جاسم محمد
محفلین
19 اپریل ، 2020
سہیل وڑائچ
شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟
فوٹو: فائل
شہباز شریف جب سے پاکستان آئے ہیں میرے ذہن میں سوالات کلبلاتے تھے، میں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ کسی ڈیل کے تحت واپس آئے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ مستقبل کی سیاسی صف بندی کے لیے آئے ہیں؟ کیا واقعی چودھریوں کے ساتھ نون لیگ کے درپردہ کوئی مذاکرات چل رہے ہیں؟ شہباز شریف طاقتور حلقوں کے کتنے قریب ہیں اور کتنے دور؟ نواز شریف کا جانشین کون ہے؟ مریم اور حمزہ کا سیاسی حفظِ مراتب کیا ہے اور کیا شریف خاندان نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟ سوالوں کی یہ بدذوق گٹھڑی کئی دنوں سے تیار تھی۔
گزشتہ روز شہباز شریف سے ملاقات کا موقع ملا تو اس گٹھڑی سے ایک ایک کرکے سوال نکالتا رہا اور وہ جواب دیتے رہے ماسوائے ایک معاملے کے انہوں نے ہر چیز کھلے دل سے بتائی، بس ایک معاملے کو آف دی ریکارڈ قرار دیا۔
ملاقات کا احوال سنانے سے پہلے یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ موضوعات میں نے چھیڑے، جواب شہباز صاحب نے دیے لیکن ان جوابات کو میں نے اپنی زبان میں لکھا ہے، اس لیے کہیں کوئی ابہام ہوا تو اسے ناچیز صحافی کی غلطی سمجھا جائے، سوال و جواب کی ترتیب بھی میں نے خود بنائی ہے تاکہ گفتگو میں دلچسپی قائم رہے۔
کیا واقعی پنجاب میں تبدیلی کے لیے چودھریوں سے معاملات طے پا گئے ہیں؟
چودھریوں کے ساتھ شریف خاندان کی ماضی کی تلخیاں ختم ہو چکی ہیں، صحافی نے شہباز شریف کو بتایا کہ اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے روکنے کے باوجود حمزہ شہباز شریف کو اسمبلی بلایا، اس کے لیے بہترین سہولتیں فراہم کیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ چودھریوں اور ان کے تعلقات بالکل نیوٹرل ہو چکے ہیں جن میں اب کوئی تلخی نہیں لیکن فی الحال جوڑ توڑ یا سیاسی اتحاد کی کوئی بات نہیں ہوئی، البتہ دونوں طرف ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی اور خیر خواہی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
کیا شہباز شریف کسی ڈیل کے تحت واپس آئے! ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟
شہباز شریف نے بتایا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹس بند ہونے کا اعلان سنا، اس وقت لندن میں صبح کے گیارہ بجے تھے، انہوں نے نواز شریف کو فون کیا ’’میری رائے میں مجھے آج ہی پاکستان جانا چاہئے، بحران کے اس وقت میں ہم دونوں کا پاکستان سے دور ہونا ٹھیک نہیں‘‘۔ نواز شریف نے اتفاق کیا۔ 4بجے آخری فلائٹ تھی، اتفاق سے سیٹ مل گئی۔ ’’میں نے صرف ضروری سامان لیا، بھائی اور والدہ سے اجازت لی اور ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ مقصد سیاست نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں لوگوں کے درمیان ہونا تھا‘‘۔
واپسی کے لئے کیا ڈیل ہوئی؟
ڈیل کے حوالے سے شہباز شریف نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’نہ کسی سے پوچھا، نہ مشورہ کیا۔ یہ معاملہ سیاسی نہیں، انسانی تھا، بحران کا تھا۔ اس حوالے سے نہ مذاکرات کی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہوئی‘‘۔ شہباز شریف ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ملک کو چلانا ہے تو فوج اور سیاستدانوں نےمل کر ملک کو چلانا ہے۔
وہ فوج سے محاذ آرائی کے سخت مخالف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ فوج سے بناکر رکھنے کے بھی قائل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل تک ان کی طاقتور حلقوں سے ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے، دو نامور صحافی انہیں اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لے کر آئے تھے۔
ان کا خیال ہے کہ ایسی میٹنگز عمران خان سے بھی ہوتی ہوں گی لیکن الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک یہی لگتا تھا کہ اگلا وزیراعظم نون لیگ سے ہوگا اور شہباز شریف ہی چوائس تھا۔
اصل مسئلہ بیانیے کا تھا۔ شہباز شریف کا خیال تھا کہ بیانیے کی وجہ سے نون لیگ کو اقتدار نہیں مل سکا حالانکہ اگر اقتدار ملتا تو شہباز شریف ایک پل کا کردار ادا کرکے اس بیانیے کا مسئلہ بھی حل کر سکتا تھا۔ شہباز شریف کے خیال میں جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے نون لیگ کا فیصلہ بہت اچھا تھا، اس سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا مگر بداعتمادی پہلے سے کم ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف ہونے کا تاثر بھی زائل ہوا ہے۔
مشکل ترین اور دلچسپ ترین سوال جانشینی کا تھا، شہباز شریف نے بتایا کہ ان کے خاندان کی ایک روایت ہے، میاں شریف نے اپنی وفات سے پہلے نواز شریف کو خاندان کا سربراہ بنایا اور اب اسی طرح کے تمام خاندانی فیصلے وہی کرتے ہیں۔
’’مجھے اپنی جگہ وزیراعظم نامزد کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا تھا، میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر میاں نواز شریف کے پاس جھینگا گلی گیا اور کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں ایک سال وزیراعلیٰ ہی رہنا چاہتا ہوں تاکہ جو منصوبے میں نے پنجاب میں شروع کر رکھے ہیں ان کو مکمل کر سکوں‘‘۔
میاں نواز شریف نے میرے دلائل سننے کے بعد میری تجویز مان لی۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران پانچ سے چھ بار انہوں نے مجھے کہا کہ اب تم وزارتِ عظمیٰ سنبھالو مگر ’’میں ہر بار کہتا کہ نہیں! آپ اس کو بہتر طور پر چلا رہے ہیں‘‘۔
شہباز شریف نے کہا ’’مجھے مسلم لیگ نون کا سربراہ مقرر کرنا اور پھر آئندہ وزیراعظم کے لیے نامزد کرنا، اس بے پناہ اعتماد کی نشانی ہے جو میرے بڑے بھائی مجھ پر کرتے ہیں۔ میں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے بھائی کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر ملنے والا اقتدار کسی صورت قبول نہیں اور میری اس کمٹمنٹ کا سب کو علم ہے‘‘۔
شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ لندن میں حالیہ قیام کے دوران انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے مریم اور حمزہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بات کی تھی اور کہا تھا ’’ہم دونوں 70,70سال کے ہیں، اللہ آپ کو عمر خضر عطا کرے مگر میاں شریف کی طرح آپ مریم اور حمزہ کے بارے میں طے کر دیں کہ کس کا کیا سیاسی رول ہونا ہے‘‘۔ شہباز شریف نے بتایا ’’میں نے میاں صاحب کو کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے، پورا خاندان اس پر حرف بحرف عمل کرے گا لیکن آپ جلدی فیصلہ کر لیں‘‘۔ جواباً میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ فیصلہ وہ پاکستان واپس آ کر کریں گے۔
آئندہ سیاست کے حوالےسے شہباز شریف بہت پُرامید ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب بھی آئندہ الیکشن ہوں گے نون لیگ بہت بڑے مارجن سے جیتے گی اور اس کی وجہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کو سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فی الحال وہ آئسولیشن میں ہیں، کورونا کے بعد ہی ان کا علاج ہوگا۔
اس سوال پر کہ کہیں انہیں پھر سے جیل نہ بھیج دیا جائے، شہباز شریف نے کہا کہ میں یہ سوچ سمجھ کر آیا ہوں، مجھے اندیشہ تھا کہ ایسا ہوگا اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔
شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟
فوٹو: فائل
شہباز شریف جب سے پاکستان آئے ہیں میرے ذہن میں سوالات کلبلاتے تھے، میں اُن سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا وہ کسی ڈیل کے تحت واپس آئے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ مستقبل کی سیاسی صف بندی کے لیے آئے ہیں؟ کیا واقعی چودھریوں کے ساتھ نون لیگ کے درپردہ کوئی مذاکرات چل رہے ہیں؟ شہباز شریف طاقتور حلقوں کے کتنے قریب ہیں اور کتنے دور؟ نواز شریف کا جانشین کون ہے؟ مریم اور حمزہ کا سیاسی حفظِ مراتب کیا ہے اور کیا شریف خاندان نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے یا نہیں؟ سوالوں کی یہ بدذوق گٹھڑی کئی دنوں سے تیار تھی۔
گزشتہ روز شہباز شریف سے ملاقات کا موقع ملا تو اس گٹھڑی سے ایک ایک کرکے سوال نکالتا رہا اور وہ جواب دیتے رہے ماسوائے ایک معاملے کے انہوں نے ہر چیز کھلے دل سے بتائی، بس ایک معاملے کو آف دی ریکارڈ قرار دیا۔
ملاقات کا احوال سنانے سے پہلے یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ موضوعات میں نے چھیڑے، جواب شہباز صاحب نے دیے لیکن ان جوابات کو میں نے اپنی زبان میں لکھا ہے، اس لیے کہیں کوئی ابہام ہوا تو اسے ناچیز صحافی کی غلطی سمجھا جائے، سوال و جواب کی ترتیب بھی میں نے خود بنائی ہے تاکہ گفتگو میں دلچسپی قائم رہے۔
کیا واقعی پنجاب میں تبدیلی کے لیے چودھریوں سے معاملات طے پا گئے ہیں؟
چودھریوں کے ساتھ شریف خاندان کی ماضی کی تلخیاں ختم ہو چکی ہیں، صحافی نے شہباز شریف کو بتایا کہ اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے روکنے کے باوجود حمزہ شہباز شریف کو اسمبلی بلایا، اس کے لیے بہترین سہولتیں فراہم کیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ چودھریوں اور ان کے تعلقات بالکل نیوٹرل ہو چکے ہیں جن میں اب کوئی تلخی نہیں لیکن فی الحال جوڑ توڑ یا سیاسی اتحاد کی کوئی بات نہیں ہوئی، البتہ دونوں طرف ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی اور خیر خواہی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
کیا شہباز شریف کسی ڈیل کے تحت واپس آئے! ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟
شہباز شریف نے بتایا کہ جب کورونا وائرس کی وجہ سے فلائٹس بند ہونے کا اعلان سنا، اس وقت لندن میں صبح کے گیارہ بجے تھے، انہوں نے نواز شریف کو فون کیا ’’میری رائے میں مجھے آج ہی پاکستان جانا چاہئے، بحران کے اس وقت میں ہم دونوں کا پاکستان سے دور ہونا ٹھیک نہیں‘‘۔ نواز شریف نے اتفاق کیا۔ 4بجے آخری فلائٹ تھی، اتفاق سے سیٹ مل گئی۔ ’’میں نے صرف ضروری سامان لیا، بھائی اور والدہ سے اجازت لی اور ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ مقصد سیاست نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں لوگوں کے درمیان ہونا تھا‘‘۔
واپسی کے لئے کیا ڈیل ہوئی؟
ڈیل کے حوالے سے شہباز شریف نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’نہ کسی سے پوچھا، نہ مشورہ کیا۔ یہ معاملہ سیاسی نہیں، انسانی تھا، بحران کا تھا۔ اس حوالے سے نہ مذاکرات کی ضرورت تھی اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہوئی‘‘۔ شہباز شریف ایمان کی حد تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ملک کو چلانا ہے تو فوج اور سیاستدانوں نےمل کر ملک کو چلانا ہے۔
وہ فوج سے محاذ آرائی کے سخت مخالف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ فوج سے بناکر رکھنے کے بھی قائل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن سے ایک ماہ قبل تک ان کی طاقتور حلقوں سے ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے، دو نامور صحافی انہیں اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لے کر آئے تھے۔
ان کا خیال ہے کہ ایسی میٹنگز عمران خان سے بھی ہوتی ہوں گی لیکن الیکشن سے ایک ماہ پہلے تک یہی لگتا تھا کہ اگلا وزیراعظم نون لیگ سے ہوگا اور شہباز شریف ہی چوائس تھا۔
اصل مسئلہ بیانیے کا تھا۔ شہباز شریف کا خیال تھا کہ بیانیے کی وجہ سے نون لیگ کو اقتدار نہیں مل سکا حالانکہ اگر اقتدار ملتا تو شہباز شریف ایک پل کا کردار ادا کرکے اس بیانیے کا مسئلہ بھی حل کر سکتا تھا۔ شہباز شریف کے خیال میں جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے نون لیگ کا فیصلہ بہت اچھا تھا، اس سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا مگر بداعتمادی پہلے سے کم ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف ہونے کا تاثر بھی زائل ہوا ہے۔
مشکل ترین اور دلچسپ ترین سوال جانشینی کا تھا، شہباز شریف نے بتایا کہ ان کے خاندان کی ایک روایت ہے، میاں شریف نے اپنی وفات سے پہلے نواز شریف کو خاندان کا سربراہ بنایا اور اب اسی طرح کے تمام خاندانی فیصلے وہی کرتے ہیں۔
’’مجھے اپنی جگہ وزیراعظم نامزد کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے خود کیا تھا، میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر میاں نواز شریف کے پاس جھینگا گلی گیا اور کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں ایک سال وزیراعلیٰ ہی رہنا چاہتا ہوں تاکہ جو منصوبے میں نے پنجاب میں شروع کر رکھے ہیں ان کو مکمل کر سکوں‘‘۔
میاں نواز شریف نے میرے دلائل سننے کے بعد میری تجویز مان لی۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے دوران پانچ سے چھ بار انہوں نے مجھے کہا کہ اب تم وزارتِ عظمیٰ سنبھالو مگر ’’میں ہر بار کہتا کہ نہیں! آپ اس کو بہتر طور پر چلا رہے ہیں‘‘۔
شہباز شریف نے کہا ’’مجھے مسلم لیگ نون کا سربراہ مقرر کرنا اور پھر آئندہ وزیراعظم کے لیے نامزد کرنا، اس بے پناہ اعتماد کی نشانی ہے جو میرے بڑے بھائی مجھ پر کرتے ہیں۔ میں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ مجھے اپنے بھائی کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر ملنے والا اقتدار کسی صورت قبول نہیں اور میری اس کمٹمنٹ کا سب کو علم ہے‘‘۔
شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ لندن میں حالیہ قیام کے دوران انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے مریم اور حمزہ کے سیاسی کردار کے حوالے سے بات کی تھی اور کہا تھا ’’ہم دونوں 70,70سال کے ہیں، اللہ آپ کو عمر خضر عطا کرے مگر میاں شریف کی طرح آپ مریم اور حمزہ کے بارے میں طے کر دیں کہ کس کا کیا سیاسی رول ہونا ہے‘‘۔ شہباز شریف نے بتایا ’’میں نے میاں صاحب کو کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے، پورا خاندان اس پر حرف بحرف عمل کرے گا لیکن آپ جلدی فیصلہ کر لیں‘‘۔ جواباً میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ فیصلہ وہ پاکستان واپس آ کر کریں گے۔
آئندہ سیاست کے حوالےسے شہباز شریف بہت پُرامید ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جب بھی آئندہ الیکشن ہوں گے نون لیگ بہت بڑے مارجن سے جیتے گی اور اس کی وجہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کو سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فی الحال وہ آئسولیشن میں ہیں، کورونا کے بعد ہی ان کا علاج ہوگا۔
اس سوال پر کہ کہیں انہیں پھر سے جیل نہ بھیج دیا جائے، شہباز شریف نے کہا کہ میں یہ سوچ سمجھ کر آیا ہوں، مجھے اندیشہ تھا کہ ایسا ہوگا اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔