شہادت بنا دیجئے اور میرا گوشت درندوں اور پرندوں کو کھلا دیجئے ۔ اس کے بعد وہ لشکر کے ایک حصے کے ساتھ چل پڑے اور ایک شگاف کے ذریعے ایک چاردیواری میں داخل ہوگئے اچانک دشمن کا لشکر آگیا اور وہ اسی شگاف پر قابض ہوگیا حضرت اسود کے ساتھی تو کسی طرح اس چاردیواری سے نکل گئے مگر وہ خود نہ نکل سکے یہاں تک کہ دشمنوں کی بڑی تعداد اس شگاف پر پہنچ گئی حضرت اسود رحمہ اللہ اپنے گھوڑے سے اترے اور انہوں نے گھوڑے کے منہ پر کوڑا مارا تو وہ گھوڑا اتنا تیز دوڑا کہ دشمنوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا پھر وہ پانی پر گئے اور وضو کرکے نماز پڑھنے لگے دشمن کہنے لگے کہ عرب لوگ اسی طرح ہتھیار ڈالتے ہیں [ یعنی نماز پڑھنے کے بعد وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردیں گے ] نماز کے بعد حضرت اسود رحمہ اللہ نے دشمنوں پر حملہ کردیا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے بعد میں مسلمانوں کا لشکر وہاں سے گزرا تو اس میں حضرت اسود رحمہ اللہ کے بھائی بھی تھے۔ ان کے بھائی سے کسی نے کہا کہ تم اس چاردیواری میں جاکر اپنے بھائی کی بچی کچھی ہڈیاں تو چن کر دفنا دو ۔ ان کے بھائی نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا میرے بھائی نے ایک دعاء کی تھی اور اللہ تعالی نے اس کی دعاء کو قبول فرمالیا ہے ان کے بھائی کے اس جواب پر دوسرے مسلمانوں نے تنقید نہیں کی ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی ہشام جنگ یرموک میں شریک تھے رات کو میں بھی اور وہ بھی اللہ تعالی سے شہادت کی دعاء کرتے رہے جب صبح [ لڑائی] ہوئی تو انہیں شہادت نصیب ہو گئی جبکہ میں محروم رہا ۔ ( سیر اعلام النبلاء )
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ دشمنوں پر برابر حملے کرتے رہے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرکے شہید ہوئے ۔ شہادت کے بعد گھوڑوں نے انہیں روند ڈالا یہاں تک کہ ان کے بھائی نے ان کے جسم کے ٹکڑے ایک چادر میں جمع کئے پھر انہیں دفنا دیا۔
حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں وہ اسلام کی بھترین مددگار تھے۔
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن میں حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے پاس گزرا تو وہ حنوط کی خوشبو لگا رہے تھے میں نے کہا چچا جان مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہیں اور آپ یہاں ہیں [ جنگ یمامہ میں ابتداً مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا ۔ مگر بعد میں اللہ تعالی نے انہیں فتح عطاء فرمائی ] یہ سن کر وہ مسکرائے اور فرمانے لگے لو بھتیجے [ ابھی میں نکل رہا ہوں ] انہوں نے اسلحہ لٹکایا اور گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں پہنچ گئے اور فرمایا افسوس ہے مسلمانوں پر آج یہ کیا کر رہے ہیں اور افسوس ہے دشمنوں پر اور ان کے معبودوں پر ۔ چھوڑ دو میرے گھوڑے کا راستہ کہ میں جنگ کی گرمی میں کود جاؤ اس کے بعد حملہ فرمایا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں حنوط کی خوشبوں عام طور پر مردوں کو لگائی جاتی ہے۔ شاید حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے نفس کو موت کے لیے تیار کرنےکی خاطر اور شہادت پانے کے عزم کو مضبوط کرنے کے لیے یہ استعمال فرماتے ہوں۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالی اس سے فرمائے گا اے آدم کے بیٹے تو نے کیسا مقام پایا وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے بہترین جگہ پائی ۔ اللہ تعالی فرمائے گا تو مجھ سے مانگ اور کسی چیز کی تمنا کر ! وہ کہے گا میں تجھ سے [اور ] کیا مانگوں اور کس چیز کی تمنا کروں ؟ میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں کہ مجھے دنیا میں لوٹا دے تاکہ تیرے راستے میں دس بار شہید کیا جاؤں وہ یہ تمنا شہادت کی فضیلت دیکھنے کی وجہ سے کرے گا پھر ایک جہنمی کو لایا جائے گا اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے تو نے کیسی جگہ پائی وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے بہت بری جگہ پائی اللہ تعالی فرمائے گا کیا تو اس عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں زمین بھر سونا دے گا وہ کہے گا ہاں ۔ اللہ تعالی فرمائے گا جھوٹ بولتا ہے میں نے تجھ سے اس سے کم مانگا تھا مگر تو نے نہیں دیا تھا [ یعنی دنیا میں تھوڑا سا مال بھی تونے میرے راستے میں اور نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کیا تھا ] ( المستدرک ۔ نسائی ۔ ابوعوانہ )
مصنف رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ جنت والے اعلی درجے کی کامیابی اور عظیم الشان نعمتوں کو پا لینے کے باوجود شہادت کی تمنا کریں گے تو وہ شخص جو دنیا کے دھوکے ، امتحان اور غم والی جگہ پر ہے وہ کیسے شہادت کی تمنا نہیں کرتا حالانکہ اس کو کچھ علم نہیں کہ وہ جنت میں جائے گا یا دوزخ کا برا ٹھکانا اس کا مقدر بنے گا اس کے علاوہ بھی اور کئی احادیث میں آیا ہے کہ شہداء جنت کی اعلی نعمتوں کی جدائی برداشت کرکے دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے تاکہ شہادت کی لذت اور اس کی فضیلت کو پا سکیں ۔ یہ احادیث انشاء اللہ آگے آئیں گی۔
٭ عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انتقال کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے ہر ممکنہ جگہ پر شہادت کو تلاش کیا لیکن بستر پر مرنا ہی میرا مقدر تھا اور میرے پاس لاالہ الا اللہ کے بعد سب سے زیادہ امید والا عمل وہ رات ہے جو میں نے ہاتھ میں ڈھال لے کر گزاری تھی اور آسمان سے بارش برس رہی تھی ہم لوگ صبح کی انتظار میں تھے تاکہ علی الصبح کافروں پر حملہ کردیں پھرفرمایا میرے مرنے کے بعد میرا اسلحہ اور میرا گھوڑا جہاد کے لیے دے دینا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
٭ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زخمی ہوئے یہ سارے زمین پر گھسٹتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے تھے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا میرا چہرہ آپ کی ڈھال بن جائے اور میری جان آپ کی خاطر قربان ہوجائے آپ پر ہمیشہ اللہ کی طرف سے سلامتی رہے ۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ [ غزوہ احد کے دن ] حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہو کر دشمنوں پر تیر برسا رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پیچھے سے اپنا سر مبارک اٹھا کر [ دشمنوں کی طرف ] دیکھتے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنا چہرہ آگے کر لیتے اور فرماتے میری گردن آپ کی گردن کے سامنے ہے ۔ اے اللہ کے رسول ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
٭ محمد بن سرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر دشمنوں سے قتال شروع ہو جائے اور میرے اندر طاقت نہ ہو تو مجھے چارپائی پر لاد کر میدان جنگ میں رکھ دینا ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ سر اعلام النبلاء )
٭ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت حسیل بن جابر رضی اللہ عنہ [ جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد تھے] اور حضرت ثابت بن وقش کو اونچی جگہ پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا یہ دونوں بہت بوڑھے تھے ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ہم کس چیز کا انتظار کر رہےہیں اللہ کی قسم ہماری زندگی کے بہت تھوڑے دن باقی ہیں اور آج کل میں ہم مرنے والے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنی تلواریں لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ممکن ہے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شہادت نصیب ہوجائے ۔ یہ دونوں حضرات تلواریں لے کر لڑائی میں شامل ہوگئے اور کسی کو ان کے بارے میں علم نہیں تھا حضرت ثابت بن وقش رضی اللہ عنہ کو تو مشرکوں نے شہید کر ڈالا جبکہ حضرت حسیل بن جابر مسلمانوں کی تلواروں کے درمیان آکر شہید ہوگئے۔ یہ دیکھ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے بےشک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ان کی والد کی دیت اداء کریں توحضرت حذیفہ رضی الل عنہ نے وہ دیت معاف کردی اور اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کا مقام اور بڑھ گیا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام)
 
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد کے دن اپنے بھائی سے فرمایا ۔ بھائی جان میری زرہ آپ لے لیجئے تو انہوں نے جواب دیا میں بھی آپ کی طرح شہادت کا طلب گار ہوں چنانچہ دونوں نے زرہ چھوڑ دی ۔ ( الطبرانی ۔ ابو نعیم )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی کا نام حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھا وہ حضرت عمر سے بڑے تھے اور آپ سے پہلے اسلام لائے تھے وہ بہت لمبے قد کے مالک تھے ۔غزوہ احد میں باوجود تمنا کے شہید نہیں ہوئے جنگ یمامہ میں مسلمانوں کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا وہ جھنڈا لے کر آگے بڑھتے رہے اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور اس جھنڈے کوحضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اٹھا لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب ان کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ کو سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے فرمایا میرا بھائی مجھ سے پہلے اسلام لایا اور مجھ سے پہلے شہید ہوگیا پھر ارشاد فرمایا جب بھی صبح کی ہوا چلتی ہے تو مجھے زید رضی اللہ عنہ کی خوشبو آتی ہے ۔ رضی اللہ عنہما ۔
٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر کے دن روانگی کے وقت اپنے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاص کو دیکھا کہ چھپتے پھر رہے ہیں میں نے کہا کیا ہوا بھائی [ کیوں چھپتے پھر رہے ہو ] کہنے لگے میں ڈرتا ہوں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس بھیج دیں گے جبکہ میں اللہ سے ملاقات [ یعنی شہادت ] کا خواہش مند ہوں حضرت سعد فرماتے ہیں کہ انہیں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے انہیں چھوٹا دیکھ کر فرمایا کہ تم واپس لوٹ جاؤ ۔ یہ سن کر حضرت عمیر رونے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔ حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں ان کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کی تلوار کے پٹے کو گرہ لگایا کرتا تھا وہ بدر کے دن سولہ سال کی عمر میں شہید ہوئے انہیں عمرو بن عبدود نے قتل کیا ۔ ( اسد الغابہ )
٭ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نےکوئی اچھا کام کیا تو اللہ تعالی نے اس کے زمانے کے نبی کو بذریعہ وحی فرمایا کہ اس بادشاہ سے کہوکہ ہم سے جو چاہے مانگ لے اس پر اس بادشاہ نے کہا اے میرے رب میری تمنا ہے کہ میں اپنے مال اپنے بیٹوں اور اپنی جان کے ساتھ تیرے راستے میں جہاد کروں چنانچہ اللہ تعالی نے اسے ایک ہزار بیٹے عطاء فرمائے وہ اپنے مال سے اپنے بیٹے کو سامان جہاد فراہم کرتا تھا اور اس کے ساتھ جہاد میں ایک مہینے کے لیے نکل کھڑا ہوتا تھا اس کا وہ بیٹا شہید ہوجاتا پھر وہ آکر دوسرے بیٹے کو تیار کرتا اور ایک ماہ اس کے ساتھ مل کر جہاد کرتا اور اس کا وہ بیٹا شہید ہوجاتا اس کے ساتھ یہ بادشاہ رات کو قیام کرتا اور دن کو روزے کا بھی پابند تھا جب ایک ہزار مہینوں میں اس کے ایک ہزار بیٹے شہید ہوگئے تو وہ خود بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگیا ۔ اسی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ ہے : لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ یعنی لیلۃ القدر اس بادشاہ کے ان ہزار مہینوں سے افضل ہے جس میں اس نے اپنی اولاد اور اپنے جان و مال سے جہاد کیا اور روزے ، قیام کی بھی پابندی کی ۔ ( تفسیر القرطبی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اس امت پر اللہ تعالی کا وسیع فضل ہے کہ ان کے تھوڑے سے عمل کو سابقہ امتوں کے بڑے اور طویل اعمال سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔ ذرا سوچئے جب اس امت کی ایک رات یعنی لیلۃ القدر بنی اسرائیل کے اس بادشاہ کے ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے تو اس عمل [ یعنی جہاد ] کی فضیلت کا کیا حال ہو گا جس میں ایک گھڑی کھڑے رہنا حجر اسود کے سامنے لیلۃ القدر پا لینے سے افضل ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت گزر چکی ہے ۔
٭علاء بن ہلال روایت کرتے ہں کہ حضر صلہ رضی اللہ عنہ کی قوم کے ایک شخص نے ان سے کہا اے ابو الصہباء میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے شہد کا ایک چھتہ اور آپ کو دو چھتے دیئے گئے ہیں ۔ حضرت صلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے بہت اچھا خواب دیکھا تم شہید کئے جاؤں گے اور میں اور میرا بیٹا بھی شہید ہوں گے ۔ جب حضرت یزید بن زیاد نے سجستان پر حملہ کیا تو یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جس نے شکست کھائی اس وقت حضرت صلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے پیارے بیٹے تم واپس اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ بیٹے نے کہا ابا جان آپ اپنے لیے تو بھلائی چاہ رہے ہیں اور مجھے واپسی کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ میری والدہ کے لیے تو آپ مجھ سے زیادہ خیر کا باعث تھے حضرت صلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم یہ کہتے ہو تو پھر آگے بڑھو [ اور لڑائی میں شریک ہوجاؤ ] وہ آگے بڑھا اور زخم کھا کر گر گیا حضرت صلہ بڑے تیر انداز تھے انہوں نے دشمنوں پر تیر برسائے تو وہ اس سے ہٹ گئے۔ حضرت صلہ اپنے بیٹے کے پاس آئے کچھ دیر اس پر کھڑے رہے اور اس کے لیے دعاء فرمائی پھر خود بھی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک ۔ سیراعلام لنبلاء)
حضرت صلہ کی بیوی حضرت معاذہ کو جب اپنے خاوند اور بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو ان کے پاس عورتیں آنے لگیں انہوں نے ان سے فرمایا اگر تم ہمیں اس اعزاز پر جو اللہ تعالی نے عطاء فرمایا ہے مبارک دینے آئی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلی جاؤ ۔ ( کتاب الجہادلابن المبارک )
خلف بن ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نخع [ نامی مقام ] کے ایک نوجوان نے بتایا کہ ہم ایک بار جہاد میں نکلے ہوئے تھے کہ میں نے اپنے گھوڑے سے آگے والے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے نوجوان کی آواز سنی جو اپنے نفس کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا۔
اے نفس تو ہر مرتبہ جہاد میں مجھے کہتا ہے کہ فلانہ تیری بیوی ہے فلاں تیرےبچے ہیں تیرا اتنا مال ہے آج میں نے فلانہ کو طلاق دے دی اور اپنے سارے غلام آزاد کر دیئے اور اپنا سارا مال اللہ کے راستے میں دے دیا اے میری جان آج تجھے ہر حال میں اللہ کے حضور پیش کروں گا پھر اس نے حملہ کیا اور لڑتے ہوئے شہید ہو گیا میں نے اس کے جسم پر اسی ( 80) سے زائد زخم شمار کئے ۔ ( جوھرۃ الزمان لابن الجوزی )
ابوعتبہ الکندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت نوف بکائی رحمہ اللہ کے پاس آتے جاتے تھے کہ ایک بار ایک شخص نے انہیں کہا اے ابو یزید میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ ایک لشکر لے کر جا رہے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک لمبا نیزہ ہے جس کی نوک پر مشعل جل رہی ہے اور لوگ اس سے روشنی حاصل کر رہے ہیں نوف رحمہ اللہ نے فرمایا اگر تیرا خواب سچاہے تو مجھے شہادت نصیب ہوگی انہی دنوں محمد بن مروان کے ہمراہ روم کی طرف لشکر روانہ ہونے لگے جب حضرت نوف جہاد کے لیے روانہ ہونے لگے تو میں بھی ان کو رخصت کرنے کے لیے گیا انہوں نے جب اپنا پاؤں سواری پر رکھا تو کہنے لگے اےمیرے پروردگار میری بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردے اور نوف کو شہادت سے نواز دے لڑائی سے واپسی پر جب لشکر عبائب [ نامی مقام ] پر پہنچا تو دشمن مقابلے کے لئے نکل آئے اسلامی لشکر میں سب سے پہلے حضرت نوف رحمہ اللہ نکلے اور انہوں نے دشمنوں پر زور دار حملہ کیا اور ایک کے بعد دوسرے کافر کو قتل کرتے چلے گئے اور پھر شہید ہوگئے ان کے بعض رفقاء نے بتایا کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ان کا خون ان کے گھوڑے کے خون کے ساتھ بہہ رہاتھا اور دونوں مارے جاچکے تھے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
عبدالکریم بن حارط رحمہ اللہ سے روایت ہے انہیں ایک شخص نے یہ قصہ سنایا کہ ہم لوگ ایک قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ اسلامی لشکر میں سے دو آدمی نکلے ان میں سے ایک نے کہا کیا تم غسل کرو گے ؟ ممکن ہے اللہ تعالی ہمیں شہادت نصیب فرما دے اس کے ساتھی نے کہا میں نےتو غسل نہیں کرنا چنانچہ خود اس نے غسل کر لیا غسل سے فارغ ہو کر وہ قلعے کی طرف بڑھا تو اسے ایک بڑا پتھر لگا راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھی اسے گھسیٹ کر لا رہے تھے میں ان کے پاس پہنچا تو وہ اس شک میں تھے کہ یہ شہید ہو چکا ہے یا نہیں ؟ اچانک وہ نوجوان مسکرانے لگ گیا ہم نے کہا یہ زندہ ہےپھر وہ تھوڑی دیر ساکت پڑا رہا پھر ہنسنے لگ گیا پھر تھوڑی دیر پڑا رہا پھر وہ رونے لگا اور اس نے آنکھیں کھول دیں ہم نے کہا اے فلاں خوش ہو جاؤ تم بچ گئے ہو پھر ہم نے اس کے ہنسنے اور رونے کا تذکرہ کیا تو وہ کہنے لگا جب مجھے چوٹ لگی تو ایک آدمی مجھے پکڑ کر یاقوت کے محل میں لے گیا اور مجھے دروازے پر کھڑا کر دیا اچانک اس محل سے ایسے چست بچے نکلےکہ ان جیسے میں نے کبھی نہیں دیکھے انہوں نے کہا خوش آمدید ہمارے آقا میں نے کہا تم پر اللہ کی برکتیں ہوں تم کون ہو وہ کہنے لگے ہم تیرے لیے پیدا کیے گئے ہیں پھر وہ آدمی مجھے دوسرے اور تیسرے محل میں لے گیا ہر جگہ اسی طرح بچوں نے میرا استقبال کیا پھر وہ مجھے ایک محل کے دروازے پر لے آیا اس میں قالینیں اور غالیچے بچھے ہوئے تھے اور نرم و نازک تکئے لگے ہوئے تھے وہ مجھے لے کر محل میں داخل ہوا اس کمرے کے دو دروازے تھے میں نے خود کو دو تکیوں کے درمیان گرا دیا اس نے کہا آج کے دن تم بہت تھک گئے تھے اس لیے تم نے خود کو تکیوں پر گرا دیا اس کے بعد میں اٹھا تو بستر پر لیٹ گیا میں نے اس سے پہلے کبھی ایسے بستر پر پر پہلو نہیں رکھا تھا اسی دوران میں نے ایک دروازے سے کچھ آواز سنی تو میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایسی حسین کہ اس جیسی میں نے کبھی نہیں دیکھی بے مثال کپڑے اور زیور پہنے ہوئے نمودار ہوئی اور ان تکیوں کے درمیان چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور اس نے مجھے سلام کیا میں نے اس کے سلام کا جواب دیا اور کہا اللہ تجھے برکت دے تو کون ہے اس نے کہا میں تیری بیوی حور عین ہوں یہ سن کر میں خوشی سے ہنس پڑا پھر وہ میرے ساتھ باتیں کرتی رہی اور مجھے دنیا کی عورتوں کی باتیں اس طرح سے بتاتی رہی جس طرح یہ سب کچھ اس کے پاس کسی کتاب میں لکھا ہوا ہے اسی دوران میں نے دوسرے دروازے پر آہٹ سنی تو وہاں پر بھی میں نے ایک عورت دیکھی میں نے نہ اس جیسی حسین عورت کبھی دیکھی اور نہ اس کے زیور جیسے زیور۔ وہ بھی پہلے والی کی طرح آکر مجھ سے باتیں کرنے لگی اور پہلے والی خاموش ہوگئی پھر میں نے ان میں سے ایک کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا ابھی نہیں بلکہ نماز ظہر کے وقت پھر مجھے پتہ نہیں چلا کہ اس نے کچھ کہا یا مجھے ایک ایسے صحرا میں ڈال دیا گیا جہاں ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا تو میں رونے لگ گیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ظہر کی نماز کے وقت اس کی روح پرواز کر گئی۔ ( تاویل آی الجہاد ۔ ابن عساکر )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک بہت نیک دوست نے یہ حکایت سنائی کہ جوانی میں میں تیر اندازوں کے ساتھ اسکندریا میں تھا وہاں ہمارے ساتھ مغرب کا رہنے والا ایک شخص آیا جو اپنا ہاتھ ہمیشہ ہم سے چھپاتا تھا ہم اس کےساتھ کھاتے پیتے تھےچنانچہ ہمیں شک ہوا کہ شاید اس کو کوئی بیماری ہے کچھ دن بعد اس نے اپنا ہاتھ کھولا تو اس کی کلائی پر سفید رنگ کے انگلیوں کے نشانات تھے ہم نے سمجھا کہ اسے برص کی بیماری ہے مگر اس نے ہم سے کہا ڈرو نہیں یہ برص نہیں ہے ان شاء اللہ کبھی تنہائی میں تمھیں اس کی حقیقت بتاؤں گا ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ جماعت کے بڑوں میں سے کسی نے ایک ولی کا تذکرہ کیا اس شخص نے بھی اس ولی کی تعریف کی تو جماعت کے بزرگ نے اسے اسی ولی کا واسطہ دے کر کہا کہ تم آج اپنے ہاتھ کی سفیدی کا راز ہمیں بتادو یہ سن کر اس کے آنسو بہنے لگے اور اس کی حالت بدل گئی اور وہ زور زور سے رونے لگا مگر جب زیادہ اصرار ہوا تو اس نے یہ واقعہ سنایا ۔ ہم مغرب میں انگریزوں کے ملک کے قریب رہتے تھے کبھی ہم ان پر اچانک حملہ کرتے تھے تو کبھی وہ ہم پر حملہ آور ہوتے تھے ایک بار ہم بیس آدمی ان کے ملک میں داخل ہو کر حملہ کرنے کی نیت سے نکلے ہمارا طریقہ یہ تھا کہ ہم رات کو چلتے تھے اور دن کو چھپ جاتے تھے ۔ ابھی ہم درمیان ہی میں تھے کہ ایک دن سورج نکلنے پر ہم پناہ لینے کے لیے ایک پہاڑ کی غار کی طرف بڑھے اچانک ہمیں آہٹ سنائی دی تو ہم نے دیکھا کہ اسی غار سے ایک انگریز سپاہی نکل رہا ہے اس نے جیسے ہی ہمیں دیکھا وہ واپس غار کی طرف دوڑا اور تھوڑی دیر میں غار سے ایک سو سپاہی نکل آئے یہ سپاہی ہمارے ملک پر حملہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور دن کے وقت اس غار میں چھپ گئے تھے جب آمنا سامنا ہو گیا تو اب لڑائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ہماری اور ان کی لڑائی کا دستور فتح یا موت تھا چنانچہ سخت لڑائی شروع ہوگئی اور اس لڑائی میں ہمارے گیارہ آدمی شہید ہوئے جبکہ ان کے پینتالیس سپاہی مارے گئے پھر انہوں نے ہم باقی نو افراد پر ایک بارگی زور دار حملہ کیا اور میرے علاوہ باقی سب کو شہید کردیا اور میں بھی شدید زخمی ہوکر انہیں شہداء کےساتھ گر گیااسی دوران اچانک آسمان سے ایسی لڑکیاں اتریں کہ ان جیسا حسن و جمال میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا ان میں سے ہر لڑکی ایک ایک شہید کے پاس جاتی تھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتی تھی یہ میرے حصے کا ہے ۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا لیکن جب اسے محسوس ہوا کہ میں زندہ ہوں تو اس نے میرا ہاتھ اس طرح چھوڑ دیا جس طرح غصے میں چھوڑا جاتا ہے اور کہنے لگی تم ابھی تک زندہ ہو پھر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی پھر اس مغربی شخص نے ہمیں اپنا ہاتھ [ اچھی طرح ] دکھایا تو اس کی کلائی پر پانچ انگلیوں کے دودھ سے زیادہ سفید نشان تھے ۔
ابو قدامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار امیر لشکر تھا انہیں دنوں میں مسلمانوں کے بعض شہروں میں لوگوں کو جہاد کی دعوت دینے گیا ایک جگہ میں نے لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی اور شہادت کے فضائل بتائے۔ تقریر کے بعد جب میں قیام گاہ پر آیا تو ایک حسین و جمیل عورت نے مجھے آواز دی پہلے میں نے اسے شیطانی حملہ سمجھا اس لیے جواب نہ دیا تو اس نے کہا کیا نیک لوگ نیکی کا ارادہ کرنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں میں اس کے پاس آیا تو اس نے مجھے ایک خط اور ایک بند تھیلی دی اور روتی ہوئی چلی گئی میں نے خط پڑھا تو اس میں لکھا تھا آپ نے لوگوں کو جہاد کی دعوت دی اور انہیں جہاد کا اجر کمانے کی ترغیب دی مگر میں ایک عورت ہوں جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتی لیکن میں اپنی بالوں کی دو چوٹیاں کاٹ کر لائی ہوں تاکہ آپ انہیں اپنے گھوڑے کی لگام میں شامل کرلیں ۔ ممکن ہے اللہ تعالی اسی عمل کو قبول فرما کر میری بخشش کر دے ۔
ابوقدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی والی رات آئی تو میں نے ان بالوں کو گھوڑے کی لگام میں شامل کر لیا صبح کے وقت جب لڑائی شروع ہوئی تو میں نے ایک خوبصورت اور مضبوط لڑکے کو دیکھا [ جو دشمنوں سے برسر پیکار تھا ] میں اس کے پاس آیا اور میں نے کہا اے بیٹے تم پیادے ہو مجھے خطرہ ہے کہ گھوڑے تمھیں روند ڈالیں گےتم پیچھے ہٹ کر لڑو وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں کیسے پیچھے لوٹوں حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
[arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الأدْبَارَ [/arabic]( سورہ انفال ۔ 15)
میں نے یہ سن کر اسے اپنی کمان دے دی اس نے مجھے کہا اے ابو قدامہ مجھے تین تیر قرضہ دے دو میں نے کہا یہ قرضے کا وقت نہیں ہے اس نے کہا اللہ کے واسطے مجھے قرضہ دے دو میں نے اسےایک تیر دیا اس نے وہ تیر کمان میں رکھ کر مارا اور ایک رومی کو قتل کر دیا میں نے اسے کہا میں تمھارے ساتھ اجر میں شریک ہوں اس نے کہا جی ہاں پھر اس نے دوسرے اور تیسرے تیر سے بھی دو رومی مار گرائے پھر اس نے مجھے کہا میں آپ کو الوداعی سلام کہتا ہوں ۔ اچانک ایک تیر اس کے ماتھے پر لگا اور وہ زخمی ہو کر گر پڑا میں نے اسے کہا اے بیٹے تم نے مجھ سے جو عہد کیا ہے اسے نہ بھلانا اس نے کہا جی ہاں پھر کہنے لگا اے ابو قدامہ جب تم شہر واپس جانا تو میری والدہ کو سلام کہنا اور انہیں میرا یہ برتن دے دینا میں نے کہا تمھاری والدہ کون ہے ؟اس نے کہا وہی عورت میری والدہ ہے جس نے اپنے بال آپ کو کاٹ کر دیئے تھے کہآپ انہیں گھوڑے کی لگام میں شامل کر دیں ۔ ابو قدامہ کہتے ہیں یہ سن کر میں رونے لگ گیا اور اسی دوران لڑکے کی روح بھی پرواز کر گئی اور ہم نے اسے دفن کر دیا جنگ کے بعد میں اس کی قبر پر آیا تو دیکھا کہ اس کی لاش زمین کے اوپر پڑی ہوئی ہے میں نے دوسری قبر کھود کر اس میں اسے دفنا دیا اس قبر نے بھی اسے باہر پھینک دیا میرے ساتھی کہنے لگے اس لڑکے کو چھوڑ دو ممکن ہے یہ اپنی والدہ کی اجازت کے بغیر نکلا ہوں مگر میں حیرت میں پڑا رہا جب عشاء کی اذان ہو گئی تو میں نے اٹھ کر نماز پڑھی اور پھر اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر رونے لگا اور کہنے لگا اے میرے پروردگار میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں اچانک مجھے آواز آئی اے ابو قدامہ اللہ کے اس ولی کو اسی طرح چھوڑ دو اور چلے جاؤ میں نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا پرندوں نے اسے کھا لیا اور جنگلی جانوروں نے اس کی ہڈیاں تک نگل لیں جب میں شہر میں آیا تو اس کے گھر جاکر میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے ایک چھوٹی سے بچی نکل آئی اس نے جب لڑکے کا برتن میرے ہاتھ میں دیکھ لیا تو کہنے لگی ہائے امی جان ابو قدامہ میرے بھائی کا برتن لے کر آئے ہیں اور میرا بھائی ان کے ساتھ نہیں ہے ہائے افسوس پہلے سال میرے والد شہید ہوگئے دوسرے سال میرا بھائی شہید ہو گیا اور اب یہ دوسرا بھائی بھی شہید ہوگیا ابو قدامہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر قریب تھا کہ میں رو رو کر ہلاک ہوجاتا ۔ پھر وہ عورت نکلی اور اس نے کہا کیا تم خوشخبری دینے آئے ہو یا تعزیت کرنے اگر میرا بیٹا انتقال کر گیا ہے تو تم تعزیت کرو اور اگر شہید ہوا ہے تو تم مبارک باد دو ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم وہ تو شہید ہوا ہے اس نے کہا اس کے شہید ہونے کی کیا علامت ہے میں نے کہا وہ دشمن کے ہاتھوں مارا گیا ہے اس نے کہا کیا زمین نے اسے قبول کیا میں نے کہا نہیں ۔ اس نے کہا الحمد للہ پھر اس نے ایک صندوق کھولا اور اس میں سے ایک کالی چادر اور لوہے کی زنجیر نکالی اور کہنے لگی میرا بیٹا ہر رات یہ کالی چادر پہن کر زنجیر سے اپنے ہاتھ باندھ لیتا تھا اور دعاء کرتا تھا اے میرے پروردگار مجھے قیامت کے دن پرندوں کے پوٹھوں اور درندوں کے پیٹ سے کھڑا فرمانا بس اللہ تعالی نے میرے بیٹے کی دعاء قبول فرمائی ۔ ( جوہرۃ الزمان )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حکایت کچھ فرق کے ساتھ ایک اور روایت سے پیچھے گزر چکی ہے ۔
[ اس باب میں مذکور احادیث ، روایات اور سچے واقعات پڑھنے کے بعد یقیناً ہر مسلمان کے دل میں یہ شوق پیدا ہو گا کہ وہ بھی سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت کی لذیذ موت مانگے اور پھر شہادت کی تلاش میں میدان جہاد کا رخ کر ے ایک مسلمان کا جب یہ عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے تو پھر شہادت جیسی عظیم اور پیاری موت مانگنے سے کیوں ڈرا جائے دراصل بعض لوگ شہادت کی موت کو بھیانک موت سمجھتےہیں حالانکہ بظاہر بھیانک نظر آنے والی یہ موت اتنی بڑی نعمت ہے جو جنت میں جاکر بھی نہیں بھولے گی اور یہ اتنی عظیم الشان نعمت ہے کہ سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی تمنا فرمایا کرتے تھے جہاں تک بستر کی بظاہر پر سکون نظر آنے والی موت کا تعلق ہے تو معلوم نہیں اس کے پیچھے کتنا درد اور کتنا عذاب چھپا ہوتا ہے اور جہاں تک جسم کا تعلق ہے تو ہر جسم نے مٹی میں جاکر بکھر ہی جانا ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ خواہ اسے صحیح سالم حالت میں دفن کیا جائے اور بڑی خوبصورت قبر بنائی جائی اور دنیا بھر کی خوشبوئیں اور اعلی ترین کفن استعمال کیا جائے ہر لاش بالآخر گل جاتی ہے ۔ سڑ جاتی ہے لیکن اگر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا یہ عمل اللہ تعالی کی خاطر ہو تو یہ کس قدر مبارک ہے ۔ وہ مسلمان جو اپنے بچوں کو اس ڈر سے جہاد میں نہیں بھیجتے کہ یہ شہید ہو جائیں گے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کریں کیونکہ جہاد میں تو موت نہیں ہے جہاد تو زندگی ہی زندگی ہے اگر ان کے بچوں کے لیے دنیا سے جدائی کا وقت آچکا ہوگا تو وہ انہیں اگر سات دیواروں کے پیچھے بھی چھپا لیں تو موت انہیں وہاں پہنچ کر دبوچ لے گی لیکن اگر ابھی موت کا وقت نہیں آیا ہوگا تو پوری دنیا مل کر انہیں نہیں مار سکتی ۔
اسی طرح وہ لوگ جو خون اور زخم کے ڈر سے شہادت کا نام لینے سے گھبراتے ہیں اور شہادت کے لیے دعاء تک نہیں مانگتے انہیں بھی ان شیطانی وسوسوں سے پناہ مانگنی چاہئے کیونکہ جہاد میں نکلنے والا خون اور اس میں لگنے والے زخم تو سعادت ہیں لیکن اس خون کو جسم کے اندر لے کر مرنا کوئی زیادہ خوشی والی بات نہیں ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو شہادت کی عظمت سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ]
 

فرخ منظور

لائبریرین
واجد صاحب آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں‌‌کہ خودکش حملہ آور شہادت کے درجے پر فائز ہوں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جناب عالی میرے خیال سے کچھ نہیں ہوتا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ؟
آپ کا علم اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ خودکش بمبار جو آج کل کے مشہور ہو رہے ہیں، ان کے بارے۔ یعنی جو بم باندھ کر اپنے ہی ملک، اپنے ہی مذہب و ملت کے افراد کو مارنے جاتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جناب عالی میرے خیال سے کچھ نہیں ہوتا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ؟

واجد صاحب میرا سوال تو وہیں‌کا وہیں ہے اس سے مجھے آپ کے جواب کے سمجھ نہیں‌ آئی میں‌پھر سوال دہراتا ہوں کہ
آپ کے خیال میں خودکش حملہ آور شہادت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں یا نہیں؟ براہِ مہربانی اس جواب سے مفر مت کیجیے گا کیونکہ یہ بہت اہم ہے - اگر ایک انسان درجنوں مسلمانوں کو قتل کرکے شہادت کا درجہ پاتا ہے تو پھر ہماری امّت تباہی کے آخری دہانے پر ہے - ہم نے اس دنیا میں‌ہی دوزخ بنا ڈالی -
 

ظفری

لائبریرین
دراصل واجد صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں خود بھی نہیں معلوم کہ یہ جو اتنے دنوں سے یہاں " جہاد " پر ابواب کے ابواب کے ڈھیر لگا رہے ہیں ۔ اس کے اغراض و مقاصد آخر کیا ہیں ۔ آپ کوئی بھی سوال کریں اور جیسا کہ میں نے ان سے پہلے بھی ایک سوال کیا تھا ۔ یہ اس طرف پھٹکے ہی نہیں ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اس طرح کے موضوعات کی کتابت کے کام پر مامور ہیں ۔ مگر ان سے عقلی دلائل یا علمی بحث کی کوئی توقع کی نہیں جاسکتی ۔ اس لیئے میں نے ان کی کسی بھی پوسٹ کے جواب میں کچھ لکھنا ہی ترک کردیا ہے ۔ ( واجد صاحب سے معذرت کیساتھ ) ۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی ظفری بھائی آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا ہے میں نہ عالم ہوں اور نہ ہی دین میں سپیشلائزین کی ہے اپ لوگوں کی طرح ہوں اس لیے اپ کے ہاں رہتا ہوں باقی جوبات آپ لوگ جہاد کے بارے میں کہتے ہیں یہ میری زیر مطالعہ کتب ہے جو میں مطالعے کے بعد یہاں پر پوسٹ کر دیتا ہوں اور اپ اور اس محفل کے چند معزز ممبران جو کہ ان کو بھی علم ہے جہاد کے بارے میں لیکن بار بار وہی سولات دہراتے ہیں صرف اور صرف تنگ کرنے کے لیے یا جب کلام تیز ہو جائے تو تھریڈ لاک۔
اور اپ نے اتنا برداشت کر لیا بس تقریبا 5 باب اور رہتے ہیں کیونکہ اس کے 33 باب ہیں اور ابھی میں 27 تک مطالعہ کر چکا ہوں اور ان شاء اللہ جب یہ مکمل ہوجائے تو اس کو فضائل اعمال یا بہشت زیور کی طرح سرچ ایبل اور بک کی شکل میں کرنے کا بھی ارادہ ۔
ظفری بھائی میرے اور اپ کے نظریات میں بہت فرق ہیں آپ گانے بجانے کے حق میں ہیں جیسے کہ اپ کی بلاگ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے اور میں اس کی مخالف ہوں اور اس کو گناہ سمجھتا ہوں
( تیز الفاظ کے لیے معذرت)
باقی میں فدائی حملوں کے حق میں ہوں کفر کے خلاف نہ کہ اسلام کے خلاف اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی شراب پیتے ہیں جو مسلمان ہوکہ بھی زنا کرتے ہیں اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی سود کا لین دین کرتے ہیں کیا اور مسلمان ہو کر بھی نماز ادا نہیں کرتے تو ان لوگوں کے فساد کے بارے میں کیا خیال ہیں ان پر بھی اسلام کا لیبل لگا ہے ۔ لیکن ملک میں جو بھی فساد یا دھماکہ ہو رہے ہیں ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں کہ مجاہد بدنام ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں اور خود کش حملہ یار ذرا قاری صاحب جو کہ ابھی پنڈی میں دھماکہ ہوا ہے بی بی سی پر ذرہ کھلے انکھوں سے دیکھیں کہ گاری بالکل صحیح ہے آگے اور اس کا چھت آڑا ہوا ہے کیا یہ باہر سے ہو سکتا یا کو ریموٹ یا ٹائم بم کا نتیجہ ہے
 
واجد صاحب میرا سوال تو وہیں‌کا وہیں ہے اس سے مجھے آپ کے جواب کے سمجھ نہیں‌ آئی میں‌پھر سوال دہراتا ہوں کہ
آپ کے خیال میں خودکش حملہ آور شہادت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں یا نہیں؟ براہِ مہربانی اس جواب سے مفر مت کیجیے گا کیونکہ یہ بہت اہم ہے - اگر ایک انسان درجنوں مسلمانوں کو قتل کرکے شہادت کا درجہ پاتا ہے تو پھر ہماری امّت تباہی کے آخری دہانے پر ہے - ہم نے اس دنیا میں‌ہی دوزخ بنا ڈالی -
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جی سخنور صاحب آپ اس پوسٹ کا مطالعہ کیجئے لیکن میں بار بار یہ بات دہراتا ہوں کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی جہاد نہیں ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک اور سوال واجد صاحب کہ یہ کون تعیّن کرے گا کہ جہاد اب فرض ہو گیا؟ کیا مسلمانوں کا ایک گروہ، کوئی ایک فرد یا مملکت؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اور ہاں جہاد ہے کیا یعنی اسکی تعریف کیا ہے - اس بارے میں بھی کچھ بتائیے کہ آپ جہاد کسے کہتے ہیں اور یہ کسطرح ہوتا ہے؟ اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے؟
 
اور ہاں جہاد ہے کیا یعنی اسکی تعریف کیا ہے - اس بارے میں بھی کچھ بتائیے کہ آپ جہاد کسے کہتے ہیں اور یہ کسطرح ہوتا ہے؟ اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے؟

جی سخنور صاحب اس کے لیے آپ مفتی محمد شفیع صاحب کی کتاب “جہاد“ کا مطالعہ کیجئے ایک چھوٹا سا رسالہ ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
باقی میں فدائی حملوں کے حق میں ہوں کفر کے خلاف نہ کہ اسلام کے خلاف اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی شراب پیتے ہیں جو مسلمان ہوکہ بھی زنا کرتے ہیں اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی سود کا لین دین کرتے ہیں کیا اور مسلمان ہو کر بھی نماز ادا نہیں کرتے تو ان لوگوں کے فساد کے بارے میں کیا خیال ہیں ان پر بھی اسلام کا لیبل لگا ہے ۔ لیکن ملک میں جو بھی فساد یا دھماکہ ہو رہے ہیں ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں کہ مجاہد بدنام ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں اور خود کش حملہ یار ذرا قاری صاحب جو کہ ابھی پنڈی میں دھماکہ ہوا ہے بی بی سی پر ذرہ کھلے انکھوں سے دیکھیں کہ گاری بالکل صحیح ہے آگے اور اس کا چھت آڑا ہوا ہے کیا یہ باہر سے ہو سکتا یا کو ریموٹ یا ٹائم بم کا نتیجہ ہے

چند ایک سوالات:

فدائی حملے جو کہ دشمن ملک کے شہریوں کے خلاف ہوں، وہ بھی جائز ہیں؟

فدائی حملے جو اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے خلاف ہوں، وہ بھی جہاد ہیں؟

فدائی حملے جس میں دشمن کو مارنے کے لئے بے شمار بے گناہ مارے جائیں، کیا وہ بھی جہاد ہیں؟

فدائی حملے جس میں دشمن کو مارنے کے لئے بے شمار بے گناہ مسلمان مارے جائیں، وہ بھی جہاد ہیں؟

سعودی عرب جیسے "اسلامی" ملک میں بھی زیادہ تر کاروبار سود ہی کی کسی نہ کسی شکل میں بینک سے منسلک رہتا ہے، ان کے خلاف کتنے فدائی حملے ہوئے؟
 

ظفری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی ظفری بھائی آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا ہے میں نہ عالم ہوں اور نہ ہی دین میں سپیشلائزین کی ہے اپ لوگوں کی طرح ہوں اس لیے اپ کے ہاں رہتا ہوں باقی جوبات آپ لوگ جہاد کے بارے میں کہتے ہیں یہ میری زیر مطالعہ کتب ہے جو میں مطالعے کے بعد یہاں پر پوسٹ کر دیتا ہوں اور اپ اور اس محفل کے چند معزز ممبران جو کہ ان کو بھی علم ہے جہاد کے بارے میں لیکن بار بار وہی سولات دہراتے ہیں صرف اور صرف تنگ کرنے کے لیے یا جب کلام تیز ہو جائے تو تھریڈ لاک۔
واجد صاحب میں نے آپ کے جس پیراگراف کو ، کوٹ کیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ۔ مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا جواز یا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے ۔ جس سے آپ اپنے نظریات یا عقائد کا دفاع کرسکیں ۔ کتنی حیرت کی بات ہے آپ ایک پختہ عمر اور پختہ شعور کے مالک ہیں ۔ مگر یہ بات آپ کتنی آسانی سے یہاں کہہ رہے ہیں کہ " میری زیر مطالعہ کتب ہے جو میں مطالعے کے بعد یہاں پر پوسٹ کر دیتا ہوں اور اپ اور اس محفل کے چند معزز ممبران جو کہ ان کو بھی علم ہے جہاد کے بارے میں لیکن بار بار وہی سولات دہراتے ہیں صرف اور صرف تنگ کرنے کے لیے یا جب کلام تیز ہو جائے تو تھریڈ لاک۔"
یعنی آپ نے یہ تحقیق ہی نہیں کہ یہ کتاب قرآن و سنت کے احکامات کے عین مطابق ہے کہ نہیں ۔ اس ساری کتاب میں قرآن سے مخلتف آیتیں " کوٹ " کرکے ، انہیں قرآن کے سیاق و سباق کے بالکل الٹ اپنے اغراض و مقاصد کے لیئے پیش کیا گیا ہے ۔ بلکل ویسے ہی ، جیسے آج اسامہ اور اس کے حواری سورہ ِ احزاب کی دو آیتیں پوری سورہ سے الگ کرکے اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں ۔ میرے لیئے تو یہ بڑی دھچکے کی بات ہے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کیا پوسٹ کررہے ہیں ۔ اور جب آپ سے سوالات کیئے جاتے ہیں تو آپ کا ان سے انحراف اس بات کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو ایک فیصد بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ جو چیز آپ کے " زیرِ مطالعہ " ہے ۔ وہ آخر ہے کیا چیز ۔ ؟؟؟؟؟ ۔۔ اور تھریڈ تو اسی صورت میں بند ہوگا ۔ جب آپ ایسے نظریات اور عقائد سامنے لائیں گے ۔ جس سے لوگوں میں خلفشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ چلیں یہاں تک بھی ٹھیک ہے ۔ مگر جب آپ سے ان عقائد اور نظریات کے علاوہ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مانگا جائے تو ، یا تو آپ اس سے انحراف کریں یا پھر کسی کتاب کا حوالہ دیکر جان چھڑا لیں ۔ تو یہ ساری چیزیں اس بات کا مظہر ہیں کہ آپ کے بارے میں جو میں نے اندازہ لگایا تھا ۔ وہ کچھ سو فیصد سے بھی زیادہ صحیح تھا ۔

اور اپ نے اتنا برداشت کر لیا بس تقریبا 5 باب اور رہتے ہیں کیونکہ اس کے 33 باب ہیں اور ابھی میں 27 تک مطالعہ کر چکا ہوں اور ان شاء اللہ جب یہ مکمل ہوجائے تو اس کو فضائل اعمال یا بہشت زیور کی طرح سرچ ایبل اور بک کی شکل میں کرنے کا بھی ارادہ ۔
جناب ۔۔۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کو برداشت کیوں کریں کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہے ۔ آپ یہ " مولوی نامہ " اپنی کسی اور ملتی جلتی عقائد والی سائیٹ پر ڈالیں تو آپ کی بہت واہ واہ ہوگی ۔ یہاں‌ تو آپ کو جوابات دیں ہونگے ، دلائل پیش کرنے ہونگے کہ یہاں لوگ اپنے سروں میں دماغ بھی رکھ کر آتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر آپ کو یہ سب یہاں بند کرنا پڑے گا یا پھر وہی ہوگا جس کی آپ نے شکایت کی کہ تھریڈ بن ہوجاتا ہے ۔ ( سخت الفاظ کے لیئے معذرت )

ظفری بھائی میرے اور اپ کے نظریات میں بہت فرق ہیں آپ گانے بجانے کے حق میں ہیں جیسے کہ اپ کی بلاگ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے اور میں اس کی مخالف ہوں اور اس کو گناہ سمجھتا ہوں
آپ ثبوت فراہم کردیں کہ موسیقی حرام قرار دی گئی ہے ۔ میں اپنی وہ پوسٹ اپنے بلاگ سے ہٹا لوں گا ۔ مگر آپ کیسے ثابت کریں گے ۔ بقول آپ کے کہ " آپ تو صرف رٹا ہوا بیان کرتے ہیں " ۔
باقی میں فدائی حملوں کے حق میں ہوں کفر کے خلاف نہ کہ اسلام کے خلاف اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی شراب پیتے ہیں جو مسلمان ہوکہ بھی زنا کرتے ہیں اب جو لوگ مسلمان ہو کر بھی سود کا لین دین کرتے ہیں کیا اور مسلمان ہو کر بھی نماز ادا نہیں کرتے تو ان لوگوں کے فساد کے بارے میں کیا خیال ہیں ان پر بھی اسلام کا لیبل لگا ہے ۔ لیکن ملک میں جو بھی فساد یا دھماکہ ہو رہے ہیں ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں کہ مجاہد بدنام ابھی دھماکہ ہوا بھی نہیں اور خود کش حملہ یار ذرا قاری صاحب جو کہ ابھی پنڈی میں دھماکہ ہوا ہے بی بی سی پر ذرہ کھلے انکھوں سے دیکھیں کہ گاری بالکل صحیح ہے آگے اور اس کا چھت آڑا ہوا ہے کیا یہ باہر سے ہو سکتا یا کو ریموٹ یا ٹائم بم کا نتیجہ ہے
آپ کو دراصل اسلامی تعلیمات کا صحیح تو کیا ۔ ذرا سا بھی ادارک نہیں ہے ۔ آپ نے ایک مسلمان کے ذاتی اعمال کو مسلمانوں کا اجتماعی اعمال نامہ بنا دیا ۔ حج کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا تھا کہ " اس مقدس شہر ( مکہ ) ، اور اس مقدس گھر ( کعبہ ) کے غلاف کی حرمت سے زیادہ ایک انسان کی جان کی حرمت ہے ۔ " آپ نے اس حرمت کو تباہ و برباد کرنے کے لیئے نہ صرف اپنا فلسفہ ایجاد کرلیا بلکہ اسے ایک اسلامی عقیدے کی شکل بھی دیدی ۔ ایک مسلمان کی ذاتی اعمال کو سامنے رکھ کر آپ نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دیدی کہ وہ جائیں ۔ اور جہاں انہیں کوئی برا کام کرتا نظر آئے ۔ اس دھماکے سے اڑا دو اور خود بھی ختم ہو کر جنت کی راہ پکڑ لو ۔ یعنی اللہ تعالی نے اتنے انبیاء کرام بھیجے ، زبور ، انجیل ، تورات اور قرآن مجید اتارے کہ انسان کو ہدایت و تلقین سے راہ ِ راست پر لایا جائے ۔ ناکہ دہشت سے اسلام کی طرف راغب کیا جائے ۔ مگر آپ لوگوں نے تو شر و فساد کا راستہ پکڑ لیا ہے ۔ اگر اللہ کو قوموں کی اسی طرح اصلاح کرنی تھی تو اسے اس ہدایت اور تلیقین کا یہ سارا طویل عمل کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ بھی ہر قوم کی ساتھ ثمود اور عاد جیسا حشر کرسکتا تھا ۔
یقین جانیئے میں جیسے جیسے آپ کی پوسٹ پڑھتا رہا میرے افسوس اور دکھ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔ مگر آخری پیراگراف میں تو حد ہی ہوگئی ۔
اللہ ، ہم کو اسلام کا تشخص بگاڑنے والوں سے بچائے ۔ اور اللہ نے جو حق و تلقین کی راہ ہمارے لیئے متعین کی ہے اس پر ہم سب کو چلنے کی اور دوسروں کو بھی اس پر چلانے کی ہمت اور استقلال عطا فرمائے ۔ آمین ۔
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو ، اسی پہ چلانا مجھ کو​
 
واجد صاحب میں نے آپ کے جس پیراگراف کو ، کوٹ کیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ۔ مگر سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا جواز یا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے ۔ جس سے آپ اپنے نظریات یا عقائد کا دفاع کرسکیں ۔ کتنی حیرت کی بات ہے آپ ایک پختہ عمر اور پختہ شعور کے مالک ہیں ۔ مگر یہ بات آپ کتنی آسانی سے یہاں کہہ رہے ہیں کہ " میری زیر مطالعہ کتب ہے جو میں مطالعے کے بعد یہاں پر پوسٹ کر دیتا ہوں اور اپ اور اس محفل کے چند معزز ممبران جو کہ ان کو بھی علم ہے جہاد کے بارے میں لیکن بار بار وہی سولات دہراتے ہیں صرف اور صرف تنگ کرنے کے لیے یا جب کلام تیز ہو جائے تو تھریڈ لاک۔"
یعنی آپ نے یہ تحقیق ہی نہیں کہ یہ کتاب قرآن و سنت کے احکامات کے عین مطابق ہے کہ نہیں ۔ اس ساری کتاب میں قرآن سے مخلتف آیتیں " کوٹ " کرکے ، انہیں قرآن کے سیاق و سباق کے بالکل الٹ اپنے اغراض و مقاصد کے لیئے پیش کیا گیا ہے ۔ بلکل ویسے ہی ، جیسے آج اسامہ اور اس کے حواری سورہ ِ احزاب کی دو آیتیں پوری سورہ سے الگ کرکے اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں ۔ میرے لیئے تو یہ بڑی دھچکے کی بات ہے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کیا پوسٹ کررہے ہیں ۔ اور جب آپ سے سوالات کیئے جاتے ہیں تو آپ کا ان سے انحراف اس بات کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو ایک فیصد بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ جو چیز آپ کے " زیرِ مطالعہ " ہے ۔ وہ آخر ہے کیا چیز ۔ ؟؟؟؟؟ ۔۔ اور تھریڈ تو اسی صورت میں بند ہوگا ۔ جب آپ ایسے نظریات اور عقائد سامنے لائیں گے ۔ جس سے لوگوں میں خلفشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔ چلیں یہاں تک بھی ٹھیک ہے ۔ مگر جب آپ سے ان عقائد اور نظریات کے علاوہ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مانگا جائے تو ، یا تو آپ اس سے انحراف کریں یا پھر کسی کتاب کا حوالہ دیکر جان چھڑا لیں ۔ تو یہ ساری چیزیں اس بات کا مظہر ہیں کہ آپ کے بارے میں جو میں نے اندازہ لگایا تھا ۔ وہ کچھ سو فیصد سے بھی زیادہ صحیح تھا ۔


جناب ۔۔۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کو برداشت کیوں کریں کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہے ۔ آپ یہ " مولوی نامہ " اپنی کسی اور ملتی جلتی عقائد والی سائیٹ پر ڈالیں تو آپ کی بہت واہ واہ ہوگی ۔ یہاں‌ تو آپ کو جوابات دیں ہونگے ، دلائل پیش کرنے ہونگے کہ یہاں لوگ اپنے سروں میں دماغ بھی رکھ کر آتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر آپ کو یہ سب یہاں بند کرنا پڑے گا یا پھر وہی ہوگا جس کی آپ نے شکایت کی کہ تھریڈ بن ہوجاتا ہے ۔ ( سخت الفاظ کے لیئے معذرت )


آپ ثبوت فراہم کردیں کہ موسیقی حرام قرار دی گئی ہے ۔ میں اپنی وہ پوسٹ اپنے بلاگ سے ہٹا لوں گا ۔ مگر آپ کیسے ثابت کریں گے ۔ بقول آپ کے کہ " آپ تو صرف رٹا ہوا بیان کرتے ہیں " ۔

آپ کو دراصل اسلامی تعلیمات کا صحیح تو کیا ۔ ذرا سا بھی ادارک نہیں ہے ۔ آپ نے ایک مسلمان کے ذاتی اعمال کو مسلمانوں کا اجتماعی اعمال نامہ بنا دیا ۔ حج کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا تھا کہ " اس مقدس شہر ( مکہ ) ، اور اس مقدس گھر ( کعبہ ) کے غلاف کی حرمت سے زیادہ ایک انسان کی جان کی حرمت ہے ۔ " آپ نے اس حرمت کو تباہ و برباد کرنے کے لیئے نہ صرف اپنا فلسفہ ایجاد کرلیا بلکہ اسے ایک اسلامی عقیدے کی شکل بھی دیدی ۔ ایک مسلمان کی ذاتی اعمال کو سامنے رکھ کر آپ نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دیدی کہ وہ جائیں ۔ اور جہاں انہیں کوئی برا کام کرتا نظر آئے ۔ اس دھماکے سے اڑا دو اور خود بھی ختم ہو کر جنت کی راہ پکڑ لو ۔ یعنی اللہ تعالی نے اتنے انبیاء کرام بھیجے ، زبور ، انجیل ، تورات اور قرآن مجید اتارے کہ انسان کو ہدایت و تلقین سے راہ ِ راست پر لایا جائے ۔ ناکہ دہشت سے اسلام کی طرف راغب کیا جائے ۔ مگر آپ لوگوں نے تو شر و فساد کا راستہ پکڑ لیا ہے ۔ اگر اللہ کو قوموں کی اسی طرح اصلاح کرنی تھی تو اسے اس ہدایت اور تلیقین کا یہ سارا طویل عمل کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ بھی ہر قوم کی ساتھ ثمود اور عاد جیسا حشر کرسکتا تھا ۔
یقین جانیئے میں جیسے جیسے آپ کی پوسٹ پڑھتا رہا میرے افسوس اور دکھ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ۔ مگر آخری پیراگراف میں تو حد ہی ہوگئی ۔
اللہ ، ہم کو اسلام کا تشخص بگاڑنے والوں سے بچائے ۔ اور اللہ نے جو حق و تلقین کی راہ ہمارے لیئے متعین کی ہے اس پر ہم سب کو چلنے کی اور دوسروں کو بھی اس پر چلانے کی ہمت اور استقلال عطا فرمائے ۔ آمین ۔
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو ، اسی پہ چلانا مجھ کو​
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یار ظفری آپ کے سب اعتراضات اپ کی نظر میں بالکل صحیح ہیں بس ایک چھوٹی سی بات ۔۔۔۔
لاہور میں مسجد شہداء کے سامنے ( ہال روڈ کے قریب ) ایک سینما ہے اور اس میں لکھا ہے
ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جاہل ( آپ کے نظر میں )لوگ آپ جیسے پہنچے ہوئے لوگوں سے کس طرح بحث مباحثہ کر سکتے ہیں ؟
جیسے صدر مشرف علماء دین کو خطاب کرکے ان کو ہی دین سمجھا رہے ہیں اور ترکی میں اب احادیث کی نئی تشریح ہونے کی کوشش کی جارہی ہے

منصور بھائی آپ کے سب سوالوں کا جواب ان شاء اللہ دونگا لیکن اب کچھ افشیل کام کے سلسلے میں کچھ سفر ہیں ان کے بعد "فدائی حملوں" پر جو دلائل علماء دین دے رہیں وہ میں یہاں پر پیش کردوں گا ( یہ ایک نقطہ نظر ہیں جس پر سب اسلامی جہادی تنظمیں اتفاق کرتے ہیں چاہے وہ جیش محمد ہوں حرکت المجاہدین ، البدر اور لشکر طیبہ وغیرہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں
 
میرا خیال ہے کہ یہاں جہاد کے فضائل پر بات کی گئی ہے جو ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ باقی بحثوں کو دوسرے دھاگوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ اللھم ارزقنا شھادۃ فی سبیلک۔آمین
 
السلام علیکم ، بھائیو ، اگر ہم دین کے کسی معاملے ، کسی حکم کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر سمجھنا ہے ، بھائی عبداللہ حیدر نے ٹھیک کہا ہے ، جہاد ایک ایسا معاملہ ہے جسے ملسمانوں کا ہر مکتب فکر بلا اختلاف مانتا ہے ، اگر کسی کی سوچ و فکر قران و سنت سے خارج ہے تو ہم قران و سنت کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی گستاخی کرنے کا نہیں سوچنا بلکہ اُس کی عقل کو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں واپس لانے کی سعی کرنا ہے ، و اللہ یفعل ما یُرید، و السلام علیکم،
 
آپ ثبوت فراہم کردیں کہ موسیقی حرام قرار دی گئی ہے ۔ میں اپنی وہ پوسٹ اپنے بلاگ سے ہٹا لوں گا ۔ مگر آپ کیسے ثابت کریں گے ۔ بقول آپ کے کہ " آپ تو صرف رٹا ہوا بیان کرتے ہیں " ۔
آپ نے ایک مسلمان کے ذاتی اعمال کو مسلمانوں کا اجتماعی اعمال نامہ بنا دیا ۔

السلام علیکم ،
طفری بھائی ، موسیقی کے بارے میں یہاں ایک مضمون موجود ہے کچھ وقت نکال کر مطالعہ فرمائیے ، اللہ تعالی بہتری کے اسباب میں سے بنائے ،
اور یہ جو آپ نے ایک مسلمان کا ذکر کیا ہے ، وہ کون ہے ؟ امید ہے آپ صاحبان سے گفتگو ہم سب کے لیے فائدہ مند ہو گی ان شا اللہ تعالی ، و السلام علیکم
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہاں کچھ لوگ رجسٹر ہوتے ہی مذہبی تعلیمات کے زمرے کا رخ کرتے ہیں۔ ابھی تک کچھ زمرہ جات پر پوسٹ کرنے کے لیے 25 پیغامات کی پابندی تھی۔ فورم کی حالیہ پرابلمز کی وجہ سے مجھے یہ سسٹم غیر فعال کرنا پڑا تھا، اسے میں نے پھر سے فعال کر دیا ہے۔ میں نے اس تھریڈ میں سے ذاتیات پر پر مبنی پیغامات بھی حذف کر دیے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ مذہبی تعلیمات کا سیکشن معلومات شئیر کرنے کے لیے نہ کہ ذاتیات پر حملے کرنے کے لیے۔ نفرت اور تعصب پر مبنی پیغامات کو بھی حذف کر دیا جائے گا۔
 
Top