شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟

جاسم محمد

محفلین
19 اپریل ، 2020
213_041249_reporter.jpg
سہیل وڑائچ
شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟
219123_7234366_updates.jpg

فوٹو: فائل

شہباز شریف جب سے پاکستان آئے ہیں میرے ذہن میں سوالات کلبلاتے تھے، میں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ کسی ڈیل کے تحت واپس آئے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ مستقبل کی سیاسی صف بندی کے لیے آئے ہیں؟ کیا واقعی چودھریوں کے ساتھ نون لیگ کے درپردہ کوئی مذاکرات چل رہے ہیں؟ شہباز شریف طاقتور حلقوں کے کتنے قریب ہیں اور کتنے دور؟ نواز شریف کا جانشین کون ہے؟ مریم اور حمزہ کا سیاسی حفظِ مراتب کیا ہے اور کیا شریف خاندان نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟ سوالوں کی یہ بدذوق گٹھڑی کئی دنوں سے تیار تھی۔

گزشتہ روز شہباز شریف سے ملاقات کا موقع ملا تو اس گٹھڑی سے ایک ایک کرکے سوال نکالتا رہا اور وہ جواب دیتے رہے ماسوائے ایک معاملے کے انہوں نے ہر چیز کھلے دل سے بتائی، بس ایک معاملے کو آف دی ریکارڈ قرار دیا۔

ملاقات کا احوال سنانے سے پہلے یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ موضوعات میں نے چھیڑے، جواب شہباز صاحب نے دیے لیکن ان جوابات کو میں نے اپنی زبان میں لکھا ہے، اس لیے کہیں کوئی ابہام ہوا تو اسے ناچیز صحافی کی غلطی سمجھا جائے، سوال و جواب کی ترتیب بھی میں نے خود بنائی ہے تاکہ گفتگو میں دلچسپی قائم رہے۔

کیا واقعی پنجاب میں تبدیلی کے لیے چودھریوں سے معاملات طے پا گئے ہیں؟

چودھریوں کے ساتھ شریف خاندان کی ماضی کی تلخیاں ختم ہو چکی ہیں، صحافی نے شہباز شریف کو بتایا کہ اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے روکنے کے باوجود حمزہ شہباز شریف کو اسمبلی بلایا، اس کے لیے بہترین سہولتیں فراہم کیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ چودھریوں اور ان کے تعلقات بالکل نیوٹرل ہو چکے ہیں جن میں اب کوئی تلخی نہیں لیکن فی الحال جوڑ توڑ یا سیاسی اتحاد کی کوئی بات نہیں ہوئی، البتہ دونوں طرف ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی اور خیر خواہی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

کیا شہباز شریف کسی ڈیل کے تحت واپس آئے! ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟

شہباز شریف نے بتایا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹس بند ہونے کا اعلان سنا، اس وقت لندن میں صبح کے گیارہ بجے تھے، انہوں نے نواز شریف کو فون کیا ’’میری رائے میں مجھے آج ہی پاکستان جانا چاہئے، بحران کے اس وقت میں ہم دونوں کا پاکستان سے دور ہونا ٹھیک نہیں‘‘۔ نواز شریف نے اتفاق کیا۔ 4بجے آخری فلائٹ تھی، اتفاق سے سیٹ مل گئی۔ ’’میں نے صرف ضروری سامان لیا، بھائی اور والدہ سے اجازت لی اور ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ مقصد سیاست نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں لوگوں کے درمیان ہونا تھا‘‘۔

واپسی کے لئے کیا ڈیل ہوئی؟

ڈیل کے حوالے سے شہباز شریف نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’نہ کسی سے پوچھا، نہ مشورہ کیا۔ یہ معاملہ سیاسی نہیں، انسانی تھا، بحران کا تھا۔ اس حوالے سے نہ مذاکرات کی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہوئی‘‘۔ شہباز شریف ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ملک کو چلانا ہے تو فوج اور سیاستدانوں نےمل کر ملک کو چلانا ہے۔

وہ فوج سے محاذ آرائی کے سخت مخالف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ فوج سے بناکر رکھنے کے بھی قائل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل تک ان کی طاقتور حلقوں سے ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے، دو نامور صحافی انہیں اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لے کر آئے تھے۔


ان کا خیال ہے کہ ایسی میٹنگز عمران خان سے بھی ہوتی ہوں گی لیکن الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک یہی لگتا تھا کہ اگلا وزیراعظم نون لیگ سے ہوگا اور شہباز شریف ہی چوائس تھا۔

اصل مسئلہ بیانیے کا تھا۔ شہباز شریف کا خیال تھا کہ بیانیے کی وجہ سے نون لیگ کو اقتدار نہیں مل سکا حالانکہ اگر اقتدار ملتا تو شہباز شریف ایک پل کا کردار ادا کرکے اس بیانیے کا مسئلہ بھی حل کر سکتا تھا۔ شہباز شریف کے خیال میں جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے نون لیگ کا فیصلہ بہت اچھا تھا، اس سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا مگر بداعتمادی پہلے سے کم ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف ہونے کا تاثر بھی زائل ہوا ہے۔

مشکل ترین اور دلچسپ ترین سوال جانشینی کا تھا، شہباز شریف نے بتایا کہ ان کے خاندان کی ایک روایت ہے، میاں شریف نے اپنی وفات سے پہلے نواز شریف کو خاندان کا سربراہ بنایا اور اب اسی طرح کے تمام خاندانی فیصلے وہی کرتے ہیں۔

’’مجھے اپنی جگہ وزیراعظم نامزد کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا تھا، میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر میاں نواز شریف کے پاس جھینگا گلی گیا اور کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں ایک سال وزیراعلیٰ ہی رہنا چاہتا ہوں تاکہ جو منصوبے میں نے پنجاب میں شروع کر رکھے ہیں ان کو مکمل کر سکوں‘‘۔

میاں نواز شریف نے میرے دلائل سننے کے بعد میری تجویز مان لی۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران پانچ سے چھ بار انہوں نے مجھے کہا کہ اب تم وزارتِ عظمیٰ سنبھالو مگر ’’میں ہر بار کہتا کہ نہیں! آپ اس کو بہتر طور پر چلا رہے ہیں‘‘۔

شہباز شریف نے کہا ’’مجھے مسلم لیگ نون کا سربراہ مقرر کرنا اور پھر آئندہ وزیراعظم کے لیے نامزد کرنا، اس بے پناہ اعتماد کی نشانی ہے جو میرے بڑے بھائی مجھ پر کرتے ہیں۔ میں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے بھائی کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر ملنے والا اقتدار کسی صورت قبول نہیں اور میری اس کمٹمنٹ کا سب کو علم ہے‘‘۔

شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ لندن میں حالیہ قیام کے دوران انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے مریم اور حمزہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بات کی تھی اور کہا تھا ’’ہم دونوں 70,70سال کے ہیں، اللہ آپ کو عمر خضر عطا کرے مگر میاں شریف کی طرح آپ مریم اور حمزہ کے بارے میں طے کر دیں کہ کس کا کیا سیاسی رول ہونا ہے‘‘۔ شہباز شریف نے بتایا ’’میں نے میاں صاحب کو کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے، پورا خاندان اس پر حرف بحرف عمل کرے گا لیکن آپ جلدی فیصلہ کر لیں‘‘۔ جواباً میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ فیصلہ وہ پاکستان واپس آ کر کریں گے۔

آئندہ سیاست کے حوالےسے شہباز شریف بہت پُرامید ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب بھی آئندہ الیکشن ہوں گے نون لیگ بہت بڑے مارجن سے جیتے گی اور اس کی وجہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کو سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فی الحال وہ آئسولیشن میں ہیں، کورونا کے بعد ہی ان کا علاج ہوگا۔

اس سوال پر کہ کہیں انہیں پھر سے جیل نہ بھیج دیا جائے، شہباز شریف نے کہا کہ میں یہ سوچ سمجھ کر آیا ہوں، مجھے اندیشہ تھا کہ ایسا ہوگا اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ فوج سے محاذ آرائی کے سخت مخالف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ فوج سے بناکر رکھنے کے بھی قائل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل تک ان کی طاقتور حلقوں سے ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے، دو نامور صحافی انہیں اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لے کر آئے تھے۔
یہ کس قسم کی آزادی صحافت ہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا شور بس اتنا سا تھا کہ شہباز شریف کی بجائے عمران خان کیوں سلیکٹ ہو گئے۔ :p
بالکل یہی بات ہے کہ اگر سیلیکٹ ہی کرنا تھا تو گدھے کی بجائے اگر گھوڑے کو سیلیکٹ کر لیتے تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ جو گدھا کبھی پارلیمنٹ میں بیٹھا تک نہیں اسے کیا پتا کہ ملک کیسے چلانا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل یہی بات ہے کہ اگر سیلیکٹ ہی کرنا تھا تو گدھے کی بجائے اگر گھوڑے کو سیلیکٹ کر لیتے تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ جو گدھا کبھی پارلیمنٹ میں بیٹھا تک نہیں اسے کیا پتا کہ ملک کیسے چلانا ہے۔
جن گدھوں نے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف وغیرہ کو بغیر پارلیمنٹ میں بیٹھے سلیکٹ کیا تھا، وہ عمران خان کو بھی کر سکتے ہیں۔ یہ کیا منطق ہوئی؟
عمران خان تو پھر اپنی سلیکشن سے قبل مشرف دور اور نواز شریف کے تیسرے دور یعنی 10 سال پارلیمنٹ میں بیٹھا تھا۔ بھٹو اور نواز شریف تو اس کے بغیر ہی سیدھا بڑے بڑے عہدوں پر سلیکٹ ہو گئے تھے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں نے عرض کیا کہ گدھے اور گھوڑے میں فرق نہیں کر سکے اور دوسرا یہ کہ عمران خان کا ایم این اے بننا اور بات ہے مگر وہ پارلیمنٹ میں بس اپنی مرضی سے جاتا تھا اس کے علاوہ اگر اقتدار میں آنے کے بعد اس کی پالیسیوں کو دیکھ کر بھی اس کے حق میں ہیں تو میں آپ کی عقل عظیم کو سلام ہی پیش کر سکتا ہوں۔ خوش رہیے :)
 

جاسم محمد

محفلین
میں نے عرض کیا کہ گدھے اور گھوڑے میں فرق نہیں کر سکے اور دوسرا یہ کہ عمران خان کا ایم این اے بننا اور بات ہے مگر وہ پارلیمنٹ میں بس اپنی مرضی سے جاتا تھا اس کے علاوہ اگر اقتدار میں آنے کے بعد اس کی پالیسیوں کو دیکھ کر بھی اس کے حق میں ہیں تو میں آپ کی عقل عظیم کو سلام ہی پیش کر سکتا ہوں۔ خوش رہیے :)
بھائی ایک بار اقتدار کا موقع تو سب پارٹیوں کو ملنا چاہئے۔ 5 سال بعد دوبارہ سابق سلیکٹڈز کو اقتدار دے دیجئے گا جو آپ کی توقعات پر پورے اترتے ہوئے پاکستان کو کب کا ترقی یافتہ ملک بنا چکے تھے۔ لیکن اس سلیکٹڈ نے آکر ترقی کا سارا سفر روک کر رکھ دیا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
لیجنڈ آف لیہ کی روایتی چولیں۔ اگر عمران خان کو کسے سے ڈیل کرکے ہی وزیر اعظم بننا تھا تو ۱۹۸۷ میں ضیا الحق نے اپنی کابینہ میں وزیر بنانے کی آفر کی تھی۔ ۱۹۹۲ میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سب کے سامنے نواز شریف نے یہی آفر کی تھی۔ ۱۹۹۷ کے الیکشن میں دوبارہ نواز شریف نے ۲۰ سیٹوں کی آفر کی تھی۔ ۲۰۰۲ کے الیکشن میں مشرف نے ق لیگ سے بہت ساری سیٹیں دینے کی آفر کی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سارے مواقع پر عمران خان وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے انتہائی صبر کے ساتھ ۲۲ سال اپنی باری کا انتظار کیا یہاں تک کے پاکستانی عوام اور عدالتوں میں اتنا شعور آگیا کہ وہ خود نواز شریف اور زرداری خاندان کو جھوٹا، چور اور کرپٹ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور یوں عمران خان اقتدار کی دو روایتی سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ کر وزیر اعظم بن گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر عمران خان کو وزیر اعظم فوج نے بنایا ہے تو کم از کم ان کی جماعت کو سادہ اکثریت ہی دے دیتے۔ جبکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ان کی پارٹی کو شکست ہوئی۔ اور وفاق میں ہر صوبے سے چھوٹی جماعتوں کو ملا کر ایک کمزور حکومت بنانا پڑی جو آزادی کے ساتھ قانون سازی نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی سخت حکومتی رٹ کہیں قائم کر سکتی ہے۔
اتنی کمزور سیاسی حکومت کو فوج کی سلیکشن کہنا مضحکہ خیز ہے جہاں ماضی کے انتخابات میں زرداری اور نواز شریف ہمیشہ سادہ اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ یعنی ان کو اقتدار دلوانے کیلئے ہمیشہ بڑے پیمانہ پر دھاندلی کروائی گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
مقتدر قوتوں کا سیاسی کھیل اور شہباز شریف کا اعتراف
20/04/2020 محمد کاشف میو

شہبازشریف کے اعتراف پر بات کرنے سے پہلے شیخ رشید کے ایک عامیانہ بیان کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ کورونا وائرس کی وبا ایک عالمی آفت ہے مگر ہمارے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اسے عمران خان کے لئے اللہ کی طرف سے غیبی امداد قرار دے رہے ہیں۔ کورونا جیسے سنگین مرض سے ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان مگر دریوزہ گری کے شوقین حکمران اس قدر مردہ دل ہو چکے ہیں کہ ابتلا کے اس دور میں بھی انہیں عوام کی فکر کی بجائے انہیں ڈالرز نظر آ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کے اقدامات سے خائف وفاقی حکومت نے پہلے لاک ڈاؤن نہ کرنے پر غلط توجیحات پیش کیں اور پھر ان بے بنیاد ترجیحات کے لئے سندھ حکومت پر ایسے الزامات گھڑے گئے کہ اپنی نا اہلی کی پردہ پوشی بھی مشکل ہو گئی۔ یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس بحرانی دور میں مراد علی شاہ نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ہر طبقۂ فکر کو حیران کیا ہے۔

اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے اس بدحال قوم کی دعائیں قبول کر لیں۔ خوش قسمتی سے اندیشوں اور وسوسوں کے برعکس پاکستان اس وبا سے اس قدر متاثر نہیں ہو سکا جتنا اس کے پھیلاؤ کا خدشہ تھا۔ اسی وجہ سے عوام بھی قدرے غیر محتاط ہو گئے ہیں اور لاک ڈاؤن اتنا موثر نہیں لگ رہا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ ابھی وبا کا خطرہ ٹلا نہیں اس لیے احتیاطی تدابیر سے پہلو تہی نہ برتی جائے۔ خدانخواستہ مرض بہت زیادہ پھیل گیا تو ہماری استعداد بہت محدود ہے۔ محاذآرائی کی شوقین حکومت پہلے ہی تہیہ کیے بیٹھی ہے کہ اتفاق رائے سے کوئی مربوط حکمت عملی اختیار نہیں کرنی۔ اگر عوام نے بھی ایسا ہی کیا تو نتائج خوفناک حد تک بھیانک نکل سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ حکومتی ہدایات پر بھی مکمل عمل کریں تاکہ ہم نارمل زندگی کی طرف واپس آ سکیں۔

چند دن پہلے محترم سلیم صافی صاحب کا کالم ’قومی حکومت کیوں اور کیسے‘ پڑھا جس میں قومی حکومت کی اہمیت اور اس کے امکانات پر بات کی گئی تھی۔ تحریک انصاف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے کبھی صدارتی نظام کی بات کی جاتی ہے اور کبھی قومی حکومت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ صدارتی نظام کے لئے تو آئین تبدیل کرنا پڑے گا اور اس کے دور دور تلک کوئی امکانات نہیں ہیں۔ البتہ قومی حکومت کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پاکستان کے معروضی حالات میں ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائی کرنا مشکل نہیں کہ بصد مجبوری اقتدار میں شمولیت کے باوجود یہ جماعتیں سیاسی رسہ کشی سے باز نہیں رہتیں۔ بظاہر سیاسی حمایت کا اعادہ کرنے کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ قومی حکومت کا قیام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں اس لیے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا یہ منصوبہ روبہ عمل ہو گا یا صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا واضح موقف ہے کہ وہ نئے الیکشن چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی عارضی سیٹ اپ کی حمایت صرف الیکشن اصلاحات کے لئے کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے بغیر کسی بھی قومی حکومت کا تصور ہی عبث ہے۔ بھلے مقتدر قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہو مگر ایسے کسی بھی سیٹ اپ کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔

شہبازشریف نے سہیل وڑائچ صاحب کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک مقتدر حلقوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کے روابط اس حد تک اُستوار ہو چکے تھے کہ ان کی کابینہ کے نام بھی فائنل کر لئے گئے تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی اور بیانیے کی وجہ سے انھیں اقتدار نہیں مل سکا۔

شہبازشریف کا یہ اعتراف جہاں مقتدر حلقوں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف واضح ثبوت ہے وہیں پر اس بات کی جانب بھی اشارہ ہے کہ ایک بار پھر ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ اس اعتراف کے بعد قومی حکومت کا تصور ہی خوش گمانی محسوس ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن پر اپنے بدلتے بیانیہ کی وجہ سے پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں قومی حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کا عمل حامیوں کی نظر میں ان کی ساکھ مجروح کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مئی جون میں الیکشن کا وعدہ بھی کیا گیا تھا مگر پاور بروکرز شاید اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے‘ اس لیے شہبازشریف کے ساتھ الیکشن کے بعد ایک بار پھر ہاتھ ہو گیا اور اب وہ گلے شکوے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے اپنے کالم میں باخبر دوست کے حوالے سے لکھا تھا کہ عمران خان کو بتا دیا گیا ہے کہ اب ان کی مرضی نہیں چلے گی اور اب ان کا موقف تبدیل ہوتا نظر آئے گا۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کا بدلتا لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اپنا محدود کردار قبول کر چکے ہیں اور اسی وجہ سے وہ گم شدہ صفحہ جس پر سب ایک تھے ایک بار پھر اپنی جگہ پر واپس آ چکا ہے۔ اب راوی تحریک انصاف کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

باخبر دوست کا کہنا ہے کہ پچیس اپریل کو شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد جہانگیر ترین کی گرفتاری کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں اس گرفتاری سے چینی کی قیمت پر پڑنے والے اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ عثمان بزدار کے لئے بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ کیا عمران خان اس بار بھی اپنے ”وسیم اکرم پلس“ کو بچا پائیں گے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں مگر عثمان بزدار کے لئے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

صدارتی نظام ہو یا قومی حکومت، ان ہاؤس تبدیلی ہو یا قبل ازوقت الیکشن، یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی جیب میں پڑے وہ مستقل کارڈز ہیں جنہیں وہ بوقت ضرورت بار بار استعمال کرتے ہیں اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو ہی جاتی ہے۔ طاقت کے اس کھیل سے تین سالہ یا چھ سالہ مدت بھرپور انداز میں پوری ہو جاتی ہے مگر پاکستان کا نظام کمزور ہو رہا ہے۔ دولخت ہوئے آدھے پاکستان پر بھی دشمن نظریں گاڑے بیٹھا ہے مگر مقتدر قوتوں کو سیاسی نظام کی مضبوطی گوارا نہیں۔ عوام میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کے باوجود وہ سیاسی کھیل میں اپنا کردار بدلنے کو تیار نہیں۔

اپنے عہدے یا ادارے سے عہدوفا کرنے والی مقتدر قوتوں کو جلد یا بدیر یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ عہدوفا صرف آئین سے ہونا چاہیے۔ انھیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی بقا صرف اسی میں ہے کہ وہ آئین میں متعین کردہ اپنے کردار پر اکتفا کرتے ہوئے سیاسی کھیل سے دور رہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
 
Top